Professor Shah - Episode 4

0

 

Novel- Professor Shah

Zanoor Writes
Episode 4


- - -


افرحہ اپنے کلاس میٹس کے ساتھ کیفے میں بیٹھی ٹرتھ اور ڈئیر کھیل رہی تھی۔آج شاہزیب کا لیکچر نہیں تھا اس لیے وہ سکون میں تھی ورنہ کل کی حرکت کے بعد اس کے سامنے جانے کا سوچ کر ہی اسے جھرجھری محسوس ہو رہی تھی۔بوٹل سپن کرنے پر اس بار وہ افرحہ پر رکی تھی جس نے برا سا منہ بنایا تھا۔
"ٹرتھ یا ڈئیر "
اس کی کلاس میٹ چارلی نے پوچھا۔
"ڈئیر "
وہ بہادر بنتی گردن اکڑا کر بولی تھی۔
"ٹھیک ہے جو بھی اب کیفے میں داخل ہوگا تم اسے ڈنر ڈیٹ کے لیے پوچھو گی۔۔"
چارلی کی بات نے اس کا سارا جوش ختم کردیا تھا۔لیکن بہادری کا مظاہرہ کرتے اس نے گردن ہاں میں ہلاتے رضامندی بھری تھی۔
سب کی منتظر نگاہیں کیفے کی انٹرنس پر تھی۔افرحہ دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ کوئی لڑکی ہی ہو۔۔
کیفے میں داخل ہوتے شخص کو دیکھ کر اس کا سانس خشک ہو گیا تھا۔۔
وہ مرکر بھی اپنے پروفیسر سے ڈنر ڈیٹ کے لیے نہ پوچھتی تبھی اپنے کلاس میٹس کی طرف وہ مڑی تھی۔
"میں یہ ڈئیر نہیں کرسکتی کوئی اور ڈئیر دو۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔
"نو۔۔یہ ڈئیر ہی کرنا پڑے گا۔۔"
چارلی استہزایہ نظروں سے اسے دیکھتی بولی تھی۔افرحہ کو اس وقت چارلی اپنی زندگی کی سب سے بڑی ولن محسوس ہو رہی تھی۔
افرحہ مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق اپنی جگہ سے اٹھتی مردہ قدموں سے چلتی کافی لیتے واپس جاتے شاہزیب کے سامنے گئی تھی۔۔
شاہزیب اچانک اس کے سامنے آجانے پر ناگواریت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔افرحہ نے اپنے لب تر کرتی ایک بیچاری نظر اپنے کلاس میٹس پر ڈالی تھی جو اسے بولنے کے اشارے کر رہے تھے۔
شاہزیب ایک سائیڈ سے ہوتا گزرنے لگا تھا۔جب افرحہ کی بات سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔
"پروفیسر۔۔ک۔۔کیا آ۔۔آپ میرے ساتھ ڈنر پر چلیں گے۔۔"
وہ کپکپاتی آواز میں لب چباتے ہوئے بول رہی تھی۔دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ اسے اپنے کانوں میں محسوس ہو رہی تھیں۔
"شرم نہیں آتی ایسی بات پوچھتے ہوئے کم سے کم اپنے اور میرے درمیان پیشے کا ہی لحاظ کر لیا ہوتا۔۔لیکن نہیں تمھارے دماغ میں گند بھرا ہوا ہے۔۔دوبارہ میرے سامنے آکر کوئی بکواس کی نہ تو ڈین کو بتا کر سسپینڈ کروادوں گا۔۔اڈیٹ"
مٹھیاں بھینچے افرحہ کو غصے سے دیکھتے وہ کٹیلے لہجے میں بولا تھا۔
احساسِ ذلت سے افرحہ کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔۔شاہزیب کی باتوں سے اس کا ڈوب کر مرنے کو دل کر رہا تھا۔۔کیفے میں گہری خاموشی چھا گئی تھی۔
افرحہ اپنی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو روکتی تیزی سے بنا کسی کی طرف دیکھے باہر بھاگ گئی تھی۔
شاہزیب اس کے جانے کے بعد خود کو پرسکون کرتا واپس اپنے آفس میں لوٹ گیا تھا۔افرحہ کی باتیں اسے زہریلے تیر کی طرح لگی تھیں۔جو اس کے تن بدن میں زہر پھیلا گئی تھیں۔۔اسے افرحہ سے اس چیز کی امید نہیں تھی۔
افرحہ باقی سارے لیکچر سکیپ کرتی یونیورسٹی سے نکل گئی تھی۔۔گھبراہٹ سے بگڑتی طبیعت کی وجہ سے اس کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔۔ایک جگہ رکتے اس نے کانپتے ہاتھوں سے انحیلر نکال کر استعمال کیا تھا۔
وہ بریرہ کو کال کرکے بتا چکی تھی وہ رات کو لوٹے گی۔۔فلحال اپنا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے وہ مال چلی گئی تھی۔ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے اس کا موڈ قدرے بہتر ہوچکا تھا۔۔
اس نے رات کو اپنے پیرنٹس کو کال کرنے کا سوچا تھا۔بس سٹاپ پر اترتی وہ پیدل فلیٹ کی جانب روانہ ہوئی تھی جو بس سٹاپ سے پندر منٹ کی دوری پر تھا۔۔
ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا جبکہ ٹھنڈی ہوا بھی چلنے لگی تھی۔۔اپنا کوٹ مضبوطی سے اپنے اردگرد لپیٹے وہ سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں تیزی سے قدم اٹھاتی گھر جارہی تھی۔
آج اندھیرا کچھ زیادہ ہی چھا چکا تھا۔۔سنسان روڈ پر چلتے اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنتے وہ مزید تیزی سے چلنے لگی تھی جب پیچھے سے کسی کے بازو پکڑنے پر اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود بیگ زور سے اس شخص کے منہ پر مارا تھا۔
اس شخص کی گرفت ہلکی ہونے پر وہ اس سے اپنا بازو چھڑواتی تیزی سے بھاگنے لگی تھی جب اس شخص نے ایک ہی جست میں اسے پکڑتے زمین پر گرایا تھا۔۔
افرحہ کے منہ سے تکلیف سے سسکاری نکلی تھی۔۔
"ہیلپ می۔۔"
افرحہ خود کو اس شخص کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کرتی چیخی تھی۔۔اس شخص نے زور سے افرحہ کے منہ پر تھپڑ مارتے دوسرا ہاتھ اس کے منہ پر رکھا تھا۔۔
افرحہ کی مزاحمت ڈھیلی ہوگئی تھی۔۔اس شخص کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے اسے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی تھی۔۔جبکہ چہرے پر پڑنے والی تھپڑ نے اس کا جبڑا ہلا دیا تھا۔
اپنا کورٹ کھلتا محسوس کرتے وہ چاہ کر بھی خود کو اس سے آزاد نہیں کروا پا رہی تھی۔۔
تکلیف اور خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکلتے اس کی کن پٹی سے ہوتے بالوں میں جذب ہونے لگے تھے۔۔
اس کے ہاتھ اپنے جسم پر محسوس کرتے افرحہ کے دل سے شدت سے دعا نکلی تھی جو شاید بروقت قبول ہوگئی تھی۔۔
چند سیکنڈ بعد ہی ایک گاڑی کی تیز روشنی اسے اس طرف آتے ہوئے دکھائی دی تھی۔۔تکلیف سے سانس لیتے ہوئے اس کی نظریں گاڑی پر ہی تھی جو اس کے قریب سے گزر گئی تھی۔۔افرحہ کی ہمت کی جواب دے گئی تھی۔وہ اپنی آنکھیں بند کرلینا چاہتی تھی۔۔وہ واپس پاکستان اپنے ماں باپ پاس جانا چاہتی تھی۔
گاڑی کے تھوڑی دور جاکر روکنے کی آواز پر افرحہ کو امید کی کرن دکھائی دی تھی۔۔
اس شخص کو کسی نے کھینچ کر افرحہ سے دور ہٹاتے مکہ جڑا تھا۔۔افرحہ تکلیف سے سانس لیتے شاہزیب کو دیکھ رہی تھی جو اس شخص کو ایک کے بعد کئی مکے جڑتا اپنے ہوش میں نہیں لگ رہا تھا۔۔
کانپتے ہاتھوں سے اپنی شرٹ صحیح کرتی وہ اپنے ارد گرد بازو لپیٹتی گھٹری بن کر بیٹھ گئی تھی۔کوٹ وہ شخص پہلے ہی اس کا اتار چکا تھا۔۔گہرے گہرے سانس بھرتی وہ اپنے سینے میں محسوس ہوتے درد کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
انحیلر اس کا بیگ میں موجود تھا جو اس شخص کو مارنے کے چکر میں وہ پیچھے ہی کہیں گرا چکی تھی۔۔
شاہزیب جو یونیورسٹی سے واپس لوٹ رہا تھا۔۔اپنی سوچوں میں گم وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جب فٹ پاتھ پر کسی شخص کو لڑکی سے زبردستی کرتے دیکھ کر اس نے آگے جاتے ہی فورا بریکس لگائی تھی۔۔
گاڑی سے نکلتے تیزی سے شاہزیب نے اس شخص کو کالر سے پکڑ کر لڑکی سے دور کیا تھا۔۔اندھیرے میں وہ لڑکی کا چہرہ صحیح سے دیکھ نہیں پایا تھا۔
اس شخص کو اچھے سے مارنے کے بعد وہ اسے ادھ موی حالت میں زمین پر پھینکتا اندھیرے میں کانپتی لڑکی کے پاس آیا تھا۔۔
اپنے موبائل کی لائٹ اون کرتے اس نے لڑکی کی طرف کی تھی۔۔افرحہ نے تکلیف سے سانس لیتے آنسو سے تر چہرہ اٹھاتے شاہزیب کی طرف دیکھا تھا۔۔
افرحہ کو دیکھتے ہی شاہزیب کو مزید غصہ آیا تھا اس کا دل اس شخص کو قتل کرنے کا کر رہا تھا۔۔
"م۔۔مجھ۔۔مجھے س۔۔س۔۔سانس ن۔۔نہیں۔۔"
وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں آنسو بہاتے ہوئے بول رہی تھی۔
"تمھارا انحیلر کہاں ہے ؟ "
شاہزیب نے لب بھینچ کر پوچھا۔افرحہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
شاہزیب اس کے پاس ایک گھٹنے کے بل بیٹھا تھا۔
"افرحہ میرے ساتھ سانس لو۔۔سانس اندر کھینچو ہاں۔۔اب سانس باہر نکالو۔۔"
اس نے ہچکچاتے ہوئے افرحہ کے بالوں کو سہلایا تھا۔افرحہ اس کی نقل کرنے لگی تھی۔۔
کچھ ہی دیر میں اس کا سانس بحال ہوچکا تھا۔شاہزیب نے اپنا کورٹ اتارتے اس کے کندھوں پر ڈالا تھا۔۔
موبائل کی روشنی افرحہ کے چہرے پر پڑنے پر شاہزیب کے نظر اس کے سرخ گال پر چھپی انگلیوں پر گئی تھی۔۔لب بھینچے وہ موبائل افرحہ کے پاس رکھتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نیم بےہوشی کی حالت میں پڑے اس شخص کے قریب گیا تھا۔۔
دو تین ٹھوکریں اپنے بوٹ سے اس کے پیٹ پر مارتا شاہزیب اپنی مٹھیاں بھینچتا واپس افرحہ کے پاس آیا تھا۔۔جو کانپتی ٹانگوں سے کھڑی بھیگی آنکھی پھیلائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
"گاڑی میں جاکر بیٹھو۔۔"
اسے گاڑی کی طرف جانے کا اشارہ کرتے شاہزیب نے اپنا موبائل اٹھاتے عادل کو کال ملائی تھی۔۔افرحہ ڈر کے مارے اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں تھی۔۔وہ کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی کے پاس بھی نہیں جانا چاہتی تھی۔
شاہزیب اس کے اپنی جگہ سے نہ ہلنے پر خاموشی سے عادل کے فون اٹھانے پر ساری بات بتا چکا تھا۔۔عادل نے اسے معاملہ سنبھالنے کی تسلی دیتے اسے گھر لوٹ جانے کا کہا تھا۔۔
"چلیں۔۔؟"
شاہزیب نے سنجیدگی سے کال بند کرتے افرحہ سے پوچھا تھا۔۔
افرحہ نے سر ہلایا تھا۔وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی شاہزیب کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جو اس کی خاطر چونٹی کی سپیڈ سے چل رہا تھا۔۔
گاڑی میں بیٹھتے شاہزیب نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔
"تم رونا بند کروں گی یا آج ہی ساری ندیاں بہانے کا ارادہ ہے۔۔"
اس کے مسلسل رونے پر چوٹ کرتے وہ اس کی جانب اپنا رومال بڑھاتا ہوا بولا تھا۔۔
اشارہ صاف تھا کہ اپنے آنسو پونچھ لو۔۔
"اب میں آزادی سے ر۔۔رو بھی ن۔۔نہیں س۔۔سکتی۔۔"
وہ کانپتے ہاتھوں سے رومال پکڑتے ہوئے کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔۔شاہزیب نے لب بھینچ کر کوئی بھی جواب دینے سے خود کو روکا تھا۔۔
"رات کے اس وقت اس روڈ پر کیا کر رہی تھی؟"
شاہزیب نے اس پر ایک نظر مرر سے ڈالتے پوچھا۔۔
"اب آپ مجھے آوارہ سمجھ رہے ہیں ہوں گے۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔بس اسٹاپ سے واپس آرہی تھی۔۔"
وہ شاہزیب کی موجودگی میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی تبھی اسے دوبدہ جواب دے رہی تھی۔
"آئیندہ کے بعد اکیلے رات کے ٹائم وہاں سے آنے کی ضرورت نہیں اپنی کسی دوست کو بلا لیا کرو۔۔ہر بار میں تمھیں بچانے نہیں آسکتا۔۔"
گاڑی پارکنگ لاٹ میں روکتے شاہزیب نے سنجیدگی سے بنا اس کی طرف دیکھے کہا تھا۔
"شکریہ آپ کا اگر آج آپ نہیں تو ناجانے کیا ہوجاتا۔۔اللہ نے آپ کو میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا۔۔"
وہ سیٹ بیلٹ کھولتے متشکر سی بولی تھی۔۔شاہزیب اس کی بات پر ساکت ہوا تھا۔۔
وہ اور فرشتہ ؟ ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔۔افرحہ گاڑی سے نکلتی خاموشی سے سڑھیوں کے ذریعے اوپر جانے لگی تھی کیونکہ لفٹ میں اس دن کی ٹیکنکل خرابی کی وجہ سے وہ کم ہی جانے لگی تھی۔۔
افرحہ کے جاتے ہی اس نے فلیٹ میں جانے کی بجائے گاڑی دوبارہ بلڈنگ سے نکالتے کلب کا رخ کیا تھا۔۔
وسکی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے وہ معمول کے مطابق کلب کے پرائیویٹ روم میں موجود تھا۔۔آنکھیں بند کیے صوفے سے ٹیک لگائے وہ اپنے اندر موجود بےچینی کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔
عادل کچھ دیر بعد دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا۔۔شاہزیب نے اسے ایک نظر دیکھتے آنکھیں واپس بند کرلی تھیں۔۔
"تم تو جہنم میں جاو گے ہی مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے کر جاو گے۔۔کیا ضرورت تھی کلب میں آنے کی گھر میں ہی ڈرنکنگ کر لیتے۔۔"
عادل اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر بولا تھا۔کلب کے ماحول سے اسے سخت نفرت تھی وہ صرف شاہزیب کی وجہ سے مجبوری میں یہاں آتا تھا۔۔
"تمھیں یہاں کس نے بلایا تھا۔"
وہ سیدھا ہوتا گلاس میں وسکی گھماتا سنجیدگی سے بولا۔
"مجھے تمھاری فکر تھی۔۔تمھارے فلیٹ پر گیا تھا۔۔وہاں تم موجود نہیں تھے۔اس لیے یہاں آیا ہوں۔۔"
"اور تم نے اس شخص کو اتنا کیوں مارا ؟ وہ ہوسپٹلائزڈ ہے۔۔اور اپنے ہاتھوں پر بینڈیج تو کروالیتے کم سے کم۔۔"
عادل کی بولتے ہوئے نظر اس کے زخمی ہاتھوں پر گئی تھی جو اس شخص کو مارنے کی وجہ سے ہوئے تھے۔۔
"وہ کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔"
سرخ آنکھوں سے وسکی کے گھونٹ بھرتا وہ عادل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔
"کونسی لڑکی۔۔؟"
عادل نے حیرت سے ہوچھا کیونکہ اس کی مخالف جنس سے نفرت کا اسے اچھے سے اندازہ تھا۔۔
"تمھارا جاننا ضروری نہیں۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتا بولا تھا۔عادل خاموش ہو گیا تھا۔
"وہ لڑکی میرے حواسوں پر چھانے لگی۔۔"
صوفے پر بازو پھیلاتے ہوئے وہ کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے ایک لمبے وقفے کے بعد بولا۔عادل اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
"اس نے مجھے۔۔ مجھے یعنی شاہزیب میر حاتم کو فرشتہ کہا۔۔ہاہاہا۔۔اڈیٹ۔۔"
وہ سر پیچھے پھینکتا ہنسا تھا۔۔اس کے لہجے میں چھپی اذیت کا اندازہ عادل لگانے سے قاصر تھا۔۔
"میں کتنا برا اور بےرحم ہوں اسے اندازہ نہیں۔۔"
وہ ایک دم سنجیدہ ہوتا سفاکیت سے بولا تھا۔۔
"شاہ۔۔ تمھیں خدا کا واسطہ ہے ماضی سے نکل آو۔۔آگے بڑھو۔۔"
عادل کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے۔۔
"ماضی کے زخم اب ناسور بن گئے ہیں جن سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔۔"
وہ بنا عادل کی طرف دیکھے اپنے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس زمین پر پھینک چکا تھا۔
"چلو اب جاو یہاں سے مجھے تھوڑی دیر سکون محسوس کرنے دو۔۔"
وہ شراب کی بوتل اٹھاتا منہ سے لگا چکا تھا۔۔عادل لب بھینچ کر خاموشی سے اٹھ گیا تھا۔۔شاہزیب کے معاملے وہ خود کو ہمیشہ بےبس محسوس کرتا تھا۔
"اوئے چھلے ہوئے آلو۔۔۔"
عادل جو روم سے نکلتا باہر جانے لگا تھا۔۔جانی پہچانی آواز اور الفاظ سن کر وہ تپا ہوا مڑا تھا۔۔
بریرہ کالی لانگ سلیولیس ڈریس میں بالوں کو کھولا چھوڑے بولڈ میک اپ میں غضب ناک لگ رہی تھی۔۔اس کی اچانک ہی عادل پر نظر پڑی تھی۔اور اس نے ساتھ ہی اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے کا سوچا تھا۔
"تم جیسا نیک اور پاکباز شخص یہاں کیا کر رہا ہے؟"
بریرہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتی طنزیہ پوچھ رہی تھی۔۔
"اگر مجھے معلوم ہوتا سفید بندریاں یہاں بھی موجود ہوتی ہیں تو میں ہرگز یہاں قدم بھی نہ رکھتا۔۔"
عادل حد درجہ خود کو پرسکون رکھے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا۔
"اوہ مسٹر ایم آئی ٹو مچ پرفیکٹ۔۔۔ تمھارے کرتوتوں کا مجھے اندازہ تمھاری یہاں موجودگی دے ہوگیا ہے۔۔
بریرہ اس کی بات اگنور کیے استہزایہ لہجے میں بولتی عادل کو مزید تپا گئی تھی۔
"تمھاری طرح کم سے کم شرابی نہیں ہوں یہاں صرف اپنے دوست سے ملنے آیا تھا۔۔ناکہ شرابیوں میں جھولنے کے لیے۔۔"
وہ اس کی حالت اور نشے میں دھت لوگوں کے ناچنے کی طرف اشارہ کرتا بولا تھا۔
"آو تمھیں بھی آج ایک ڈرنک پلاو تمھارا یہ دوٹکے کا غصہ بھک سے اڑ جائے گا۔۔"
بریرہ اس کی بات کو نظرانداز کیے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی۔۔
عادل نے ناگواریت سے اسے دیکھتے جھٹکے سے ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا تھا۔
"تمھاری طرح میرا ایمان نہیں مرا ہے جو حرام چیز کو منہ اور ہاتھ لگاوں۔۔"
وہ بھپرا ہوا تیز لہجے میں بولا تھا تھا۔۔غصے سے اس کی گردن کی شریانیں ابھر آئیں تھیں۔
"بہت دین دار اور پاکباز سمجھتے ہو خود کو۔۔تمھارا یہ ہی غرور توڑوں گی۔۔"
وہ غصے کی شدت سے کانپتی بولی تھی۔۔وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔لیکن عادل کو اس سے کراہت محسوس ہو رہی تھی۔
"اپنی حد میں رہو اور دوبارہ میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
عادل اس کی بات پر مٹھیاں بھینچے بولا تھا۔
"تمھارے چھلے ہوئے آلو جیسے منہ کو لگنے کا مجھے شوق بھی نہیں ہے۔۔"
وہ اس کے روبرو کھڑی چیخی تھی۔عادل نے اپنے دانت پیسے تھے۔اس لڑکی نے اس کا پارہ ہائی رکھنے کی قسم اٹھائی ہوئی تھی۔۔
"تم جیسے سفید بندریاں کے منہ میں لگنا بھی نہیں چاہتا۔۔"
وہ دوبدہ جواب دیتا تپا ہوا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا کلب سے نکل گیا تھا۔بریرہ اس کے جانے کے بعد خود بھی کچھ دیر بعد نکل گئی تھی۔



جاری ہے۔۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)