Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 2
#student_teacher_based
- - -
"شاہ یار کیوں ڈرگز لیتے ہو ؟۔۔کتنی بار میں منع کرچکا ہوں مجھے تو لگتا ہے میری بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔"
عادل خفگی سے شاہزیب کی طرف دیکھتا بولا۔عادل اس کا بہترین دوست تھا۔جو اس کے مشکل وقت میں ساتھ تھا۔
"اور تمھیں میں کتنی بار جواب دے چکا ہوں یہ میرے لیے سکون کا باعث ہیں۔۔ورنہ میری سوچیں مجھے پاگل کردیں گی۔"
وہ سگریٹ سلگاتا گہرے کش لیتا خالی خالی نظروں سے آسمان کو دیکھتے ہوئے بولا۔وہ اس وقت عادل کے گھر موجود تھا۔وہ عادل کے بلانے پر اس سے ملنے آیا تھا۔
"یہ ڈرگز تمھاری جان لے لیں گے۔۔"
عادل جھنجھلا کر بولا تھا۔
"زندہ رہنا کون چاہتا ہے ؟"
وہ احساسات سے عاری لہجے میں بول رہا تھا۔عادل کی نظریں بےساختہ اس کے چہرے کی طرف گئی تھیں۔جہاں گہری مایوسی اور وحشت کے سائے لہرا رہے تھے۔
"شاہ میں جانتا ہوں ماضی میں جو ہوا وہ تیرے لیے ٹرامیٹک ہے لیکن اب ماضی سے نکل آو۔۔حال میں جینا سیکھو۔۔اور اپنی فیملی کے بارے میں سوچو۔۔"
عادل نے آخری الفاظ بولتے ہی اپنے لب دبائے تھے۔
"ایک بات تو میری کان کھول کر سن لے۔۔دوبارہ کبھی میری فیملی کا ذکر نہ کرنا۔۔ورنہ تیری جان لے لوں گا۔۔کوئی نہیں ہے میرا۔۔"
ایک ہی جھٹکے میں اٹھتے شاہزیب نے اس کو شرٹ سے پکڑ کر کھڑا کرتے وحشت زدہ لہجے میں کہا تھا۔
"شاہ۔۔میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا تھا۔"
عادل پشیماں سا بولا تھا۔
"دوبارہ کبھی یہ غلطی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔۔ورنہ تو منہ سے کچھ بولنے کے قابل نہیں رہے گا۔"
اس کی شرٹ چھوڑتا وہ سرخ آنکھوں سے سگریٹ کے کش لگاتا بول رہا تھا۔۔اس کے لہجے میں موجود وارننگ سے عادل بھی ڈر گیا تھا۔
سگریٹ زمین پر پھینکتا وہ اپنے پاوں سے مسل چکا تھا۔عادل کی طرف دیکھے بنا وہ ٹیبل سے اپنی گاڑی کی کیز اٹھاتا چلا گیا تھا۔۔
اس نے اپنا موبائل نکالا تھا جس کی سکرین ٹوٹ چکی تھی۔۔وہ کل اسے چینج کروانے کا سوچتا موبائل ڈیش بورڈ میں پھینک چکا تھا۔
افرحہ کا خیال ایک پل کو اس کے ذہن کے پردوں پر لہرایا تھا جسے وہ سر جھٹکتا اگنور کر گیا تھا۔۔اپنے اندر کی وحشت ختم کرنے کے لیے اس نے ایک بار پھر کلب کا رخ کیا تھا۔
افرحہ جب اپارٹمنٹ سے باہر نکلی تھی اس کا سامنا شاہزیب سے ہوا تھا جو اسے مکمل طور پر اگنور کیے لفٹ کی طرف بڑھ گیا تھا۔افرحہ ناک چڑھاتی اس کے پیچھے ہی لفٹ میں داخل ہوئی تھی۔
"گڈ مورننگ پروفیسر۔"
افرحہ نے مسکراتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا۔
شاہزیب نے ایک نظر اسے دیکھ کر اپنی نگاہیں پھیر لی تھیں۔افرحہ کا پارہ ایک دم ہائی ہوا تھا۔
"کسی کو اتنا سڑیل بھی نہیں ہونا چاہیے۔۔"
افرحہ دھیمی آواز میں بولی تھی۔
گرین کرتے اور جینز میں گرین ہی سٹالر گلے میں لپیٹے افرحہ نے بالوں کو پونی میں مقید کیا ہوا تھا۔اس کے برعکس شاہزیب نے فارمل ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔۔اس کے ماتھے پر بکھرے کالے بال اس کے سنجیدہ چہرے پر بے حد جچ رہے تھے۔
شاہزیب نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اس ٹڈی کو گھورا تھا۔رات ڈرنکنگ کرنے کی وجہ سے اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا اور اس کے ساتھ افرحہ کی چک چک نے اس کا دماغ مزید ہلا دیا تھا۔
"کیا آپ کے منہ میں درد ہو رہا ہے۔۔چچ۔۔آج آپ بولنے سے قاصر ہیں۔"
افرحہ اسے تنگ کرنے کے لیے مزید بولی تھی۔
شاہزیب کا پارہ ایک دم ہائی ہوا تھا۔اسے ایک دم بازو سے تھامتے شاہزیب نے اسے لفٹ کی ایک سائیڈ پر لگایا تھا۔
افرحہ کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات نمایا ہوئے تھے۔شاہزیب کی انگلیاں اسے اپنے بازو کے اندر پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
"ایک سیکنڈ لگے گا مجھے تمھارا منہ بند کرنے کے لیے۔۔"
"اور میں جس طریقے سے منہ بند کروں گا وہ تمھیں پسند نہیں آئے گا۔"
اس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لاتا وہ افرحہ کی آنکھوں میں دیکھتا چبا چبا کر بولا تھا۔
افرحہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔اس نے ایک ہاتھ شاہزیب کے سینے پر رکھتے اسے پیچھے دھکا دینے کی کوشش کی تھی جو ناکام ثابت ہوئی تھی۔
"کیا ہوا ؟ اتنی جلدی زبان بند ہوگئی ؟ "
وہ بھنویں اچکاتا استہزایہ نظروں سے اسے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔لڑائی کرتے وہ دونوں یہ نہ دیکھ سکے کہ لفٹ کب کی ایک جگہ رکی ہوئی تھی۔
"آ۔۔آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔۔"
وہ آنکھیں پھیلائے ہمت کرتی تھوڑے غصے سے بولی۔
"ابھی تمھیں میرا اندازہ نہیں۔۔ میں کیا کرسکتا ہوں اور کس حد تک جاسکتا ہوں یہ جاننے کی کوشش نہ کرنا انجام اچھا نہیں ہوگا۔۔"
اسے دھمکاتے وہ جھٹکے سے اس کی بازو چھوڑ چکا تھا۔افرحہ کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔۔وہ اپنے بازو میں اٹھتی تکلیف محسوس کرتی لب بھینچ کر جلد سے جلد لفٹ سے نکلنا چاہتی تھی۔جب اس کا دھیان لفٹ کے بند دروازے کی طرف گیا تھا۔
"ی۔۔یہ لفٹ چل کیوں نہیں رہی۔۔"
افرحہ نے کانپتی آواز میں پوچھا تھا۔شاہزیب نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
افرحہ کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی۔اسے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی تھی۔
"م۔۔۔مج۔۔مجھے سانس نہیں آر۔۔آرہا۔۔"
کھینچ کھینچ کر سانس لیتی وہ بہت مشکل سے بولی تھی۔
اس کی آواز سنتے شاہزیب کی نظر بے ساختہ اس کی طرف گئی تھی۔جس کی حالت بگڑ رہی تھی۔
"پینک کیوں ہو رہی ہو ؟ جسٹ سٹے کالم۔۔"
شاہزیب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اس لیے وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔
"م۔۔میرا ا۔۔انحیلر ب۔۔بیگ۔۔"
افرحہ کے زمین پر پڑے بیگ کی طرف اشارہ کرنے پر شاہزیب نے فورا جھکتے اس کا بیگ اٹھا کر کھولتے انحیلر نکالا تھا۔
شاہزیب کے انحیلر پکڑانے پر کانپتے ہاتھوں سے اس نے انحیلر استعمال کیا تھا۔جس سے آہستہ آہستہ اس کی سانس بحال ہونے لگی تھی۔
"پینک ہونے کی ضرورت نہیں ہے کچھ ہی دیر میں لفٹ اوپن ہوجائے گی۔۔"
شاہزیب اس کی طرف سے رخ موڑتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔افرحہ نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔جو بے نیاز بنا اپنا ٹوٹا موبائل نکال کر استعمال کرنے لگ گیا تھا۔
افرحہ ناک چڑھاتی خود کو پرسکون کرنے کے بعد لفٹ کے فلور پر بیٹھ گئی تھی۔کچھ ہی دیر میں لفٹ واپس چل پڑی تھی۔ٹیکنیکل ایشو کی وجہ سے لفٹ کچھ دیر کے لیے رکی گئی تھی۔
شاہزیب لفٹ کھلتے ہی تیزی سے نکل گیا تھا۔افرحہ نے اسے روکٹ کی سپیڈ سے جاتے دیکھ کر ناک چڑھایا تھا۔
"سڑیل۔۔۔"
" کھڑوس۔۔"
وہ منہ میں بڑبڑاتی تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔
افرحہ اسائمنٹ مکمل نہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر شاہزیب کے سامنے آفس میں موجود تھی۔منہ بگاڑتی وہ ہاتھوں کو بے چینی سے مسل رہی تھی۔۔
"مس افرحہ آجائیں آپ کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔۔"
اسے دیکھتا شاہزیب طنزیہ بولا تھا۔۔
افرحہ اپنا حلق تر کرتی اسے بس گھور کر رہ گئی تھی۔
"پہلے میرے موبائل کی پیمنٹ کریں۔۔"
شاہزیب کے پیسے مانگنے پر اس نے منہ بگاڑا تھا۔
"غلطی آپ کی بھی تھی۔۔"
وہ منہ بنا کر بولی تھی۔
"ابھی اور اسی وقت میرے پاس شرافت سے یہاں رکھ دو۔۔ورنہ تم جانتی نہیں میں بہت خطرناک بندہ ہوں۔۔"
شاہزیب اپنا کورٹ اتار کر کرسی پر لٹکا چکا تھا اب وہ اپنے بازو کے کف فولڈ کرتا خطرناک انداز میں بولتا افرحہ کا خون خشک کر گیا تھا۔
"میں بس اتنے ہی پیسے دے سکتے ہوں۔۔"
چند سکے اور ایک نوٹ اپنے بیگ سے نکالتی وہ میز پر رکھ چکی تھی۔
"تم سے اتنے پیسوں کی ہی امید تھی۔۔۔اب اسائمنٹ کی بات کرتے ہیں۔۔کل تین بار وہ ہی اسائمنٹ کرکے لانا ورنہ کلاس میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔"
شاہزیب پیسے اپنی جانب کھینچتا بولا تھا۔
"اللہ معاف کرے آپ جیسا (سڑیل) شخص میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔۔آپ کو شرم نہیں آئی مجھ معصوم کے پیسے لیتے ہوئے۔"
اپنے پیسے چلے جانے کے غم میں دہائی دیتے ہوئے بولی تھی۔
"ایک منٹ میں یہاں سے چلی جاو۔۔نہیں تو باقی پیسے بھی لے لوں گا۔۔"
شاہزیب آنکھیں گھماتا بولا تھا۔۔یہ لڑکی اسے سخت زہر لگ رہی تھی۔
"اللہ پوچھے آپ سے۔۔"
وہ دہائی دیتی پیر پٹھکتی چلی گئی تھی۔شاہزیب نے اس کے جاتے ہی سکون کا سانس لیا تھا۔
رات کا وقت بریرہ کلب سے نکلتی گاڑی میں بیٹھی فلیٹ پر جارہی تھی۔جب گاڑی خراب ہونے کی صورت میں وہ گاڑی سے نکلتی لفٹ مانگنے لگی تھی۔۔
ایک گاڑی بمشکل اس کے پاس رکی تھی بریرہ نے شکر کا سانس لیا تھا۔
"مجھے لفٹ چاہیے۔۔"
بریرہ نے گاڑی سے جھانکتے شخص کی طرف دیکھتے کہا تھا۔۔
"کہاں جانا ہے۔۔"
عادل نے اس لڑکی کا حلیہ دیکھتے منہ پھیر لیا تھا۔ شارٹ بلیو شرٹ اور ٹائٹ جینز میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔بریرہ کے اڈریس بتانے پر وہ لفٹ دینے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔وہ بھی اسی طرف جارہا تھا شاہزیب سے ملنے کے لیے۔
بریرہ کے قریب سے آتی شراب کی سمیل سے عادل نے منہ بگاڑا تھا۔۔
"شرم نہیں آتی اس وقت کلب میں جاتے ہوئے۔۔"
"تمھارے پیرنٹس وغیرہ نہیں روکتے۔۔"
عادل ناگواریت سے بولا۔
"میرے پیرنٹس تک پہنچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔اپنی حد میں رہو۔۔ صرف لیفٹ مانگی سر پر چڑھ کر ناچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
بریرہ اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھی۔
"نکلو۔۔پہلی فرصت میں نکلو تمھاری جیسی آوارہ لڑکیوں کو میں منہ نہیں لگاتا بس ترس کھا کر لفٹ دی تھی۔۔"
ایک جگہ گاڑی روکتے اس نے بنا لحاظ کیے بریرہ سے کہا تھا۔۔
"چٹاخ۔۔آوارہ تم ہوگے۔۔بغیرت انسان۔۔"
بریرہ غصے میں تھپڑ مارتی اسے ساکت چھوڑ کر گاڑی سے نکل گئی تھی۔۔عادل نے غصے سے اس کو جاتے دیکھا تھا۔۔اپنی تربیت کا لحاظ نہ ہوتا تو وہ بھی اس کو دو چار تھپڑ لگا دیتا۔۔
"جاہل۔۔بدتمیز۔۔بھاڑ میں جائیں سب۔۔ میرا جو دل کرے گا میں وہ ہی کروں گی۔۔"
وہ سگریٹ نکالتی سلگانے لگی تھی۔۔سگریٹ بھی جب اسے پرسکون نہ کرسکی تو اسے بجھاتے وہ چلتے ہوئے گھر جانے لگی تھی۔
افرحہ نے آج جان چھڑوانے کے لیے شاہزیب کی کلاس ہی اٹینڈ نہیں کی تھی۔اس نے اسائمنٹ بھی مکمل نہیں کی تھی اور ساری کلاس کے سامنے وہ ایک بار پھر اپنی انسلٹ نہیں کروانا چاہتی تھی۔۔
آج وہ اپنا موبائل بھی گھر بھول گئی تھی۔اس لیے سارا دن وہ بور ہوتی رہی تھی۔۔تبھی اپنی بوریت دور کرنے کے لیے اس نے کام کرنے کا سوچا تھا۔
وہ لائبریری میں سے اپنی اسائمنٹ کے لیے بک لینے آئی تھی۔۔وہ بک شلف میں سے اپنی مطلوبہ کتاب نکال رہی تھی۔۔
کتاب ڈھونڈتے اس کے ہاتھ میں کوئی انگلش اولڈ ناول لگ گیا تھا۔۔اسے پکڑتی وہ زمین پر بیٹھ کر پڑھنے لگی تھی۔۔ وہ ایک سائیڈ پر بیٹھی ناول کی دنیا میں گم تھی جب لائبریری کا دروازہ بند ہونے پر وہ چونکی تھی۔۔لائبریری کی لائٹس بھی ڈم ہوچکی تھیں۔۔
اس کی نظر سیدھی اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر گئی تھی۔۔جہاں شام چھ بجے کا وقت تھا۔۔لائبریری چھ بجے بند ہوجاتی تھی۔۔
وہ آنکھیں پھیلائے تیزی سے اٹھی تھی اس کے پاس موبائل بھی نہیں تھا وہ گھبراتی ہوئی لائبریری کے دروازے کی طرف گئی تھی۔جو بند تھا۔ ڈر سے اس کے پسینے چھوٹ پڑے تھے۔۔
"کوئی ہے ؟ پلیز مجھے یہاں سے نکالیں۔۔ا"
اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا گھبراہٹ سے۔۔
"اللہ جی مجھے بچا لیں۔۔۔آئیندہ کے بعد میں کبھی ناول نہیں پڑھوں گی۔۔پلیز آج بچا لیں مجھے۔۔"
اپنے پیچھے سے قدموں کی آواز سنتے وہ زور سے آنکھیں میچے بولنے لگی تھی۔۔
"جن جی پلیز مجھے معاف کردیں میں خود یہاں پھنسی ہوئی ہوں۔۔کوئی نکالو مجھے یہاں سے پلیز۔۔"
وہ اپنی طرف بڑھتے قدموں کی آواز سنتی اکھڑے سانس سے بمشکل بول رہی تھی۔۔
"شٹ اپ !"۔۔۔"ایڈیٹ"
جانی پہچانی آواز سنتی وہ اچھل کر پیچھے مڑی تھی۔۔
"پ۔۔۔پروفیسر ش۔۔شاہ"
وہ بگڑے تنفس سے بولی تھی۔۔اسے دیکھ کر افرحہ کو تھوڑی تسلی ہوئی تھی۔۔
شاہ زیب خاموشی سے دیکھتے اس کے قریب آیا تھا۔۔افرحہ انھیں اپنے قریب آتے محسوس کرکے آنکھیں پھیلائے دیکھ رہی تھی۔۔
"ی۔۔یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔"
شاہ زیب کو اپنے قریب محسوس کرتے اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لی تھیں۔۔
شاہ زیب نے آنکھیں گھماتے خاموشی سے افرحہ کے پیچھے موجود سوئچ سے لائٹس اون کی تھی۔۔
وہ آنکھیں بند کیے کھڑی افرحہ کو ایک نظر دیکھتا خاموشی سے وہاں موجود ٹیبلز مین سے ایک ٹیبل کی کرسی نکالتا بیٹھ گیا تھا۔۔
اس کا موبائل آفس میں تھا جس کی وجہ سے وہ کسی کو کال نہیں کرسکتا تھا۔جبکہ لائبریری یونیورسٹی کے جس بلاک میں تھی اس حصے میں رات کے وقت کوئی نہیں آتا تھا۔
وہ جانتا تھا تبھی خاموشی سے بیٹھ گیا تھا۔۔
افرحہ کچھ نہ ہونے پر آنکھیں پٹ سے کھول چکی تھی۔۔شاہ زیب کو دیکھتی وہ منہ بناتی اس کے قریب گئی تھی۔۔
"آپ یہاں سے ہمیں نکالنے کے لیے کسی کو کال کریں۔"
وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی اس کی سانس بھی اب اکھڑنا رک چکی تھی۔۔
"میرے پاس سیل فون ہوتا تو رات کہ اس وقت میں تمھارے ساتھ یہاں ہوتا ؟"
وہ بےزاریت سے بھاری آواز میں بولا تھا۔۔افرحہ منہ بناتی اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
"اب ہم ساری رات یہاں ہی رہیں گے؟"
وہ ناک چڑھاتی معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔۔
"مس افرحہ براہ مہربانی اپنا منہ بند کرلیں۔"
شاہ زیب اپنا ماتھا مسلتا تیز لہجے میں بول تھا۔۔
"میری مرضی۔۔ میرا منہ۔۔میرا جتنا دل کرے گا میں بولوں گی۔۔میرا دل گانا گانے کو کرے گا میں گانا گاوں گی آپ مجھے روک نہیں سکتے۔"
وہ اس کے تیز لہجے پر غصہ میں بولتی یہ بھول گئی تھی کہ وہ اس کا پروفیسر ہے۔۔
شاہ زیب نے اسے گھور کر دیکھا تھا جس کی زبان فورا بند ہوگئی تھی۔۔
"میں کسی کا سپنا ہوں جو آج بن چکا ہوں سچ اب یہ میرا سپنا ہے کہ سب کے سپنے سچ میں کروں۔۔آسمان کو چھو لوں۔۔تتلی بن اڑھ۔۔"
افرحہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بور ہوتی اونچی آواز میں ڈوریمون کا گانا گانے لگی تھی۔۔
"شٹ اپ "
ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے شاہ زیب نے اسے خاموش کروایا تھا۔۔
افرحہ کا اچانک تنفس بگڑنے لگا تھا اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔۔
"تمھارا انحیلر کہاں ہے؟ "
اس کا سانس اکھڑتے دیکھ شاہ زیب ماتھے پر بل ڈالے پوچھ رہا تھا۔۔
"م۔۔۔میرے پہ۔۔۔پاس نہی۔۔یں۔ "
وہ نفی میں سر ہلاتی بمشکل بولی تھی۔شاہ زیب کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے اس کی مدد کرے۔۔
وہ کڑوے گھونٹ بھرتا اس کے سر پر ہاتھ رکھے اس کے بال سہلاتے نرم آواز میں اس کی مدد کرنے لگا تھا۔۔
"میری آواز پر فوکس کرو افرحہ۔۔۔گہرا سانس لو۔۔ہاں بالکل ایسے ہی۔"
وہ اسے گہرے سانس لیتا دھیرے سے اس کے بال دہلا رہا تھا۔۔چند ہی سیکنڈز میں اس کا سانس بحال ہو گیا تھا۔۔
شاہ زیب فورا اس سے دور ہوکر بیٹھ گیا تھا۔
"تھینک یو"
افرحہ دھیمی آواز میں بولی تھی شاہ زیب نے جواب میں صرف ہنکار بھرا تھا۔۔
افرحہ ٹیبل پر سر رکھے لیٹ گئی تھی اسے نہیں پتا چلا کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔
اس کی نظر بےساختہ پروفیسر شاہ زیب کی طرف گئی تھی۔۔جو اچانک کرسی دھکیلتا اٹھا تھا۔۔اپنی آنکھیں بچوں کی طرح مسلتے افرحہ حیرانی سے منہ کھولے شاہ زیب کو دیکھنے لگی تھی جس نے کرسی اٹھاتے لائبریری کی کھڑکی پر زور سے ماری تھی۔۔وہ گلاس ونڈوں تھی جو اوپن نہیں ہوتی تھی لیکن اس سے باہر اور اندر دیکھا جاسکتا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ کو چوٹ لگ جائے گی۔"
افرحہ پریشانی سے اٹھتی اس کے قریب گئی تھی۔
"چپ چاپ منہ بند کرکے واپس ٹیبل پر جاکر بیٹھ جاو۔"
اس کی طرف دیکھتے شاہ زیب نے سختی سے کہا تھا۔۔اس کے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھتی افرحہ لڑکھڑاتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی تھی۔۔
شاہزیب نے زور سے کرسی گلاس ونڈو پر ماری تھی۔۔ایک بار۔۔دو بار۔۔تیسری بار مارنے پر ونڈوں میں دڑار آگئی تھی۔۔
افرحہ خاموشی سے اسے پاگلوں کی طرح گلاس ونڈوں کو توڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔جبکہ اس سے پیدا ہونے والی آواز پر وہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ چکی تھی۔
شاہزیب کی لگاتار کوشش رنگ لائی تھی اور آخرکار ونڈو ٹوٹ ہی گئی تھی۔۔ونڈوں کے ٹوٹنے کے شور پر افرحہ کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔۔
شاہزیب اسے اگنور کرتا باہر نکل گیا تھا۔۔اسے جاتے دیکھ کر افرحہ بھی اس کے پیچھے بھاگی تھی۔لائبریری سے نکلتے ہی اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
جاری ہے۔۔