ZombieWar - Episode 1

0


 Novel - ZombieWar Red Zone's Alert

Episode #1
Writer - Daoud Ibrahim


_ _ _


مجھے نہیں معلوم کہ یہ کھیل شروع کیسے ہوا۔مگر وہ کہتے ہیں نا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کھیل شروع کون کرتا ہے بلکہ فرق تو اس سے پڑتا ہے کہ اس ختم کون کرے گا۔

آغاز۔۔۔

یہ چاروں اس وقت کسی صحرا میں موجود تھے۔ نہیں معلوم کہ کونسا صحرا مگر جس طرف بھی دیکھا جائے سوکھا ہی سوکھا نظر آتا تھا ۔حدودِنظر میں کہیں بھی کوئی آدم زرد نہ تھا ۔ سوائے کاظم ،ب‍‍ریعہ ، اور ان دونوں جڑواں عمر اور عامر کے ۔ یہ چاروں کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھے۔ جس میں وہ سکون کے ساتھ رات گزار سکیں۔ ذرا آگے بڑھے تو اس ریگستان میں انھیں ایک لکڑی کا مکان نظر آیا ۔ انھیںں دماغی طور پر سکون ملا کہ شاید اب ان کو کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ اس مکان میں ایک کار کے علاوہ کچھ گھریلو سامان تھا۔دو ہی کمرے تھے جو کہ آمنے سامنے تھے۔جن کے درمیان میں کار کھڑی تھی۔اس دو منزلہ مکان کا نچلا حصہ مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا۔ چاروں بھاگ کر اس مکان میں گھس گئے۔اس مکان کا دروازہ الیکٹریکلی بند ہوتا تھا۔ یعنی ایک بٹن کے ذریعے اسے بند کیا اور کھولا جاتا تھا۔ کاظم نے بھاگ کر سب سے پہلے کھڑکیاں اچھی طرح سے بند کیں ۔ تو پھر اسے سکون ملا اور وہیں دیوار کو پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا اور سانسیں بھرنے لگا ۔ دوپہر کی دھوپ نے لو کو مزید بڑھا دیا ۔ اب اس ریگستان میں شام کی وحشت چاروں طرف پھیلنے لگی تھی۔بھوک بڑھنے لگی ۔ چاروں نے اس مکان کی چھان بین شروع کی ۔ کاظم مکان کے نچلے حصے کی چھان بین کرنے لگا۔ اسے بھی یہ امید تھی کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے لیکن جیسے جیسے وہ بڑھ رہے تھے کسے مردار کے جسم کی بدبو آنے لگی تھی۔ دیواروں پر خون کے دھبے اور سامان کو بکھرا ہوا دیکھ کر یہ معلوم ہوتا تھا کہ یا تو یہ کسی انفیکٹد ہر وہ شخص یا جاندار، جو اس وائرس کا شکار ہو چکے تھے، ان کا گھر تھا یا تو پھر اس پر ان انفکٹڈز نے حملہ کیا تھا ۔ یعنی انفکٹڈز یہاں پہنچ چکے تھے اور ہتھیاروں سے بھرا بیگ دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ یہ مکان جس کا بھی تھا اسے معلوم تھا کی وہ آنے والے ہیں ۔ کوئی ایسا جس کو ان کی آمد کی خبر تھی اور تیاری مکمل کر کے ان کے انتظار میں تھا مگر پھر بھی ان کے وار سے بچ نہ سکا ۔کاظم کمرے میں پڑے ہتھیاروں بھرے بیگ کی زپ کو بند کر کے کمرے سے باہر آیا اور کار کو چیک کرنے لگا اور وہ جڑواں عمر اور عامر چھت پر چلے گئے جو کہ دوسری اور آخری منزل تھی۔ کاظم کے پاس وہ بیگ تھا۔ جس میں اس وائرس کا اینٹیڈود موجود تھا۔ یہ چاروں ایک دوسرے کو اس وائرس کے پھیلنے سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ وہ جڑواں ایک دوسرے کو جانتے تھے مگر کاظم اور بریعہ یہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ کاظم جو کہ اب گاڑی کو چیک کر ریا تھا، اس نے میز پر پڑھے پانی کے جگ کی طرف بڑھتی ہوئی اقصی سے پوچھا۔
"اچھا! تو تمھارا نام بریعہ ہے" 
"اوو ۔۔اچھا تو تم بول بھی سکتے ہو۔۔۔نائس"
 کہہ کر بریعہ نے منرل واٹر کی بوتل کو منہ لگایا۔
" کیوں ؟ میرے منہ میں زبان نہیں ہے "
" اچھا۔۔اچھا تو پچھلے سات گھنٹے سے زبان کو تالا لگایا تھا؟ "
" ہیلو مس، جتنا کم بول سکو اتنا ہی بہتر ہو گا آپ کے لیے بھی اور ہم سب کے لیے۔۔"
" کافی کچھ پتہ کر رکھا ہے تم نے ان ادھ مردوں کے بارے میں۔۔۔کہیں کوئی چکر تو نہیں تھا ان ادھ مروں کے ساتھ۔۔۔"
"اااااا۔۔۔۔مس آپ ان کو ادھ مرا کہنا بند کر دیں پلیز اور ان انفکٹڈز کو آپ زومبیز کہہ سکتی ہیں " 
یہ کہتے ہوئے کاظم کار کی کچھ سیٹنگ کر رہا تھا جس سے اسے یہ چلانے میں آسانی ہو کیونکہ اب ان کو اس میں ہی سفر کرنا تھا۔
ہییں اتنی عزت آئی مین مس بھی اور پلیز بھی۔۔نہ کر یار ہضم نہیں ہوگی۔۔اور تیرا کہیں کسی ادھ مری سے چکر تو نہیں۔۔جو تو ان کی اتنی حمایت کر رہا ہے۔۔آئی مین ہو سکتا ہے نا کہ۔۔کسی نا۔۔کسی۔۔سے تو۔۔اور اس کے ساتھ اپنی بات کا کوئی مطلب نہ پا کر خود ہی مسکرانے لگی۔ لیکن کاظم نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا وہ کار کو گھورنے میں مصروف تھا ۔۔اور پھر وہ چپ ہو گئی اور ہاتھوں کو کمر پہ رکھ کر منہ اٹھائے ٹہلنے لگی۔جیسے کچھ سوچ رہی ہو اور پھر ٹہلتے ٹہلتے سیڑھیوں کے پاس جا کے جو کہ چھت کر طرف جاتی تھیں ، رک گئی اور جلدی سے کاظم کے پاس گئی جو کہ کار کاانجن چیک کر رہا تھا اور بولی۔
"تمیں کیا لگتا ہے ان دونوں کے بارے میں۔۔۔آئی مین ان دونوں کے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہے۔"
" گڑ بڑ۔۔۔۔۔ کیسی گڑ بڑ " 
کاظم چونکا۔
 ارے تمہیں ان دونوں بھائیوں کو دیکھ کر شک نہیں ہوتا کیا۔۔۔اور وہ بڑے والا ، پتہ نہیں ہے کون پر کتنا بڑا ٹھرکی ہے؟ چوبیس گھنٹے مجھے گھورتے رہتا ہے۔ دل تو کرتا ہے کہ اس کی دل بھر کے کوٹ لگائوں لیکن چوبیس گھنٹے تو ہمیں ملے ہوئوں کو ہوئے ہی نہیں۔۔
" لفظوں کو چھوڑو۔۔۔معنوں کو پکڑو یار ۔۔۔بتاؤ میرے ساتھ ان کی کوٹ لگاؤ گے"
" اچھا ان کو بعد میں دیکھ لینا، ابھی مجھے کار سیٹ کرنے دو، ابھی تو اس میں فیول بھی بھرنا ہے "
ارے۔۔۔ارے۔۔ارے۔۔اتنی خوبصورت لڑکی تم سے مدد کے لیے کہہ رہی ہے اور تم سمجھ کیا رہے ہو خود کو اور وہ سے بھی میں تم سے تو زیادہ ہی بہادر ہوں۔۔
کاظم کے ہاتھ سے ایک اوزار چھوٹ کر نیچے پکے فرش پر گرا۔جس سے ایک اونچی چونکا دینے والی آواز پیدا ہوئی۔جس سے بریعہ چونک کر کھڑی ہو گئی۔جسے دیکھ کے کاظم دل ہی دل میں ہنسنے لگا۔اتنے میں اوپر سے ان میں سے چھوٹے بھائی عامر نے ان کو آواز دی۔
" گائیز ! ذرا جلدی سے اِدھر آؤ "
کاظم اور بریعہ جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ اوپر ایک ہیلی کاپٹر کھڑا تھا اور قریب ہی دو لاشیں پڑی تھیں۔ جن میں سے ایک نے سفید وردی پہنی ہوئی تھی۔ جو کی خون سے بری طرح لت پت تھی اور اس کا آدھا گلا یعنی ایک سائیڈ سے گلا زومبیز نے بری طرح سے کاٹا تھا اور گوشت الگ کر دیا تھا۔ قریب ہی ایک اور لاش پڑی تھی۔ جس کی حالت بتانے لائق نہیں تھی۔ ان میں سے بڑا بھائی عمر بولا۔ 
لیکن ایک پرابلم ہے۔۔اس کاپٹر میں صرف دو لوگ ہی بیٹھ سکتے ہیں اور وہ کو یہیں رہنا ہو گا۔اب ایک تو پائلٹ ہو سکتا ہے یعنی جسے یہ ہیلی کاپٹر چلانا آتا ہو اور دوسرا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ کون کون جا سکتا ہے۔ 
 اااااا۔۔ دیکھو مجھے یہ ہیلی کاپٹر چلانا نہیں آتا اور میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ اینٹیڈوڈ راولپنڈی ائی ایس آئی ہیڈکوارٹرز پہنچ جايے تاکہ وقت رہتے اسے استعمال کیا جا سکے۔۔کاظم بولا۔
میں اسے چلا سکتا ہوں لیکن یہ طے کرو کہ میرے ساتھ کسے جانا چاہیے۔۔عمر بولا۔
کسی نے بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ عمر کا چھوٹا بھائی عامر جوکہ کافی ڈرپوک تھا۔ بولا
کسی اور کو بھی یہ زلزلاہٹ محسوس ہو رہی ہے یا بس میں ہی ہوں۔۔
پھر سب نے دھیان دیا۔تو سب کو ایک بڑھتی ہوئی زلزلاہٹ محسوس ہوئی جو کہ مزید سے مزید تر ہوتی جارہی تھی۔ چاروں کی ہڑبڑاہٹ بھی بڑھ گئی۔عمر نے آگے بڑھ کر دیکھا تو دور کہیں گردوغبار آسمان کی طرف آٹھتی ہوئی دیکھائی دی۔ اس غبار کے نیچے سے ایک آدمخور لشکر نمودار ہونے لگا جو کہ کافی تیزی سے بھاگ دوڑ کر رہا تھا لیکن شُکر تھا کہ آدمخوروں کو ان کے ہونے کی بھنک تک نہ تھی۔ اب کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہاں ایسا کیا تھا کہ وہ آدمخور وہاں یوں جھنڈ کی شکل کھڑے تھے۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی چیز کی توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔ شاید وہ کوئی کار تھی۔ اور ظاہر تھا کہ وہ کار جو کہ پہلے وہاں نہیں تھی لیکن اب موجود ہے۔ تو اسے چلانے والا یا چلانے والے اس کے اندر ہی ہونگے۔اب کاظم کو یہ چیز ستا رہی تھی کہ وہاں کون ہے؟ یا ہم اسے بچا سکیں گے یا نہیں؟ اسی متعلق سوچ بچار کرنے کے بعد وہ کھڑا ہوا اور جلدی سے نیچے چلا گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے بریعہ بھی بھاگی اور پھر دونوں جڑواں بھی نیچے پہنچے۔
" اوئے۔ تم کیا کرنے لگے ہو؟ کاظم۔۔۔کاظم۔۔۔"
کاظم نے جلدی سے بیگ میں سے ایک شوٹ گن اور ایک کلہاڑا نکال کر پیٹھ پر لٹکایا اور عمر سے مخاطب ہوا۔
تم سب اس بیگ میں سے ہتھیار لو اور چھت پر سے مجھے بیک اپ دیتے رینا میں اس آدمخوروں کے گروہ کے پاس جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں ضرور کوئی ایسا ہے جسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔
یہ سب سن کر بریعہ اور وہ دونوں کاظم کی ہمدردی سے متاثر ہوئی۔ بریعہ نے اسے روکنا چاہا مگر کچھ کہہ اور ظاہر نہ کر سکی اور کاظم نے اپنے گلے سے بیگ نکالا اور بریعہ کو تھماتے ہوئے کہا۔
 اِس بیگ میں اُس وائرس کا اینٹیڈوڈ ئے۔یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اسے اس کے مقام تک پہنچاؤں لیکن اگر میں نہ لوٹ سکا تو کیا میں یہ امید کر سکتا ہوں کہ تم اسے اس کے مقام تک پہنچا دو گی؟ کیا تم اسے ہیڈکوارٹرز پہنچا دو گی؟ ۔۔۔پہنچاؤ گی؟؟
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ تو بریعہ نے سر ہلا کر مثبت تاثر دیے۔ جب تک وہ مکمل طور پر کچھ سمجھی کاظم وہ الیکٹریکل دروازہ کھول کر کے آ گے نکل چکا تھا  لیکن بریعہ اسے ویسے ہی کھڑی دیکھتی رہی اور جلدی ہی ان دونوں کے پاس چھت پر چلی گئی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ کاظم کافی دور تک آگے نکل چکا تھا۔ وہ ایسے ہی پتھروں کی اوٹ میں چھپ چھپ کر آگے بڑھ رہا تھا ۔ اسے کار واضع نظر آنے لگی تھی۔ کاظم آدھے سے تھوڑا کم فاصلہ طے کر چکا تھا۔ اسے کار میں بیٹھے دو لوگ نظر آرہے تھے جو کہ مر چکے تھے۔وہ تھوڑا افسردہ ہوا اور ایک سانس بھری لیکن پھر اچانک مکان سے ہیلی کاپٹر کی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔ ہیلی کاپٹر کے انجن کی اونچی آواز ایک کلومیٹر دور کھڑے اُن آدمخوروں تک بہت جلد ہی پہنچ گئی۔ وہ سب بجلی کی سی رفتار سے اس آواز کی طرف بڑھنے لگے۔

Next Episode Is Coming Soon...
اپنی اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے - شکریہ

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)