Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 9
- - -
آج اسے یونی سے آف تھا تبھی عادل سے ملتا وہ واپس اپنے فلیٹ میں آگیا تھا۔۔لفٹ سے نکلتے وہ اپنے فلیٹ کا لاک کھولنے لگا تھا جب ساتھ والے فلیٹ سے افرحہ اور زید کو نکلتے دیکھ کر وہ ساکت ہوا تھا۔۔
"گڈ مارننگ پروفیسر۔۔"
اسے دیکھتے افرحہ چہکتے ہوئے بولی تھی۔۔زید جو رات کو واپس ہوٹل میں چلا گیا تھا۔۔اب زید دوبارہ اسے لینے آیا تھا تاکہ دونوں انجوائے کرسکیں۔۔
شاہزیب نے دھیرے سے سر ہلایا تھا جبکہ زید اسے نظر انداز کرتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔شاہزیب بھی لب بھینچتا اپنے گھر جانے کی بجائے لفٹ کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔
افرحہ اور زید کے پیچھے ہی لفٹ میں داخل ہوتے وہ لفٹ سے ٹیک لگائے سینے ہر بازو باندھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔
"کل میں نے ایک پاکستانی ریسٹورنٹس سے کھانا ٹرائے کیا تھا۔۔میں وہاں سے آج تمھیں لنچ کرواوں گا۔۔"
زید نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلانا چاہا تھا جب اس کا ارادہ سمجھتی افرحہ اس سے تھوڑے فاصلے پر ہٹی تھی۔۔
شاہزیب نے آنکھیں چھوٹی کرکے زید کو گھورا تھا جو شرمندہ سا اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔
"ہمم ٹھیک ہے۔۔"
افرحہ نے ایک نظر پیچھے مڑ کر شاہزیب پر ڈالی تھی۔جو بظاہر اپنا موبائل نکالے اس میں بری طرح غرق تھا۔لیکن یہ تو شاہزیب کو ہی معلوم تھا وہ ان کی باتیں سننے کے لیے پیچھے پیچھے آیا تھا۔۔
"گڈ بائے۔۔"
افرحہ شاہزیب سے بولتی زید کے ساتھ اس کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔شاہزیب مٹھیاں بھینچے اپنی گاڑی کی طرف گیا تھا۔۔
وہ بنا سوچے سمجھے ان کا پیچھا کرنے لگا تھا۔جو اب ناشتہ کرنے اوپن ریسٹورنٹ میں بیٹھ گیا تھا۔۔شاہزجب ایک سائیڈ پر کار پارک کرکے انھیں پر نظریں ٹکائے بیٹھا تھا۔۔اسے نہیں علم تھا وہ جانے انجانے میں جیلس ہوتا ان پر نظر رکھ رہا تھا۔۔
"یہ کچھ زیادہ ہی چپکو ہے۔۔اس کے ہاتھ توڑنے پڑیں گے۔۔"
زید کو افرحہ کا ہاتھ پکڑتے دیکھ کر وہ دانت کچکچاتا بڑبڑایا تھا۔۔
شدت سے سگریٹ کی طلب محسوس کرتا وہ گاڑی کا شیشہ تھوڑا نیچے کرتا ان پر نظریں گاڑھے سگریٹ پینے لگا تھا۔۔
افرحہ کو زید کے ساتھ ہنستے دیکھ کر شاہزیب نے بمشکل خود کو گاڑی سے نکل کر زید کا منہ توڑنے سے روکا تھا۔۔
خود پر ضط کے پہرے بیٹھاتا انھیں ناشتہ کرکے اٹھتے دیکھ کر شاہزیب نے سگریٹ نیچے پھینکتے گاڑی کا شیشہ واپس اوپر کیا تھا۔۔
"میں پاگل ہوگیا ہوں۔۔"
ان کا پیچھا کرتے وہ جھنجھلا کر بڑبڑایا تھا۔۔اپنی کیفیت اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
زید افرحہ کے ساتھ مال آیا تھا اسے یہاں سے کچھ چیزیں خریدنی تھیں جس میں وہ افرحہ کی مدد لینا چاہتا تھا۔۔
"یہ ڈریس کیسا ہے ؟"
زید نے ائبرو اچکاتے افرحہ کو ایک براون کلر کا لونگ ویسٹرن سٹائل کا ڈریس دیکھایا تھا۔۔
"واو۔۔ یہ بہت خوبصورت ہے۔۔"
افرحہ نے ڈریس کو چھوتے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ان سے کچھ دور کھڑے شاہزیب نے انھیں دیکھتے مٹھیاں بھینچی تھیں۔
"اوکے یہ میری طرف سے تمھارے لیے گفٹ ہے۔۔"
زید مسکراتا ہوا جوابا بولا تھا۔۔
"نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
افرحہ نے فورا منع کرتے اس سے ڈریس لیتے واپس ہینگ کردیا تھا۔۔
"ارے یار کیا ہو گیا ہے میری طرف سے گفٹ ہے تمھارے لیے۔۔"
زید نے اسے روکتے ہوئے کہا تھا۔۔
"میں نے کہا نہ نہیں ہے ضرورت۔۔"
افرحہ ڈریس پر لگا ٹیگ دیکھ چکی تھی۔وہ کافی مہنگا ڈریس تھا۔اسی وجہ سے انکار کرکے وہ زید کو سختی سے منع کرتی اس شاپ سے لے گئی تھی۔۔
جینٹس سیکشن میں داخل ہوتے ہی زید افرحہ کی مدد سے اپنے لیے شرٹس دیکھنے لگا تھا۔۔
زید ڈریس ٹرائے کرنے گیا تھا۔افرحہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔جب اس کی دیوار پر لگے شیشے سے اپنے پیچھے کھڑے شاہزیب پر نظر پڑی تھی۔جو اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
افرحہ نے آنکھیں جھپکاتے اسے غور سے شیشے میں دیکھتے اپنا رخ موڑا تھا۔۔شاہزیب نے اس کو رخ پھیرتے محسوس کرتے فورا اپنا دھیان شرٹس کی طرف کیا تھا۔۔
"آپ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔۔"
افرحہ نے اس کے قریب آتے گھور کر پوچھا تھا۔۔
"خواب کی دنیا سے باہر نکل آو میں یہاں شاپنگ کرنے آیا ہوں میرے پاس فضول ٹائم نہیں ہے کہ میں تمھارا پیچھا کرتا پھیروں۔۔"
شاہزیب اپنے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ اس کے سامنے کرتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"س۔۔سوری۔۔"
افرحہ اس کے بتانے پر بےساختہ شرمندہ ہوتے نظریں جھکا گئی تھی۔۔شرمندگی سے اس کے گال تپ اٹھے تھے۔۔
"ایکسکیوز می۔۔ مجھے شاپنگ کرنے دو۔۔"
شاہزیب اس کے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتا بول رہا تھا۔۔
"ج۔۔جی میں کچھ ہیلپ کروں۔۔"
زید کے بارے میں بھولتی وہ شاہزیب کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے پوچھنے لگی تھی۔۔
"اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
شاہزیب بنا اس کی طرف دیکھے دو سویٹ شرٹس ہاتھ میں پکڑتا دیکھنے لگا تھا۔ایک بلیک کلر میں تھی جبکہ دوسری گرے میں تھی۔۔
"بلیک شرٹ لے لیں یہ زیادہ پیاری لگ رہی ہے۔۔"
افرحہ نے مفت کا مشورہ دیا تھا۔۔شاہزیب نے بائیں ائبرو اوپر اٹھاتے اس کی طرف دیکھا تھا جو بے ساختہ اپنے لب کاٹنے لگی تھی۔۔
معصومیت سے شاہزیب کی طرف آنکھیں جھپکا کر دیکھتی وہ معصوم گڑیا لگ رہی تھی۔۔شاہزیب ایک پل کے لیے ساکت ہوا تھا۔۔
"افرحہ۔۔"
زید کی آواز نے شاہزیب کا طلسم توڑا تھا۔۔افرحہ نے دائیں طرف دیکھا جہاں سے زید اس کی طرف آرہا تھا۔۔
زید افرحہ کے ساتھ کھڑے شاہزیب کو دیکھ کر اسے گھورنے لگا تھا۔شاہزیب بنا زید پر نظر ڈالے افرحہ کو دیکھ رہا تھا۔۔
"تم مجھے اکیلا چھوڑ کر یہاں کیا کر رہی ہوں؟"
زید نے سنجیدگی سے لب بھینچتے پوچھا تھا۔
"وہ پروفیسر شاہ کو میری ہیلپ چاہیے تھی بس ان کی کچھ ہیلپ کر رہی تھی۔۔"
ایک مسکاتی نگاہ شاہزیب پر ڈالتی وہ زید سے بولی تھی۔۔
شاہزیب نے بھنویں بھینچ کر افرحہ کودیکھا تھا جو دونوں کے درمیان بری پھنسی تھی۔۔
"تھینک یو مس افرحہ۔۔اب آپ جاسکتی ہیں۔۔"
شاہزیب دانت کچکچاتا طنزیہ انداز میں کٹیلے لہجے میں بولا تھا۔
"ہاں چلو افرحہ ابھی ہمیں مزید شاپنگ کرنی ہے۔۔پروفیسر صاحب خود اپنی شاپنگ کرلیں گے۔۔"
شاہزیب پر ایک غصیلی نگاہ ڈالتا وہ افرحہ سے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
شاہزیب نے انھیں جاتے دیکھ کر مٹھیاں زور سے بھینچ لی تھیں۔اس کی نگاہوں نے دور تک افرحہ کا پیچھا کیا تھا۔
"تمھیں کیا ضرورت تھی ان کے سامنے ایسے بولنے کی۔۔"
افرحہ برہمی سے بولی تھی۔۔زید نے اپنا غصہ بمشکل کنٹرول کرتے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے اسے دیکھا تھا۔۔
"یار مجھے نہیں پسند تم ہمارا کوالٹی ٹائم کسی اور کے ساتھ سپینڈ کرو۔۔"
زید کے نرم آواز میں بولنے پر افرحہ بھی ڈھیلی پڑی تھی۔
"اچھا۔۔تم نے شرٹ پسند کرلی۔۔؟"
افرحہ نے موڈ ٹھیک کرتے اس سے پوچھا تھا۔۔شاہزیب کا خیال اب بھی اس کی سوچوں کے پردوں پر لہرا رہا تھا۔۔
"افرحہ تم سن بھی رہی ہو میں کیا بول رہا ہوں؟"
اسے سوچوں میں گم دیکھ کر زید نے اسے بازو سے پکڑ کر ہلایا تھا۔۔
"ہاں میں سن رہی ہوں۔۔"
اس کی گرفت سے اپنا بازو نکلواتی افرحہ سر جھٹک کر بولی تھی۔۔
شاہزیب پکڑے جانے کے بعد خود کو سرزنش کرتا خاموشی سے واپس لوٹ گیا تھا۔۔
Ⓩⓐⓝⓞⓞⓡ Ⓦⓡⓘⓣⓔⓢ
افرحہ واپس آکر اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگ گئی تھی۔بریرہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی جبکہ افرحہ لاونج میں بیٹھی تیاری کرنے میں مصروف تھی۔۔زید کے ساتھ اس کا دن اچھا گزر گیا تھا۔
اس کے پیرنٹس نے زید کے ذریعے اسے کافی چیزیں پاکستان سے بھجوائیں تھیں۔جو زید صبح ہی اپنے ساتھ لایا تھا۔۔
افرحہ تیاری کرتی ایک جگہ بری طرح پھنس گئی تھی۔اسے مطلوبہ ٹاپک بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔منہ بناتی وہ رونے والی ہوگئی تھی۔شاہزیب کے سی گریڈ دینے پر پہلے ہی وہ کافی پریشان ہوگئی تھی تبھی اس ٹیسٹ کے لیے اچھی تیاری کر رہی تھی۔۔
شاہزیب سے مدد لینے کا سوچتی وہ دس منٹ بعد اٹھتی کپڑے چینج کرتی فریش ہوگئی تھی۔۔ریڈ گھٹنوں تک آتی شرٹ اور سفید ٹراوزر پہنے ساتھ جیکٹ اور دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ کتابیں پکڑے اپنے فلیٹ سے نکلتی شاہزیب کے فلیٹ پر گئی تھی۔۔
بیل بجاتے وہ شاہزیب کے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگی تھی۔۔کسی لڑکی کے دروازہ کھولنے پر افرحہ کے چہرے پر موجود مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔ماہین کسی لڑکی کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔۔
"مجھے پروفیسر شاہ سے ملنا ہے۔۔"
افرحہ سامنے کھڑی ماہین کو غور سے دیکھتی نروس سی بولی تھی۔ماہین اپنی عمر سے کافی جوان دکھتی تھی تبھی افرحہ کو بھی وہ ینگ ہی لگ رہی تھی۔۔
"شاہزیب تم سے ملنے کوئی آیا ہے میں جارہی ہوں۔۔"
ماہین اونچی آواز میں شاہزیب کو بتاتی افرحہ کی جانب مڑی تھی۔۔افرحہ پر ایک گہری نظر ڈال کر وہ ہلکی مسکراہٹ اسے پاس کرتی افرحہ کے راستہ دینے پر چلی گئی تھی۔۔
افرحہ کی نظروں نے دور تک اسے جاتے دیکھا تھا۔۔شاہزیب کے چٹکی بجانے پر اس کا دھیان شاہزیب کی طرف گیا تھا۔۔
"تمھیں اپنے فلیٹ میں سکون نہیں ملتا۔۔؟"
شاہزیب فلیٹ کے دروازے سے ٹیک لگائے سینے پر بازو باندھے اسے سرخ اور سفید مشرقی جوڑے میں گہری نظروں سے دیکھتا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
افرحہ نے منہ پھولایا تھا۔۔مجال ہے جو یہ شخص کبھی اس سے پیار سے بات کرلے۔۔اس کی یہ حسرت ہی رہ جائے گی۔۔
"مجھے ایک ٹاپک سمجھ نہیں آرہا پلیز وہ سمجھا دیں۔۔"
وہ کڑوا گھونٹ پیتی نظریں جھکائے بولی تھی۔۔
"تو یہ میرا ہیڈک نہیں ہے۔۔کلاس میں ہوش میں رہتی تو سمجھ آجاتا۔۔"
شاہزیب کے اکھڑ لہجے میں بولنے پر افرحہ کا پارہ ہائی ہوا تھا۔۔
"آپ نے مجھے بلاوجہ ساری کلاس کے سامنے ڈانٹا تھا۔۔اور آپ کی وجہ سے میں یہ ٹاپک نہیں سمجھ پائی تھی۔۔اب یہ آپ پت فرض ہے مجھے سمجھائیں۔۔"
وہ مہرون سویٹ شرٹ اور بلیک ٹروازر میں رف سے حلیے میں موجود شاہزیب کو دیکھتی چٹخ کر بولی تھی۔۔اس کی کینچی کی طرح چلتی زبان نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔۔
"میں صرف اس لیے سمجھانے لگا ہوں کیونکہ اس دن تمھاری کوئی غلطی نہیں تھی۔۔لیکن یہ یاد رکھنا میں گریڈ تمھاری تیاری کے حساب سے دوں گا۔۔"
وہ اسے اندر آنے کا راستہ دیتا ساتھ ہی نئے ہونے والے ٹیسٹ کے گریڈ کے مطلق بتانے لگا تھا۔۔
"آپ اس دفعہ خود مجھے اے پلس گریڈ دیں۔"
افرحہ گردن اکڑا کر اندر آتی ہوئی بولی تھی۔۔شاہزیب اس کی بات پر ہنسا تھا۔۔افرحہ اس کو ہنستا دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی۔۔
کتنی حسین تھی اس کی ہنسی کی آواز۔۔۔
کتنا خوبصورت لگ رہا تھا وہ کئیر فری انداز میں ہنستا ہوا۔۔
افرحہ کا دل بےساختہ تیزی سے دھڑک اٹھا تھا۔۔
شاہزیب ایک دم ہنسی روکتا خاموش ہوگیا تھا اپنی جانب دیکھتی افرحہ کو دیکھتے اس نے گلا کھنگارا تھا۔۔افرحہ نے اپنی نظریں فورا جھکا لی تھیں اسے اپنے گال تپتے ہوئے محسوس ہونے لگے تھے۔۔
"یہاں بیٹھ جاو۔۔"
شاہزیب نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا کہا تھا۔۔
"کونسا ٹاپک ہے دیکھاو۔۔؟
دوسرے صوفے پر اس کے سامنے بیٹھتے شاہزیب اس سے پوچھنے لگا تھا۔۔
شیشے کے میز پر اپنی نوٹ بک رکھتے اس نے موبائل میں سے چند سلائڈز نکال کر اسے دکھائی تھیں۔۔
شاہزیب ٹاپک دیکھتا اسے سمجھانے لگا تھا۔۔افرحہ ڈر ڈر کر اس سے سوال کر رہی تھی۔۔شاہزیب تحمل سے اسے سمجھاتا اسے جواب دےرہا تھا۔۔
"تم اس ٹاپک کی ریڈنگ کرو جو سمجھ نہ آئے وہ پوچھ لینا۔۔"
شاہزیب بولتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔افرحہ نے خاموشی سے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔
"افرحہ کافی پیو گی؟"
شاہزیب کے پوچھنے پر افرحہ نے حیرت سے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔اس کی اتنی مہربانی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
"جی۔۔"
افرحہ مسکرا کر نرم آواز میں بولی تھی۔۔
"کیچن میں کافی مشین موجود ہے اور سارا سامان بھی اس کے پاس موجود ہے۔۔۔میں کافی بنا لوں اس کے بعد خوداٹھ کر اپنی کافی بنا لینا۔۔"
شاہزیب اپنی مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے بولا تھا۔۔افرحہ شاہزیب کی بات پر تپ اٹھی تھی۔۔اسے غصے سے گھورتی وہ منہ پھولا کر بیٹھ گئی تھی۔۔
"نظروں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے؟"
شاہزیب مسلسل اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا پوچھ بیٹھا تھا۔۔وہ اوپن کیچن میں کھڑا بظاہر اپنے لیے کافی بنا رہا تھا۔لیکن اس کی نظریں افرحہ پر ہی موجود تھی۔۔
"نہیں گلا دبا کر قتل کرنے کا ارادہ ہے۔۔"
وہ چڑ کر بولی تھی۔۔شاہزیب کے لبوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ باآسانی چھپا گیا تھا۔۔
"مجھے قتل کرنے کے خیالوں سے باہر نکلتے جو میں نے پڑھنے کو دیا ہے وہ پڑھو ابھی میں آکر اس کے بارے میں تم سے پوچھوں گا۔۔"
شاہزیب کی سنجیدہ آواز سنتی افرحہ پڑھنے لگی تھی۔۔شاہزیب اپنی کافی بناتا اپنے کولیگ کی کال سننے کے لیے روم میں چلا گیا تھا۔۔
جب وہ واپس آیا تو افرحہ شیشے کے ٹیبل پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔۔آہستہ سے بنا آواز پیدا کیے وہ افرحہ کے قریب جاتا اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔۔
سرخ رنگ اس پر انتہائی خوبصورت اور دلنشین لگ رہا تھا۔۔شاہزہب ٹرانس کی کیفیت میں گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔
اس کی سرخ گال اور ناک کو دیکھتے وہ بےساختہ مسکرایا تھا۔۔سوتے ہوئے وہ کوئی معصوم بچی لگ رہی تھی۔لیکن یہ تو شاہزیب ہی جانتا تھا یہ چھوٹا پیکٹ بڑا دھماکہ تھی۔۔
شاہزیب نے اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے بے ساختہ اپنا ہاتھ اس کے چہرے کی طرف بڑھاتے اس کے نرم و نازک پھولے ہوئے گالوں کو چھوا تھا جنھیں وہ غصے میں کچھ اور پھولا لیا کرتی تھی۔۔
"میری سوچوں پر قابض ہوکر تم نے بہت غلط کیا اس کا انجام بہت برا ہوگا۔۔"
شاہزیب اپنے ہاتھ کی پشت سے نرمی سے اس کا گال سہلاتا ہوا بولا تھا۔۔
افرحہ کے کسمسانے پر شاہزیب نے فورا اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا تھا۔۔
"افرحہ اٹھو اور اپنے فلیٹ میں جاو۔۔"
شاہزیب کھڑا ہوتا اونچی آواز میں کرخت لہجے میں بولا تھا۔۔
"امم۔۔ کیا ہوا ہے ؟"
افرحہ نے اپنی آنکھیں مسلتے معصومیت سے شاہزیب کس دیکھتے پوچھا تھا جس کے دل نے بےساختہ ایک بیٹ مس کی تھی۔۔
"کچھ نہیں تم اب اپنے فلیٹ میں جاو جو سمجھ نہ آئے وہ کل پوچھ لینا۔۔"
شاہزیب بےحد مشکل سے نظریں اس کے چہرے سے ہٹاتا بولا تھا۔۔
"تھینک یو سو مچ پروفیسر میری ہیلپ کرنے کے لیے۔۔"
افرحہ اپنی جمائی روکتی کھڑی ہوکر مسکرا کر بولتی اپنی چیزیں سمیٹ کر چلی گئی تھی۔۔شاہزیب بھی خود پر قابو پاتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
جاری ہے۔۔