ZombieWar - Last Episode

0

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 21  (LAST EPISODE)

Season 1 Ends

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu

-=-

کاظم نے آتے ہی سینے پر وار سے اس بڑے آدمخور کو پیچھے پٹک دیا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ آدمخور مکمل طور پر دوبارہ کھڑا ہوتا کاظم نے ایک اور وار سے اسے دوبارہ گرا دیا۔ اس بار وہ کسی بلڈنگ سے ٹکرایا اور اس بلڈنگ بھی نیست و نابود کر دی۔ کاظم ایک بار پھر سے داڑھا اور اسے داڑھتا دیکھ کر وہ آدمخور بھی دھاڑ اٹھا۔ 


اس نے بھی اٹھتے ہی اپنے سینگھوں سے کاظم کے سینے پر وار کیا۔اس کے سینگھ کاظم کے سینے میں اندر تک گڑھ گئے۔ کاظم کے حلق سے ایک خوفناک چیخ نکلی۔ اب تک کاظم بھی زمین پر گر چکا تھا اور اسے بےحرکت دیکھ وہ بڑا آدمخور بھی اپنے چمگادڑی پروں کو پھیلاتے ہوئے اوپر آسمان کی طرف اُڑا۔


جلال، بریعہ اور حنیف جلدی سے اب اس بلڈنگ سے اترنے لگے تاکہ کاظم کو اٹھا سکیں۔ البتہ وہ دور تھے لیکن اس وقت جذبات انھیں کہہ رہے تھے کہ وہ کر لیں گے۔ وہ جیسے ہی سیڑھیوں سے اترتے جاتے آدمخور بھی نظر آنا شروع ہوگئے۔ جو اس بلڈنگ میں کسی بوڑھے آدمخور سے لڑ رہے تھے۔جلال اور حنیف نے کچھ گولیوں سے انھیں ختم کر دیا۔ وہ بوڑھا آدمخور انھیں بھی جوان آدمخور سمجھ کر ان کی طرف بڑھا لیکن جلد ہی انھیں دیکھ کر رک گیا۔ 


وہ تینوں اور یہ آدمخور اس بلڈنگ کے آخری فلور پر تھے اور اب جلدی سے باہر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ باہر بھی بہت سارے آدمخور ابھی بھی ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ان میں سے چند آدمخور انھیں دیکھ کر ان کی طرف پلٹے جلال نے اور حنیف نے بھی فائرنگ شروع کر دی اور وہ بوڑھا آدمخور جو ان کے ساتھ باہر آیا تھا وہ بھی ان پر حملہ آور ہو گیا۔ 


جلال نے موقع دیکھ کر ان دونوں سے وہاں سے نکلنے کے لیے دوسری بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا جس کے اس پار کاظم گرا پڑا تھا۔ اس وائرس نے کاظم کو ایک الگ ہی شے بنا دیا تھا۔ کاظم کسی جسامت بھی کسی انسان سے کئی گنا بڑی تھی جتنی کہ اس بڑے آدمخور جوکہ دو منزل تک بڑا تھا تقریباً اسی کے جتنی تھی۔


وہ تینوں اس بلڈنگ کے ایک طرف سے گھس کر سامنے دوسری طرف والے دروازے سے نکلے۔جلال اور حنیف اردگرد گنز تانے آگے بڑھتے رہے اور جو کوئی آدمخور آتا اسے ختم کر دیتے لیکن بریعہ نے ادھر دیکھی نہ ادھر وہ بس اس طرف تیزی دے دوڑے جا رہی تھی۔ جس طرف کاظم تھا۔ یعنی بلڈنگ کے دوسری جانب۔ بریعہ سب سے پیلے اس بلڈنگ کے دوسری جانب آنکلی لیکن تب تک تو انتہائی دیر ہو چکی تھی۔ وہ بڑا آدمخور آسمان سے اچانک نمودار ہوا اور کاظم کی طرف اپنے گول تیکھے سینگھ سادھے گر رہا تھا۔ کیونکہ اس نے جان بوجھ کر زیادہ طاقتور وار کے لیے اپنے پر بھی بند کر لیے تھے۔ 


اس بڑے آدمخور کی کاظم کے لیے دشمنی اور کاظم کے جسم پر خون دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ کاظم پہلے بھی یعنی جب ان سے دور بھاگا تھا تب جا کر اس بڑے آدمخور سے لڑ چکا تھا۔ تبھی تو کاظم اس سے لڑنے اور روکنے واپس لوٹ آیا تھا۔ 


اس آدمخور کے زمین پر پہنچتے ہی اس کے سینگھ کاظم کے سینے میں گڑھ کر آر پار ہو گئے ۔کاظم ایک جھٹکے سے ہلا لیکن کسی کیل سے لٹکی بے جان شے کی طرح کچھ نہ کر پایا اور ایسے میں سے کے حلق سے ایک اور چیخ نکلی اور ساتھ ہی اس بڑے آدمخور کے زمین سے ٹکر کی وجہ سے ایک زور دار لہر اور زمینی تھرتھراہٹ چاروں طرف پھیل گئی۔ پہلے بریعہ قریب ہونے کی وجہ سے جلدی ہی اس لہر کی زد میں آکر پیچھے جا گری اور پھر جلال اور حنیف جوکہ ابھی دروازے سے نکلے ہی تھے وہ بھی پیچھے جا گرے۔ 


جیسے جیسے وہ لہر بڑھتی گئی کمزور ہوتی گئی اور دوسرے آدمخوروں بھی لٹکتی گئی۔ جلدی ہی وہ لہر آئی۔ ایس آئی ہیڈکوارٹرز تک جا پہنچی اور کسی شاہین نے کمپیوٹر پر کچھ بٹن دبائے اور مین جنرل کے پاس جا کر کر انھیں پاس ہی کسی زمینی حملے کی خبر دے دی۔


  " سر۔۔۔۔۔۔۔۔ہیڈکوارٹرز کے قریب ہی کوئی بڑی جسامت والی شے زمین سے ٹکرائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رہا سارا ڈیٹا۔۔۔۔۔ سر یہ کسی بیرونی حملے کی نشانی نہیں ہو سکتی کیونکہ ہندوستان اس وقت پوری طرح مٹ چکا ہے۔۔۔۔ چائنا حملہ کرے گا نہیں۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے ممالک کے پاس ایسے حالات میں حملے کی کوئی وجہ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سر ہمیں ایک بار احتیاط سے اس سپیشل سلور کوپس کو بھیج کر معاملے کی خبر پکی کر لینی چاہیے " یہ کہہ کر وہ فوجی جوان زرا پیچھے ہٹ گیا۔ 


  " اس جگہ کا فاصلے ناپو اور ابھی اس کی اگزیکٹ لوکیشن پتہ کرو۔سپیشل سلور کوپس( ایس ایس سی) کو بھی الرٹ دو کہ جلدی تیاری پکڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں ابھی نکلنا ہو گا۔ " ساتھ ہی وہ جوان پھر سے بولا


  " سر وہ یہاں سے تقریباً سات سو پچھتر میٹرز کے فاصلے پر ہیں "اس فوجی جوان نے پھٹ سے جواب دیا۔ 


   " اچھا تو ہمیں پہلے ایک چوپر بھی کر وہاں کر حالات کا اچھے سے پتہ کر لینا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔میجر حامد( سپیشل سلور کوپس کے چیف )کو جلدی سے میرے روم میں بھیجو "یہ کہہ کر ابھی جنرل چلنے ہی والے تھے کہ ایک اور فوجی جوان بھاگتا ہوا قریب ہوا۔ اس کی سانسیں پھول رہیں تھیں لیکن پھر بھی بولا

 

      " سر جی۔۔۔۔۔۔ اُدّے اک وڈی شے ڈگی اے۔۔۔۔۔۔۔ سر جی اس دے وڈے وڈے چم چڑک ترا دے پر تے شید سر تے سنگ وی سی۔۔۔۔۔ سر جی منو او چنگی طراں تے نئیں دکھیا پر کوئی وڈی مصیبت ای سی۔۔۔۔ " فوجی ابھی بھی ہانپ رہا تھا۔ کہ دوسرے فوجی نے جلدی سے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔جسے وہ گٹک کر پی گیا۔ 


جب دھول کے لہریں کمزور ہوئیں تو مئی بھی واپس زمین پر آنے لگی۔سبھی کو وہ بڑا آدمخور زمین میں سے اپنے سینگھ نکالنے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا تھا جو کاظم کے سینے سے ہوتے ہوئے راولپنڈی کی سخت زمین پر بنی سڑک کے اندر دھنسے ہوئے تھے۔ 


اچانک ایک جھٹکے سے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے سینگھ آزاد تو ہو گئے لیکن کاظم ابھی ان میں سے نکلا نہیں تھا۔ اس بڑے آدمخور نے کافی کوشش کی لیکن وہ اسے نکال نہیں پایا۔کاظم بھی کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا۔ اب وہ بڑا آدمخور بھی تھک چکا تھا تو اس کے سینگھ بھی اسے وزنی لگنے لگے۔ اس نے تھیکن کی وجہ سے سر تھوڑا جُھکا لیا۔ 


سبھی کو یہ دکھ رہا تھا کہ اب کاظم نہیں اٹھ سکے کیونکہ وہ شاید مر چکا ہے لیکن جونہی کاظم کے پاؤں زمین سے ہمرابطہ ہوئے کاظم نے یکدم آنکھیں کھول لیں اور زور سے دونوں ہاتھوں سے اس کے دونوں سینگھ پکڑ لیے ۔ اب کاظم اس کے سینگھوں کو اس کے سر توڑ کر کرنا چاہتا تھا کیونکہ شاید یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا تھا جس سے یہ ہلاک ہو جائے۔ کاظم نے اپنی پوری طاقت لگانی شروع کی جس سے اس بڑے آدمخور کو بھی تکلیف شروع ہوئے۔ اس نے اپنے سینگھ بار بار اردگرد کی بلڈنگز میں مارنے شروع کر دیے تاکہ وہ کاظم کو مکمل ختم کر سکے۔ 


کاظم بار بار کبھی اس طرف کی عمارت سے ٹکراتا تو کبھی اس طرف کی بلڈنگ سے لیکن ہر بار اور زیادہ مضبوطی سے زور لگاتا کیونکہ اب اگر کاظم زور لگانا بند بھی کرتا تو بھی اس سے بچ نہ پاتا۔آخر کار تیکھی سی ' کڑک ' کی آواز آئی۔ جس کے ساتھ ہی اس آدمخور کی ہلچل بھی بند ہوتی گئی۔ کچھ پل بعد وہ آدمخور نیچے گر پڑا لیکن کاظم کھڑا رہا۔ اس کے سینے میں ابھی بھی وہ دو سینگھ گڑھے ہوئے تھے جوکہ جڑوں سے اس بڑے آدمخور کے سر پر سے ٹوٹ چکے تھے۔ 


کاظم نے ان سینگھوں کو ایک بار پھر سے پکڑا اور اپنے جسم سے جدا کرنے لگا۔ ظاہر سی بات ہے تکلیف تو کسی انتہا کی ہوئی ہوگی۔ جس کا ثبوت اس کی دانتوں کی دبائی ہوئی آوازیں دے رہیں تھی۔ کوشش ایک بار پھر سے کامیاب ہوئی۔ اس کے سینے سے سینگھ نکل کر ہاتھوں میں آچکے تھے۔ کاظم نے ایک بار پھر سے داڑھ ماری۔ 


اب شاید کاظم بےہوش ہونے والا تھا ۔ آوازیں بھی کم ہو گئیں تھیں اور وہ سب جوان آدمخور اپنے سے بڑے آدمخور کو بھی زمین بوس ہوا دیکھ کر یا کاظم کی دھاڑ سے لیکن لرز گئے۔ اس سے پہلے کہ کاظم خاموش ہوتا ہے وہ بڑا آدمخور ایک بار پھر سے اٹھا اور اپنے چمگادڑی یا چوہوں ( دونوں سے ملتا جلتا تھا ) جیسا منہ کھول کر کاظم کے کاندھے کو اپنا شکار بناتے ہوئے اپنے منی میں جکڑ لیا۔ 


جلال اور حنیف نے یکایک گنز اٹھائیں اور اس آدمخور کے چہرے پر فائز کرنا شروع کر دیے۔ وہ گولیاں اس کے لیے بس مچھروں کی طرح تھیں۔ کاظم نے ایک بار پھر سے ہمت دکھائی اور اس کے چھوٹے سے سر کو اپنے دوسرے ہاتھ سے الگ کرنے کی کوشش کے اور اپنے مظلوم کاندھے والے ہاتھ سے اسے پیچھے دھکیل دیا۔ اس کے زرا پیچھے ہٹتے ہی کاظم نے ایک چھلانگ لگا کر دونوں ہاتھوں سے ایک مکا بنایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ اس بار جس گرامی سے وہ گرا تھا یہ طے ہو چکا تھا کہ وہ ختم ہو گیا۔


لیکن ایک اور خطرناک موڑ پیدا کر دیا۔ اب کاظم ڈائریکٹ اس آدمخور سے انفیکٹ ہو گیا جس کے بنائے ہوئے ایک آدمخور نے کاظم کو اس وقت سب سے پہلے اپنا شکار بنا کر اس موڑ تک پہنچایا تھا۔ 


دوسری طرف ہیڈکوارٹرز سے ایک طاقتور سپیشل چوپر ( ہیلی کاپٹر ) لے کر سپیشل سلور کوپس نکل چکے تھے۔ تین طاقتور ترین ہیلی کاپٹرز میں بہترین کوپس ہتھیاروں سے لیس معائنہ کرنے اس طرف آرہے تھے۔ 


کاظم کے جسم میں ایک بار پھر سے وائرس کے وجود نے زور پکڑا۔کاظم نے پھر سے اس زور کو وجودِمحبت سے زیر کر دیا۔کاظم نے آگے بڑھ کر بریعہ اور ان سب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کوئی ہلا بھی نہیں۔ کاظم کے پاس وقت بھی شاید کم تھا اپنے آپ کو روکنے کے لیے۔ اس نے مزید آگے بڑھ کر ان تینوں کو ہاتھوں میں اٹھا لیا اور ہیڈکوارٹرز کی طرف چل دیا۔ چوپرز دیکھ کر تھوڑا جھکا اور عمارات کے پیچھے چھپ گیا۔ ہیلی کاپٹرز آگے بڑھ گئے اور اس بڑے آدمخور کے قریب جا رکے۔


کاظم نے موقع پایا اور دوڑ کر ہیڈکوارٹرز کی طرف چل دیا۔ اینٹیڈوڈ کو میزائلز میں لوڈ کر کے لانچ کر دیا گیا ۔ اگلے تیس سیکنز میں وہ اینٹیڈوڈ جلد ہی قریب ترین جگہ جہاں پر انفیکٹڈز بھی ہو اور وہ جگہ میسر بھی ہو۔ وہاں پر گرایا جانا تھا۔ 


کاظم جلد ہیڈکوارٹرز کے دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ دروازے پر کھڑے فوجیوں نے بھی فائرنگ شروع کر دی لیکن جلال، بریعہ اور حنیف کے روکنے پر وہ رُک گئے۔ 


اب وائرس بھی کاظم کے جسم کو بےقابو کرنے لگا۔ ہیلی کاپٹرز بھی اب اسی طرف مڑنے لگے۔ شاید انھیں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ کاظم کے پاس بھاگنے کا حق تھا لیکن سامنے زندگی تھی تو کہیں جا پایا۔ جیسے اس کے قدم زمین نے جکڑ لیے ہو۔کسی کو نہیں سمجھ آئی کہ وہ کاظم ہے اور اگر سمجھ آ بھی جاتی تو کیا ہوتا۔ وہ تو کاظم کو جانتے اور پہچانتے بھی نہ تھے۔ 


جیسے ہی قریب پہنچے۔ انھیں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ ہیلی کاپٹر کی مشین گنز میں سے نکلی گولی کسی بندوق سے نکلی گولی سے سینتیس گنا طاقتور ہوتی ہے۔ ہر گولی کاظم کے جسم سے آر پار ہوتی گئی۔ایک طرف وہ اینٹیڈوڈ فلڈ میزائلز مخصوص جگہوں پر جا گڑھیں۔ان میزائلز کو خاص ایسے کاموں کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔ اس لیے ان میزائلز کے فیول میں ایسے گیس( شاید میتھین) کا استعمال ہوا تھا جس کے جلنے پر نیلی آگ پیدا ہوتی تھی اور میزائل کو دور تک لیجانے کو مزید آسان بناتی ہے۔ 


جب وہ میزائلز زمین کے طرف جا بڑھیں تو اس آدمخوروں کی بھیڑ میں ایک بوڑھے آدمخور کو کسی نوجوان کی اک بات یاد آئی جوکہ یہ تھی

 " - " بابا جی۔۔۔۔۔۔ ان چھوٹی موٹی مصیبتوں سے یہ دنیا مٹنے والی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔جس دن یہ دنیا( کفر کی دنیا )مٹے گی نا۔۔۔۔ تب ایک چمکتی نیلی روشنی کا گولا آسمان سے اترے گا اور اس زمین کا سینہ چیرتے ہوۓ اندر گھس جاۓ گا " -


کاظم کا وجود تو وہیں تھا لیکن ان گولیوں میں سے کوئی گولی اس کی روح لے نکلی۔ان کی دنیا میں سرعام سناٹا چھا رہا تھا۔بریعہ دوڑ کر اس کی طرف بھاگی لیکن جلال نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے اسے روک لیا گیا۔ 


اینٹیڈوڈ جیسے ہی پھیلتا گیا سبھی انفکٹڈز زمین پر گرتے گئے اور چند منٹوں بعد واپس ہوش میں آتے گئے۔بہت سارے لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑے جن کی قسمت میں ملنا لکھا تھا وہ مل گئے۔ وقت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک لونا شروع ہوگیا۔ ایک نئی دنیا نے جنم لیا۔ یہ بات کسی لحاف سے درست نہیں کہ وہ دنیا جرم سے پاک ہوگی۔


 اینٹیڈوڈ کی جلدی جلدی پھیلنے والی خوبی شیلٹر ہاؤس کے لیے بھی فائدہ مند ٹھہری۔ وہیلز مچھلیاں بھی جلد پانی میں اینٹیڈوڈ کے پھیلنے کی وجہ سے اب رک گئیں تھی لیکن شیلٹر ہاؤس کی پراٹیکٹو لئیر اب زیادہ طاقتور نہ رہی تھی اس لیے ایمرجنسی ایگزاسٹ( ایسا کمرہ جس میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں سارا سٹاف اکٹھا بچایا جا سکتا ہے اور پانی سے باہر محفوظ آیا جا سکتا ہے ) کو استعمال کرتے ہوئے بچ گئے۔ 


شیلٹر ہاؤس کی اب نئے سرے سے بنیاد رکھی گئی ۔ جلدی ہی شیلٹر ہاؤس دوبارہ سے مکمل طور پر تیار ہو چکا ہوگا اور اسی خفیہ انداز مین جاری ہو کر سب پر نظریں گاڑھ کر ان کو ان کے انجام تک پہچانا شروع کر دے گا۔ ہر مصیبت کوئی نہ کوئی نقصان ص

ضرور کرواتی ہے۔ وہ چاہے جانی ہو چاہے مالی۔ بہت سارا جانی نقصان بھی ہوا۔ جسے ہر ملک نے اپنے اپنے طور طریقوں سے کچھ نے دفنا دیا کچھ نے جلا دیا ۔ جس کی جیسی تربیت ہوئی تھی۔ 




چار ماہ بعد -




ایک چمچماتی گاڑی رہنما ہوم کے سامنے آ کر رکی۔ اس میں سے ایک مرد اور ایک عورت نکل کر اس بڑے کھلے مکان میں داخل ہو گئے۔ اس عمارت کے باہری گارڈن میں بہت سارے بچے اور بچیاں کھیل کود رہے تھے۔ تب ایک عورت اس عمارت سے باہر نکلی اور ایک کھلے چہرے کے ساتھ ان بچوں میں جا کھل مل گئی 

   " دیکھو بچو۔۔۔۔۔۔۔اب ہم سب یہاں سے لائن میں اندر جائیں گے اور سیدھے ٹیبل پر جا کر بیٹھیں گے اور سب سے پہلے کیا کرنا ہے بھلا ؟ " یہ کہتے ہوئے اس عورت نے ان بچوں سے سوال کیا جس پر سارے بچے ایک ساتھ بولے " ہمیں سب سے پہلے اللہ سے اس ملک کی سلامتی اور اپنے پیاروں کے لیے دعا کرنی ہے " سب بچوں نے ایک ساتھ لائن میں کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا۔ 


وہ مرد اور عورت رک کر اسے دیکھنے لگے۔ تبھی اس کی نظر ان دونوں پر پڑ گئی اور ان پچوں کو جانے کا کہہ کر خود ان کی طرف آنے لگی۔ 

   " ارے جلال بھائی۔۔۔۔۔۔ آپ یہاں " اس نے آتے ہی کہا


   " تمھارے پاس کہاں وقت ہوتا ہے آنے کا۔۔۔۔۔۔ سوچا ہم ہی آ جائیں ملنے تم سے " جلال کے ساتھ کھڑی برّہ بولی۔ 


   " بریعہ۔۔۔ کل بارہ اکتوبر ہے ۔۔۔ کاظم کے۔۔۔فانی ہونے کا دن۔۔۔ کل شیلٹر ہاؤس میں اس کے احترام میں ایک حلقہ( جلسہ وغیرہ ) رکھا گیا ہے۔۔ ہم سب کو آنے کا کہا گیا ہے۔۔ کاظم کے لیے شیلٹر ہاؤس کا نام بھی " شیلٹر کے " تجویز کیا جائے گا ۔۔  مجھے معلوم ہے تم نے اب اس یتیم خانے کو اور اس کے یتیم بچوں کو اپنا سب مان لیا ہے۔۔ بلکہ اب تو تمھارے بابا کا بھی یہی کہنا ہے کہ تمھیں جانا چاہیے۔۔۔۔ سچ میں بریعہ۔۔ کاظم کو بہت اچھا لگے گا " جلال کے یہ کہتے ہی بریعہ کے چہرے پر سے وہ کھوکھلی مسکراہٹ غائب ہو گئی اور چلتی ہوئی گلاب کے پودے کے قریب آ کھڑی ہوئی۔ 


گلاب کی ٹہنی پکڑ کر اپنے قریب لائی اور پھر واپس مڑی۔ 

        " ہم ضرور جائیں گے "


________________________ختم شد_______________________

Season One Ends Here.

Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)