Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 20
-=-
- - -میر ولا میں سوگ کا سماں تھا ہر کوئی ایک دوسرے سے نظریں چُرا رہا تھا____ انشراح میر کافی دیر تک روتی رہی___ اُسے یکدم اپنے وجود سے گھن آنے لگی___ اُسے خود سے نفرت ہونے لگی___ وہ آئینے کے سامنے کھڑی بےدردی سے اپنا جسم نوچ رہی تھی____
ازلان شاہ کی باتیں اُس کے الفاظ کوڑے کی طرح لگ رہے تھے___ وہ خود کو ازلان شاہ کے کہے مطابق بدکردار تصور کرنے لگی____
شام کے وقت جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی تو لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اُس کی نظر اخبار پر پڑی جس کی ہیڈلائن میں کل کا واقع تھا___
انشراح میر کی کردارکشی چینل والوں نے خوب کی اُس نے جیسے ہی ٹی وی آن کیا تو اُس کے کئی مردوں کے ساتھ سکینڈل بنائے گئے تھے___ وہ حواس باختہ سی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے وہیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی____
نہیں یہ سب جھوٹ ہے___ الزام ہے___ میں نے تو فقط ولی سے محبت کی تھی__ میں نے ان کے ساتھ بھی کبھی حد سے آگے نہیں بڑھی____
اُسے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی___ جب میر حاکم نے اُسے آکر سینے سے لگایا اُسے تسلی دی___
نشاء میری جان اُٹھ جاؤ___ یہ آنسو اتنے بے مول نہیں ہیں تم ان آنسوؤں کو اس بےمروت شخص کے لئے مت بہاؤ____
دادا سائیں میرے کردار کو دو کوڑی کا کردیا گیا___ میرے اپنوں نے ہی میری پیٹھ پیچھے چُھڑا گھونپا____
انشراح میر روتی ہوئی بولی___
نہیں میری جان تم آج بھی شبنم کے قطرے سے زیادہ پاک ہو تمہارا کردار دودھ سے بھی زیادہ شفاف اور اُجلا ہے___ تم آج بھی میر حاکم کا فخر ہو___
انشراح میر بےیقینی سے اپنے دادا کی طرف دیکھنے لگی__ اُسے لگا اس کے دادا اُسے بدکردار تصور کریں گے__ اُس کو اپنی زندگی سے نکال دیں گے مگر اُس کے دادا کے لہجے میں جو مان اُس کے لئے تھا اُس مان نے انشراح میر کو ہمت دی___
ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب بیٹی کے کردار کو گندا کیا جاتا تو ماں باپ بھی اپنی بیٹی سے نظریں پھیر لیتے ہیں مگر میر حاکم جیسے باپ بھی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی پر بھروسہ کرتے اُسے آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں___
اس معاشرے میں ہر انشراح جیسی بیٹی کو میر حاکم جیسے باپ کی ضرورت ہے تبھی ہم لڑکیاں زندہ درگور ہونے سے بچ سکتی ہیں____
میر حاکم نے بھی انشراح کو ہمت دی تھی مگر ابھی بہت سے امتحان باقی تھے____
انشراح میر کو برین ہیمرج ہوا تھا اور میر حاکم پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی تھی___ وہ انشراح کو لے کر لندن چلے گئے__ انہیں یہ خبر ہی نہ ہوسکی کہ ان کا غرور ان کا بیٹا ولی خان کس حال سے گزر رہا ہے____
❤❤❤❤❤
ازلان شاہ اس قیامت کو گرانے کے بعد نور خان کو اپنے ساتھ ہنی مون پر لندن لے گیا___
وہ آج بھی نور سے ہر بات منواتا تھا اُس کے پاس نور کو بلیک میل کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار وہ ویڈیو تھی_____
وہ دن رات نور خان کو اپنی محبت اور دیوانگی کا یقین دلاتا تھا___
نور خان بھی اب سب کچھ قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرچُکی تھی___
اُسے اپنے لالہ اور انشراح بہت شدت سے یاد آتے تھے وہ ازلان کے جاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر روتی تھی____
آج اُن دونوں کی پاکستان واپسی تھی اس 1 ماہ میں ازلان شاہ نے ہر طریقے سے نور پر اپنی محبت نچھاور کی تھی___ اُسے باور کرایا کہ وہ ازلان شاہ کے لئے کیا ہے___
گھر پہنچتے ہی نور کمرے میں چلی گئی___ وہ ازلان کے بیگ سے کپڑے نکال کر الماری میں سیٹ کررہی تھی جب وہ کمرے میں آیا___
کمرے میں اینٹر ہوتے ہی اُس کی نظروں نے نور کو ڈھونڈا___ وہ اُسے مل گئی تھی___ اب وہ اس کی پشت پر کھڑا اُسے بانہوں میں گھیرے ہوئے تھا___
نور جانتی تھی کہ ازلان کے علاوہ یہاں کوئی نہیں آسکتا اس لئے وہ خود کو کام میں مصروف کرنے لگی___ مگر دھیان اس کا سارا ازلان کی طرف تھا جو اُس کے پیٹ پر انگلیاں پھیرتا گردن پر لب رکھے اُسے بہکانے لگے تھا___
ہاں یہ سچ تھا نور خان ازلان کی قربت میں بہکنے لگتی تھی___ میاں بیوی کے اس رشتے نے اُسے ہر چیز سے غافل کر دیا تھا___ وہ ان خوبصورت لمحات میں اپنوں کو بھول جاتی تھی اس کا سارا دھیان ازلان شاہ کے ساتھ وصل کے ان لمحوں کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنے کی طرف ہوتا تھا____
آج بھی وہ گھر آتے ہی نور کو ڈھونڈنے لگا جو کہ اپنے کمرے میں بیٹھی ڈائری لکھنے میں مصروف تھی___ اُس نے ایک نظر ازلان کو دیکھا اور پھر نظریں جھکائے اپنے کام میں مصروف ہوگئی___
ازلان شاہ بھی اُسے نظرانداز کرتا ہوا بیڈ پر پھیل کر لیٹ گیا___ جب اُس کی کزن بنا ناک کیے کمرے میں آئی___ ازلان کو اُس کا آنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا___ اس سے پہلے کہ اُسے کچھ کہتا وہ لڑکی خود ہی آگے بڑھ کر اُس کے گلے لگ گئی___
ہائے ازی___ میں کب سے آئی بیٹھی ہوں مگر تم ڈائریکٹ اپنے کمرے میں آگئے__ اُس لڑکی نے ایک نظر نور کی طرف دیکھا جو اپنا کام چھوڑے اب اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی______
اُس کے چہرے پر غصہ کے آثار تھے جنہیں ازلان شاہ بہت دلچسپی سے دیکھنے لگا___
ہاں بےبی میں بس تمہارا ہی انتظار کررہا تھا کہ کب تم آتی ہو میرے روم میں____ خیر چھوڑو آؤ بیٹھو___ ازلان اُسے بیڈ پر بٹھانے لگا جب نور بھاگتی ہوئی اُن کے قریب آئی__
ارے ارے یہ تو میری جگہ ہے مس جیا__وہ جیا کو دھکہ دیتی ہوئی خود بیڈ پر ازلان کے ساتھ لیٹ گئی____
جیا سبکی کے احساس کے ساتھ کمرے سے نکل گئی اور ازلان شاہ بھی اُس کے پیچھے چلا گیا___
😍😍😍😍😍
ازلان کی اب روٹین بن گئی تھی وہ آفس سے آتے ہی جیا کے ساتھ کبھی آؤٹنگ پر چلا جاتا کبھی اُسے لے کر ہوٹلنگ کے لئے جاتا____
اُن دونوں کی فرینکنس نے واصف شاہ کو بھی پریشان کردیا تھا___ واصف شاہ نور کو بالکل بیٹی کی طرح عزت دیتے تھے___ نور خان بھی اُن کو اپنی زندگی میں باپ کا مقام دے چُکی تھی___
اب بھی وہ واصف شاہ کو دوائیاں دے کر کمرے میں جا رہی تھی جب اُس کی نظر ازلان شاہ پر پڑی وہ آج بھی جیا کے ساتھ کہیں باہر گیا تھا___ آج ازلان شاہ کے چہرے پر سکوت تھا__ وہ غیر دماغی سے جیا سے بھی بات کررہا تھا___
کمرے میں آتے ہی وہ حسب معمول سونے لگا جب نور خان کچھ سوچتے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلی گئی___
ازلان شاہ جو بظاہر سونے کی ایکٹنگ کررہا تھا اُس کا سارا دھیان ڈریسنگ روم کی طرف تھا جہاں نور خان تھی___
تھوڑی دیر بعد نور خان کمرے میں داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی بیڈ کی طرف پہنچی____
ازلان شاہ جو اُسے ایک نظر دیکھنے کے لئے آنکھیں کھولے ہوئے تھا اُسے دیکھتے ہی بے خود سا ہوگیا___
نور خان مہرون کلر کی نیٹ کی نائٹی پہنے ہوئے دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی آرہی تھی___ وہ بیڈ کے پاس پہنچتے ہی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف مُڑی اور شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں کنگھا کرنے لگی___ وہ کن اکھیوں سے ازلان کو دیکھنے لگی___،
اُس کی نائٹی کا گلہ بہت ڈیپ تھا اور سٹرپس لیس تھا یہ نائٹی ازلان شاہ اُس کے لئے خود لایا تھا اور اُسے کہا تھا کہ جب کبھی وہ ازلان اور اپنے رشتے کو دل سے قبول کرے تو یہ نائٹی زیب تن کرے گی___
ازلان بے خود سا اُس کی طرف بڑھا اور اُسے بانہوں میں بھر لیا ____ نور خان نے مضبوطی سے ٹیبل پکڑ لیا کیوںکہ وہ جانتی تھی ازلان کی شدتوں کو سہنا آسان نہیں____
ازلان شاہ اُسے بانہوں میں لیے اُس کے بال ہٹا کر گردن پر ہونٹ رکھے اپنا جنون دکھانے لگا__ اُس نے پیچھے سے ہی نور کو کمر سے پکڑ کر اوپر کی طرف اُٹھایا__
نور خان نے بھی اپنی ٹانگیں اُس کے گرد پھیلا لی___ اور سر پیچھے کی طرف گرائے آنکھیں بند کیے ازلان کو محسوس کرنے لگی__،
ازلان کی انگلیاں جیسے ہی اُس کے پیٹ پر حرکت کرنے لگی نور خان بے خود اور تڑپنے لگی___ ازلان نے اُسے اسی حالت میں بیڈ پر لٹایا تو نور خان سیدھی ہوتے اُسے خود پر جھکا گئی__،،
کافی دیر ازلان اُس پر جھکا اس کی سانسیں چُراتا رہا__پھر اُس سے الگ ہوتا ڈریسنگ کے سامنے کھڑا خود پر باڈی سپرے کرتا کرٹنز گرائے بیڈ کے قریب پہنچا اور نور خان کو خود میں سمیٹتا کمفرٹر اوڑھے اُسے اپنی محبت اور چاہت کا یقین دلاتا رہا _
😍😍😍😍😍😍😶
صبح کی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی__ نور کی جیسے ہی آنکھ کھلی اُس نے اپنے دائیں جانب دیکھا تو بیڈ خالی دیکھ کر وہ بددل سی ہوتی اُٹھی____ وہ اس وقت ازلان کی شرٹ میں ملبوس تھی__ اُس نے خود کو ایک نظر ڈریسنگ مرر میں دیکھا اور اُٹھنے لگی___ جیسے ہی وہ واشروم کے پاس پہنچی تو ازلان شاہ ٹاول لپیٹے کمرے میں آیا اور نور خان کو اپنی شرٹ میں دیکھ کر مُسکرایا___
اور پھر آگے بڑھتے ہوئے اُسے کمر سے پکڑے اپنے قریب کیا__ اور اپنے ہونٹوِں کا شدت بھرا لمس اُس کے ہونٹوں پر چھوڑا___ اور پھر اُس کی ٹھوڑی پر اپنے ہونٹ ثبت کیے
اب ازلان کا رُخ اُس کی دودھیا اور شفاف گردن کی طرف تھا___ ازلان نے جیسے ہی اپنے ہونٹ اُس کی گردن پر رکھے نور خان نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے بالوں کو پکڑ لیا اور اُس کا ساتھ دینے لگی___ نور خان کی انگلیاں ازلان کی گردن کا مساج کر رہی تھی جب ازلان نیچے بیٹھتا ہوا اُس کے سینے پر ہونٹ رکھنے لگا___
نور کے جذبات بھڑک اُٹھے اور وہ وہیں ازلان کی گود میں بیٹھ کر اُس کے ہونٹوں پر جھکی___
کچھ ہی پل میں دونوں ایک دوسرے میں گم ساری دنیا کو بھلائے محبت کی بارش میں بھیگ رہے تھے___
😍😍😍😍😍😍
وقت یونہی گزر رہا تھا___ لوگ انشراح میر کے ساتھ ہوئے اس حادثے کو بھول چکے تھے مگر زخم آج بھی تازہ تھے___ وقت کا کام ہے گزر جانا____
مگر انشراح میر اس حادثے کے اثر سے نہ نکل سکی__ وہ اب ہر شخص سے نفرت کرنے لگی تھی___ ولی خان اور نور خان کے زکر سے ہی اُسے کوفت ہوتی تھی__،
احمد نے میر سائیں کو ولی اور ریشما کے نکاح کے بارے میں سب بتایا__ ولی خان پر گزرنے والی قیامت کا سن کر میر حاکم بہت روئے____
میں ولی کا گنہگار ہوں احمد___ میں نشاء کا مجرم ہوں___ میں نے جانتے بوجھتے ان دونوں کو الگ کیا__ میں یہ بھول بیٹھا کہ دولت میں سکون نہیں__ سکون تو عزت اور محبت دینے سے آتا ہے____
انشراح میر جو کمرے میں کسی کام سے آرہی تھی احمد کی زبانی ولی خان کے ساتھ ہوئے حادثات کا سن کر کمرے میں آکر خوب روئی___
اُسے ولی خان یاد آیا__وہ ایک بار اُس کو دیکھنا چاہتی تھی مگر جلد ہی اُس نے خود کو ڈپٹتے ہوئے پتھر دل ہونے کا فیصلہ کیا___
❤❤❤
3 ماہ بعد ولی خان نے ریشما کو آسٹریلیا بلا لیا___
ولی خان ریشما کو آسٹریلیا بلانے کے بعد مکمل طور پر بھول چکا تھا__ وہ صبح شام خود کو کام میں مصروف رکھتا تھا___ اُس کی زندگی گویا ختم ہوچکی تھی___
یہ نہیں تھا کہ اس ملک میں سب آسان تھا اس کا سٹیٹس آج بھی ایسا ہی تھا مگر وہ خود کو اب قسمت کے حوالے کرچکا تھا___
دن رات کی محنت سے اس کی طبیعت گرنے لگی__ ان کچھ مہینوں میں اس پر انکشاف ہوا تھا کہ اس کی انشراح میر اور نور خان اس کے لئے کیا تھیں
وہ نور سے ناراض تھا مگر پھر بھی اس کی خوشیوں کی دعائیں کرتا تھا___
اور انشراح میر تو اس کے رگ رگ میں بستی تھی__ اس کی محبت خون بن کر دوڑنے لگی تھی___
ایسے میں وہ ریشما خان کو بھول چکا تھا__ یہ نہیں تھا کہ وہ اس سے مکمل غافل تھا وہ آج بھی اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا اس کے ساتھ بنے رشتے کو نبھانے کی کوشش کرتا تھا__ مگر وہ کبھی اسے حقوق زوجیت نہیں دے سکا تھا___
وہ اسے مکمل رضامندی سے تسلیم کرنا چاہتا تھا__
ریشما خان میں شاید صبر نہ تھا وہ ولی کے جسم تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھی اور اس نے بہت کوشش کی مگر ولی کے دل سے انشراح کو نہ نکال سکی___
آج ولی جیسے ہی گھر لوٹا__ ریشما کو روتے ہوئے دیکھ اس کے پاس گیا__
کیا بات ہے ریشما تم رو کیوں رہی ہو__ولی نے تفتیش سے پوچھا___
وہ ولی کو دیکھتے ہی اس کے سینے سے لگ گئی__ ولی خان اسے سنبھالتا ہوا بازوؤں میں اُٹھاتا بیڈ تک لایا__
اب بتاؤ کیا ہوا؟؟ ولی نے نرمی سے پوچھا__
مجھے بابا یاد آرہے ہیں__ریشما نے معصومیت سے کہا تو ولی مسکرا اُٹھا اور اسے سینے سے لگائے تسلی دینے لگا___
کافی دیر بعد ریشما خان اس سے الگ ہوتی کھانے کا پوچھنے لگی__
ایک کپ کافی بنا دو__ ولی نے مختصر جواب دیا__
اور پھر وہ کچھ دیر بعد اس کے لئے کافی لائی __ ولی کافی پینے کے بعد بیڈ سے ٹیک لگائے نیم دراز ہوا تو ریشما خان اس کی گود میں بیٹھی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ چکی تھی___
اور اب ولی خان اسے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے چکا تھا___
رات یونہی گزر رہی تھی اور ریشما خان آج ولی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی___
❤❤❤❤❤
صبح ولی کی آنکھ جیسے ہی کھلی تو وہ اپنے دائیں سائیڈ پر ریشما کو بے لباس دنیا جہاں سے بے خبر سویا دیکھ حیران ہوا
جیسے ہی اس نے اپنے حلیے پر نظر ڈالی کمرے میں بکھرے اس کے اور ریشما کے کپڑے دیکھ کر اس پر گزری رات کی کہانی عیاں کرگیا___
وہ فورا واشروم گیا اور جیسے ہی فریش ہوکر باہر نکلا__ ریشما کو اسی طرح سوئے دیکھ خود سے نظریں چراتا کمرے سے چلا گیا___
اور اب ولی نے نہ چاہتے ہوئے بھی ریشما کو قبول کر لیا__ ریشما تو گویا اسے پانے کے بعد کھل اٹھی تھی___ وہ پورا دن ولی کا انتظار کرتی اور رات ولی کی بانہوں میں گزارتی___
اس کی ہر صبح کا آغاز ولی سے اظہار محبت کرتے گزرتا__ اور ہر رات کا اختتام ولی پر اپنا آپ نچھاور کرتے ہوتا__
یونہی وقت گزر رہا تھا مگر ولی خان کے دل میں آج بھی انشراح میر تھی__ اس کی محبت اس کی نشاء بی تھی___
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے یاد کرتا تھا__ اُس نے ریشما کو حق زوجیت تو دے دیا تھا مگر دل میں وہ مقام کبھی نہ دے سکا جو انشراح میر کا تھا___
❤❤❤❤❤❤
ریشما کے آسٹریلیا جانے کی خبر انشراح تک پہنچ چکی تھی ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھری___
رجاء میر جو ولی کی شادی کی خبر سن کر ٹوٹ چکی تھی اُس نے خود کو بار کلبز میں پرسکون کرنے کی راہ ڈھونڈ لی_،_
آزر شاہ اپنی ازلی کمینگی سے باز نہ آیا__ اُس نے رجاء میر کو جذباتی سہارا دیا__ وہ رجاء میر کے جسم کو حاصل کرنا چاہتا تھا مگر رجاء میر پر ولی خان کا نشہ چڑھا تھا جسے آزر شاہ ہزار کوشش کے باوجود نہ اتار سکا___
نوٹ:مجھے اس ایپی پر آپکی کُھل کر سپورٹ چاہیئے__ ویٹنگ فار یور لائک اینڈ ریویوز