Professor Shah - Episode 8

0

Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 8

- - -


ایک ہفتہ ہو گیا تھا افرحہ نے اسے دوبارہ تنگ کرنے یا پریشان کرنے کی کوشش نہ کی تھی بلکہ وہ شاہزیب کی کلاس بھی جلدی لے کر نکل جاتی تھی۔اس کی خاموشی سے اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔
وہ جو اس کے ہر وقت بولنے اور شرارتوں سے تنگ آچکا تھا اب اس کی خاموشی بھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔آج وہ کافی دنوں بعد دوبارہ کلب میں بیٹھا ڈرگز لے رہا تھا۔۔
"خیریت تم نے مجھے یہاں بلایا۔۔"
عادل جو اس کے بلانے پر کلب آیا تھا اس کے ساتھ موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔
"ہمم۔۔ ویسے ہی تمھیں ملنے کے لیے بلایا ہے۔۔"
ڈرگز لیتا اپنی ناک صاف کرتا وہ ایک دم سیدھا ہوتا صوفے کی پشت سے سر ٹکا گیا تھا۔۔عادل نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا۔جو معمول کے برعکس آج کچھ زیادہ ہی بے چین نظر آرہا تھا۔۔
"اچھا۔۔"
عادل نے لفظ "اچھا " پر خاصا زور دیتے ہوئے کہا تھا۔
"وہ لڑکی میرے اعصابوں پر سوار ہوگئی ہے۔۔"
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ آنکھیں موندتا زہریلے لہجے میں بولا تھا۔
"کونسی لڑکی ؟"
ٰعادل جانتا تھا وہ کس کی بات کر رہا ہے لیکن اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
"اس کی خاموشی سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔۔"
وہ عادل کے سوال کو نظر انداز کرتا سپاٹ انداز میں بولا۔
"اس ایڈیٹ نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے۔۔"
وہ اپنے بال کھینچتا اپنی ہی کیفیت سے سخت بےزار لگ رہا تھا۔
"شاہزیب جسٹ کنٹرول یور سیلف۔۔"
عادل سنجیدگی سے اسے دیکھتا بولا تھا۔۔
"آئی ہیٹ ہر۔۔"
"میرا دماغ خراب کرکے رکھ دیا ہے۔۔"
وہ غصے میں دھاڑا تھا۔۔عادل نے اسے کافی دہر بعد اتنے غصے میں دیکھا تھا۔
"میں پاگل ہوجاوں گا اس کے بارے میں سوچ سوچ کر۔۔"
"مجھے ایسا لگ رہا ہے میری سوچوں پر اب میرا اختیار نہیں رہا۔۔"
عادل کی طرف دیکھتا شاہزیب کٹیلے لہجے میں بول رہا تھا۔
"تم خود اسے زیادہ سوچ رہے ہو۔۔جسٹ اگنور ہر۔۔"
عادل کی بات سن کر وہ بےساختہ لب بھینچتا اپنی سرخ آنکھوں کو میچ گیا تھا۔
عادل نے گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا جو گھٹنا ہلاتا آنکھیں بند کیے بکھرے بالوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی وحشت زدہ لگ رہا تھا۔
"افرحہ بیٹا اتنی کمزور ہوگئی ہو کھانا صحیح سے نہیں کھاتی تم ؟"
ماجدہ بیگم افرحہ کو موبائل کی سکرین میں دیکھتی پریشانی سے بولی تھیں۔افرحہ دوبارہ صحت مند ہونے کے بعد آج اپنی پیرنٹس سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی۔
"مما میں اچھے سے کھانا کھاتی ہوں۔۔بس آج کل کچھ موسم کی وجہ سے بیمار ہوگئی تھی تبھی یہ میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں۔"
افرحہ منہ پھولاتی اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی تھی۔بیمار رہنے کی وجہ سے اسے اچھی خاصی ویکنس ہوگئی تھی۔
"گڑیا اپنا خیال رکھا کرو ہر وقت ہمیں تمھاری فکر رہتی ہے۔۔"
رحیم صاحب افرحہ کو دیکھتے محبت سے بولے تھے اکلوتی بیٹی کے دور رہنے سے ویسے ہی انھیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا۔
افرحہ کی ضد نہ ہوتی تو وہ اسے کبھی خود سے اتنا دور نہ کرتے ان کے گھر کی رونق تھی افرحہ۔۔
"بابا جانی میں اپنا خیال رکھتی ہوں آپ ایسے ہی پریشان ہورہے ہیں اور آپ دونوں ایسے اداس نہ ہوں مجھے جیسے ہی چھٹیاں ہوں گی میں آپ لوگوں سے ملنے ضرور آوں گی۔۔"
افرحہ مسکراتے ہوئے ان کا موڈ بہلانے کے لیے بول رہی تھی۔چند ایک باتیں مزید ان سے کرتی وہ کال بند کرچکی تھی۔۔
آج بریرہ رات کو اسے باہر ڈنر پر لے جارہی تھی۔اسی کے بارے میں سوچتی وہ اپنی ڈریس نکالنے لگی تھی۔جب مطلوبہ مفلر نہ ملنے پر وہ ماتھے پر بل ڈالے باہر نکلی تھی۔جہاں سے بریرہ کو عجلت میں جاتے دیکھ کر اس نے روکا تھا۔
"بریرہ میرا بلیک مفلر کہیں دیکھا ہے۔۔"
"ہاں مجھ سے پانی گر گیا تھا اس پر۔۔میں نے اسے بالکونی میں ڈرائے ہونے کے لیے رکھا ہے۔۔میں شام کو واپس آوں گی تیار رہنا۔۔"
بریرہ جواب دیتی اپنا کورٹ پہنتی باہر نکل گئی تھی۔افرحہ نے گہرا سانس خارج کیا تھا بالکونی کا دروازہ کھولتے وہ بالکونی میں داخل ہوئی تھی۔۔
اپنے مفلر کے لیے اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تھیں۔۔جب اس کی نظر ساتھ والی بالکونی پر گئی تھی جہاں اس کا مفلر بڑی شان سے زمین پر پڑا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔۔
اس نے منہ بگاڑا تھا۔وہ شاہزیب کو آج کل جیسے اگنور کر رہی تھی۔وہ کبھی بھی اس سے مفلر مانگنے نہ جاتی۔۔وہ اس کے سوری کرنے کے انتظار میں تھی۔ مگر مجال ہے جو وہ بندہ اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ لیتا۔۔
اس نے ادھر ادھر بالکونی میں نظریں دوڑائیں تھیں۔تاکہ کوئی ایسی چیز مل سکے جس سے وہ اپنا مفلر وہاں سے اٹھا سکے۔۔بے حد کوششوں کے بعد بھی جب وہ مفلر نہ اٹھا سکی تب اس نے خود اس کی بالکون میں جانے کا سوچا تھا۔
وہ ساتھ ہی جڑی ہوئی تھیں جس سے باآسانی وہ اس کی بالکونی میں جاسکتی تھی۔ہمت کرتے وہ گہرا سانس لیتی چھلانگ لگا کر ساتھ والی بالکونی میں کودی تھی۔مفلر اٹھاتی وہ واپس جانے لگی تھی جب بالکونی کا دروازہ کھلنے کی آواز میں تیزی سے اپنی بالکونی کی طرف جاتے وہ شاہزیب کی آواز پر ساکت ہوگئی تھی۔۔
"یہاں کیا کر رہی ہو تم ؟"
شاہزیب بالکونی سے آتی آواز سن کر اس طرف آیا تھا۔یہاں افرحہ کو دیکھ کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی۔
"میرا مفلر گر گیا تھا بس وہ ہی لینے آئی تھی۔"
وہ لب کاٹتی سنجیدگی سے منہ بنا کر بول رہی تھی۔شاہزیب نے ائبرو اچکاتے اس کے ہاتھ میں پکڑا مفلر دیکھا تھا۔
"تم فرنٹ ڈور سے بھی آسکتی تھی۔۔یوں بنا اجازت میری بالکونی میں تمھارا آنا مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔۔"
وہ درشتگی سے بول رہا تھا۔۔
افرحہ کو اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔تبھی اسے مزا چکھانے کا سوچتی وہ اسے گھورنے لگی تھی۔
" یہ غرور کس بات کا ہے آپ میں ؟۔۔"
وہ اپنی آنکھیں شاہزیب سے ملاتی کمر پر ہاتھ ٹکائے پوچھ رہی تھی۔
"میں مانتی ہوں آپ بہت ہینڈسم ہیں ۔۔آپ پر یونیورسٹی کی ساری لڑکیاں فدا ہے۔۔لیکن پھر بھی اس میں غرور کرنے والی کیا بات ہے؟ "۔۔
"تم مانتی ہو میں ہینڈسم ہوں ؟ "
شاہزیب نے حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔
"یہ بھی پوچھنے والی بات ہے ؟ میں اندھی نہیں ہوں جو مجھے دکھائی نہیں دیتا۔۔"
"لیکن خوبصورت میں بھی کم نہیں ساری کلاس کے لڑکے مجھ پر فدا ہیں۔۔"
"لیکن میں نے تو کبھی غرور نہیں کیا۔۔پھر آپ کو کس بات کا غرور ہے ؟"
افرحہ اپنے بال جھٹکتی ایک ادا سے بولی تھی۔
"اور پڑھاتے بھی آپ ٹھیک ٹھاک ہی ہیں لیکن یہ غرور کس چیز کا کرتے ہیں۔۔"
وہ آج اسے زچ کردینے کے موڈ میں تھی۔شاہزیب نے مٹھیاں بھینچتے اس ٹڈی کو دیکھا تھا جو قد میں اس کے سینے تک بھی نہیں آتی تھی لیکن زبان اپنے قد سے بھی لمبی رکھتی تھی۔
"کیا میں نے پوچھا تم پر کون فدا ہے ؟"
وہ ایک قدم افرحہ کے قریب بڑھاتا پوچھنے لگا۔۔
"م۔۔می۔۔میں مزاق کر رہی تھی۔۔"
افرحہ ہوش کی دنیا میں لوٹتی بولی تھی۔زبان چلاتے ہوئے اسے یہ خیال نہیں رہا تھا کہ سامنے کھڑا شخص اس کا پروفیسر تھا۔
"ہم دونوں کے بیچ کونسا مزاق ہے ؟"
وہ بھنویں اچکا کر پوچنے لگا۔۔افرحہ نے اپنی زبان بےساختہ دانتوں تلے دبائی تھی۔
"میں بس جارہی ہوں اب دوبارہ یہاں نہیں آوں گی۔۔"
وہ شاہزیب پر ایک نظر ڈالتی بولی تھی۔۔
""پاگل ہوں یہاں سے کیوں جارہی ہوں۔۔"
اسے بالکونی کودنے کی تیاری کرتے دیکھ کر شاہزیب نے اسے ٹوکا۔۔
"کیونکہ میں یہاں سے ہی آئی تھی۔۔اگر آپ کی اجازت ہو اب میں واپس جانا چاہتی ہوں۔۔"
وہ آنکھیں گھماتی دوبارہ اپنی بالکونی طرف جانے لگی تھی شاہزیب نے اس ٹڈی کو گھورا تھا۔
"فرنٹ ڈور سے جاو۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے بولا تھا۔
"میرے پاس کیز نہیں ہیں۔۔"
وہ بولتی ہوئی تیزی سے اپنی بالکونی طرف کود گئی تھی۔شاہزیب نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے اس کی حرکت دیکھی تھی۔۔
"دوبارہ میری اجازت کے بنا میری بالکونی میں تم آئی تو پولیس کے حوالے کردوں گا۔۔ایڈیٹ"
غصے سے بولتا شاہزیب اندر چلا گیا تھا۔
"کھڑوس مجال ہے جو سوری بول دے۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی مفلر لیتی اندر چلی گئی تھی۔
"ہیلو آفیسر۔۔"
ہونٹوں پر زچ کردینے والی مسکراہٹ سجاتے بریرہ عادل کے کیبن میں داخل ہوئی تھی۔اس دن عادل کے گھر چھوڑ دینے کے بعد وہ اس سے بات نہیں کر پائی تھی۔آج فرصت ملتے ہی یہاں آئی تھی۔۔
بلیک ٹاپ بلیو جینز اور ریڈ لونگ کوٹ پہنے وہ بالوں کو کھلا چھوڑے بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔عادل نے ناگواریت سے اسے دیکھا تھا جو بنا ناک کیے دھڑلے سے اندر گھس آئی تھی۔اتنے دنوں بعد اسے دوبارہ اپنے سامنے دیکھتے اسے حیرت ہوئی تھی۔
"نکلو یہاں سے فورا۔۔میرے پاس تمھارے لیے فضول وقت نہیں ہے۔۔"
عادل آنکھیں دکھاتا ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر جانے کا بول رہا تھا۔
"حد سے زیادہ بدتمیز ہو تم۔۔"
اس کے میز کے سامنے موجود کرسی کھینچ کر بیٹھتے بریرہ سنجیدگی سے بولی تھی عادل نے اسے تپ کر دیکھا تھا۔
"تمھیں میری بات سنائی نہیں دیتی میں ابھی مزاق کے موڈ میں نہیں ہو مجھے بہت زیادہ کام ہے اس لیے میرا دماغ خراب کرنے سے بہتر ہے چلی جاو۔۔"
عادل سنجیدگی سے سرد لہجے میں بولا۔۔
"شش۔۔ دو منٹ چپ ہو گے؟"
بریرہ نے اپنے ہاتھ میں موجود باکس اس کے سامنے میز پر رکھتے کہا تھا۔
"یہ کیا ہے۔۔؟"
عادل نے ائبرو اچکاتے پوچھا۔۔
"میں کسی کا احسان نہیں رکھتی۔۔تم نے اس دن میری ہیلپ کی تھی اس کے بدلے میں یہ تمھیں دے رہی ہو۔۔"
وہ رولیکس کا باکس نکال کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔۔
"یہ اٹھاو اور میرے کیبن سے دفع ہو جاو۔۔"
وہ اس کی بات پر آگ بگولہ ہوتا اپنی سیٹ سے کھڑا ہوتا ہوا بولا تھا۔۔
"اس میں اتنا ہائیپر ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟ اور یہ تمھارے وقت کی ہی قیمت ہے جو تم نے مجھ پر ضائع کیا تھا۔۔"
وہ بھی کھڑی ہوتی دو بدو بولی تھی۔۔
عادل نے وہ باکس اٹھاتے زور سے زمین پر دے مارا تھا۔۔بریرہ ایک پل کو حیران رہ گئی تھی۔
"کرلی میں نے اپنی قیمت وصول اب جاو یہاں سے۔۔"
وہ غصے سے سرخ پڑتا بول رہا تھا۔۔بریرہ نے آنکھیں گھما کر اسے گھورا تھا۔
"پتا نہیں کس بات کی اکڑ ہے تم میں۔۔بدتمیز آلو۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئے غصے سے اسے گھورتی اپنا بیگ اٹھا کر چند قدم اٹھاتی اس کے قریب بڑھی تھی۔عادل ائبرو اچکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا جس نے اس کی شرٹ سینے سے پکڑتے اسے اپنی طرف تھوڑا جھکایا تھا۔۔
"زیادہ شوخا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ بس مجھے اچھا نہیں لگا تم نے جو مجھ پر احسان کیا تھا یہی وجہ تھی تمھارے لیے گفٹ لے کر آئی مگر تم اس قابل ہی نہیں ہو۔۔"
عادل جو اس کی حرکت پر ششد کھڑا تھا۔۔اس کی بات سنتے وہ ہوش کی دنیا میں آیا تھا تب تک بریرہ اس کا کالر چھوڑتی پیچھے ہٹ گئی تھی۔۔
ایک نظر عادل کے حیران چہرے پر ڈالتی وہ اس کی شرٹ صحیح کرتی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔
"بندریاں۔۔"
وہ اس کے جانے کے بعد دروازے کو دیکھتا غصے سے بڑبڑایا تھا۔۔رولیکس کا باکس اٹھا کر بھی وہ خاموشی سے اپنے ٹیبل کے دراز میں رکھ چکا تھا۔۔
بریرہ جب تک گھر واپسی لوٹی تھی تب تک افرحہ تیار ہوچکی تھی۔۔اسے پانچ منٹ کا بولتے بریرہ بھی اپنا میک اپ ریفریش کرتی اسے لے کر فلیٹ سے کچھ دور موجود ہی ہوٹل میں آئی تھی۔
افرحہ کے ساتھ ڈنر کرکے اس کا موڈ فریش ہوجاتا تھا۔افرحہ نیوی بلیو شرٹ اور لائٹ بلیو جینز کے ساتھ ڈینم جیکٹ پہنے گلے میں مفلر لپیٹے بالوں کو کھلا چھوڑے لائٹ سے میک اپ میں بےحد کیوٹ لگ رہی تھی۔
افرحہ نے بریرہ کے سامنے بیٹھی تھی ہلکی پھلکی بات چیت کرتے اس نے ویٹر سے مینیو کارڈ لے کر دیکھنا شروع کیا تھا۔۔
مینیو کارڈ سے نظریں اٹھاتے اس نے بریرہ کی طرف دیکھا تھا جب اس کی نظریں بریرہ کے پیچھے موجود ٹیبل پر کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھے شاہزیب پر پڑی تھی۔۔افرحہ نے فورا نظریں جھکاتے اپنے چہرے کے آگے مینیو کارڈ کر لیا تھا۔۔
"اس پروفیسر کو بھی سارے ہوٹلز کی جگہ یہ ہی ہوٹل ملا تھا۔۔"
افرحہ نے دل میں سوچا تھا۔۔
"افرحہ کیا ہوا آرڈر نہیں کر رہی تم ؟"
بریرہ کے پوچھنے پر وہ تیزی سے ویٹر کو اپنا آرڈر لکھوا چکی تھی۔۔مینیو کارڈ ویٹر کو واپس لوٹاتے وہ مفلر کی مدد سے اپنا چہرہ چھپانے لگی تھی۔۔اس کا سارا دھیان بریرہ کی باتوں کی بجائے اس کے پیچھلے ٹیبل پر تھا۔۔
"شاہ بابا جانی سے ایک بار مل لو تم۔۔ ان کی طبیعت بھی آج کل خراب۔۔وہ بس تم سے بات کرنا چاہتے ہیں ایک بار ان کی بات سن لو۔۔"
ماہین نے شاہزیب کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
"پھپھو میں واپس کبھی بھی پاکستان نہیں جاوں گا۔۔سب لوگ جیسا چاہتے تھے ویسا ہی ہورہا ہے۔۔۔ان سب لوگوں نے مل کر مجھے برباد کیا ہے۔۔سب لوگ جانتے تھے میں بےقصور ہوں پھر بھی کسی نے میرا ساتھ نہیں دی۔۔اگر آپ مجھے یہاں نہ بلاتی تو یقینا ابھی میں کہیں سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہوتا۔۔۔"
وہ سپاٹ لہجے میں بولتا ماہین کو کہیں سے بھی وہ ہنس مکھ شاہزیب نہیں لگا جس میں سب کی جان ہوتی تھی۔
"شاہ بابا جانی کو یقین ہے تم پر ایک بار ان کی بات سن لو۔۔"
ماہین اداس سی بولی تھیں۔۔
"وہ ساری پروپرٹی میرے نام کرچکے ہیں۔۔"
شاہزیب ماہین کی طرف دیکھتا بولا۔۔
"مجھے پتا ہے۔۔تمھارے باپ کے کہنے پر ہی ایسا کیا گیا ہے۔۔تم بس ایک بار پاکستان چلے جاو پلیز"
ماہین کے بتانے پر شاہزیب کو شدید حیرت ہوئی تھی۔۔
"میں اس بارے میں سوچوں گا۔۔"
شاہزیب کے پرسوچ انداز میں بولنے ہر ماہین خاموشی سے کھانا آرڈر کرنے لگی تھی۔۔
شاہزیب اپنا آرڈر لکھوا رہا تھا جب سامنے والے ٹیبل پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے سامنے موجود افرحہ کو گھورا تھا۔وہ اس کے مفلر میں چھپے ہوئے منہ کو بھی پہچان گیا تھا۔۔
"م۔۔میں واشروم سے ہوکر آئی۔۔"
شاہزیب سے نظریں ملنے پر آنکھیں پھیلاتی وہ بریرہ سے بولتی واشروم کی طرف بھاگی تھی۔۔اس کا جیسا انداز تھا ایسے ہی لگ رہا تھا جیسے وہ شاہزیب کو سٹالک کر رہی تھی۔۔اور اب پکڑے جانے پر بھاگ رہی تھی۔۔
"مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے میں پانچ منٹ میں آیا پھپھو۔۔"
شاہزیب ماہین سے ایکسکیوز کرتا افرحہ کے پیچھے گیا تھا۔۔
افرحہ جب واشروم میں داخل ہوئی تو وہاں کوئی نہیں تھا جس پر اس نے سکون کا سانس لیتے شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا چہرہ دیکھا تھا۔۔جو گھبراہٹ سے سرخ ہوا پڑا تھا۔۔
اپنے گال تھپتھپاتے اس نے اپنی تیز دھڑکن درست کرنی چاہی تھی۔۔دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر اس کی نظر بےساختہ دروازے کی جانب گئی تھی۔۔
جہاں دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا شاہزیب سینے پر بازو باندھے اسے گھور رہا تھا۔۔
"آ۔۔آپ ی۔۔یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟ یہ لیڈیز واشروم ہے جینٹس واشروم ساتھ والا ہے۔۔؟"
وہ شاہزیب کو دیکھتی گھبرا گئی تھی۔
شاہزیب خاموشی سے اس کی طرف قدم بڑھانے لگا تھا۔۔افرحہ پیچھے کو ہوتی دیوار سے چپک گئی تھی۔۔اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگی تھی گھبراہٹ سے تنفس بھی بگڑنے لگا تھا۔۔
اس کے سر کے اوپر ہاتھ رکھتا شاہزیب اس کے چہرے کی جانب جھکا تھا۔۔افرحہ نے بے ساختہ آنکھیں میچ لیں تھیں۔۔
"مجھے سٹالک کر رہی تھی ؟"
شاہزیب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
"ن۔۔نہیں میں یہاں اپنی فرینڈ ساتھ لنچ کرنے آئی ہوں۔۔"
افرحہ دھیرے سے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھتی معصومیت سے بولی تھی۔۔
"اور پلیز آپ تھوڑا پیچھے ہوکر کھڑے ہوں مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے"
افرحہ سراسیمگی سے نظریں جھکاتے ہوئے بولی تھی۔۔شاہزیب اس کے بولنے سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔لیکن وہ ابھی بھی اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔۔چھوٹا قد ہونے کی وجہ سے وہ بالکل اس کے سینے کے پیچھے چھپ سی گئی تھی۔
"اگر اپنی فرینڈ کے ساتھ آئی ہو تو پھر مجھ سے چھپ کر کیوں بھاگ رہی تھی۔۔؟"
اس کے سرخ چہرے پر نظریں ٹکاتے شاہزیب نے سپاٹ اندا میں پوچھا تھا۔
"و۔۔وہ مجھے باہر گھبراہٹ ہورہی تھی اسی لیے فریش ہونے آئی تھی۔۔"
وہ لب دبا کر شاہزیب کے سینے پر نظریں ٹکائے بولی تھی۔۔
شاہزیب مزید اس سے کچھ بولنا چاہتا تھا جب دروازے پر ناک ہونے پر وہ اس سے دور ہوتا دروازہ کھول کر باہر کھڑی لڑکی کی گھوری کو نظر انداز کرکے ٹیبل پر چلا گیا تھا۔۔
افرحہ نے اس کے پیچھے ہوتے ہی اپنے دل ہر ہاتھ رکھا تھا جو تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔جبکہ اسے اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہورہا تھا۔۔
شیشے میں اپنے سرخ چہرے کو دیکھتی وہ سر جھٹکتی شاہزیب کی سوچوں کے حصار سے نکلتی بریرہ کا سوچتی اس کے پاس چلی گئی تھی۔۔



جاری ہے۔۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)