Professor Shah - Episode 7

0

 

Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 7

- - -


"موم فار گاڈ سیک۔۔ میں ابھی کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔ابھی میں صرف اپنی لائف انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔۔"
بریرہ جو اپنے پیرنٹس سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ان کی شادی کی بات چھیڑنے پر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔۔
"ہم شادی طے کرچکے ہیں۔۔ساتھ بزنس ڈیل بھی سائن ہوچکی ہے۔۔تم خود کو تیار کر لو ایک مہینے بعد تمھاری اینگیجمینٹ ہے۔"
مسز شہروز نے سختی سے کہا تھا۔بریرہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی اور اس کی بھی وہ زبردستی شادی کرنا چاہتے تھے۔
"مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی۔۔موم۔۔"
وہ غصے سے سرخ پڑتے چہرے ساتھ بول رہی تھی۔ان کی بچپن کی زیادتیاں اور اپنی محرومیاں اسے آج کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھیں۔۔
"بریرہ ہم نے تمھیں مکمل آزادی اس لیے نہیں دی تھی کہ بعد میں تم ہمارے ہی خلاف محاز کھول کر بیٹھ جاو۔۔"
شہروز صاحب سنجیدگی سے اپنی بھاری آواز میں بولے تھے۔۔
"ڈیڈ میں اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کبھی بھی آپ دونوں کو نہیں کرنے دوں گی۔۔"
وہ تلخی سے بولی تھی۔
"تم نے یہ شادی نہ کی تو تم بھول جانا کہ ہم تمھیں سپورٹ کریں گے۔۔تمھیں اس پروپرٹی میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔۔"
مسز شہروز غصے سے بولی تھی۔۔اپنی صاجزادی کی مخالفت نے انھیں بھڑکا دیا تھا ۔
"آپ مجھے فورس نہیں کرسکتی۔۔میں اپنی جان دے دوں گی لیکن آپ کی پسند کے لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔۔"
بریرہ بھی انھی کے لہجے میں تیز آواز میں بولتی ان دونوں کو ساکت کر گئی تھی۔۔
"تمھارے پاس ایک مہینہ ہے اپنا مائینڈ بنا لو۔۔۔انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔"
شہروز صاحب سخت لہجے میں بولتے وہاں سے چلے گئے تھے۔۔
"میں کبھی بھی آپ کی پسند کے لڑکے سے شادی نہیں کروں گی۔۔"
بریرہ چیخ کر بولتی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔گھر میں عجیب سی گھٹن ہونے لگی تھی۔۔وہ مرکر بھی کبھی ان لوگوں کی پسند سے شادی نہ کرتی۔۔اور جیسے یہ لوگ تھے ان کی حقیقت وہ ہی جانتی تھی۔
بریرہ کے گھر آنے سے پہلے افرحہ سارے گھر کی صفائی کرنا چاہتی تھی۔جنگلی بلی کو وہ واپس اسی جگہ چھوڑ کر آچکی تھی۔۔بلی صوفے پھاڑ چکی تھی جن کا کوئی حل نہ تھا لیکن وہ پوری کوشش کرتی باقی چیز سمیٹ چکی تھی۔
اس جنگلی بلی نے کچھ شو پیس بھی توڑ دیے تھے جبکہ کیچن کا بھی سیاناس کردیا تھا۔وہ تو شکر تھا کہ اس کے اور بریرہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ورنہ کوئی شک نہ تھا بلی وہاں بھی تباہی مچا دیتی تھی۔۔
کام کرتے وقت اس کے ذہن میں مسلسل شاہزیب کا خیال تھا۔اسے شدید دکھ ہو رہا تھا شاہزیب کی چوٹ کے بارے میں سوچ کر۔۔
بریرہ کے آنے سے پہلے وہ سارا گھر سمیٹنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔فریش ہوکر اپنے لیے بریڈ جیم نکالتی وہ کیچن کاونٹر پر پلیٹ رکھتی وہاں موجود سٹول کھینچ کر بیٹھ چکی تھی۔۔
وہ اپنے ماں باپ کی لاڈلی اور اکلوتی اولاد تھی۔۔شروع سے ہی اپنے ماں باپ کی لاڈلی افرحہ شرارتی اور تھوڑی جھلی تھی۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے والی ، دوسروں کا خیال رکھنے والی۔۔اسے دوسرے ملک جاکر پڑھنے کا شوق چڑھا تھا تبھی اپنے ماں باپ سے ضد کرکے وہ یہاں پڑھنے آئی تھی۔۔
بریرہ اس کی اچھی دوست اور ساتھی تھی لیکن وہ زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتی تھی۔جس کی وجہ سے وہ شروع کے دنوں میں کافی اداس ہوجاتی تھی۔۔لیکن آہستہ آہستہ اسے عادت ہوچکی تھی۔
شاہزیب کے آنے سے وہ ایک بار پھر کھل کر جینے لگی تھی۔۔اس کو تنگ کرنے میں اسے مزا آتا تھا۔۔وہ اس کی انسلٹ کو دل پر نہ لیتی تھی کیونکہ اس کے خیال میں شاہزیب بھی دل سے یہ باتیں نہیں کہتا تھا۔۔
لیکن آج اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ شاہزیب کو کچھ دن تنگ نہیں کرے گی۔۔اس کا شکریہ ادا کرنے کا سوچتی وہ اپنے ناشتے کے برتن دھو کر رکھتی اپنے کمرے میں گئی تھی۔۔
اس نے اپنی چیزوں سے ڈھونڈ کر آرٹ اور کرافٹ کا سامان نکالا تھا۔۔
یوٹیوب سے کارڈ بنانے کی ویڈیوں نکالتی وہ اپنے کام میں ایسا مصروف ہوئی کہ وقت گزرنے کا اسے علم ہی نہ ہوا تھا۔۔بریرہ کی آواز سنتی وہ ہوش میں آئی تھی۔۔
"برڈی۔۔برڈی۔۔ "
بریرہ کے اونچی آواز میں بولانے پر وہ اپنا کام چھوڑتی باہر بھاگی تھی۔۔
"کیا ہوا بریرہ ؟"
افرحہ نے روم سے باہر نکلتے پریشانی سے اس سے پوچھا۔
"یہ صوفے پر کیا ہوا ہے اور یہ گھر کا سامان کہاں غائب ہوگیا ہے۔۔"
وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرکے فلیٹ پر لوٹی تھی جب کافی شوپیس غائب دیکھ نر اور صوفے کی ابتر حالت دیکھ کر اس نے افرحہ کو پکارا تھا۔۔
"و۔۔وہ ایک جنگلی بلی نے یہ سب کیا ہے۔۔"
افرحہ منہ پھولا کر بولی تھی بریرہ کے بھنویں اچکانے پر وہ لب دباتی اسے سب کچھ بتاچکی تھی۔۔
"برڈی تمھارا دماغ خراب ہے۔۔آئیندہ کے بعد باہر سے کوئی جانور فلیٹ میں مت لانا۔۔اور تمھیں معلوم ہے نہ اگر تمھارا پروفیسر کے فلیٹ میں رہنے کا کسی کو علم ہوگیا تمھیں یونیورسٹی سے سسپینڈ کردیں گے۔۔"
بریرہ جھنجھلا کر سختی سے بول رہی تھی۔۔اسے افرحہ کی بےوقوفی پر بےحد غصہ آرہا تھا۔۔
"انھوں نے صرف میری مدد کی تھی اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔۔"
افرحہ ناسمجھی سے اسے دیکھتے معصومیت سے بول رہی تھی۔۔
"تم بہت بےوقوف ہو۔۔کوئی یہ نہیں پوچھے گا تم وہاں کیوں گئی تھی لوگ خود سے سب کچھ سوچ لیتے ہیں۔۔برڈی تم خود سمجھدار ہو۔۔تمھاری وجہ سے اس بندے کی جاب بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔۔"
بریرہ اس بار قدرے سکون سے بولی تھی۔
"مجھے اس بارے میں نہیں پتا تھا۔۔میں آئیندہ احتیاط کروں گی۔۔"
افرحہ اداسی سے بولی تھی۔
"میں تمھارے لیے برگر لے کر آئی ہوں وہ کھا لینا اور رات کو میں لیٹ آوں گی۔۔میری فکر مت کرنا۔۔"
بریرہ نرمی سے بولی تھی۔۔افرحہ کی معصوم صورت اسے ہمیشہ پگھلا دیتی تھی۔
"ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا۔۔"
افرحہ ہلکی سی مسکان سے بولی تھی۔
"یار مجھے تمھاری فکر ہے صرف اس لیے سمجھایا تھا میری باتوں کا غصہ نہ کرنا۔۔"
افرحہ کے گلے میں بازو ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچتے بریرہ سنجیدگی سے بولی تھی۔۔
"مجھے پتا ہے۔۔تم ٹینشن مت لو۔۔"
بریرہ کو مسکرا کر جواب دیتی وہ اپنے برگر کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔
اس نے ایک خوبصورت سا کارڈ شاہزیب کے لیے بنایا تھا جس کی ایک سے زیادہ تہہ تھیں۔۔ہر تہہ میں اس نے ایک ایک لائن لکھی تھی۔۔آسمانی رنگ کے کارڈ پر نفاست سے اس نے سب کچھ لکھتے اپنے کمرے میں موجود واس سے آرٹی فیشل سرخ رنگ کا پھول نکالتے ان دونوں کو ریبن سے باندھتے وہ اپنے فلیٹ سے نکلتی اس کے فلیٹ کے دروازے کے پاس رکھتی بیل بجا کر فورا اپنے فلیٹ میں بھاگ آئی تھی۔۔
شاہزیب نے دروازہ کھولتے دائیں بائیں نظر ڈالی تھی۔۔افرحہ کی شرارت کا سوچتے اسے ایک دم غصہ آیا تھا جب زمین ہر پڑے پھول اور کارڈ کو دیکھتے اس نے نیچے جھک کر اٹھا لیا تھا۔
دروازہ بند کرتے اس نے کارڈ کو کھولا تھا۔جس کے باہر " تھینک یو سو مچ " لکھا تھا۔۔اگلے کارڈ میں "آئی ایم سوری " لکھا تھا جبکہ آخری کارڈ میں "یو آر دا بیسٹ پرسن..میری مدد کرنے کے لیے شکریہ۔۔آپ کا احسان میں ہمیشہ یاد رکھوں گی" لکھا ہوا تھا۔۔جسے پڑھتے شاہزیب کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی۔۔اسے انداز ہو گیا تھا یہ کارستانی ساتھ والی ٹڈی کی تھی۔
کارڈ کو پھینکنے کی بجائے وہ اپنے روم میں رکھ آیا تھا۔۔اس کے بازو پر بینڈیج تھی شکر تھا انفیکشن نہیں ہوا لیکن اس جنگلی بلی نے اس کو کافی زور سے پنجا مارا تھا۔۔
کچھ دیر لاونج میں بیٹھ کر سنو فال کے سٹارٹ ہونے پر وہ اپنے لیے کافی بناتا بالکونی میں جانے کا سوچ رہا تھا۔۔
کافی کا کپ تھامے وہ بالکونی میں آیا تھا جب ساتھ والی بالکونی میں افرحہ کو آنکھیں بند کیے باہیں پھیلائے کھڑا دیکھ کر وہ ساکت ہوا تھا۔
اس کے سفید مومی گال سردی کی شدت سے سرخ پڑ رہے تھے جبکہ چھوٹی سی ناک بھی شدید لال دکھائی دی رہی تھی۔رف سے حلیے میں وہ سفید لانگ شرٹ اور کھلے ٹروازر میں ملبوس سرخ سیب لگ رہی تھی۔بالوں کو کمر پر کھولا چھوڑے وہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ لہرا رہی تھی۔
اس کے چہرے پر چھائی معصومیت سے شاہزیب نے بمشکل اپنی نظریں افرحہ کے چہرے سے ہٹائی تھی۔وہ لڑکی ہر وقت اس کی سوچوں ہر قابض ہونے لگی تھی۔
وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔شاہزیب خاموشی سے کافی کے گھونٹ لیتا اس سے نظریں موڑ گیا تھا۔۔افرحہ اب باقاعدہ کوئی انگلش گانا گانے لگی تھی۔۔
اس کی سوفٹ وائس کو سن کر شاہزیب چاہ کر بھی اسے گانے سے روک نہ سکا تھا۔خاموشی سے کافی کے گھونٹ بھرتا وہ اس کا گانا سننے لگا تھا۔
"آہہ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟"
گانا مکمل کرنے کے بعد افرحہ نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولی ہی تھیں جب شاہزیب کو دیکھ کر ڈرتے ہوئے اس نے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔ شاہزیب کے کارڈ اٹھانے پر وہ بے حد خوش تھی تبھی انجوائے کرنے کے لیے بالکونی میں آئی تھی مگر اسے کیا معلوم تھا یہاں شاہزیب بھی آسکتا تھا۔۔
"تم بھول رہی ہو یہ میرا فلیٹ ہے میں جہاں چاہوں جاسکتا ہے۔۔"
اس کی بات پر شاہزیب آنکھیں گھماتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔
"آپ نے کچھ سنا تو نہیں؟"
اپنی انگلیاں چٹخاتی وہ نروس سی پوچھ رہی تھی۔
"ڈونٹ وری۔۔تمھاری خوبصورت آواز سن کر میرے کان کے پردے پھٹے نہیں ہے۔۔"
شاہزیب کے طنزیہ بولنے پر افرحہ نے لب دباتے منہ پھولایا تھا۔۔اس کا پھولا ہوا منہ واقعہ سیب کی طرح لگنے لگا تھا۔
"کسی کا دل رکھنے کے لیے ہی اس کی تعریف کردینی چاہیے۔۔"
وہ سیانوں کی طرح بولی تھی۔شاہزیب نے ایک نظر اسے دیکھنے کی غلطی کی تھی۔جب وہ دوبارہ ساکت ہوا تھا۔
"جو تعریف کے لائق ہوتے ہیں میں ان کی تعریف بھی کرتا ہوں۔۔آئیندہ کے بعد اپنا گلا پھاڑنے کے لیے بالکونی میں مت آنا۔۔ میں نہیں چاہتا تمھاری وجہ سے میرے کان خراب ہوں۔۔"
شاہزیب اپنا سر جھٹکتا اپنی نگاہیں پھیرتا سنجیدگی سے بولا تھا۔
"آپ کا بازو کیسا ہے۔۔؟"
اس کی باتوں کو اگنور کرتے کپکپاتے ہونٹوں سے افرحہ نے اس کے بینڈیج لگے بازو پر نظریں ٹکائے پوچھا تھا۔
"اٹس ناٹ یور کنسرن"
وہ درشتگی سے بولتا بنا اس پر نظر ڈالے اندر چلا گیا تھا۔۔اس کی بےرخی اور اکھڑے لہجے نے افرحہ کا سارا موڈ خراب کر دیا تھا۔
سردی کی شدت بڑھتی محسوس کرکے وہ بھی کچھ دیر کھڑی رہنے کے بعد اندر چلی گئی تھی۔
"ہیلو کون بات کر رہا ہے؟"
عادل فریش ہوتا واشروم سے نکلا تھا جب موبائل پر کال آتی دیکھ کر اس نے فورا اٹینڈ کی تھی۔
"ہ۔۔ہیلو آلو۔۔۔ کی۔۔کیسے ہو ؟"
بریرہ نشے کی حالت میں ہچکیاں لیتی پوچھ رہی تھی۔
سفید بندریاں عرف بریرہ کی آواز سنتے اسے حیرت ہوئی تھی۔
"تم نے میرا نمبر کہاں سے لیا؟"
عادل نے تیز لہجے میں پوچھا۔
"ش۔۔شٹ اپ۔۔ فو۔۔فورا مج۔۔مجھے آکر پک ک۔۔کرو کلب سے۔۔"
وہ نشے کی حالت میں واشروم کی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔۔
"میں تمھارا نوکر نہیں ہوں دوبارہ کال مت کرنا۔۔"
عادل تیز لہجے میں بولتا کال بند کرنے لگا تھا جب اس کے بولنے پر رک گیا تھا۔
"پ۔۔پلیز کسی ن۔۔نے مم۔۔میری ڈرنک میں ک۔۔کچھ مم۔۔مکس کر دیا ہے۔۔"
وہ اپنا چکراتا سر تھامتی نم آواز میں التجائیہ بول رہی تھی۔
"کونسے کلب میں ہو ؟ میں آرہا ہوں تمھیں پک کرنے۔۔"
اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتا وہ تیزی سے کوٹ پہنتا باہر نکلا تھا۔۔بریرہ کے اڈریس بتانے پر وہ چند منٹوں میں ہی اس تک پہنچ چکا تھا۔شاہزیب اسی کلب میں آتا جاتا رہتا تھا تبھی اسے اندر جلدی داخل ہونے میں بھی ہریشانی نہیں ہوئی تھی۔
لیڈیز واشروم کے باہر جاتے اس نے بریرہ کو کال کرکے باہر آنے کا بولا تھا۔۔
لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی بریرہ باہر نکلی تھی۔عادل کو دیکھتے ہی اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
بریرہ کی حالت دیکھتے عادل کی آنکھیں پھیلی تھیں۔وہ شاید رو رہی تھی جو اس کی آنکھوں کے نیچے سارا لائنر پھیل چکا تھا۔۔ جس سے اس کی ساری آنکھیں نیچے سے کالی ہوئی پڑی تھیں۔۔عادل کو وہ اس وقت چڑیل لگ رہی تھی۔
"تھین۔۔تھینک یو آ۔۔آلو۔۔"
بریرہ کمزور مسکراہٹ سے بولی تھی۔
"میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں چلو تمھیں گھر چھوڑ آوں۔۔"
عادل سنجیدگی سے بولتا چلنے لگا تھا۔۔بریرہ بھی چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اس کے پیچھے جانے لگی تھی۔۔
عادل نے اسے گاڑی میں بیٹھاتے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔
"تم ب۔۔ببب۔۔۔بہت برے ہو۔۔"
وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتی کھینچ کر بولی تھی۔عادل نے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا تھا۔
"لیکن میرے پیرنٹس سے اچھے ہو۔۔"
وہ گال پر ہاتھ رکھے معصومیت سے بولتی عادل کو کہیں سے بھی لڑاکا طیارہ بریرہ نہیں لگی تھی۔
"و۔۔وہ ب۔۔بہت برے ہیں میری زبردستی شادی کروانا چاہتے ہیں۔۔للل۔۔لیکن میں بھ۔۔بھاگ ج۔۔جاوں گ۔۔گی شادی نہیں کروں گی۔۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی بول رہی تھی عادل نے خاموشی سے اسے ایک نظر دیکھا تھا وہ اب تک جن لڑکیوں سے ملا تھا اسے بریرہ بھی ان جیسی ہی لگتی تھی لیکن اس وقت وہ اسے ایک راز لگ رہی تھی۔
بلڈنگ کے سامنے گاڑی روکتے عادل نے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا۔۔
"اوہ مائی گاڈ۔۔"
بریرہ جس کا دل خراب ہو رہا تھا اچانک ابکائی آنے پر وہ الٹی کرنے لگی تھی جبکہ عادل بروقت اس سے فورا دور ہو گیا تھا۔
"اوپ۔۔پس سوری آ۔۔آلو۔۔ شش۔۔شکریہ پک کرنے کے لیے۔۔"
بریرہ اپنا منہ صاف کرتی جھولتی یوئی گاڑی سے نکل کر بلًنگ کے اندر چلی گئی تھی اس کے جاتے ہی عادل نے سکون کا سانس لیتے اپنے گھر کا رخ تھا۔
کل برفباری میں کافی دیر کھڑا رہنے کی وجہ سے افرحہ کو فلو ہو گیا تھا۔یونیورسٹی سے پہلے ہی کافی چھٹیاں کرنے کی وجہ سے اس کا کافی کام اور اسائمنٹس پینڈنگ پر تھیں۔تبھی بیتی ناک اور چکراتے سر کے ساتھ وہ یونیورسٹی آئی ہوئی تھی۔
"اچھو۔۔اچھو۔۔"
چھینکتی ہوئی وہ سیکنڈ رو میں آکر بیٹھ چکی تھی۔۔سکن شرٹ اور بلیو جینز کے ساتھ بلیک لانگ کورٹ اور گردن کے گرد مفلر لپیٹے وہ سوں سوں کرتی اچھی خاصی بیمار لگ رہی تھی۔
شاہزیب کا لیکچر شروع ہونے والا تھا۔وہ خاموشی سے بیٹھی تھی شاہزیب کے کلاس میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اس نے اپنی نوٹ بک نکالی تھی۔
شاہزیب اپنا لیپ ٹاپ کھولتا سلائیڈز شئیر کرتا لیکچر دینے لگا تھا۔۔سکرین کی طرف رخ کیے وہ لیکچر دے رہا تھا جب اپنی کمر پر کچھ لگتا دیکھ کر وہ خاموش ہوا تھا۔اس کی نظر زمین پر گرے کاغذ کی طرف گئی تھی۔۔
کاغذ اٹھاتے اس کی نظر بے ساختہ افرحہ کی طرف اٹھی تھی جو خاموشی سے نظریں جھکائے ٹیشو سے اپنا ناک صاف کر رہی تھی۔
کلاس میں چھائی گہری خاموشی میں شاہزیب کی غصے سے بھری آواز سنتی افرحہ ڈر کر اچھلی تھی۔
"یو سٹینڈ اپ۔۔ اگر تمھیں نہیں پڑھنا تو میری کلاس میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔تمھاری انھی فضول حرکتوں کی وجہ سے سب ڈسٹرب ہورہے ہیں بیگ اٹھاو اور کلاس سے نکل جاو۔۔اور ایک ہفتے تک کلاس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
افرحہ کی طرف اشارہ کرتا وہ درشتگی سے بنا یہ جانے کے کس کا قصور ہے اسے بےعزت کر گیا تھا۔
افرحہ بنا کسی قصور کے شاہزیب کے ڈانٹنے ہر ساری کلاس کے سامنے شرمندہ ہوتی لب بھینچ کر نم آنکھوں سے بنا شاہزیب کی طرف دیکھے تیزی سے نکل گئی تھی۔
"سر کاغز چارلی نے نہیں ولیم نے آپ کو مارا تھا۔۔"
چارلی افرحہ کی بلاوجہ بےعزتی ہونے پر فورا بول اٹھی تھی۔۔باقی کلاس نے بھی چارلی کے ساتھ گردن ہلائی تھی۔افرحہ ان کی اچھی کلاس میٹ تھی جو ان کی ہمیشہ مدد کرتی تھی۔۔
"ولیم کلاس سے نکل جاو اور لیکچر ختم ہونے کے بعد میرے آفس میں ملنا۔۔"
شاہزیب چارلی کی بات سنتا مٹھیاں بھینچ کر غصے سے بولا تھا۔۔افرحہ کو بلاوجہ ڈانٹنے پر اسے برا محسوس ہوا تھا۔اسے بعد میں بات کرنے کا سوچتے شاہزیب نے دوبارہ اپنا لیکچر دینا شروع کیا تھا۔
کلاس ختم ہوتے ہی وہ ولیم سے نبٹتا سگریٹ پینے کے لیے کچھ دیر ڈیپارٹمنٹ کی بیک سائیڈ پر آیا تھا۔۔
سگریٹ کا گہرا کش لیتے اس کی نظر اچانک ہی دائیں طرف بنی سڑھیوں پر پڑی تھی جہاں بیٹھی افرحہ اسے گھور رہی تھی۔۔
"افرحہ میری بات سنو۔۔"
شاہزیب نے اسے اٹھتے دیکھ کر کہا تھا۔افرحہ بنا اس کی بات سنے تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔۔شاہزیب نے آج اس کی جو انسلٹ کی تھی وہ بھول نہیں سکتی۔۔
"ڈیم اٹ۔۔"
اسے جاتا دیکھ کر سگریٹ کا گہرا کش لیتا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ جھنجھلایا ہوا بڑبڑایا تھا۔۔ایک عرصے بعد کسی لڑکی نے اسح برا محسوس کروایا تھا۔ورنہ وہ ان جذبات کو کب سے محسوس کرنا چھوڑ چکا تھا۔۔
افرحہ سے بعد میں بات کرنے کا سوچتا وہ سگریٹ بجھاتا اپنا اگلا لیکچر لینے چلا گیا تھا۔۔


جاری ہے۔۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)