Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 12
- - -
"آپ غلط واشروم میں آگئے ہیں۔۔"
افرحہ اپنی ہتھلیوں میں جمع ہوتا پسینہ اپنی ڈریس سے صاف کرتی کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔۔
مقابل بےساختہ ہنس پڑا تھا۔اس شخص کے چہرے پر ہلکے ہلکے نیل کے نشان دکھائی دے رہے تھے۔۔افرحہ کا دل خوف سے کانپ اٹھا تھا۔۔
"ایک ہفتے سے میں تمھارا پیچھا کر رہا ہوں۔۔تم اس دن تو بچ گئی تھی آج تمھیں کوئی نہیں بچا پائے گا۔۔"
وہ شخص خطرناک انداز میں مسکراتا ہوا بولا تھا۔۔
افرحہ کو وہ رات یاد آئی تھی جب اسے کسی شخص نے ہیرس کیا تھا۔۔وہ اندھیرے میں اس شخص کی شکل تو نہیں دیکھ پائی تھی اس لیے اسے پہچان نہیں پائی۔۔اب اس کے ایسے بولنے پر افرحہ کا سانس سینے میں اٹک گیا تھا۔۔
وہ کانپتی ٹانگوں سے تیزی سے دروازے کی جانب بھاگی تھی جب مقابل نے اس کو بازو سے دبوچتے اس کو زمین پر زور سے پھینکا تھا۔۔
نیچے زور سے گرنے پر افرحہ کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔۔اس کا سانس پھولنے لگا تھا۔۔اسے پینک اٹیک محسوس ہو رہا تھا۔۔
سینے میں اٹھتے درد کو نظر انداز کرتے اس شخص کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر افرحہ نے کانپتی ٹانگوں سے دھیرے سے اٹھ کر اسے دھکا دے کر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔لیکن مقابل نے اس کے کھولے بالوں کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا تھا۔۔
اپنے بال بےدردی سے کھینچے جانے پر اس کے منہ سے چیخی نکلی تھی۔۔اپنے ناخنوں سے وہ اسے زخمی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"تمھیں کیا لگا اس دفعہ اتنی آسانی سے جانے دوں گا۔۔تمھاری وجہ سے مجھے اتنے دن ہوسپٹل میں تکلیف میں گزارنے پڑے۔۔اس کا خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا۔۔"
اس کے منہ پر تھپڑ مارتا مقابل مائیک نامی شخص بولا تھا۔۔
افرحہ کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا تھا۔۔اس کو سانس لینے میں بھی تکلیف ہونے لگی تھی۔۔اس بار وہ اپنی مکمل کوشش کرتی خود کو اس آزاد کروانے میں مصروف تھی۔۔جب مقابل نے اسے دیوار کے ساتھ زور سے لگایا تھا۔۔
افرحہ کو اپنے سارے جسم میں تکلیف ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔۔
"ہیلپ۔۔پلیز ہیلپ می۔۔"
افرحہ خود کو آزاد کروانے کی کوشش میں چیخ رہی تھی جبکہ مقابل نے تیزی سے اس کا منہ دبوچ کر خاموش کروانا چاہا تھا۔۔افرحہ نے زور سے اس کے ہاتھ پر اپنی دانت گاڑھتے زور سے چیخ ماری تھی۔۔
مقابل اپنے ہاتھ میں تکلیف محسوس کرتا غضب ناک ہوا تھا۔۔اس نے افرحہ کا سر زور سے دیوار میں مارا تھا۔۔خون کی ایک لکیر اس کے ماتھے سے نکلتی اس کی آنکھ کے راستے گال پر بہنے لگی تھی۔۔
افرحہ کو اپنی آنکھوں کے آگے ایک پل کو اندھیرا محسوس ہوا تھا۔۔
"کوئی ہے اندر دروادہ کھولیں۔۔"
باہر سے کسی کی آواز سنتے افرحہ نے ہمت کرتے آواز نکالنی چاہی تھی مگر مقابل کے ہاتھ نے اس کی سانس روکتے اس کے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔
جو بھی باہر موجود تھا وہ کچھ منٹوں بعد واپس چلا گیا تھا۔۔افرحہ کے دل سے شدت سے دعا نکل رہی تھی کہ اللہ اس کو بچانے کے لیے کسی کو بھیج دے۔۔
اسے اپنی طاقت ختم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔اپنے بازو سے سلیو پھٹتی محسوس کرکے اس کی آنکھوں سے آنسو شدت سے نکلنے لگے تھے۔۔
اس نے اپنی آنکھیں شدتِ تکلیف سے میچ لی تھیں۔۔اس کا لمس خود پر محسوس کرتے افرحہ کو کراہت محسوس ہونے لگی تھی۔۔
اچانک باہر سے واشروم کا لاک کھولا گیا تھا۔۔کسی نے آکر مائک کو افرحہ سے دور کیا تھا مگر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کیا ہو رہا ہے۔۔خود کو بازوں سے ڈھانپتی وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
شاہزیب کافی دیر بعد بھی افرحہ کے نہ لوٹنے پر فکر مند سا کانفرنس چھوڑتا باہر نکلا تھا۔۔وہ یہ تو جانتا تھا کہ افرحہ نے چارلی کے ساتھ واپس جانا تھا اس لیے وہ یہاں ہی موجود تھی۔۔لیڈیز واشروم کا خیال آتے ہی وہ اس طرف گیا تھا۔۔
وہاں سکیورٹی کو دیکھتا اس کا دل ایک دم تیزی سے دھڑکا تھا۔۔وہ لمبت لمبے ڈھگ بھرتا اس طرف گیا تھا۔۔جب سکیورٹی کو ایک شخص کو قابو کرتے دیکھ کر اور افرحہ کو واشروم میں زمین پر بیٹھے دیکھ کر اسے چند سیکنڈز لگے تھے سمجھنے میں۔۔
غصے کی شدت سے کانپتے اس نے سکیورٹی گارڈ کو کالر سے پکڑ کر پیچھے کرتے مائک کے زوردار مکا جڑا تھا۔۔اس کو بالوں سے پکڑتے اس نے مائک کا سر دیوار میں مارا تھا۔۔
مائک نے شاہزیب کو مکا مارنا چاہا تھا جسے جھک کر شاہزیب باآسانی بچ گیا تھا۔۔گارڈز دونوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کو جھپٹ کر جان سے مارنے پر آگئے تھے۔۔
شاہزیب کے صرف منہ پر ایک بار مکا بجا تھا جس سے اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا اس کے علاوہ وہ مقابل کو بری طرح زخمی کرچکا تھا۔۔
سکیورٹی گارڈ نے بمشکل شاہزیب کو بےہوش مائک سے دور کیا تھا۔۔شاہزیب کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس شخص کو قتل کردیتا۔۔
افرحہ کا خیال آتے ہی وہ خود کو جھٹکے سے گارڈز سے چھڑواتا افرحہ کے پاس ایک ہی جست میں پہنچ گیا تھا۔۔جو کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں زور سے بند کیے بیٹھی زخمی چڑیا لگ رہی تھی۔۔
اس کے ماتھے سے نکلتا خون، زخمی گال اور کانپتا وجود شاہزیب کے تن بدن میں آگ لگا گیا تھا۔۔
"افرحہ۔۔"
اس نے نرمی سے افرحہ کو پکارا تھا۔۔
افرحہ نے آہستہ سے اپنی آبشار بنی آنکھیں کھولتے شاہزیب کو دیکھا تھا۔۔اسے دیکھتے ہی افرحہ کے ہونٹوں سے تکلیف دہ سسکی نکلی تھی۔۔اسے سانس لینے میں ابھی بھی تکلیف ہورہی تھی۔
"مج۔۔۔مجھے چ۔۔چھوئیں مت۔۔"
شاہزیب اس کے چہرے سے بال آہستہ سے پیچھے کرنے لگا تھا جب افرحہ ہچکی لیتی کانپتی آواز میں بولی تھی۔۔
"م۔۔مجھے خود سے ک۔۔کراہت محسوس ہو رہی ہے۔۔"
وہ گہرا سانس بھرتی کپکپاری آواز میں روتی ہوئی بولتی شاہزیب کو ساکت کر گئی تھی۔۔
"افرحہ لسن ٹو می۔۔ کچھ نہیں ہوا تمھارے ساتھ۔۔"
اس کا چہرہ تھامتے شاہزیب نے سنجیدگی سے پختہ لہجے میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔۔
"اگر اب تمھاری آنکھ سے ایک بھی آنسو نکلا میں اس شخص کی جان نکال لوں گا۔۔"
وہ نرمی سے اس کے آنسو صاف کرتا سرد ترین لہجے میں بولا تھا۔
"ن۔۔نہیں آ۔۔آپ م۔۔مجھے ا۔اکیلا مت چھوڑیے گا۔۔"
وہ شاہزیب کا ہاتھ تھامتی سوں سوں کرتی بول رہی تھی۔۔
شاہزیب کی نظر اس کی پھٹی ہوئی سلیو کی طرف گئی تھی۔۔اس نے اپنا کوٹ اتارتے افرحہ کے کندھوں پر ڈالتے۔۔اپنی جیب سے رومال نکالتے اس کے ماتھے پر لگے زخم پر رکھا تھا۔۔
"میں کہیں نہیں جارہا۔۔بلکہ ہم ابھی گھر واپس جارہے ہیں۔۔"
وہ افرحہ سے مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔جو اس واقع سے بری طرح ڈسٹرب ہوگئی تھی۔۔
شاہزیب نے اسے ہاتھ دے کر کھڑا کیا تھا۔۔افرحہ سے چلا نہیں جارہا تھا۔۔اس کی ٹانگیں خوف سے مسلسل کانپ رہی تھیں۔۔
شاہزیب نے اس کی حالت دیکھتے کوٹ اس کے کندھے پر صحیح کرتے اسے بازوں میں اٹھایا تھا۔۔افرحہ کے منہ سے بےساختہ ہلکی سی چیخ نکلی تھی۔۔شاہزیب کی گردن میں بازوں ڈالتی وہ اس کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی۔۔
شاہزیب چارلی کو افرحہ کے فون سے گھر جانے کا میسج کرتا خود بھی جان کو کال کرلے ایمرجنسی کا بولتا افرحہ کو لے کر نکل گیا تھا۔۔
افرحہ کو گاڑی سے لیتا وہ اپنے فلیٹ میں آیا تھا۔۔اسے اپنے بیڈ روم میں بیٹھاتے وہ واشروم سے فرسٹ ایڈ کٹ لے کر آیا تھا۔۔
افرحہ خاموشی سے فرش کو گھور رہی تھی۔۔شاہزیب اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔
اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے شاہزیب نے خاموشی سے اس کے ماتھے کا زخم صاف کیا تھا۔۔افرحہ کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔۔
شاہزیب نے زخم پر پھونک مارتے بےحد نرمی سے خون صاف کرتے وہاں بینڈیج لگائی تھی۔۔
"یہ پین کلر لے لو اور فریش ہوجاو۔۔"
شاہزیب اس کے چہرے پر پھیلے میک اپ اور خون کو دیکھتا لب بھینچ کر اسے پین کلر پکڑاتا بولا تھا۔۔
افرحہ خاموشی سے پین کلر کھاتی واشروم مین فریش ہونے چلی گئی تھی۔۔شاہزیب نے اس کے واشروم میں جاتے ہی عادل کو کال ملائی تھی۔۔
"تمھیں ایک کام دیا تھا۔۔تم وہ بھی نہ کرسکا۔۔ایک بار تم مجھے ملو پھر میں تمھیں بتاوں گا کیا ہوا ہے۔۔تمھیں میں نے جو شخص اریسٹ کرنے کے لیے بولا تھا وہ آزاد کیسے گھوم رہا ہے؟"
شاہزیب غصے سے اسے بولنے کا موقع دیے بغیر پھٹ پڑا تھا۔۔
"شاہزیب تم بھول رہے ہو تم نے اس کے خلاف رپورٹ نہیں لکھوائی تھی۔۔اس کا وکیل اسے چھوڑوا کر لے گیا تھا کیونکہ ہمارے پاس اسے روکنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔۔"
عادل سنجیدگی سے بولا تھا۔
"میں اس کے خلاف رپورٹ لکھوا رہا ہوں وہ اسوقت ہوسپٹل ہوگا اسے فورا اریسٹ کرو۔۔"
شاہزیب تیز لہجے میں بولا تھا۔۔
"کیا ہوا ہے شاہزیب سب ٹھیک ہے؟"
عادل نے پریشانی سے پوچھا تھا۔۔
"جب تم ملو گے پھر بتاوں گا فلحال جو کہا ہے وہ کرو۔۔"
شاہزیب کے کرختگی سے بولنے پر عادل ہنکار بھرتا اسے گرفتار کرنے کا یقین دلاتا کال بند کر چکا تھا۔۔
"مجھے اپنے فلیٹ میں جانا ہے۔۔"
شاہزیب کا کورٹ پہنے اپنے ارد گرد بازوں کا حصار باندھے وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی۔۔
"افرحہ تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔وہ شخص اب کبھی بھی تمھیں دکھائی نہیں دے گا۔۔"
شاہزیب اس کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہوا بولا تھا۔۔
"ی۔۔یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔"
وہ شاہزیب سے پیچھے ہٹتی چیخی تھی۔۔شاہزیب اس کا غصہ سمجھ سکتا تھا تبھی خاموش تھا۔۔
"آپ مجھے پسند نہیں کرتے۔۔۔پھر میری مدد کیوں کر رہے ہیں۔۔؟مجھے آپ سے نفرت ہے۔۔آپ بہت برے ہیں۔۔"
وہ ہچکیوں سے روتی شایزیب کی طرف شکوہ کن نگاہوں سے دیکھتی بول رہی تھی۔۔
"ششش۔۔"
شاہزیب نے اسے خاموش کروایا تھا۔۔
"مجھ سے نفرت کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت۔۔۔تم صرف مجھ سے محبت کرو گی۔۔یہ "نفرت" لفظ میرے لیے دوبارہ اپنی زبان پر مت لانا۔۔"
شاہزیب ایک قدم اس کی جانب مزید بڑھتا شدت سے بولا تھا۔۔افرحہ کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔وہ فورا پیچھے ہٹی تھی۔۔
"مجھے گھر جانا ہے۔۔"
وہ سوں سوں کرتی بول رہی تھی۔۔
"پہلے رونا بند کرو۔۔ورنہ یہاں سے ساری رات ہلنے بھی نہیں دوں گا۔۔"
شاہزیب کی بات سنتے افرحہ نے آنسو روکتے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا تھا۔شاہزیب کا سنجیدہ چہرہ دیکھتے اس نے اپنا چہرہ صاف کیا تھا۔
"چلو تمھیں گھر چھوڑ کر آو۔۔"
شاہزیب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے چلنے کا کہا تھا۔۔افرحہ مردہ قدم اٹھاتی چلنے لگی تھی۔۔
شاہزیب اپنے فلیٹ کے دروازے میں کھڑا خاموشی سے افرحہ کو دیکھ رہا تھا جس نے اپنے فلیٹ کی بیل بجائی تھی۔۔
بریرہ نے نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ دروازہ کھولا تھا۔۔
"اوہ مائی گاڈ برڈی۔۔یہ کیا ہوا ہے ؟"
اس کی ابتر حالت دیکھتے بریرہ نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا تھا۔۔
"تم اندر چلو میں پھر بتاتی ہوں۔۔"
افرحہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔۔
"یہ اس پروفیسر نے تمھیں مارا ہے۔۔"
بریرہ شاہزیب پر کٹیلی نظر ڈالتی غصے میں پوچھ رہی تھی۔۔
"ن۔۔نہیں بریرہ پلیز اندر چلو میں بتاتی ہوں۔۔"
افرحہ نفی میں سر ہلاتی ایک نظر شاہزیب پر ڈالتی بریرہ کو لے کر اندر چلی گئی تھی۔۔
شاہزیب بھی ایک گہرا سانس خارج کرتا گھر کے اندر چلا گیا تھا۔۔
"برڈی مجھے فورا بتاو کیا ہوا ہے۔۔"
بریرہ کے بولنے پر افرحہ نے اسے ساری بات بتا دی تھی۔۔
"ہم صبح ہی پولیس میں رپورٹ لکھوائیں گے۔۔تم فکر مت کرنا اس آدمی کو تو جہنم پہنچا کر ہی میں سانس لوں گی۔۔"
بریرہ اس کو گلے لگاتی بول رہی تھی۔۔افرحہ کا تر چہرہ اس نے نرمی سے صاف کیا تھا۔۔
"تم چاہو تو آج رات میرے ساتھ سو سکتی ہو۔۔"
بریرہ اس سے نرمی سے بولی تھی۔۔افرحہ نفی میں سر ہلاتی خاموشی سے اٹھ کر ریسٹ کرنے چلی گئی تھی۔۔
وہ ساری رات سو نہیں پائی تھی۔نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔اس نے بس کروٹیں بدلتے رات گزاری تھی۔
دو دن گزر چکے تھے افرحہ اپنے کمرے سے نہیں نکلی تھی۔بریرہ اسے کافی اسرار بھی کر چکی تھی باہر نکلنے کا۔۔لیکن وہ ڈٹ گئی تھی کہ یونیورسٹی کے علاوہ کہیں نہیں جائے گی۔۔یہاں تک کہ ول بریرہ کے ساتھ پولیس اسٹیشن بھی نہیں گئی تھی۔
شاہزیب افرحہ سے نہیں ملا تھا لیکن بریرہ سے اس کا حال چال پوچھتا رہا تھا۔۔آج پیر کا دن تھا۔افرحہ خاموشی سے یونیورسٹی کے لیے تیار ہو رہی تھی اس کی حالت اب قدرے بہتر تھی۔۔گہرا سانس لیتے اس نے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے اپنا انحیلر نکال کر بیگ میں ڈالا تھا۔۔
"برڈی ناشتہ کرکے جانا میں نے پین کیکس بنائے ہیں۔۔"
بریرہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔افرحہ سر ہلاتے کیچن میں آگئی تھی۔
"تھینک یو ناشتہ بہت ٹیسٹی تھا۔۔"
افرحہ نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے بریرہ کو جواب دیا تھا جس سے وہ کھل اٹھی تھی۔اپنا ناشتہ مکمل کرتے وہ بیگ اٹھا کر فلیٹ سے نکلی تھی اکیلے بس اسٹاپ تک جانے کے بارے میں سوچ کر بھی اس کا دل کانپ رہا تھا۔
لفٹ میں داخل ہوتے اس کا سامنا شاہزیب سے ہوا تھا۔۔شاہزیب کو دیکھتے اس کے گال خود بخود سرخ ہوگئے تھے۔۔وہ نظریں جھکائے خاموشی سے اس کے برابر کھڑی ہوگئی تھی۔۔
شاہزیب کو اس کی خاموشی بری طرح چبھی تھی۔
"اب سے میں تمھیں یونیورسٹی اور گھر تک پک اینڈ ڈراپ دیا کروں گا۔۔"
خاموشی میں شاہزیب کی بھاری آواز گونجی تھی۔۔افرحہ نے نظریں اٹھاتے حیرت سے شاہزیب کو دیکھا تھا۔۔
"آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں میں خود چلی جاوں گی۔۔میں نہیں چاہتی بعد میں آپ کو مجھے اپنے ساتھ لے جانا سب سے بڑی غلطی محسوس ہو۔۔"
افرحہ نظریں جھکاتی سنجیدگی سے طنزیہ انداز میں بولی تھی۔۔شاہزیب نے ائبرو اچکاتے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔
"تم میرے ساتھ جایا کرو گی دیٹس فائنل اس پر مزید کوئی بحث نہیں ہوگی۔۔"
شاہزیب سخت لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ کی نظریں بےساختہ دوبارہ اٹھی تھی۔۔
"لیک۔۔"
افرحہ نے بولنا چاہا تھا جب لفٹ کے کھلنے پر شاہزیب درشتگی سے اس کی بات کاٹتا اسے بازو سے پکڑتا اپنے ساتھ پارکنگ لاٹ کی طرف لے جانے لگا تھا۔۔
"تمھیں پیار کی بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔چلو چپ چاپ اندر بیٹھو۔۔"
شاہزیب سرد لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ نے خشمگی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔۔
وہ بچوں کی طرح سینے پر بازو باندھے منہ پھولا کر کھڑی ہوگئی تھی۔۔شاہزیب کو وہ اس وقت روٹھی ہوئی بچی لگ رہی تھی۔۔
"افرحہ مجھے اب دوبارہ نہ کہنا پڑے جلدی سے اندر بیٹھ جاو ورنہ زبردستی تمھیں سیٹ پر پھینکنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔۔"
شاہزیب کے تیز لہجے میں بولنے پر افرحہ گھبراتی ہوئی فورا کار میں بیٹھ گئی تھی۔شاہزیب نے اس کے بیٹھنے پر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی۔
سارے راستے وہ روٹھے بچے کی طرف خاموشی سے بازو باندھ کر بیٹھی رہی تھی۔شاہزیب نے ایک نظر اس کے پھولے ہوئے چہرے پر ڈال کر مسکراہٹ دبائی تھی۔۔
"اب یہاں سے چل کر یونیورسٹی چلی جاو۔۔میں ہر روز یہاں سے پک کیا کروں گا اور یہاں ہی ڈراپ کیا کروں گا۔۔تمھارا فون نمبر میں بریرہ سے لے چکا ہو تمھیں یونیورسٹی جاکر میسج کروں گا سیو کر لینا۔۔میں تمھیں یہاں سے پک کرنے سے پہلے میسج کردیا کروں گا۔۔اوکے؟"
شاہزیب نے گاڑی یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر روک دی تھی کیونکہ ان دونوں کا ایک ساتھ جانا مناسب نہ تھا۔
"آپ خواہ مخوہ میری ٹینشن لے رہے ہیں میں خود آ جا سکتی ہوں۔۔"
افرحہ معصومیت سے لب کاٹتے بولی تھی وہ اسے زحمت نہیں دینا چاہتی تھی۔۔
"ہم دونوں ایک جگہ رہتے ہیں اور ٹائمنگ بھی سیم ہے اس لیے مجضے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔اب جاو اور گھبرانا مت۔۔"
شاہزیب نرم لہجے میں بولا تھا۔۔
افرحہ اس کی بات پر سر ہلاتی نکل گئی تھی۔۔شاہزیب سلو سپیڈ سے اس پر نظر رکھے کار چلا رہا تھا۔۔افرحہ کے یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب پہنچتے ہی وہ بھی یونیورسٹی میں اینٹر ہو گیا تھا۔
جاری ہے۔۔