Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 21 + 22
DOUBLE EPISODE
- - -
رجاء میر پورے کمرے میں وہیل چیئر گھسیٹ رہی تھی__ پریشانی اُس کے چہرے سے عیاں تھی___ وہ بار بار گھڑی کی طرف نظر دوڑا رہی تھی___
جب حمزہ احمد ہنستے ہوئے کمرے میں آیا___
ہاہاہاہاہا____ مام مائی ڈیئر مام___ پلیز کالم ڈاؤن___
اس نے آگے بڑھ کر رجاء کے قدموں میں بیٹھ کر اس کی آنکھوں کا بوسہ لیا___
ایسے کیسے کالم ڈاؤن ہوجاؤں حمزہ___ میرے جینے کی وجہ تم اور تیمور ہو___ تم جانتے ہو تیمور جیل میں ہے اور میں اس کی ماں کیسے پرسکون ہوسکتی ہوں___
رجاء میر پریشانی سے بولی__
ماما__ میری پیاری ماما___ ادھر دیکھیں میری طرف__ حمزہ نے رجاء میر کا چہرہ اپنی طرف کیا____
ماما ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ تیمور خان جیل یاترا کے لئے گیا ہو__ وہ اکثر و بیشتر جیل میں ہی ہوتا ہے___ اور اب بھی آپ دیکھ لینا وہ اس کیس سے باعزت بری ہوکر آئے گا___
حمزہ احمد کے لہجے میں یقین بول رہا تھا___
یو آر رائٹ حمزہ___ تیمور ولی خان کو عزت اللہ نے دی ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کی عزت نہیں چھین سکتی___ میں باعزت بری ہوچکا ہوں آنی___
تیمور ولی خان جیکٹ ہاتھ میں تھامے ہال میں اینٹر ہوا__ اس کے کام کی وجہ سے وہ مختلف کیسز میں پھنسا رہتا تھا__
وہ رجاء میر سے ملنے کے بعد اپنی ماما کی طرف بڑِھا اور ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا___
نور خان، ولی خان کا انتقام لیے بغیر کوئی آپ کے بیٹے کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا___
میں نے نور خان کی قبر پر جا کر قسم کھائی تھی کہ ان کو تباہ کرنے والے ہم سے ان کو چھیننے والے کی لاڈلی بیٹی کو اس سے چھین نہ لیا تو تیمور ولی خان نام نہیں میرا____
میں بے بی ڈول کو کچھ نہیں کہوں گا میں اس کو انتقام کے لئے استعمال نہیں کروں گا ماما__ مگر میں حالات ایسے پیدا کروں گا کہ ازلان شاہ کی لاڈلی بیٹی اس سے ہمیشہ کے لئے نظریں پھیر لے گی__
تیمور ولی خان کے لہجے میں تپش تھی جو سب کچھ جلا کر خاک کرنے کا ارادہ کر چکی تھی___
مسز خان نے ایک نظر اپنے لاڈلے بیٹے کی طرف دیکھا___ اور پھر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں___
💓💓💓💓💓
دادا سائیں کی خرابی طبیعت کے باعث انشراح بہت پریشان رہنے لگی تھی__ دادا سائیں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر رہے تھے وہ سیاست کو بھی خیرباد کہہ چکے تھے___
انشراح میر نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے دادا سائیں کا بزنس سنبھال لیا تھا___ احمد اس کی ہر معاملے میں مدد کرتا تھا___
وہ ہر وقت سائے کی طرح انشراح کے ساتھ رہتا تھا___
احمد بھائی کسی ٹائم تو مجھے تنہا چھوڑ دیا کریں__ آج انشراح آفس سے سیدھا ایک پارک میں جانے لگی تھی جب اُس نے احمد کو وہاں دیکھ اس کی طرف بڑھی__
جی نہیں نشاء بی بی___ مجھے حکم ہے میں کسی صورت آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا__
احمد خان نے ٹھوس لہجے میں کہا__
دادا سائیں بھی ناں__
میں بچی نہیں ہوں اب__
انشراح میر نے بیزاریت سے کہا___
میر سائیں کے لئے آپ بچی ہی ہیں__ اور آپ ولی خان کا قیمتی اثاثہ ہیں__
احمد خان کے لہجے میں ایک فخر تھا___
انشراح میر سر جھٹکتے اس سے مخاطب ہوئی__
خوش فہمیاں مت پالو احمد بھائی__ میں اگر ان کے لئے قیمتی اثاثہ ہوتی تو وہ مجھے کسی ردی مال کی طرح یوں ازلان شاہ کے ہاتھ نہ دیتے___
نشاء بی بی___ احمد خان غصے میں آگے بڑھا___
بس نشاء بی بی___ ردی مال نہیں ہو آپ___عزت ہو ہماری___ آج کے بعد خود کے لئے ایسے الفاظ استعمال کر کے خود کو ارزاں مت کرنا نشاء بی بی___
وہ نشاء کے سر پر ہاتھ پھیرتا اُسے بہن کا رتبہ دیتا وہاں سے چلا گیا___
انشراح میر وہیں بینچ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی__ آج بھی وہ ولی خان کو یاد کرتی دنیا سے غافل ہوجاتی تھی___ اُس نے شدت سے ولی کو دیکھنے کی دعا کی__ مگر ابھی وقت اس کی دعاؤں کی قبولیت کا نہ تھا___
وہ ایک اداس شام اس پارک میں گزارنے کے بعد گھر لوٹی__
❤❤❤❤
مسٹر ازلان شاہ مبارک ہو آپ کی مسز ماں بننے والی ہے__ شی از ایکسپیکٹنگ فسٹ بےبی___
ازلان شاہ جو کہ آج آفس سے گھر آیا تو نور کی طبیعت خراب دیکھ کر اسے ہاسپٹل لایا___
اب ڈاکٹر کی بات سنتے ہی حیران تھا__
وہ تو ٹھیک ہے ڈاکٹر__ بٹ مائی وائف از ناٹ فیلنگ ویل__ او مائی گاڈ___ آر یو سیریس ڈاکٹر__ایم آئی گونا بی فادر___؟؟ او مائی گاڈ___
ازلان شاہ کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر ڈاکٹر بھی خوشی سے اُسے دیکھنے لگی___
نور جیسے ہی باہر آئی ازلان نے اُسے بانہوں میں بھر لیا__ اور اُسے اٹھائے خوشی سے جھومنے لگا___
شاہ___ کیا کر رہے ہیں__ میں گر جاؤں گی__ نور شاہ نے اُسے زور سے پکڑ لیا___
میں تمہیں کبھی گرنے نہیں دوں گا شاہِ من___ آئی کانٹ بیلیو__ ہم مام ڈیڈ بننے والے ہیں نور___ خوشی ازلان کے انگ انگ سے چھلک رہی تھی___
نور شاہ کی آنکھیں بھیگ گئیں__ اُسے اپنے لالہ یاد آرہے تھے__وہ انشراح کو یاد کرنے لگی___
ازلان شاہ یونہی اُسے بانہوں میں اُٹھائے گاڑی تک لے کر آیا__ لوگ خوشی اور حیرت سے اس کپل کو دیکھ رہے تھے مگر ازلان شاہ لوگوں کو نظرانداز کرتا اپنی محبت اپنی نور کو بانہوں میں بھرے گاڑی تک لایا____
گھر آتے ہی اُس نے یہ خبر واصف شاہ کو سنائی__واصف شاہ نے نور کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ازلان کو گلے سے لگا لیا___
خوشی ان باپ بیٹے کے انگ انگ سے چھلک رہی تھی__واصف شاہ نے جیب سے پانچ ہزار کے کئی نوٹ نکال کر نور کے سر پر وارے__ اور پھر ایک ملازم کو سب میں تقسیم کرنے کا حکم دیا___
ازلان شاہ نے گھر کی خاص ملازمہ کو نور کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیا___
جیا غصہ اور نفرت سے ان دونوں کو دیکھتی کمرے میں چلی گئی__
کمرے میں آتے ہی اُسے کچھ دن پہلے کا منظر یاد آیا__ جب وہ ازلان کے پاس شارٹ ڈریس میں کمرے میں آئی تو وہ غصہ میں بپھر گیا___
جیا یہ کیا حلیہ بنایا ہے تم نے_؟؟؟ یو بلڈی بچ___ تمہیں اس دن بھی سمجھایا تھا کہ مجھ سے دور رہو__ میری زندگی میرے گھر میرے بستر پر صرف اور صرف نور شاہ کی اجارہ داری ہے___
ازلان نے جیا کو کمرے سے بے عزت کرکے نکالا تھا اب وہ ازلان سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا چاہتی تھی__ اس نے اپنی تئیں بہت کوشش کی تھی ازلان کے کردار کو گندا کرنے کی مگر ہربار ناکام ہوئی__
اُس نے آزر شاہ کا نمبر ڈائل کیا اور اس کے گوش گزار سارا معاملہ کیا___
جسے سننے کے بعد آزر شاہ نے اسے کچھ سمجھایا اور فون بند کرتے ہی ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو کر گزری___
❤❤❤❤
ولی خان آج جیسے ہی کام سے فارغ ہوا تو اس نے ریسٹورنٹ کا رخ کیا__ وہ اس ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم ویٹر کی جاب کرتا تھا___
آسٹریلیا کا شہر سڈنی بہت خوبصورت تھا مگر ولی خان کا دل آج بھی پاکستان کے شہر اسلام آباد کے کسی ایریا میں موجود "میر ولا" کی شہزادی انشراح میر میں اٹکا ہوا تھا___
وہ کچھ سوچتا ہوا کام سے جلدی فارغ ہوتا گھر کی طرف روانہ ہوا جب گھر داخل ہوتے ہی اُس نے ریشما خان کو بے ہوش پایا__ وہ حواس باختہ سا اُسے ہاسپٹل لے کر آیا ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اُسے جو خبر سنائی اسے سننے کے بعد ولی خان کی خوشی دیدنی تھی__،
مسٹر خان یور وائف از تھری ویک پریگننٹ__ولی خان یہ سنتے ہی بہت خوش ہوا__
تھینکیو ڈاکٹر__ وہ خوشی سے ڈاکٹر سے اجازت لیتا دوائیوں کا نسخہ اُٹھائے باہر نکلا___
دوائیاں خریدنے کے بعد وہ ریشما کا ہاتھ تھامے اُسے گھر لایا اور گھر لاتے ہی اُس نے ریشما کو خوشی سے گلے لگایا__
آج شادی کے 4 ماہ بعد ولی خان نے خود ریشما خان کی طرف پیشقدمی کی__ وہ پوری رات ریشما خان پر اپنی شدتیں نچھاور کرتا رہا اُس کے ہر عمل میں خوشی جھلک رہی تھی___ ریشما خان کو لگا کہ آج اُس نے ولی خان کو ہمیشہ کے لئے پا لیا ہے___
❤❤❤❤❤❤
3 ماہ بعد__
نور خان کو ازلان شاہ نے ہاتھوں کا چھالہ بنا کر رکھا تھا__ وہ ہر وقت نور کے اردگرد رہتا تھا اُس کی حفاظت کسی کانچ کی گڑیا کی طرح کرتا تھا
دوسری جانب یہی حال ولی خان کا تھا وہ ریشما خان کا پہلے سے بڑھ کر خیال کرتا اُس نے پارٹ ٹائم جاب چھوڑ دی تھی وہ ہوٹل سے سیدھا اپارٹمنٹ آتا اور ریشما کا خیال رکھتا__ ریشما تو اس کی اس درجہ الفت اور توجہ پاکر کھل اُٹھی تھی___
آج ولی گھر واپسی پر ایک شاپنگ مال میں گیا اور بچے کی شاپنگ کی___ اُس کا ارادہ ریشما کو سرپرائز کرنے کا تھا___،
شاپنگ کرتے کرتے اُس نے کچھ سامان انشراح کی پسند کا خریدا اُس کا ارادہ انشراح کی طرف وہ سامان بھیجنے کا تھا اُسے کچھ دن پہلے ریشما کے زریعے معلوم ہوا تھا کہ انشراح پریگننٹ ہے__
ولی خان کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی__ وہ خوش تھا کہ انشراح خوش ہے___ اس نے انشراح کے بچے کے لئے شاپنگ کی___
اب اُس کا ارادہ گھر جانے کا تھا وہ وقت سے پہلے گھر لوٹا__ جوںہی وہ دبے قدموں اپارٹمنٹ میں داخل ہوا ریشما کی آواز پر ٹھٹھکتے ہوئے رک گیا___
ارے ثانی یار میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں___ ولی تو سمجھو میری مٹھی میں ہے___
میں نے اُسے حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا___ افففف یہ سب تمہارے تعاون کی وجہ سے ہوا ہے__
اگر تم مجھے اُس دن ولی کو نشے کی ڈوز دینے کا نہ کہتی تو وہ کبِھی بھی میرے قریب نہ آتے__ میں نے اس رات ان کو نشے میں اتنا مدہوش کردیا تھا کہ وہ ہر حد پار کرتے گئے__ شروع کے کچھ ویکس تو اس نشے نے کام کیا اور پھر ولی مجھ سے دوبارہ سے دور ہوگئے__ بٹ تھینک گاڈ میری پریگننسی نے پھر سے ولی کو میرے قریب کردیا__
ولی کے ہاتھوں سے سارا سامان گر کر کمرے میں بکھر گیا__ ریشما نے جیسے پیچھے مُڑ کر دیکھا وہ حواس باختہ ہوگئی___
ولی وہ___ اس سے پہلے کہ ریشما مزید کچھ بولتی ولی خان نے اُسے ایک تھپڑ مارا__
میں جانتا تھا تم خودغرض ہو مگر مجھے پانے کے لیے تم اپنی نسوانیت کو ٹھیس پہنچاؤ گی میں نے سوچا نہ تھا___ تم اتنی حد تک گر سکتی ہو ریشما___ بتاؤ اور کیا کیا تم نے مجھ تک پہنچنے کے لئے ورنہ___
ولی نے اہنی جیب سے پسٹل نکالا___ اور ریشما کی کنپٹی پر رکھا ___ ریشما کی حالت ایسی تھی کہ ابھی خوف کے مارے بیہوش ہو جائے__
گھبراؤ نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا___ میں آج اپنا قصہ تمام کرتا ہوں__ور پھر اپنی کنپٹی پر اس نے پسٹل رکھا___
نہیں نہیں ولی__ پلیز ڈونٹ ڈو دس__ میں بتاتی ہوں میں نے کیا جھوٹ بولا___
اور پھر اس نے انشراح کی طلاق نور خان کی بے بسی، ازلان شاہ کی بلیک میلنگ کے بارے میں سب من و عن ولی کو بتایا___
نشاء کی طلاق اُسی روز ہو چکی تھی اس کو برین ہیمرج ہوا تھا جس وجہ سے میر سائیں اُسے لے کر لندن چلے گئے___
میں ڈرگز،والے واقعہ کے بعد پہلے ازلان کے پاس گئی تھی جس نے اس شرط پر آپ کو نکلوانے میں مدد کی تھی کہ میں نور خان کا خط آپ تک پہنچاؤں اور آپ کو نور سے متنفر کروں____
ولی پلیز مجھے معاف کردیں میں نے جو بھی کیا آپ کو پانے کے لئے کیا____
ریشما خان آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ولی خان کی طرف بڑھی____
اپنی بکواس بند کرو اور دفعہ ہوجاؤ یہاں سے___ میں کتنا بد نصیب ہوں__ مجھے انشراح میر کا دل توڑنے کی سزا ملی ہے تمہارے روپ میں___تم میرے گناہوں کا میری بے حسی کا بدلہ ہو میرے لئے___
ولی خان بول رہا تھا ٹوٹا ہوا لہجہ__ بے یقینی__ اور پھر وہ آگے بڑھتے ہوئے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑے غصہ سے بولا___
تم جانتی ہو ریشما میں نے پوری زندگی خودداری اور غیرت میں گزاری ہے مگر آج مجھے افسوس ہورہا اپنی غیرت پر___ میں در حقیقت بہت بڑا بے غیرت ہوں جس کی ناک کے نیچے سے وہ امیرزادہ میری بہن کو بلیک میل کرکے لے گیا___
میں امیری غریبی کی اس گرداب میں اتنا پھنسا میری خودداری اور نمک حلالی نے مجھے محبت کا مجرم بنا دیا__،
ہاں ولی خان جو سب کی کہانی میں اچھا ہے وہ انشراح میر کا سب سے بڑا مجرم بن گیا____
اور پھر ولی خان دیوانوں کی طرح ہنسنے لگا__، اور ہنسستے ہنستے ولی خان وہیں زمین پر بیٹھا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا____
وہ رو رہا تھا اپنی قسمت پر اپنی بہن کی بدنصیبی پر___ اپنی محبت کی اس قدر تذلیل پر___
ریشما خان کو آج پہلی بار احساس ہوا کہ اس نے ولی خان کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے__ درحقیقت اس نے اپنا خسارہ کیا ہے
ولی خان رات کے کسی پہر خود کو نارمل کرتا اپارٹمنٹ سے چلا گیا____ آج وہ ایک ہفتے بعد گھر آیا تھا اور یہ ایک ہفتہ ریشما خان نے پچھتاوے اور ازیت کی زد میں گزارا___
ولی خان گھر داخل ہوتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا اس نے ایک نگاہ غلط بھی ریشما خان پر نہ ڈالی___
ولی___ ولی___ ولی___ ریشما خان اس کے کمرے کے باہر کھڑی اُسے پکارتی رہی مگر اس نے جواب نہ دیا___
کچھ دیر بعد دروازے پر بیل بجی تو ولی خان باہر نکلا___ اور ایک عورت کے ساتھ گھر میں داخل ہوا___
یہ___ ؟؟؟ ریشما نے سوال کیا__
آج سے یہ یہاں ہی رہیں گی تمہارا خیال رکھنے کے لئے___ ولی اتنا کہتے ہی کمرے میں چلا گیا اور پھر ایک بیک پیک لیے کمرے سے نکلا___
ولی آپ کہاں؟؟ ولی پلیز مجھے مت چھوڑ کر جائیں__ ریشما خان اس کے قدموں میں گر گئی_____
بے فکر رہو___ میں ابھی اتنا بے غیرت نہیں ہوا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دوں___ مگر میں اتنا اعلی ظرف بھی نہیں ہوں کہ تم جیسی عورت کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہوں___
میں اس گھر سے جا رہا ہوں یہ خاتون تمہارے ساتھ رہیں گی___اور کوئی بھی مسئلہ ہوا تو مجھے کال پر بتا دیں گی میں آجاؤِں گا___ اب رہو تم یہاں اکیلی___
ولی خان غصے سے کہتے ہوئے وہاں سے جانے لگا___
میرے لیے نہیں تو اپنے بچے کے لئے رک جائیں ولی___ اور پھر ولی خان کے باہر کی طرف جاتے قدم رک گئے__ وہ ایک بار پھر ریشما کے جال میں پھنس گیا___
اس نے پیچھے مر کر دیکھا___
تم کتنی خودغرض ہو ریشما___ تم نے ہمیشہ اپنی غرض اپنے مفاد کے لئے دوسروں کا استعمال کیا___
اور میں کتنا بے بس ہوں__ میں بھول گیا کہ ولی خان تو ہمیشہ سے تمہارے ہاتھوں کھلونا بنتا رہا ہے___
تم نے تو میری اولاد کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہے__
اور پھر ولی خان وہیں صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا___ اس نے جانے کا ارادہ ترک کردیا کیونکہ اب وہ صرف ایک شوہر ایک عاشق ایک بھائی نہیں بلکہ ایک باپ بھی تھا____
اور باپ تو اپنی اولاد کے لئے اپنا سکھ چین سب قربان کردیتا ہے___ ولی خان کو بھی اپنی اولاد سے بے تحاشہ محبت تھی جو ابھی تک آئی ہی نہیں تھی___
جب وہ دنیا میں آجائے گا تب تو ولی خان کو خود کو بھی فراموش کرنا ہوگا___
یوں وہ ہر روز خود کو مصروف رکھنے لگا دن ہوٹل میں شام ایک ورکشاپ پر کام کرتے گزارتا___ رات کو وہ اپنے زاتی کاروبار کے لئے محنت کرنے لگا___
اس کی سوچوں کا رخ ہمیشہ سے انشراح میر تھی___ وہ چاہ کر بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہو پاتا تھا___
😍😍😍😍😍
دن جیسے جیسے قریب آنے لگے تھے اس کی حالت گرنے لگی تھی وہ سٹریس لینے لگی تھی وہ ولی اور انشراح کے بارے میں سوچنے لگی تھی __
اُسے پاکستان آئے کافی دن ہوگئے تھے
آج وہ کافی دنوں بعد گھر سے نکلی تاکہ خود کو ریلیکس کرسکے___
وہ گاڑی میں بیٹھی گاڑی کو سڑک پر لائی تو اچانک سے اس کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہونے پر اس کی گاڑی ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرائی__اس نے جیسے ہی ٹرن لیا گاڑی ایک درخت سے ٹکرائی___
اور وہ وہیں سٹیئرنگ پر زخمی حالت میں نیم بے ہوش ہوگئی___ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے گرد جمع تھا___
مگر وہاں لوگ تصویریں بنانے میں مصروف تھے کوئی پرسان حال نہ تھا___
جب ایک گاڑی سے احمد خان نکلا اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھتا اس طرف بڑھا___ اس کے پیچھے ہی انشراح میر تھی___
وہ جیسے ہی آگے بڑھی اس نے لوگوں کو پیچھے ہٹایا___
یہ کیا تماشہ لگا ہوا ہے یہاں___ بجائے اس وکٹم کی ہیلپ کرنے کے آپ لوگ تصویریں بنا رہے ہیں__، شیم آن یو آل___
احمد بھائی اسے لے کر ہاسپٹل چلیں__ احمد بھائی آپ سن رہے ہیں__
انشراح اس کی طرف بڑھی اور احمد خان جو کہ اس لڑکی کا چہرہ اپنی طرف موڑے ہوئے تھا اس چہرے کو دیکھ کر بے حس و ساکت ہوگیا___
💓💓💓💓
نور___ نور___ نور آنکھیں کھولو میری جان___ یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟؟ نور اوپن یور آئیز___ انشراح میر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیے رونے لگی___
وہ آفس سے گھر جا رہی تھی جب اس نے یہاں لوگوں کا ہجوم دیکھ احمد کو معاملے کی خبر لینے بھیجا وہ خود بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر نکلی جب لوگوں کی بے حسی پر ان پر غصہ کرتی انہیں شرم دلانے لگی___
اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کبھی نور کو اس حالت میں دیکھے گی__ وہ نور سے ناراض تھی مگر وہ اُسے یوں اس حالت میں دیکھ کر بے بسی کی انتہا پر تھی___
نور خان جو کہ نیم بیہوش تھی ایک جانی پہچانی مانوس آواز سن کر اس میں خوشی کی لہر دوڑی___ وہ اس آواز کو لاکھوں میں پہچان سکتی تھی__
Nisha_ please save my baby___
Please save us Misha__
وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے انشراح سے فقط اتنا ہی بول سکی__ انشراح نے احمد سے کہا__
بھائی نور کو ہاسپٹل لے کر چلیں___ احمد خان اس کے حکم کی تعمیل کرتا نور کو ہاسپٹل لے کر آیا___
نشاء نے اپنے دادا کے اثر و رسوخ سے فورا نور کو آپریشن تھیٹر بھیجا___
مس انشراح___ پیشنٹ کا خون بہہ چکا ہے ہمیں بلڈ کی ضرورت ہے___ ڈاکٹر نے انشراح کو آکر خبر دی___
میرا اور نور کا بلڈ گروپ سیم ہے ڈاکٹر___ آپ میرا بلڈ لے لیں__ انشراح نے ڈاکٹر سے کہا___
یوں نور کو انشراح اور احمد نے بلڈ دے کر خطرے سے بچا لیا تھا___
ازلان شاہ جو کہ میٹنگ روم میں بیٹھا تھا اچانک سے فون کال آنے پر میٹنگ چھوڑتا وہاں سے نکلا___
ازلان شاہ بھاگتے ہوئے دیوانہ وار ہاسپٹل پہنچا___ اس نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کی بیوی اس حالت میں ہوسکتی ہے__
وہ جیسے ہی ہاسپٹل پہنچا وارڈ میں انشراح کو دیکھ کر ٹھٹھکا___
وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا آگے بڑھا__جب ڈاکٹر کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا__ نور کو بلڈ کی ضرورت تھی وہ اس سے پہلے کہ بلڈ ارینج کرواتا انشراح کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو اپنا خون نور کو دینے والی تھی__
ازلان شاہ اس وقت کچھ بھی سننے سمجھنے کی پوزیشن میں نہ تھا اس لئے وہ وہیں کھڑا نور کو دیکھتا رہا___
نور اسے اپنے ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا___
انشراح خون دینے کے بعد وہیں بیٹھی نور کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگی__جب اس کی نظر ازلان شاہ پر پڑی تو ایک نفرت کی چنگاڑی اس کی آنکھوں میں چمکی___
وہ خود کو قابو کرتی وہیں بینچ پر بیٹھی نور کے ٹھیک ہونے کی رب سے التجا کرنے لگی___
مسٹر شاہ___ آپ کی وائف کو امیڈیٹلی بلڈ دیا گیا ہے بٹ ہمیں افسوس سے کہنا پر رہا ہے آپ کی وائف نے مردہ بچے کو جنم دیا ہے___
ازلان شاہ پر یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی___
ڈاکٹر__ میری بیوی خود ٹھیک ہے ناں؟؟ ازلان شاہ نے ڈر اور خوف کے مارے سوال کیا___
جی وہ ٹھیک ہیں اب___ بٹ آپ کی وائف اب کبھی کنسیو نہیں کرسکتی____
ازلان شاہ کو لگا کہ اس ہاسپٹل کی چھت اس پر گرنے والی ہے__ اس کی حالت ناقابل بیان تھی مگر وہ خود کو کمپوز کرگیا___
انشراح یہ سنتے ہی ایک افسوس بھری نظر نور پر ڈال کر باہر کی جانب جانے لگی جب ازلان شاہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا___
تھینکیو سو مچ نشاء___ تم نہیں جانتی تم نے میری زندگی کو بچا کر مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے___
میں تمہارا یہ احسان کبھی اتار نہیں سکتا___ تم مجھ سے جو چاہو مانگ لو___
ازلان شاہ نے انشراح میر سے دعوی کرتے کہا___
ریئلی میں نے تم سے کچھ بھی مانگا تو مجھے دو گے؟؟ انشراح میر کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو ازلان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی___
ہاں دوں گا تم مانگ کر دیکھو___ ازلان شاہ نے انشراح میر سے کہا___
ٹھیک ہے تو پھر تم نور کو طلاق دے دو___ انشراح میر نے اُس کی طرف چیلنج کرتے انداز میں کہا___
ازلان شاہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھنے لگا___
اور تمہیں لگتا ہے کہ میں نور کو طلاق دے دوں گا___ نو وے انشراح میر___ ازلان شاہ مرتے دم تک اپنی محبت اپنی نور کو نہیں چھوڑے گا___ ازلان شاہ کے لہجے کی پھنکار نے انشراح میر کو خاموش کر دیا___
اور پھر وہ ایک گہرا سانس لیتی ازلان شاہ کی طرف مسکراتے دیکھ کر بولی___
ازلان شاہ میں نے تمہارا مجھ پر کیا ظلم معاف کیا___ بس مجھ پر ایک احسان کرنا میری نور کو ہمیشہ ایسے ہی چاہتے رہنا__ اُسے کبھی کسی کے سامنے مت جھکانا___ تم نے میری زات تو تماشہ بنا دی تھی مگر میری بہن کی محبت کو کبھی تماشہ مت بنانا___
میں نے آج نور کے لئے تمہاری دیوانگی دیکھ کر تمہیں معاف کردیا ازلان شاہ____
بس ایک احسان کرنا دنیا کی بھیڑ میں اُسے تنہا مت چھوڑنا___ ہم کانچ سے بنی ہیں__ ہمارا محافظ ولی خان ہم دونوں کو چھوڑ کر چلا گیا__ مگر تم میری نور کو اکیلا مت چھوڑنا___ آئی بیگ یو ازلان شاہ___
انشراح میر اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی اور ازلان شاہ اس قدر خلوص اور قدر دیکھ حیران ہوگیا____
نور نے اتنا کچھ کیا تمہارے ساتھ اس کے باوجود تم اس کی پرواہ کر رہی ہو؟؟ ازلان شاہ نے سوال کیا__
میں نہیں جانتی میری نور نے میرے ساتھ کیا کیا___ کیا نہیں کیا___ ہاں میں نے اس ایک سال میں نور سے نفرت کی تھی ___ میں نے اس کے مرنے کی دعا کی تھی__ مگر آج اُس کو جب موت کے منہ میں جاتے دیکھا تو میں کانپ اُٹھی__ مجھے خود سے گھن آنے لگی__ میں کیسے اپنی ہی بہن کو مرتے دیکھ سکتی ہوں؟؟
آج اس سڑک پر زندگی موت سے لڑتی نور خان جو خون میں لت پت تھی اُسے دیکھ کر انشراح میر کی سانسیں رک گئیں تھی__ انشراح میر پر انکشاف ہوا کہ وہ نور خان کو مرتے دیکھ خود بھی کبھی جی نہیں پائے گی___
وہ وہیں ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھ کر رونے لگی___
اور ازلان شاہ پر پہلی بار یہ انکشاف ہوا کہ اس نے نور خان اور انشراح میر کو الگ کرکے کتنی بڑی زیادتی کی___
اس کے پچھتاوے کا آغاز ہو چکا تھا___
💓💓💓💓
ولی خان آج جیسے ہی اپارٹمنٹ لوٹا تو ریشما کی خراب حالت دیکھ کر اس کو ہاسپٹل لے کر گیا___
مسٹر ولی آپ کی بیوی کا سی سیکشن کرنا ہوگا ہمیں___ ڈاکٹر نے ولی خان کو دیکھتے ہوئے کہا__
سی سیکشن__ بٹ ڈاکٹر ابھی تو کافی ٹائم ہے___ ایسے کیسے؟؟ ولی پریشانی سے بولا__
جی سر بٹ آپ کی بیوی کی بلیڈنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہمیں فوری آپریٹ کرنا ہوگا___
ولی نے آپریشن کی اجازت دے دی اور پیپر سائن کرنے کے بعد اب پریشانی سے ٹہل رہا تھا__
اُسے ریشما سے محبت تو نہ تھی مگر اس کے ساتھ گزرا وقت یاد آنے لگا__ اس نے احمد کو حالات سے آگاہ کر دیا تھا___
تین گھنٹے بعد__
مسٹر ولی کانگریجولیشنز___ اٹس بے بی گرل___
ڈاکٹر کی آواز جیسے ہی ولی کے کانوں سے ٹکرائی ولی خان وہیں زمین پر بیٹھا سجدہ ریز ہوا___
کین آئی میٹ ہر؟؟ ولی نے اٹھتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا__
نو سر___ شی از ان انکوبیٹر__یو کانٹ ___
احمد خان نے ایمرجنسی میں آسٹریلیا کی ٹکٹ کروائی__ میر حاکم نے اپنے سارسز استعمال کرکے اس کو آسٹریلیا بھیجا___
ایپی پڑھنے کے بعد لائیک کمنٹ لازمی کریں شکریہ