Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 1
#Student _Teacher_Based
- - -
" بریرہ میرا دل نہیں کر رہا کلب میں جانے کو۔۔"
افرحہ اپنی شرٹ ٹھیک کرتی بریرہ سے بولی تھی جو اس کی دوست اور فلیٹ میٹ تھی۔۔
"برڈی(Birdy) میرا برتھ ڈے ہے آج تو میرے ساتھ آجاو "
بریرہ کے بولنے پر افرحہ لب کاٹتے خاموش ہوگئی تھی۔۔
افرحہ بلیک جینز اور ریڈ شارٹ شرٹ میں تھی جو اس کے گھٹنوں سے کچھ اوپر آتی تھی۔۔بریرہ نے اس کا لائٹ سا میک اپ کیا تھا جس سے اس کے فیس فیچرز مزید واضح ہورہے تھے۔۔بالوں کو کھولا چھوڑے افرحہ نے لوز کرل ڈالے تھے۔اس کے پاوں بلیک ہیلز میں مقید چمک رہے تھے۔گوری رنگت اور تیکھے نین نقش والی افرحہ تھوڑی ڈرپوک ، تھوڑی پاگل اور زندگی سے بھرپور تھی۔افرحہ کینڈا میں پڑھنے کے لیے آئی ہوئی تھی۔۔اسے یہاں آئے ہوئے چار مہینے ہوچکے تھے۔۔وہ بریرہ کے ساتھ فلیٹ شئیر کرتی تھی۔بریرہ کے پیرنٹس کو افرحہ کی آنٹی جانتی تھی جس کی وجہ سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔اور چند ہی مہینوں میں وہ دونوں اچھے دوست بن گئے تھے۔
اس کے برعکس بریرہ کنفیڈینٹ اور بولڈ تھی۔۔وہ یہاں کینڈا میں ہی پیدا ہوئی تھی امیر ماں باپ کی اکلوتی اولاد اور افرحہ کی دوست تھی۔سفید رنگ اور بھورے بالوں والی بریرہ سب کو ایک ہی ادا میں اپنی طرف اٹریکٹ کرلیتی تھی۔۔بریرہ پیلی ٹاپ اور وائٹ جینز میں ملبوس تھی۔ بالوں کو سٹریٹ کیے وہ اپنی کمر پر کھلا چھوڑ چکی تھی۔۔اس کا میک اپ ڈارک اور بولڈ تھا جو دیکھتے ہی سب کی اٹینشن حاصل کرسکتا تھا۔
"بریرہ مجھے اکیلا مت چھوڑنا۔۔"
کلب کی بھیڑ دیکھتے افرحہ گھبرا گئی تھی۔۔اس نے اپنے بیگ پر گرفت مضبوط کی تھی جس میں اس کا انحیلر موجود تھا۔
بریرہ سر ہلاتی اس کا ہاتھ پکڑتی اسے کھینچ کر بار کی طرف لے گئی تھی۔اپنے لیے ڈرنک آرڈر کرتے اس نے افرحہ کے لیے سوفٹ ڈرنک آرڈر کی تھی۔
"میں سموکنگ کرنے جا رہی ہوں یہاں سے ہلنا بھی مت۔"
اسے تنبیہ کرتی اپنے بیگ سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتی باہر چلی گئی تھی۔۔افرحہ نے منہ بناتے ہوئے اسے جاتے دیکھا تھا۔وہا سے کئی دفعہ سگریٹ پینے سے منع کر چکی تھی لیکن پر بار وہ افرحہ کو اگنور کرجاتی تھی یہی وجہ تھی افرحہ اسے بولنا چھوڑ چکی تھی۔
"ہیلو کیوٹی آئی ایم جیمز تم یہاں اکیلی ہو ؟"
اس کے ساتھ والے سٹول پر بیٹھتے بھورے بالوں والے جیمز نے مسکراتے ہوئے ہوچھا۔
افرحہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔وہ جیمز کی مسلسل خود پر نظریں محسوس کرتی وہاں سے اٹھ کر واشروم کی طرف چلی گئی تھی۔۔اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔بریرہ بھی غائب ہوچکی تھی۔۔
واشروم میں جاتے شیشے میں دیکھتے اس نے اپنی لپ اسٹک ٹھیک کی تھی۔۔کچھ دیر وہاں رکتی وہ باہر نکلی تھی جب جیمز کو باہر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیلی تھیں۔
وہ اسے دیکھتی خاموشی سے اگنور کرتی آگے گزرنے لگی تھی جب مقابل کے اچانک بازو تھامنے پر وہ ڈر گئی تھی۔۔
"میرا ہاتھ چھوڑیں۔"
وہ سنجیدگی سے انگلش میں بولی تھی جبکہ مقابل کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمایا ہوئی تھی۔۔
افرحہ کو شدید گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔اسے جیمز کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔
"میرے ساتھ کچھ ٹائم سپینڈ کرو۔"
جیمز اسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا تھا۔افرحہ اس کے قریب آنے پر گھبراتی ہوئی اپنی دائیں ٹانگ اس کی ٹانگوں کے بیچ زور سے مار چکی تھی۔جیمز کی گرفت اپنی کلائی پر ڈھیلی پڑتے محسوس کرتے وہ تیزی سے بائیں جانب بھاگی تھی۔جیمز کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر وہ دائیں طرف مڑتی پہلے ہی روم کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوگئی تھی۔۔
دروازہ بند کرتی وہ ٹیک لگاتی اپنا سانس بحال کرتی پیچھے مڑی تھی۔۔جب سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا سانس سینے میں اٹک گیا تھا۔
صوفے پر بیٹھا شاہزیب ٹیبل پر جھکا پاوڈر فارم میں موجود ڈرگز کو ناک کے ذریعے اپنے اندر اتار رہا تھا۔۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنتے اس نے ڈرگز لیتے سرخ آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔وہاں کھڑی کسی لڑکی کو دیکھ کر اس کی ماتھے کی رگیں ابھر آئیں تھیں۔
"گیٹ آوٹ۔"
وہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا چیخا تھا۔افرحہ اس کی آواز سنتی ڈر کر اچھلی تھی۔
"مجھے ایک شخص فولو کر رہا ہے پلیز میری ہیلپ کریں۔"
افرحہ نرم لہجے میں بمشکل اپنا سانس بحال کیے بول رہی تھی۔
"میں نے کہاں نکل جاو یہاں سے۔"
شاہزیب ناگواریت سے اسے دیکھتا بولا تھا۔۔اس کا دل سامنے کھڑی لڑکی کا گلا دبانے کا کر رہا تھا جس نے اس کے سکون کے لمحات میں خلل ڈالا تھا۔
"مجھے صرف پانچ منٹ رکنے دیں۔میں اپنی فرینڈ کو کال کر لوں۔"
افرحہ شاہزیب کو کھڑا ہوتے دیکھتی بولی تھی۔۔
شاہزیب نے ہاتھ سے اپنے ہونٹوں کے اوپر لگے ڈرگز کو صاف کیا تھا۔۔وہ چلتا ہوا افرحہ کے پاس آیا تھا۔۔افرحہ اس کی اتنی نزدکی پر گھبرا گئی تھی۔
"مجھے صرف دو منٹ دے دیں۔" افرحہ اپنے لب کاٹتی بول رہی تھی اس کے قریب آنے پر اس کی حالت پتلی ہورہی تھی وہ شخص اس کے آگے پہاڑ لگ رہا تھا۔۔وہ گردن اٹھا کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
اسے زور سے بازو سے تھامتے شاہزیب نے دروازہ کھولتے بنا اس کی التجاوں پر دھیان دیے اسے باہر دھکا دیا تھا۔وہ اسے باہر نکالتا دروازہ واپس بند کر چکا تھا۔
افرحہ سیدھی زمین بوس ہوئی تھی اس کے کہنیاں رگڑیں گئی تھی۔۔اپنے آنسو روکتے اس نے اٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے اپنا فون نکال کر بریرہ کو کال کی تھی۔جو پانچ منٹ میں اس کی پاس پہنچ چکی تھی۔بریرہ کے آنے تک وہ اس روم کے باہر ہی کھڑی رہی تھی۔۔
"تم پاگل ہو اس سیکشن میں کیا کر رہی تھی اور یہ تمھاری بازو زخمی کیسے ہوئیں؟"
بریرہ اسے واپس گھر لے آئی تھی لیکن افرحہ اس سے شدید ناراض ہوچکی تھی تبھی کلب سے لے کر گھر پہنچنے تک اس سے وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی۔
"برڈی میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔"
بریرہ کے سنجیدگی سے پوچھنے پر وہ ساری بات بتا چکی تھی۔۔جس پر بریرہ اس سے معافی مانگتی اس کی کہنیوں پر بینڈیج کرچکی تھی۔بریرہ کو گڈ نائیٹ بولتی افرحہ اپنے روم میں آتی لیٹ گئی تھی۔آنکھیں بند کرتے اس کی آنکھوں کے پردوں پر جھپاک سے شاہزیب کی تصویر نمایا ہوئی تھی۔وہ فورا اپنی آنکھیں کھول کر بیٹھ گئی تھی۔
"شاہزیب تمھیں میں نے کتنی بار کہا ہے یہ ڈرگز وغیرہ نہ لیا کر اور تم نے پچھلی بار وعدہ بھی کیا تھا کلب میں نہیں جاو گے۔پھر کل رات کو وہاں کیوں گئے۔"
عادل شاہزیب کا دوست اس سے غصے سے بولا تھا۔شاہزیب نے اس کی آواز سے سر میں اٹھنے والے درد کو بمشکل دبایا تھا۔
شاہزیب فون کان سے لگائے دوسرے ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ بیگ پکڑے یونیورسٹی کی پارکنگ سے نکلتا اپنے کیبن کی طرف جا رہا تھا۔
"میں تمھارے ڈیلی لیکچرز سننے کے موڈ میں نہیں ہو عادل۔۔"
ابھی اس کی بات منہ میں ہی تھی جب تیزی سے اپنی کلاس کی جانب بھاگتی ہوئی افرحہ اس میں بجی تھی۔اس اچانک افتاد پر شاہزیب کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین پر گر گیا تھا۔
شاہزیب نے غصیلی نظروں سے زمین پر اپنے ٹوٹے موبائل پر ڈالتے سامنے دیکھا تھا جہاں افرحہ آنکھیں پھیلائے کبھی اسے اور کبھی زمین پر ٹوٹے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔
"س۔۔س۔۔سوری۔۔"
افرحہ کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز بمشکل نکلی تھی۔وہ اسے ایک ہی نظر میں دیکھ کر پہچان گئی تھی جو کالے تھری پیس سوٹ میں فارمل ڈریسنگ میں انتہا کا ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا۔
"شٹ اپ اس نقصان کے پیسے مجھے تم دو گی۔"
وہ غصے سے اسے گھورتا سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
"میں کیوں پیسے دوں گی ؟ آپ کی غلطی ہے آپ دیکھ کر نہیں چل رہے تھے۔"
وہ منہ بگاڑتی ہمت مجتمع کرکے بولی تھی۔شاہزیب نے غصے سے سفید شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس گلے میں سٹالر اس چھوٹے پٹاخے کو دیکھا تھا جو اس کے سینے تک بھی بمشکل پہنچ رہی تھی اور الزام بڑی دیدہ دلیری سے اس پر لگا رہی تھی۔
"پے تو تم ہر حال میں کروگی۔"
وہ تیز لہجے میں بولتا زمین پر جھکا اپنا موبائل اٹھانے لگا تھا جب افرحہ تیزی سے اسے دھکا دیتی وہاں سے رفوچکر ہوئی تھی۔
شاہزیب اس کے دھکا دینے پر دھڑام سے زمین پر گرا تھا۔آتے جاتے سٹوڈنٹ رک کر اسے دیکھنے لگے تھے۔اسے کچھ سٹوڈنٹس کے ہنسنے کی آوازیں بھی آنے لگی تھیں۔وہ مٹھیاں بھینچتا اپنا ٹوٹا موبائل اٹھاتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اپنے آفس میں چلا گیا تھا۔
"میں چھوڑوں گا نہیں اس ٹڈی کو سمجھتی کیا ہے خود۔۔مجھے ۔۔مجھے شاہزیب میر حاتم کو دھکا دینے کے جرت کیسے کی اس نے۔۔"
وہ غصے سے بڑبڑاتا اپنے آفس میں داخل ہوا تھا۔۔اس کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔
وہ اپنا غصہ بمشکل کنٹرول کرتا اپنا شیڈیول دیکھتا فرسٹ لیکچر لینے کے لیے چلا گیا تھا۔
اس کو یہ نئی کلاس ملی تھی۔اس کے کلاس میں داخل ہوتے ہی گہری خاموشی چھاگئی تھی۔لڑکیاں منہ کھولے مبہوت سی اسے دیکھ رہیں تھی وہ ایسا ہی تھا۔بے حد ہینڈسم اور ڈیشنگ کے دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا۔۔
چھ فٹ سے نکلتا قد۔۔گندمی رنگت۔۔کالے گھنے بال اور کالی ہی گہری آنکھیں جن کے پیچھے ڈھیروں راز اور دکھ چھپے ہوئے تھے۔وہ سوٹڈ بوٹڈ کھڑا سب کو اپنے طرف متوجہ کر گیا تھا۔
" میں آپ کا نیا پروفیسر ہوں۔آج سے یہ سبجیکٹ میں پڑھاوں گا۔۔آپ لوگ مجھے پروفیسر شاہ یا سر شاہ جو بہتر لگے وہ پکار سکتے ہیں۔۔"
بورڈ پر اپنا نام لکھتا وہ سیدھا ہوتا کلاس کی جانب متوجہ ہوا تھا جب اس کی نظر پہلی ہی سیٹ پر منہ چھپانے کی کوشش کرتی افرحہ پر پڑی تھی۔وہ اسے کیسے کہ پہنچنتا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو سب کے سامنے وہ اس کی عزت کا جنازہ نکال کر آئی تھی۔
افرحہ کی آنکھیں شاہزیب کو دیکھ کر ابل پڑی تھیں۔۔وہ اس کا پروفیسر تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا۔اوپر سے وہ اسے گرا بھی چکی تھی۔۔اسے پورا یقین تھا اب پروفیسر شاہ اسے چھوڑیں گے نہیں۔۔
شاہزیب نے خاموشی سے پہلے اپنا لیکچر دینا شروع کیا تھا۔وہ جانتا تھا اس لڑکی کا دھیان اس کے لیکچر پر نہیں ہے تبھی اس نے افرحہ کو پوائنٹ آوٹ کیا تھا۔
"ہے یو۔۔یس یو۔۔مجھے سمری بتائیں جو میں نے ابھی پڑھایا اس سب کی۔۔"
افرحہ کانپتی ٹانگوں سے کھڑی ہوئی تھی اس نے ایک لفظ بھی نہیں سنا تھا۔
"آپ اتنی جلدی بھول بھی گئے ہیں پروفیسر جو مجھ سے سمری پوچھ رہے ہیں۔۔"
وہ بہادر بنتی جو منہ میں آیا بول گئی۔شاہزیب نے اسے غصیلی نظروں سے دیکھا تھا جس سے اس کا منہ فورا بند ہو گیا تھا۔
"آپ سے جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب دیں۔"
وہ تیز لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ نے بےساختہ اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھی۔وہ بہت مشکل سے اپنا سانس اکھڑنے سے روکے ہوئے تھی۔
"مجھے نہیں پتا۔۔"
افرحہ نے لب بھینچ کر جواب دیا تھا۔شاہزیب یہ ہی سوال سننے کے انتظار میں تھا۔
"آپ سے زیادہ اڈیٹ اور ڈمب سٹوڈنٹ میں نے آج تک نہیں دیکھا ایک سمپل سی ڈیفینشن بھی نہیں آتی تو سبجیکٹ کو سمجھیں گی کیسے۔۔"
ساری کلاس کے سامنے سکندر کے ڈانٹنے پر وہ اپنا بیگ اٹھاتی تیزی سے کلاس سے بھاگ گئی تھی۔شاہزیب نے خاموشی سے اسے جاتے دیکھا تھا۔اس کے جاتے ہی وہ بنا ڈسٹرب ہوئے اپنا لیکچر کنٹینیو کر چکا تھا۔
افرحہ تیزی سے کلاس سے نکلتی واشروم میں آئی تھی۔اس نے گہرے سانس لیتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے اپنا انحیلر بیگ سے نکال کر استعمال کیا تھا۔
وہ اپنا سانس بحال کرتی واشروم سے جب باہر نکلی تھی اسے اس کی کلاس میٹ کا میسج آیا ہوا تھا۔پروفیسر شاہ اسے اپنے آفس میں بلا رہے تھے۔۔
وہ مٹھیاں بھینچتی خود کو پرسکون کرتی اس کے آفس کا پوچھتی اس طرف گئی تھی۔ زور سے دروازہ ناک کرتی وہ جواب ملتے ہی اندر داخل ہوئی تھی۔
"مس افرحہ آپ نے جو کلاس کے سامنے میرے ساتھ بدتمیزی کی ہے اس کی وجہ سے آپ کی پنیشمنٹ ہے یہ اسائمنٹ آپ مجھے کل صبح سبمنٹ کروائیں گی۔۔اور نہ جمع کروانے کی صورت میں آپ کے گریڈز میں اچھے نہیں دوں گا۔۔"
وہ طنزیہ نگاہوں سے افرحہ کو دیکھتا بولا تھا۔اسے اگر کسی چیز سے شدید نفرت تھی تو مخالف جنس تھی۔۔افرحہ کو دیکھ اس کے اندر موجود سارے نفرت کے جذبات ابھر آئے تھے۔
"اور ہاں میرے موبائل توڑنے کے پیسے بھی آپ مجھے کل پے کریں گی۔۔ورنہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"
شاہزیب تنفر سے بولا تھا۔۔نظریں افرحہ پر ٹکی تھی جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔
"سڑیل۔۔ہنہ۔۔"
وہ منہ بگاڑتی خاموشی سے اسائمنٹ والا پیپر اس کے میز سے اٹھا گئی تھی۔
"،کچھ کہا آپ نے۔۔"
شاہزیب اس کے منہ پر بڑبڑانے پر جھنجھلایا تھا۔
"کچھ نہیں پروفیسر کل آپ کو دونوں چیزیں مل جائیں گی۔"
وہ اس سے پنگے لے کر اپنے گریڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی تبھی بمشکل خود کو روکتی چپ کروا گئی تھی۔
"گیٹ آوٹ۔۔"
اس کے جواب دینے پر اپنا لیپ ٹاپ اوپن کرتے شاہزیب نے کہا تھا۔۔ذلت کے احساس سے افرحہ کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔من میں اسے گالیاں دیتی وہ تیزی سے اس کے آفس سے نکل گئی تھی لیکن زور سے دروازہ بند کرنا نہیں بھولی تھی۔
شاہزیب نے گھور کر دروازے کو دیکھا تھا جیسے وہاں افرحہ کھڑی ہو۔۔وہ اپنا سر جھٹکتا دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔
افرحہ جب اپارٹمنٹ میں داخل ہونے لگی تھی اس کی نظر ساتھ والے اپارٹمنٹ پر گئی تھی جو کافی دیر سے خالی تھا لیکن اب وہاں سامان شفٹ ہورہا تھا۔۔
نئے ہمسایوں کا سوچتے اس کا موڈ تھوڑا بہتر ہوا تھا۔
"برڈی آج کا دن کیسا رہا ؟ "
ٹی وی دیکھتی بریرہ نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
"بہت گندہ اور منحوس۔۔"
وہ ناک چڑھا کر بولی تھی۔بریرہ کے ساتھ بیٹھتی وہ اسے ساری بات بتا چکی تھی۔۔
" اس پروفیسر کے لیے موڈ خراب مت کرو اسے ہم مل کر کسی دن نزا چکھائیں گے۔۔ابھی تم ہمارے نئے ہمسائیوں کے لیے کچھ کھانے کو بناو رات کو ان کی طرف چلیں گے۔۔اور ان کی مدد بھی کردیں گے۔۔"
بریرہ اس کی باتوں پر بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتی اس کا دھیان پروفیسر شاہ سے ہٹا چکی تھی۔
افرحہ بریرہ کے ہمراہ ساتھ والے اپارٹمنٹ میں چکن والا پلاو بنا کر لے کر گئی تھی۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ اور بریرہ دونوں دروازہ کھلنے کے منتظر تھے۔۔۔
سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر افرحہ کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔جبکہ مقابل بھی اسے سامنے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔
" آپ۔۔"
"تم۔۔"
شاہزیب اور افرحہ کے منہ سے ایک ساتھ الفاظ نکلے تھے۔۔
"تم انھیں جانتی ہو برڈی ؟۔۔"
بریرہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
"ہاں یہ پروفیسر شاہ ہیں۔۔"
وہ دانت کچکچا کر بولی تھی۔
"اوہ اچھا۔۔"
بریرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔۔
"یہاں کس کام سے آنا ہوا ؟ "
شاہزیب نے آنکھیں گھماتے طنزیہ پوچھا تھا۔اس کی نظریں بے ساختہ افرحہ کے ہاتھ میں موجود کھانے کی ٹرے پر گئی تھیں۔
"ہم آپ کے لیے کھانا لائے تھے۔۔پروفیسر۔۔"
خود کو پرسکون کرتی افرحہ بولی تھی۔
"مجھے اس کی ضرورت نہیں اور ایک بات میری کان کھول کر سن لو۔۔دوبارہ میرے اپارٹمنٹ کے پاس بھٹکنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے بولتا کھٹاک سے دروازہ ان کے منہ پر بند کر گیا تھا۔
" تم نے دیکھا کتنے سڑیل اور جلاد ہیں۔۔"
افرحہ منہ پھولاتی ہوئی بولی تھی۔۔
"اگنور کرو برڈی ابھی بہت سے موقعے آئیں گے تب حساب برابر کرنا۔۔"
اس کے کندھے پر بازو پھیلاتی وہ اسے واپس اپارٹمنٹ میں لے گئی تھی۔
"فلحال میرے مائینڈ میں ایک آئیڈیا ہے۔۔"
بریرہ کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آئی تھی۔افرحہ نے اس کی طرف دیکھا تھا جب بریرہ نے اسے اپنا پلان بتایا تھا۔۔
ان لوگوں نے شاہزیب کو زچ کرنے کے لیے فل آواز میں گانے لگا دیے تھے۔۔تھوڑی ہی دیر بعد ان کو ساتھ والے اپارٹمنٹ کے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی تھی۔۔وہ اپنے دروازے پر بیل کے منتظر تھے جو ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ میوزک بند کرچکے تھے۔۔افرحہ تو سونے کے لیے لیٹ گئی تھی جبکہ بریرہ تیار ہوکر کسی پارٹی پر نکل گئی تھی۔۔
جاری ہے۔۔۔