Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 3
- - -
"یہ تمھارے چہرے پر کیا ہوا ہے ؟ "
اتوار کا دن تھا جب عادل شاہزیب سے ملنے آیا تھا۔عادل کے سامنے کافی رکھتے شاہزیب نے حیرت سے پوچھا تھا جس کے دائیں گال پر انگلیوں کے نشانہ دکھائی دے رہی تھی۔
"تمھاری طرح ایک سر پھری ، پاگل اور شرابی کی غلطی سے مدد کرنے کا نتیجہ ہے۔۔"
وہ اپنے گال کی طرف اشارہ کرتا بولا تھا۔شاہزیب کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔
"تو یہ تھپڑ کیوں پڑا ؟ "
اپنے لیے وائن کا گلاس بھرتے شاہزیب نے پوچھا۔۔اسے شراب گلاس میں ڈالتے دیکھ کر عادل نے بمشکل خود کو کچھ کہنے سے روکا تھا۔
"میں نے اسے آوارہ بول دیا تھا۔۔مسلم تھی یار میں کیسے برداشت کرتا۔۔تو جانتا ہے اس معاملے میں کنٹرول نہیں کرپاتا"
وہ کافی پیتا افسوس سے بول رہا تھا۔
"دوسروں کے معاملے میں داخل اندازی کرنے پر یہی تھپڑ تحفے میں ملے گا۔۔"
شاہزیب آنکھیں گھماتا بولا تھا۔
"تمھیں پتا ہے نہ اگر یونیورسٹی کو تمھارے ڈرگز لینے کے بارے میں پتا چلا تو جوب سے نکال دیں گے۔۔"
عادل شاہزیب کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا۔
"مجھے اس بارے میں کچھ نہیں سننا۔۔"
شاہزین ایک ہی گھونٹ میں وائن کا گلاس خالی کرتا بولا تھا۔
"تم نے کبھی کسی کی سنی بھی ہے ؟ ہر بات پر اپنی ہی منمانی کرتے ہو۔۔"
عادل کافی کت گھونٹ بھرتا بولا تھا۔
دروازے پر بیل ہونے پر وہ عادل سے ایکسکیوز کرتا باہر نکلا تھا۔
"کون تھا ؟"
اسے واپس اندر آتے دیکھ کر عادل نے پوچھا۔
"پاکستان سے کورئیریر آیا ہے۔۔"
وہ ماتھے پر بل ڈالے بولا تھا۔۔
"کس نے بھیجا ہے ؟ "
عادل کافی کا کپ رکھتا اس کے قریب آیا تھا۔
"دادا نے بھیجا ہے۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔
"اسے جاتے ہوئے باہر پھینک جانا۔۔"
بنا اسے کھولے شاہزیب اسے عادل کو پکڑا چکا تھا۔
"ایک بار دیکھ لو کیا ہے اندر۔۔"
عادل نے کورئیرئر پکڑتے ہوئے کہا تھا۔
"تمھیں جو کہا ہے وہ کرو۔۔مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیا کروں اور کیا نہ کروں۔۔"
شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا غصے سے بولا تھا۔
"ایزی بڈی۔۔میں اس لیے بول رہا تھا شاید کوئی ضروری چیز نہ ہو۔"
عادل نے پرسکون لہجے میں کہا تھا۔۔شاہزیب نے ایک گہرا سانس خارج کرتے خود کو پرسکون کیا تھا۔
"جاو یہاں سے۔۔بعد میں بات کریں گے۔۔"
شایزیب ہاتھ کے اشارے سے اسے یہاں سے جانے کا بول رہا تھا۔عادل خاموشی سے اپنی چیزیں اٹھاتا اور کورئیریر ایک سائیڈ پر رکھتا چلا گیا تھا۔
شاہزیب اپنے بال کھینچتا اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتا گھر سے نکل گیا تھا۔۔اسے بند گھر میں وحشت سی ہو رہی تھی۔کھلی فضا بھی اس کی وحشت اور گھٹن کم نہیں کرسکی تھی۔
"تمممم۔۔۔"
بریرہ جو مارننگ والک سے لوٹی تھی۔عادل کو اپنی بلڈنگ میں دیکھتے اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔
"تم میرا پیچھا کر رہے ہو ؟ "
بریرہ نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھور کر دیکھا تھا جیسے سالم نگاہوں سے نگلنے کا ارادہ ہو۔۔
بلیک ٹریک سوٹ میں وہ سرخ شعلہ لگ رہی تھی۔بالوں کو پونی میں قید کیا ہوا تھا کچھ آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھیں۔
"تمھاری شکل ایسی ہے کہ میں۔۔میں عادل فرہاد مرزا تمھارا پیچھا کروں۔۔"
عادل ناگواریت سے اس پر نظر ڈالتا بولا تھا۔
"اوئے چھلے ہوئے آلو۔۔۔تم سے نہ ہزار گنا میں خوبصورت ہوں۔اس لیے اپنی اوقات میں رہو۔۔"
وہ اس کے کلین شیو چہرے پر چوٹ کرتی بولی تھی۔
عادل کا منہ کھل گیا تھا اس کے الفاظ سن کر۔۔
"کس خوش فہمی میں ہو سفید بندریاں۔۔؟"
عادل اپنے لب بھینچتا تیز آواز میں بولا تھا۔۔
"تم بندر ہو چھلے ہوئے آلو۔۔خبردار جو مجھے بندر کہا۔۔"
وہ تپے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔۔خود کو سفید بندریاں کہلائے جانے پر اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
"میں نے" بندریاں " کہاں ہے عقل سے پیدل۔۔"بندر " نہیں۔۔
عادل اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا طنزیہ مسکراہٹ سے بولا
"تم۔۔۔تم دوبارہ اس بلڈنگ کے باہر دیکھے تو تمھارا حشر بگاڑ دوں گی۔۔"
غصے کی شدت سے کانپتی وہ طیش کے عالم میں چیخی رہی تھی۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑے شخص کا منہ نوچ لے۔
"یہ بلڈنگ تمھارے باپ کی ہے نہیں نہ تو پھر میں یہاں ہر روز آوں گا مجھے روک سکتی ہو تو روک لینا۔۔"
عادل سنجیدگی سے بازو سینے پر باندھتے ہوئے بولا تھا۔مقابل کو تپانے میں ایک الگ ہی سرور مل رہا تھا۔
"میں تم پر کیس کردوں گی۔۔جاہل انسان"
وہ غصے میں بولی تھی۔اس کے الفاظ نے آگ لگا دی تھی۔
"اوہ بابا کی پرنسز۔۔۔مجھ پر کیس کرے گی۔۔ آہہ میں تو ڈر گیا "
وہ طنزیہ ڈرتا ہوا بولا تھا۔
"پولیس کو میں اپنی جیب میں لے کر گھومتا ہوں۔۔"
وہ اپنا بیچ نکال کر اس کی آنکھوں کے آگے لہراتا ہوا مزید بولا تھا۔
"بھاڑ میں جاو بدتمیز۔۔۔کمینے۔۔۔۔"
وہ حیرانی و غصے کی ملے جلے تاثرات سے اسے ایک نظر پولیس بیچ پر ڈالتی بلڈنگ کے اندر چلی گئی تھی۔
"تپانے والا میشن اکمپلیشڈ۔۔"
وہ اسے جاتا دیکھ کر مسکرا کر بڑبڑایا تھا۔
"تمھیں کیا ہوا ہے اتنے غصے میں کیوں ہو؟"
بریرہ کو غصے میں اندر داخل ہوتے دیکھ کر افرحہ نے پوچھا۔
"ایک گدھے سے پالا پڑ گیا تھا۔۔کمینہ پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔۔۔"
وہ پانی کا گلاس بھرتی بولی تھی۔افرحہ کو پراٹھا کھاتے دیکھ کر اس نے ناک چڑھائی تھی۔
"مجھے ایک جوب ملی ہے۔۔"
افرحہ ناشتہ مکمل کرتی بریرہ سے بولی تھی۔
"کیسی جوب ؟ اور تمھیں کیا ضرورت ہے جوب کرنے کی ؟"
بریرہ نے حیرت سے پوچھا۔
"بہت مزے کی جوب ہے یار۔۔"
افرحہ چمکتی آنکھوں سے بولی تھی۔
"برڈی۔۔کونسی جوب بتاو؟ "
بریرہ نے اب کی بار اشتیاق سے پوچھا۔
"وہ پانڈا کے کوسٹیم میں لوگوں کو پمفلٹ دینے کی جوب ہے۔۔"
وہ اپنی چیزیں اٹھاتی چہکتی ہوئی بولی تھی۔بریرہ نے منہ بگاڑتے اسے دیکھا تھا۔
"تمھارا دماغ صحیح ہے برڈی؟ بس یہ ہی جوب ملی تھی تمھیں؟"
بریرہ بےیقینی سے اسے دیکھتے بولی تھی۔۔
"میرا دل ہے یہ جوب کرنے کو۔۔اور میں ویسے بھی شوقیہ جوب کر رہی ہو کچھ دنوں تک چھوڑ دوں گی۔"
افرحہ جواب دیتی تیزی سے نکل گئی تھی۔۔بریرہ اس کے جاتے ہی فریش ہونے چلی گئی تھی۔۔
کوسٹیم ڈالتے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی۔۔پمفلٹ ایک جگہ رکھتے وہ ایک پل کو سانس لینے کو روکی تھی جب اس کی نظر کچھ دور کھڑے شاہزیب پر پڑی تھی۔
وہ کار سے ٹیک لگائے سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔۔جب اس کے پاس چلتے ہوئے کوئی لڑکی آئی تھی۔۔افرحہ کا ننہ حیرت سے کھل گیا تھا۔
شاہزیب کو اس کے ساتھ جاتے دیکھ کر وہ اپنا کام بھولتی متجسس سی ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔
انھیں اوپن ائیر ریسٹورنٹ میں بیٹھتے دیکھ کر وہ کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئی تھی۔۔اس کے کان ان لوگوں کی طرف ہی تھے۔۔لیکن وہ ایک لفظ بھی نہیں سن سکی تھی۔
ان کو اٹھتے دیکھ کر وہ تیزی سے واپس جانے لگی تھی۔
"ہے یو۔۔۔۔ رکو تم۔۔"
شاہزیب کی آواز سنتے ہی وہ تیز تیز چلتی بھاگنے لگی تھی۔۔
پیچھے مڑتے شاہزیب کو دیکھتی وہ سیدھا سٹریٹ لائٹ میں بجتی زمین پر گری تھی۔۔
"ہائے اللہ۔۔میرا سر"
اپنے سر پر ہاتھ رکھے وہ بولی تھی۔۔ساری دنیا اسے اپنی نظروں کے سامنے گھومتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔۔
شاہزیب نے کھینچ کر اس کے چہرے سے پانڈا کا کوسٹیم ہٹایا تھا۔وہ اسے کافی دیر سے نوٹ کر تھا تبھی اپنے کام سے فارغ ہوتا وہ اس کی طرف بڑھا تھا۔۔
"میری باتیں سن رہی تھیں ؟"
شاہزیب سنجیدگی سے اسے سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔۔
"خدا کا خوف کریں۔۔میں اپنا کام کر رہی تھیں۔۔اور آپ ایسی کونسی باتیں کر رہے تھے جنھیں سنے جانے کا ڈر تھا۔۔"
وہ کھڑا ہوتی تیز لہجے میں بولی تھی۔
"مجھ پر نظر رکھنے کا کام کر رہی تھی۔۔"
شاہزیب اپنا چہرہ ایک سائیڈ پر کرتا اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے بولا تھا۔مقابل کی لمبی زبان کاٹنے کا شدت سے دل چاہ رہا تھا۔
"ن۔۔نہیں مجھے کیا ضرورت ہے آپ پر نظر رکھنے کی ؟ "
وہ منہ بگاڑتی کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔
"مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔۔میں نے خود تمھیں پیچھا کرتے دیکھا تھا۔۔"
شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا خود کو بمشکل اس کا گلا دبانے سے روکے ہوئے تھا۔
"آپ کوئی ہیرو ہیں ؟ یا کوئی سپر سٹار ؟ "
"بتائیں مجھے۔۔۔ نہیں تو۔۔۔پھر خود کو کیوں آسمان پر چڑھا رہے ہیں۔۔مجھے کوئی ضرورت نہیں آپ کا پیچھا کرنے کی۔۔"
وہ منہ پھولاتی شاہزیب سے نظریں ملاتی بولی تھی۔۔
"دوبارہ میرا پیچھا کرنے اور میری باتیں سننے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔کیونکہ مجھے تمھارا یہ حسین چہرہ بگاڑنے میں بالکل بھی افسوس نہیں ہوگا۔۔"
وہ دھیمی آواز میں سرخ چہرے سے اس کی جانب دیکھتا خطرناک انداز میں بولا تھا۔۔افرحہ نے آنکھیں پھیلا کر اس کی طرف دیکھا تھا جو اس پر نگاہِ غلط ڈالے بنا چلا گیا تھا۔۔
"کھڑوس۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس کام پر لوٹ گئی تھی۔۔اس کے کام سے غائب ہوجانے کی مینجر کو خبر ہوگئی تھی جس نے اسے کام سے نکال دیا تھا۔۔
اسے شدید افسوس ہو رہا تھا وہ نہ تو شاہزیب کی باتیں سن سکی اور اپنی جوب بھی گنوا چکی تھی۔۔
"تم اتنی جلدی واپس کیوں آگئی ؟"
افرحہ کو دیکھتے بریرہ نے پوچھا
"مجھے جوب سے نکال دیا ہے۔۔"
وہ صوفے پر اس کے پاس گرتی اداسی سے بولی تھی۔
"کیوں؟ میری برڈی کو نکالنے کی انھوں نے ہمت کیسے کی۔۔"
بریرہ اس کا اداس چہرہ دیکھتی اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے اپنے ساتھ لگاتی پوچھنے لگی۔۔
"اس کھڑوس پروفیسر کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔۔"
اسے ساری بات بتاتی افرحہ آخر میں بولی تھی۔
"یار تمھیں کیا ضرورت تھی اس کا پیچھا کرنے کی ؟ "
بریرہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
"میرا دل کر رہا تھا۔۔پاگل ہوگئی تھی۔۔دماغ خراب ہوگیا تھا۔۔"
وہ جھنجھلاتی ہوئی بریرہ کے قریب سے اٹھتی روم میں بند ہوگئی تھی۔بریرہ نے اسے جاتے دیکھ کر سر جھٹکا تھا۔
شام کا وقت تھا افرحہ کا موڈ قدرے بہتر ہوچکا تھا۔۔
افرحہ بریرہ کو تنگ کرنے کا سوچتی پانی غبارے میں بھرتی اس میں سرخ رنگ ملاتی بریرہ کو ڈھونڈنے لگی تھی جو اسے بالکونی میں کھڑی ملی تھی۔۔
افرحہ غبارہ اپنے پیچھے چھپاتی بالکونی میں گئی تھی۔۔
"بریرہ۔۔"
اسے پکارتے افرحہ نے غبارہ اس کی طرف پھینکا تھا۔۔بریرہ بروقت نیچے جھک کر خود کو بچا چکی تھی۔
لیکن غبارہ سیدھا اڑتا فون سنتے شاہزیب کے منہ پر زور سے لگتا پھٹ گیا تھا۔۔جس سے اس کی ساری شرٹ بھیگ گئی تھی۔
ان دونوں فلیٹس کی بالکونی ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے آسانی سے کوئی بھی چیز ادھر ادھر جاسکتی تھی یہی وجہ تھی کہ غبارہ نیچے گرنے کی بجائے شاہزیب کے بجا تھا۔
"ہائے اللہ مرگئ میں۔۔"
افرحہ نے بے ساختہ اپنے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
شاہزیب نے فون بند کرتے غصے سے افرحہ کی طرف دیکھا تھا جو گھبرا کر اپنی انگلی منہ میں ڈال چکی تھی۔
"س۔۔سوری پروفیسر۔۔"
وہ تھوک نگلتی بولی تھی۔۔بریرہ تو چھپ کر فورا نکل گئی تھی۔۔
"شٹ اپ۔۔ تم۔۔ تم سے بڑا اڈیٹ میں نے اپنی ساری زندگی نہیں دیکھا۔۔"
وہ فون جیب میں ڈالتا غصے میں بولا تھا۔بالکونی میں آنا اسے اپنی سب سے بڑی غلطی لگنے لگی تھی۔
افرحہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔۔اس نے بریرہ کے لیے نظریں دورائی تھیں جو اسے اندر زبان دکھاتی بھاگ گئی تھی۔۔
"پ۔۔پروفیسر م۔۔میں آپ کو نئی شرٹ لا دوں گی۔۔"
وہ سرخ رنگ اس کی شرٹ پر دیکھ کر ڈرتے ڈرتے دھیمی آواز میں بولی تھی۔۔شاہزیب کے قہر سے بچنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو راضی تھی۔
"اب دوبارہ میرے سامنے مت آنا۔۔ورنہ تمھارا گلا دبا دوں گا۔۔میری زندگی حرام کردی ہے اڈیٹ۔۔"
شاہزیب اسے غصے سے گھورتا واپس اپنے فلیٹ میں چلا گیا تھا۔۔وہ بالکونی میں آنے پر خود کو کوس رہا تھا۔۔
"بریرہ میں تمیں چھوڑوں گی نہیں۔۔"
شاہزیب کے جاتے ہی وہ چیخ کر اندر بریرہ کے پیچھے بھاگی تھی۔۔
"برڈی میری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔تمھیں کس نے کہا تھا پانی کا غبارہ بھر کر مجھے مارنے کے لیے۔۔"
بریرہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے یار۔۔انھوں نے کہا ہے وہ میرا گلا دبا دیں گے۔ اگر رات کو ہمارے اپارٹمنٹ میں گھس کر انھوں نے نیند میں میرا گلا دبا دیا تو کیا ہوگا۔۔"
افرحہ رونے والی صورت بناتی آنکھیں پھیلا کر بولی تھی۔۔
"تمھیں ہاتھ تو لگا کر دکھائیں میں منہ توڑ دوں گی۔۔"
اس کے قریب آتے وہ اپنے حصار میں لیتی بولی تھی۔۔
"میں بھی افرحہ ہوں کسی سے نہیں ڈرنے والی۔۔"
افرحہ بریرہ کی ڈھارس پاتے ہی پرجوش انداز میں بولی تھی۔۔بریرہ نے اس کے۔نازک سراپے کی طرف دیکھتے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔۔
"تو پھر پروفیسر کے سامنے ڈر کر کیوں کانپ رہی تھی۔۔؟ "
بریرہ نے مسکراہٹ چھپاتے پوچھا۔۔
"و۔۔وہ تو بس ایسے ہی گھبرا گئی تھی میں۔۔"
افرحہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی جس پر بے ساختہ بریرہ ہنس پڑی تھی۔۔
"مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔"
افرحہ اسے ہنستے دیکھ کر منہ پھولاتے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔
جاری ہے۔۔۔