Tamasha e Muhabbat - Episode 23

3


Tamasha e Muhabbat

Writer - Azmaira Hussain

EPISODE - 23


رات کی تاریکی ہرسو پھیلی ہوئی تھی وہ بےچینی سے بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔۔۔ ازلان شاہ کی نور کے لئے دیوانگی نے اُسے متاثر کیا تھا۔۔۔ اُس نے دل سے اُن دونوں کی خوشحال زندگی کی دعائیں کی۔۔۔ بستر پر کروٹیں بدلتے بدلتے وہ ایک خیال کے تحت اُٹھی۔۔۔ اس کا رخ دادا سائیں کے کمرے کی طرف تھا وہ خاموشی سے بنا آواز کیے ان کے کمرے میں پہنچی اور بیڈ کی سائیڈ ڈرار سے ایک چابی نکالی۔۔۔ ایک چمک اُس کی نیلی آنکھوں میں تھی۔۔۔ وہ جیسے بنا آواز پیدا کیے آئی تھی ویسے ہی واپس چلی گئی۔۔۔ اس نے پورچ کا رخ کیا اور گاڑی میں بیٹھی۔۔ تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی کا رخ ایف۔7 کے اپارٹمنٹس ایریا کی طرف تھا۔۔۔ جونہی وہ اپنی منزل پر پہنچی ایک گہرا سانس لیتی گاڑی سے نکلی۔۔۔ اور مختلف سیڑھیاں چڑھتی وہ مطلوبہ اپارٹمنٹ تک پہنچی۔۔ ایک سانس ہوا میں خارج کرتی انشراح میر نے کی ہول میں کی گھمائی۔۔ اور پھر ایک کلک کی آواز سے دروازہ کُھلا۔۔۔ یہ اپارٹمنٹ ولی خان کا تھا۔۔ اُس کے خوابوں کی زمین۔۔ اس کا آشیانہ۔۔۔ وہ ایک ایک چیز کو دیوانہ وار ہاتھ لگاتی ولی کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اُس کا رُخ سب سے پہلے نور خان کے کمرے کی طرف تھا۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر سامنے دیورا پر اپنی اور نور کی تصویروں پر پڑی تو وہ مسکرا اٹھی۔۔۔ کچھ تصویریں ولی اور نور کی تھیں۔۔ وہ ہر تصویر کو ہاتھ لگاتی محسوس کر رہی تھی۔۔ ایک تصویر میں دادا سائیں نشاء نور اور ولی تھے۔۔ ہنستے مسکراتے۔۔۔ کتنے خوش تھے ہم جہاں کوئی ازلان شاہ نہیں تھا جہاں کوئی ریشما خان نہیں تھی۔۔ ایک دکھ اور حسرت بھری نگاہ انشراح میر نے ان تصویروں پر ڈالی جب اس کی نظر نور کی ڈائری پر پڑی۔۔ اس نے نور کی ڈائری کھولی۔۔اور وہیں بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھتی اس ڈائری کو پڑھنے لگی۔۔۔ کچھ صفحات ان دونوں کی زندگی پر مشتمل تھے اور پھر ایک باب شروع ہوا ازلان شاہ کی محبت کا اس کی دیوانگی کا۔۔ جس کو پڑھنے کے بعد انشراح میر نور خان کی قسمت پر رشک کیے بنا نہ رہ سکی۔۔۔ نور خان اور ازلان شاہ کی جدائی پڑھ کر وہ بہت روئی۔۔ وہ محسوس کرسکتی تھی اس نے نور کی حالت دیکھی تھی۔۔ اس کے درد کو انشراح سے بہتر کون جانتا تھا۔۔۔ 3 مئی۔۔ آج ازلان شاہ نے مجھے اغواہ کیا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ شخص جو مجھ پر مرتا تھا وہ میری عزت کو تار تار کرنے کو تیار ہوجائے گا۔۔۔ میں نے اپنی عزت بچانے کے لئے اس سے شادی کی مگر بعد میں ازلان شاہ نے مجھے بار بار استعمال کیا۔۔۔ انشراح میر پر آج انکشافات ہونے تھے۔۔۔ ازلان کی بلیک میلنگ پڑھ کر انشراح میر وہیں ڈھے گئی اس کی نور نے فقط اس کی عزت بچانے کے لئے وہ سب کیا۔۔۔ دوسروں کی نظر سے گر گئی بدلے میں اُسے کیا ملا۔۔ ؟ فقط نفرت دھتکار۔۔ نور تم کس مٹی کی بنی ہو میری بہن؟؟ اکیلے سب سہتی رہی ایک بار بھی مجھے نہیں بتایا۔۔۔ انشراح میر خیالوں میں اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔ کافی دیر بعد وہ دوسرے کمرے میں گئی یہ کمرہ ولی خان کی ملکیت تھا اس کی نظر ایک ڈائری پر پڑی جسے وہ اپنے ساتھ گھر لے آئی اُس میں اب مزید کوئی سچ سننے کی سکت نہ تھی۔۔۔ گھر آتے ہی اس نے میر حاکم کو انتظار کرتے پایا۔۔ وہ ان کو دیکھتے ہی ان کے گلے لگ گئی اور پھر ایک ایک بات ان کے گوش گزار کی۔۔۔ میر حاکم وہیں صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھے۔۔۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ان کے بچے کس ازیت سے گزر رہے تھے۔۔۔ وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگے۔۔ ان کا ارادہ نور خان کو واپس گھر لانے کا تھا اور اس کے لئے وہ اب انتہائی قدم اُٹھانے کا سوچ رہے تھے۔۔۔ 💓💓💓💓💓 انشراح میر نے ڈائری کو ہاتھ میں لیے گہری سوچ میں ڈوبے اس ڈائری کو پڑھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ اُس نے ڈائری کو درمیان سے کھولا تو ایک سطر پر نظریں پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو جاری ہونے لگے۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ میں نے یہ ڈائری کب لکھنا شروع کی مگر یہ ڈائری وہ واحد چیز ہے جس میں ولی خان اپنی محبت انشراح میر سے مخاطب ہوتا ہے۔۔۔۔ انشراح میر نے ایک سرد آہ بھری۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ڈائری کھولتے ہی اس کا سامنا ایک ایسے انکشاف پر ہوگا جو اس کی دنیا ایک بار پھر سے تہہ و بالا کر دے گا۔۔۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ ڈائری پڑھنے لگی۔۔ آج سے پانچ سال پہلے کی تاریخ لکھی گئی تھی۔۔۔ آج کا دن میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہے کیونکہ آج کے دن میر سائیں نے میری بہادری اور شجاعت کو دیکھتے ہوئے اپنی لاڈلی پوتی انشراح میر کی ذمہ داری میرے حوالے کی ہے۔۔۔ انشراح میر۔۔۔ اف کیا لکھوں ان کے بارے میں۔۔۔ وہ پریوں کا حسن رکھنے والی میرے دل کی ملکہ۔۔ وہ حقیقتا ملکہ ہی تو تھیں۔۔ مجھے ان کی ہر ادا سے عشق ہے۔۔ ہر ادا دلنشین رکھتی ہیں وہ۔۔۔۔ اور یہ پڑھتے ہی انشراح میر زور زور سے رونے لگی۔۔۔ اُس نے وہ ڈائری بند کر دی ۔۔۔۔ مجھے برباد کردیا آپ نے ولی خان۔۔۔ میں کبھی معاف نہیں کرسکتی آپ کو۔۔۔۔ انشراح میر کو لگا کہ اُس کا دل کسی نے مٹھی میں بند کر لیا ہے۔۔۔ وہ کافی دیر بعد کمرے سے باہر نکلی۔۔ جہاں ایک بری خبر اس کی منتظر تھی۔۔۔ 💓💓💓💓💓 ولی خان احمد کو لے کر ہاسپٹل آیا۔۔۔ جہاں ریشما بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی وہ احمد کو دیکھتے ہی اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ احمد گوکہ اس سے ناراض تھا مگر تھا تو بھائی۔۔۔ اپنی بہن کی یہ حالت دیکھتے ہی اس سے لپٹ گیا۔۔۔۔ کافی دیر تک ولی خان دیوار سے ٹیک لگائے ان کو دیکھتا رہا۔۔۔ اُسے اپنی بہن نور یاد آنے لگی۔۔۔ وہ اُس کے ہاس جانا چاہتا تھا اُسے سینے سے لگانا چاہتا تھا مگر کتنا بے بس تھا وہ۔۔۔ اس کا ہر رشتہ ایک ایک کرکے اُس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔۔۔ احمد خان نے میر سائیں کو ولی کی خیریت کی خبر دی تھی۔۔۔ 3 دن بعد ولی کی گود میں اس کی بیٹی دی گئی جسے ہاتھوِں میِں لیتے ہی اس کی آنکھوں پر بوسہ دیا۔۔۔ خوشی کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔۔۔ نور۔۔ میری نور۔۔۔ ولی خان شدت جذبات سے بولا۔۔۔ ارے واہ زبردست نام ہے۔۔ احمد خان محبت سے بولا۔۔۔ ہاں میری بیٹی کا نام نور ولی خان ہوگا۔۔۔ یہ میری چھوٹی نور ہے۔۔۔ تھینکیو سو مچ ریشما مجھے اتنی خوبصورت بچی دینے کے لئے۔۔۔ ولی خان آگے بڑھتے ہوئے ریشما کا ہاتھ پکڑتا ہے۔۔۔ ریشما خان جو کہ ولی کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ بیٹی کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ایک درد کی لہر اس کے سینے میں اُٹھی۔۔۔ اچانک سے ریشما کی حالت خراب ہوگئی احمد اور ولی دونوں کی سمجھ سے سب باہر تھا۔۔۔اچانک سے ریشما کو کیا ہوا تھا وہ لوگ نہیں سمجھ پارہے تھے۔۔۔ لالہ مجھے آپ سے ایک التجا کرنی ہے۔۔۔۔ ریشما اکھڑی سانسوِں میں اپنے بھائی سے مخاطب ہوئی۔۔۔ میری بیٹی کو انشراح میر کے حوالے کردینا۔۔۔ اس کو بولنا کہ میری بیٹی کو اپنے جیسی اچھی لڑکی بنائے گی۔۔۔ ریشما خان ایک ایک لفظ اکھڑتے ہوئے سانس کے ساتھ بول رہی تھی۔۔۔ ولی خان آگے بڑھا جو کہ ڈاکٹر کو بلا کر لایا تھا۔۔۔ اب ریشما کا ہاتھ پکڑے اُسے حوصلہ دینے لگا۔۔ ریشما کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔۔۔ ٹرسٹ می۔۔۔ ولی خان کے لہجے میں درد تھا۔۔ جیسی بھی تھی ریشما اس کی بیوی تھی وہ اس کی بیٹی کی ماں تھی۔۔۔ وہ اس کو کھونا نہیں چاہتا تھا مگر ریشما خان شاید اب ولی خان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ اس نے ولی کی طرف دیکھا اور مسکراتی ہوئی بولی۔۔۔ ولی اپنی نشاء کے پاس واپس چلے جائیں۔۔ میں نے آپ کو اس زبردستی کے بندھن سے آزاد کیا۔۔۔ بس ایک حسرت پوری کردیں۔۔۔ ایک بار اپنے سینے سے لگا لیں پلیز ولی۔۔۔ ولی خان بے خودی میں ریشما کی طرف بڑھا جو اکھڑتے لہجے میں بول رہی تھی۔۔۔ ولی نے ریشما کو سینے سے لگایا اور کتنی ہی دیر ریشما اس کی خوشبہو محسوس کرتی رہی۔۔۔ ولی نے جیسے ہی اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھے ریشما خان کو ایک شدید قسم کا درد دل میں جاگا۔۔ اور وہ وہیں آنکھیں موند گئی۔۔۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر معائنہ کیا تو وہ احمد کی طرف دیکھتے بولا۔۔۔ سوری ان کو ابھی کچھ دیر پہلے ہی سیور ہارٹ اٹیک آیا ہے۔۔۔ شی از نو مور۔۔۔ اور ڈاکٹر کی یہ بات ولی کے کانوں سے ٹکرائی تو ولی خان بے یقینی سے ریشما کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ وہ لڑکی جو اس کی محبت میں دیوانی تھی جس نے اس کو پانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا آج وہ لڑکی ہمیشہ کے لئے آنکھیں موندھے اس دنیا سے جا چکی تھی۔۔۔ ولی خان ایک بار پھر تنہا ہوگیا تھا۔۔۔ احمد خان وہیں زمین پر بیٹھا بلک بلک کر رونے لگا۔۔۔ ریشما کی تدفین وہیں کی گئی اور اس کی وراثت کو مدنظر رکھتے ہوئے احمد خان ولی کی اجازت لے کر نور ولی خان کو پاکستان لے آیا۔۔۔ پاکستان آنے کے بعد اس نے سارا معاملہ نشاء اور میر سائیں کے گوش گزار کیا۔۔۔ نشاء جو کب سے اس بچی کو دیکھ رہی تھی اس کو فورا سے آگے بڑھتے احمد کی گود سے لیا اور اسے اپنے ہاتھوں میں لیے محبت سے دیکھنے لگی۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔میری دنیا۔۔۔ نور ولی خان۔۔۔ میں تمہاری ماں بن کر دکھاؤں گی سب کو۔۔۔ اس نے ولی خان کو کال ملوائی اور اس سے فقط اتنا بولی۔۔۔ شکریہ مجھے جینے کا ایک مقصد دینے کے لئے۔۔۔شکریہ میری ویران زندگی کو نور دینے کے لئے۔۔۔ شکریہ مجھے اپنے جگر کا ٹکرا دینے کے لئے۔۔۔ اور ولی خان جو اتنے عرصے بعد اس کی آواز سن رہا تھا اس کی آواز میں رچی درد اور خوشی کی لہر محسوس کرتے مسکرا اُٹھا۔۔۔ اس کی بیٹی محفوظ ہاتھوں میں تھی اور وہ اس بات پر مطمئن تھا اس نے خود کو کام میں مصروف کر لیا۔۔۔ وہ دن رات کام میں مگن رہتا اور زرا سی فرصت ملتے ہی اس کو پرانی یادیں ناگ کی طرح ڈسنے لگتی۔۔۔ 💓💓💓💓💓 انشراح میر کو تو جیسے جینے کی وجہ مل گئی تھی وہ نور خان کو پانے کے بعد کھل اُٹھی تھی۔۔۔ پورے میر ولا میں اس کی ہنسی کی گونج گونجنے لگی تھی۔۔۔ نور خان بیس دن کی تھی جب اس کے پاس آئی تھی اب وہ چھ ماہ کی ہونے والی تھی اور ان چھ ماہ میں انشراح میر اس کے لئے راتوں کو جاگی۔۔۔ اس کی خاطر خود کو دان کردیا تھا۔۔۔ وہ بچی ہوبہو ولی کا پر تو تھی۔۔۔اس کی آنکھیں ولی کی طرح تھیں گہری سیاہ آنکھیں۔۔۔ میر سائیں کو بھی ایک نئی وجہ مل گئی تھی جینے کی مگر وہ نور خان کو ازلان کی قید سے نکالنا بھی چاہتے تھے اور اس کے لئے انہیں ازلان شاہ کی واپسی کا انتظار تھا جو ان کی بیٹی کو لے کر ملک سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔ میر سائیں کا بیشتر وقت چھوٹی نور کے ساتھ گزرتا۔۔۔ انشراح آفس جا کر بھی اس کے بارے میں سوچتی رہتی۔۔۔ دن کے وقت اس کی زمہ داری رجاء میر نے اُٹھائی تھی۔۔۔ ولی خان کاش تم آکر دیکھو تمہاری اولاد کو تحفظ دینے کے لئے تمہاری یہ دونوں دیوانیاں اپنی زات تک کو فراموش کر چکی ہیں۔۔۔ احمد خان ایک سرد آہ بھرتے ولی خان سے مخاطب ہوتا تھا اور ولی خان پچھتاوے کی زد میں چلا جاتا تھا۔۔۔ 💓💓💓💓💓 دوسری جانب ازلان شاہ نے نور خان سے وہ بات چھپا لی تھی کہ وہ کبھی کنسیو نہیں کرسکتی۔۔۔ وہ آفس کی گلاس وال ہر ہاتھ جمائے اس دن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔ جب انشراح کے جانے کے بعد اس کی نور کو ہوش آیا تو اس نے ہوش میں آتے ہی ازلان سے سوال کیا۔۔۔ نشاء۔۔۔ ازلان نشاء آئی تھی یہاں۔۔۔ مجھے اس کے پاس لے جاؤ۔۔۔ وہ ازلان سے ضد کرنے لگی۔۔۔ اور ازلان نے اُسے آگے بڑھ کر گلے سے لگایا اور تسلی دینے لگا جب ایک دم نور خان نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور ازلان کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔ ازلان میرا بچہ۔۔۔؟؟؟ ازلان میرا بے بی؟؟؟ نور کے لہجے میں چھپے درد نے ازلان کو بے بس کردیا۔۔۔ اور پھر وہ کچھ سوچتے ہوئے آگے بڑھا۔۔۔ نور میری بات سنو۔۔۔ ہمارے بچے کو انشراح میر نے مار دیا ہے۔۔۔ ازلان شاہ سفاکی سے بولا۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے؟؟ انشراح کے بارے میں بات کر ریے تمّ؟؟ وہ بہن ہے میری۔۔۔۔ جانتے ہو بہن کا مطلب۔۔۔ نور شاہ نے اُسے گریبان سے پکڑ لیا۔۔۔ ہاں جانتا ہوں۔۔۔ جانتا ہوں۔۔تمہارے بہن بھائی دونوں نے مل کر تمہارے بچے کو مارا ہے۔۔۔ تمہیں یاد ہے نور تمہارے بے ہوش ہونے سے پہلے وہ دونوں تماشہ دیکھتے رہے۔۔۔ جان بوجھ کر دیر سے لائے تمہیں۔۔۔ ازلان شاہ جو حادثے کی جگہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر چکا تھا اس نے جان بوجھ کر بات کو غلط رنگ دیا اور نور شاہ کو بدگمان کیا۔۔۔ نور شاہ کو اس رات شدید قسم کا برین ہیمرج ہوا تھا۔۔۔ ٹریٹمنٹ کے بعد جیسے ہی وہ ٹھیک ہوئی اس نے ازلان شاہ سے کہا کہ وہ اسے یہاں سے دور لے جائے۔۔۔ ازلان شاہ نے نور کے دل میں انشراح اور ولی کے خلاف پھوٹ ڈال دی تھی۔۔۔ بہن بھائی کا رشتہ چاہے جتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو مگر ایک ماں کے لئے اس کے بچے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ اور نور خان کو اپنے بچے کے قاتلوں سے بے انتہا نفرت ہونے لگی تھی۔۔۔ ازلان شاہ جو کہ نور کے دل میں نفرت جگانے کے بعد خوش تھا اس نے اپنے اور نور کے رشتے میں جھوٹ کی بنیاد رکھ دی تھی۔۔۔ بہت جلد یہ جھوٹ شاہ حویلی کے علاوہ کئی گھروں کو جلا کر راکھ کرنے والا تھا۔۔

Post a Comment

3Comments
Post a Comment