Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 13
- - -
(حال)
ازلان شاہ بدحواسی کے عالم میں گاڑی میں بیٹھا تھا___ اُس کے دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے___ وہ ماضی کو یاد کرکے شدید پچھتاوے میں چلا گیا___
وہ بچہ تو مر گیا تھا___ پھر یہ کون تھا___؟؟ اف خدا___ رحم___ رحم میرے اللہ____ یہ کیا ہوگیا ہے میرے ساتھ____
اُس نے جلدی سے آزر کا نمبر ڈائل کیا___ جو کہ پہلی ہی رنگ پر اُٹھا لیا گیا____
ہیلو آزر____ آزر شاہ نے بیزاریت سے ازلان کی کال ریسیو کی___
ہاں بولو ازی__ کیا معاملہ ہے___ آزر شاہ نے ایک نظر اپنے ساتھ لیٹے وجود پر ڈالی___
آزر وہ ولی خان،___ ازلان کا لہجہ خوفزدہ تھا___
آزر شاہ جو اپنے ساتھ لیٹی اُس عورت کی زلفوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا ٹھٹھک گیا____
کون ولی خان___ آزر شاہ کے سامنے وہ وجہیہ مرد کا سراپہ جگمگایا___
کتنا دلکش آدمی تھا ولی خان____ آزر شاہ چاہ کر بھی خود کو ماضی میں جانے سے نہ روک سکا____
وہ اُس کا بیٹا زندہ ہے ___ ازلان شاہ پھر سے بولا___
کیا تمہارا دماغ خراب ہے ___ ازلان شاہ ہوش میں آؤ___ ولی خان کا بیٹا کیسے زندہ ہوسکتا ہے___
تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا____ ولی خان کا بیٹا مر چکا ہے__ میں خود دفنا کر آیا تھا اُس بچے کو___
نہیں وہ زندہ ہے میں خود دیکھ کر آیا ہوں___،ازلان بضد تھا___
دیکھو ازلان تم اس وقت بالکل ہوش میں نہیں ہو تبھی تو ولی خان تمہارے حواسوں پر سوار ہے___ یا پھر اپنی بیوی سے ولی خان کا زکر سن سن کر تم پاگل ہوگئے ہو_
ازلان شاہ آزر کے طنز کو سمجھ چکا تھا اس لئے وہ شرمندہ انداز میں فون بند کرگیا___
کوئی کیسے اتنی مشابہت رکھ سکتا ہے کسی سے___ وہی انداز___ وہی سراپہ ___ وہی آنکھیں___ وہی زہانت
ازلان شاہ سیٹ کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موندھ گیا____
😍😍😍😍😍
وہ اپنی وہیل چیئر گھسیٹتی کمرے میں داخل ہوئی___سامنے ہی لگی تصویریں دیکھ وہ مسکرا اُٹھی___ اُس کا ولی خان ہمیشہ سے اُس کی مسکراہٹ کی وجہ بنا تھا___ وہ اگر مرتی تھی اس پر تو بدلے میں وہ مرد اُس کی مسکراہٹ کی وجہ بھی تو تھا___
وہ دھیرے دھیرے وہیل چیئر چلاتی بستر پر موجود اُس وجود کی طرف بڑھی__،
آج جانتی ہو میں کس سے ملی ہوں__ رجاء میر کے لہجے میں نفرت تھی___ غصہ تھا___
مقابل نے ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھا___
ّ
میں ازلان شاہ سے ملی ہوں ___ اُس کی بات سنتے ہی مقابل کی آنکھوں میں بھی نفرت جاگی___
ہاں ازلان شاہ ہمارا دشمن___ ہمارے ولی خان کا دشمن___ ہمارے تیمور کا مجرم___ ہماری نور کا قاتل___
رجاء میر کی آنکھوں میں غصہ اور لہجے میں نفرت تھی___
تم جانتی ہو آج اُس کی فیکٹری میں آگ لگ گئی__ وہی فیکٹری جس کے بل پر وہ اتراتا پھرتا تھا___ وہی فیکٹری جس کی بناء پر وہ شخص خود کو زمینی خدا سمجھ بیٹھا تھا___ اُس فیکٹری کو آگ لگ گئی___
بالکل ویسے ہی آگ لگی جیسے ہمارے ولی خان کے سپنوں کو آگ لگائی گئی__، اُس کے ہوٹل کو جلایا گیا___ وہ جو اُس کے خوابوں کی زمین تھا___
تم دیکھنا اُس کی بربادی کے دن تو اب شروع ہوئے ہیں__ وہ تباہ ہوگا___ اُس کی بیٹی کی صورت میں اُس کا کیا سامنے آئے گا___
ازلان شاہ کی بیٹی اُس کا کیا بھگتے گی____
نہیں ____ ایسا کبھی نہیں ہوگا____ رجاء نے اس آواز ہر مُر کر دیکھا تو اُس کی نیلی آنکھوں میں چمک آگئی___ وہی خاص چمک جو کبھی ولی خان کو دیکھتے اُس کی آنکھوں میں آتی تھی____
ولی خان کو دیکھتے ان آنکھوں میں محبت اور عقیدت ہوا کرتی تھی جبکہ تیمور کو دیکھتے ان آنکھوں میں ممتا تھی____
تیمور ولی خان اُس کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیتا بیڈ کی جانب بڑھا اور بیڈ پر موجود اس ہستی کے ہاتھوں کا بوسہ لیتا آنکھوں سے لگا لیا___
بیڈ پر موجود وہ وجود رونے لگا تو رجاء میر آگے بڑھی اُسے گلے سے لگا لیا____
نہیں میری جان رونا بند کرو___ ابھی تو اُس کا انجام شروع ہوا ہے___
وہ مرے گا سسک سسک کے___ اُسے ایک ایک آنسو کا حساب دینا ہوگا____
اُس کی بیٹی کی شکل میں اُس کا کیا سامنے آئے گا____
نہیں مسز رجاء خان ایسا کچھ نہیں ہوگا____ تیمور نے ایک بار پھر سے اُن کو ٹوکا،___
رجاء نے ناسمجھی سے اُسے دیکھا تو تیمور نے آگے بڑھ کر اُسے کندھوں سے پکڑا اور پھر نیچے بیٹھتے
اُس نے محبت سے اپنی ماما کے ہاتھوں کو تھام لیا____
ماما جان___ اینڈ مائی ڈیئر آنی مسز رجاء احمد خان ایک بات آپ دونوں کو بتا دوں ازلان شاہ انجام بھگتے گا مگر بیٹی کے روپ میں نہیں ___میں ولی خان کا بیٹا ہوں اور میں عورت کو بطور انتقام استعمال کرنا حرام سمجھتا ہوں____
بےبی ڈول اپنے باپ کا کیا نہیں بھگتے گی___ ازلان شاہ کو اُس کے کیے کی سزا اُس کے عبرتناک انجام کی صورت میں ملے گی___
ویسے بھی انائیتہ شاہ کی ماں کے بہت احسان ہیں ہم پر ہمارے خاندان پر____ اور میں ولی خان کا بیٹا ہوں اپنے محسنوں کو نہ بھولنے والا____
مسز خان نے مسکرا کر اپنی تربیت کی طرف دیکھا___ اُنکا تیمور___ اُنکا غرور____
وہ آگے بڑھتیں اُسے گلے سے لگاتی ہیں اور رجاء میر اس خوبصورت منظر کو کیپچر کرتی ہے____
رجاء میر آگے بڑھتی مسز خان سے ملی اور پھر باہر کی طرف جانے لگی
وہ جیسے ہی باہر کی جانب جانے لگی تیمور ولی خان اُس کی وہیل چیئر پکڑے اُسے باہر لایا____
آپ جانتی ہیں مسز رجاء احمد ___ میں نے محبت کرنا بابا سے سیکھا ہے اور محبت کو نبھانا آپ سے سیکھا ہے___
دُنیا میں کوئی بھی عورت رجاء میر کی طرح نہیں ہوسکتی جس نے ولی خان کے عشق میں خود کو فنا کردیا___
رجاء میر اُس کی طرف دیکھتی مسکرائی___ اور پھر اتنا بولی__
اوہ تو تیمور ولی خان بھی محبت کو مانتے ہیں__
جی ہاں بالکل___ تیمور ولی خان نے محبت کرنا اپنے بابا سے سیکھا ہے مسز خان__
اُف ایک تو تم مجھے بار بار مسز خان مت بولو____ یہ تو صرف ازلان شاہ کو گمراہ کرنے کا منصوبہ تھا___ وہ کھلکھلا کر ہنسی اور پھر ہنستے ہنستے رونے لگی__، تیمور آگے بڑھ کر اُسے حوصلہ دینے لگا___
بس کردیں آنی___ پلیز___ مت دیں خود کو تکلیف__ آپ میری ہمت ہو___ میرا سپورٹ سسٹم ہو آپ___
رجاء میر نے تیمور کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا___
مجھے تم پر فخر اس روز ہوگا جب تم ازلان شاہ کو برباد کر کے میرے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرو گے____ میں وہی ہار ویی شکست وہی دکھ اُس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتی ہوں جو اُس نے ولی خان سے اُس کی محبت اور اُس کی بہن کو چھین کر اُسے دیا تھا____
رجاء میر کے نفرت انگیز لہجے میں کہی گئی بات نے تیمور کے ارادوں کو اور مضبوط کردیا___
(ماضی)
انشراح آرٹ گیلری آئی تھی جب میر حاکم کے حکم پر ولی خان اُسے لینے آیا تھا____
انشراح میر جو کہ پینٹنگز اینالائز کرنے میں مصروف تھی اپنے ساتھ کھڑی ٹین ایج لڑکیوں کے گروپ کو سرگوشیاں کرتے دیکھا تو اُن کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا__،
سامنے ہی وہ شہزادہ اسکن کلر کی شلوار قمیض پر سیاہ چادر کندھوں پر ڈالے آنکھوں پر حسب عادت سیاہ گاگلز لگائے اپنی سحرانگیز شخصیت کے ساتھ ہال میں داخل ہوا___ وہ آتا اور چھا جاتا والی پرسنالٹی کا مالک ولی خان اس گروپ کے ساتھ ساتھ پورے ہال کا مرکزِ نگاہ بنا ہوا تھا___
انشراح میر کے اندر ایک جلن اور غصے کی لہر اُٹھی__ مگر جلد ہی اُس نے قابو پالیا__ اُسے اب اس سب کی عادت ہوجانی چاہیئے تھی مگر وہ بہت بےبس تھی__وہ ولی خان کو صرف خود تک محدود کرنا چاہتی تھی مگر وہ یہ بات بھول چُکی تھی کہ ہم زبردستی کسی کو قید نہیں کرسکتے___
اگر ولی خان اس کا ہوا تو وہ صرف اس کا ہی ہوکر رہے گا وہ زبردستی ولی کو محدود نہیں کرسکتی تھی__
شاید ہم لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ہم جن سے محبت کرتی ہیں ہم چاہتی ہیں کہ وہ صرف ہم سے بات کرے__ صرف ہم تک رہے__ ہم یہ بھول جاتی ہیں کہ مقابل بھی ایک جیتا جاگتا،انسان ہے اُس کی بھی اپنی مرضی ہوتی ہے__ وہ چاہ کر بھی ہماری قید میں نہیں رہے گا ایک نہ ایک دن وہ ہماری اس قید سے تنگ آکر ہمیں تنہا چھوڑ دے گا___
اُسے بہت پہلے کی نور خان کی یہ کہی بات یاد آئی تو اُس نے خود کو ڈپٹا__ اور سب کو نظرانداز کرتی ولی خان کی طرف بڑھی__،
ولی خان جو کہ لڑکیوں کی ہوٹنگ اور سرگوشیاں نظرانداز کرتا انشراح کو ڈھونڈنے میں مصروف تھا سامنے ہی اُس شہزادی کو دیکھتے ہی اُس کے ہارٹ نے ایک بیٹ مس کی__ اور پھر بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سر جھٹکتا اُسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا باہر چلا گیا___
😂😂😂😂😂😂😂
(حال)
تیمور ایسے کیوں ہیں؟ اُن کا ماضی کیا تھا؟؟ انائیتہ شاہ آج پھر حمزہ احمد کے سامنے بیٹھی سراپا سوال تھی__ وہ آج کچھ بہتر ہوئی تو موقع ملتے ہی اس کے آفس آئی تھی___
اس واقعے کے بعد انائیتہ کو اب ازلان سے بھی ہمدردی نہ رہی تھی___ وہ اُس سے بھی بیزار ہوچکی تھی اور اب وہ جلد از جلد تیمور کی زندگی میں شامل ہونا چاہتی تھی
فضول سوالات کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو انائیتہ شاہ___ تیمور سر کو زرا بھی بھنک ہوئی تو وہ آپ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی غائب کرنے میں پانچ سیکنڈ نہیں لگائیں گے___انہیں یہ سب پسند نہیں ہے__
کیا پسند نہیں ہے تیمور کو_؟ انائیتہ نے سوال کیا__
حمزہ جو بغور اُسے دیکھ رہا تھا تھک کر سر کرسی کی پشت پر گرایا___
تیمور سر کو یہ بات پسند نہیں کہ کوئی اُن کے ماضی کے بارے میں ڈسکس کرے___
اگر تیمور کو پسند نہیں تو مجھے تو پسند ہے ناں___اور میں خان کا ماضی پتا کروا کے رہوں گی___کیوںکہ مجھے خان کی زات سے جنون کی حد تک عشق ہے اور جن سے عشق کیا جاتا ہے ان کے بارے میں سب کچھ جاننا پڑتا،ہے___
آپ تیمور سر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکتی___ وہ ایک پراسرار مسکراہٹ لئے بولا___
مطلب؟؟؟؟ انائیتہ شاہ نے حمزہ کو ناسمجھی سے دیکھا__
مطلب یہ کہ تیمور سر کے بہت سے تعلقات ہیں___ اگر آپ ان کے بارے میں کچھ بھی جاننے کی کوشش کریں گی تو یہ بات تیمور سر تک پہلے پہنچے گی___
کیا آپ ان کا شدید ردعمل دیکھنا چاہتی ہیں__حمزہ نے اسے ڈرانے کی بھرپور کوشش کی__
ہاں میں اُس کا ردعمل دیکھنا چاہتی ہوں__ انائیتہ شاہ نے ایک جلی کٹی مسکراہٹ اچھالی___
حمزہ احمد پر ادراک ہوا کہ بظاہر سیدھی نظر آنے والی تیمور ولی خان کی یہ بےبی ڈول ایک شاطر دماغ رکھتی ہے___ آخر کیوں نہ ہو ازلان شاہ کی جو بیٹی ہے__ یہ سوچ آتے ہی حمزہ احمد غصیلی نظروں سے انائیتہ کو گھورنے لگا___ اس کا دل چاہا وہ اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو اٹھا کر باہر پھینک دے مگر پھر تیمور ولی خان کے ہاتھوں اپنی متوقع چھترول سوچ کر ہی اس نے بے بسی سے سر ٹیبل پر گرا لیا___
🙂🙂🙂🙂
(ماضی)
سنا ہے لوگ کہتے ہیں
تعلق ٹوٹ جائے تو
وہ یکسر ٹوٹ جاتا ہے
تو پھر ہم دیکھتے کیوں ہیں
کسی کی سبز لائٹ کو
کسی واٹس ایپ سٹیٹس کو
کسی کی ٹائم لائن پر
کیوں ہم سرچ کرتے ہیں
کہ شاید ایک پوسٹ پر
کسی نے اُس سے پوچھا ہو
تمھارا تھا کوئی پہلے
تو شاید بے خودی میں
اُس نے میرا نام لکھا ہو۔۔
کوئی اک شعر ایسا ہو
پروفائل کے بائیو پر
جدائی پہ جو لکھا ہو .
اسے کاپی کرو گے تم
بہت مطلب نکالو گے
اُسی کی ٹائم لائن پر
بہت ہی بے بسی سے پھر
انا کو توڑ آتے ہو
وہاں اک لائک کی صورت
کسی کمنٹ کی صورت
تم خود کو چھوڑ آتے ہو
یا اُس کی نئی پوسٹ پر
کسی سے پاگلوں جیسے
یونہی پھر بحث کر لینا
کہ تمہارا نام مسلسل اسے
نوٹیفکیشن میں نظر آئے
تو تم اس کو یاد آؤ گے
شاید آ بھی جاؤ گے
تو کیا ریپلائی آئے گا .
کہ جب ترکِ تعلق ہے
تو کیوں پھر دوسروں سے
اس کی خیریت معلوم کرتے ہو
تو کیوں اس کی ہر اک ڈی پی کو
جا کے زوم کرتے ہو
پھر اس کی ،
ہر اک پکچر پہ
یوں ہالے کی صورت میں
کبھی انگلی گھماتے ہو
تو پھر کیوں اس کی تصویروں کو
اپنا دکھ سناتے ہیں
کبھی اس کی سٹوری پر
سٹیکر بھیجنا کوئی
کبھی اس کے سٹیٹس پر
" بہت ہی خوب " لکھ دینا
تو پھر کیوں رات کو اکثر
کسی گُڈ نائیٹ پوسٹ پر
اسی کو ٹیگ کرتے ہو
اور سونے سے ذرا پہلے
پرانی چَیٹ پڑھتے ہو
کیوں بے چین ہوتے ہو
تم ایکٹو ناؤ کے لفظوں پر
بڑے بے تاب ہوتے ہو
وہ اب تک آن لائن ہے
تو پھر کیوں لوگ کہتے ہیں
تعلق ٹوٹ جائے تو
وہ یکسر ٹوٹ جاتا ہے
مگر ایسا نہیں ہوتا
تعلق ٹوٹ بھی جائے
ذرا سا پھر بھی رہتا ہے
ذرا سا پھر بھی رہتا ہے
آج بھی ازلان شاہ کا وہی نمبر ایکٹو دیکھ کتنی ہی دیر نور خان موبائل ہاتھ میں لیے اسے گھورتی رہی___ وہ چاہ کر بھی ازلان شاہ سے بات نہ کرسکی___
اُسے ازلان شاہ کی بدلتی ترجیحات نے پچھتاوے کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا دیا تھا___ وہ جانتی تھی کہ ان سب کی قصوروار وہ خود ہے مگر پھر بھی دل میں کہیں نہ کہیں ایک اُمید ضرور تھی جو کہ ٹوٹ چکی تھی____
نور خان کی رات پھر سے جاگتے گزرنے والی تھی__ وہ دور کہیں ماضی کی خوبصورت یادوں میں کھو چکی تھی____
😍😍😍😍
ولی خان ، انشراح کو لے کر گھر پہنچا___
اگلی صبح انشراح میر نماز کے بعد اُس کا انتظار کرنے لگی__
ولی خان جیسے ہی نماز پڑھ کر آیا تو انشراح کو لان میں دیکھ حیران ہوا اُس کی طرف بڑھا___
”نشاء جی ٹھنڈ ہے بہت__ آپ اندر جائیں__
اس نے نشاء سے کہا___ نشاء نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر ہاتھوں کو ملنے لگی___ ٹھنڈ کے باعث اسکے ہاتھ یخ پڑرہے تھے____ آج ولی نے گلاسز نہیں لگائی تھی تبھی انشراح میر کے لئے اُس سے نظر ملانا مشکل ہورہا تھا
”کچھ کہنا ہے بی بی۔۔؟“
اس نے نرمی سے کہا تو انشراح سے خود کو روکنا مشکل ہوا۔۔
ولی آپ سے ایک بات پوچھوں___ انشراح نے استفسار کیا___
جی ضرور پوچھیں___ ولی خان نے ادب سے جواب دیا___
”ولی۔۔ آپ اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں۔۔؟“
ولی کے لئے یہ سوال غیر متوقع تھا___ وہ دل ہی دل میں خود کی دھڑکنوں پر قابو پاتا گہرا سانس لیتا بولا___
”میر سائیں سے___
”پھر۔۔؟“ اسکا دل دھڑک رہا تھا۔ بہت زور زور سے۔ مگر وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔۔
”پھر۔۔“
ولی مسکرایا___۔
آپ اچھے سے جانتی ہیں___
"نور خان سے"
نشاء کا دل دھڑک رہا تھا___ولی ایسے ہی نظریں آسمان پر ٹکائے تھا___
”پھر۔۔؟“
”پھر____
اس نے گہرا سانس لیا اور نظریں اُٹھاٸیں۔۔ اس نظر میں ہر سوال کا جواب تھا__
انشراح کو لگا کہ وہ کبھی سانس نہیں لے پاۓ گی___
ان آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں تھیں__ ان آنکھوں میں انتہا کا کرب تھا__ اسکا دل کانپا۔۔
”پھر محبت کرنا میری اوقات سے باہر ہے بی بی۔۔“
اور یہ تھا وہ جواب جو اس نے اپنی نظروں کے برعکس دیا تھا۔۔ حقیقی جواب۔۔ کڑوا جواب۔۔ تلخ جواب.. اس معاشرے کا جواب... سٹیٹس ڈفرینس....
”کیا کوٸ اور راستہ نہیں ہے ولی۔۔؟“
اسکی آنکھوں میں پانی چمکنے لگا تو ولی کو لگا وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پاۓ گا۔۔
”کوٸ راستہ نہیں ہے نشاء بی بی۔ آپ ابھی سے خود کو قابو کرلیں بعد میں بہت دیر ہوجائے گی___ آپ کا اور میرا کوئی جوڑ نہیں ہے___ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے نہیں بنے___ آپ سونا ہو میں جلتا کوئلہ___ آپ چاند ہو اور میں خاک___ آپ میری دسترس سے باہر ہیں___ میں کبھی خواب میں بھی آپ کا ساتھ نہیں مانگ سکتا____
وہ بہت نرمی سے بول رہا تھا۔۔اسکے ساتھ سخت ہونا اسے شاید آتا ہی نہیں تھا___
_
مجھے لگتا ہے آپ نے مجھے سمجھانے میں دیر کردی___ مجھے لگتا ہے کہ اب میرا دل کبھی نہیں سمجھے گا___ میں محبت میں دولت اور رتبے کے فرق کو نہیں مانتی__ انشراح میر کے قابل ولی خان کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا___
وہ خود پر قابو پاتی وہاں سے بھاگ گئی___
اسکے جاتے ہی ولی نے پاس رکھی چیئر کی پشت سے تھک کر سر ٹکایا اور یاسیت سے اسمان کی طرف دیکھے گیا___ اسکا دل اندھیروں میں ڈوب کر اُبھرنے لگا تھا___
🙂🙂🙂🙂😀
۔
(حال)
انائیتہ شاہ آج مسز خان سے ملنے "خان ولا" آئی تھی ___ وہ مسز خان کی پرانی ملازمہ کے ساتھ کچن میں بیٹھی انہیں کرید رہی تھی___
ماما کے ماضی میں ایسا کیا ہوا جو وہ لوگوں کے ہجوم سے دور بھاگتی ہیں___؟؟ ایسی کیا وجہ ہے کیا حادثہ ہوا جس نے ان سے قوت گویائی سلب کرلی___
انائیتہ شاہ سراپا سوال بنی دائی ماں سے پوچھ رہی تھی__ یہ ان کی پرانی ملازمہ تھیں اور قابل اعتبار ہونے کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں__
آپ یہ سوال اپنی ماما سے مت پوچھنا بیٹا__ انہوں نے التجا کی__
مگر کیوں ؟؟ انائیتہ شاہ نے سوال کیا__وہ کسی طرح خان کا ماضی جاننا چاہتی تھی_،
کیونکہ انسان کافی عرصہ سے خود پر کچھ دروازے بند کرچکا ہوتا یے__ اب جب کوئی دوسرا ان دروازوں کو کھولنے کی کوشش کرے گا تو وہ کبھی بھی خیر کی خبر نہیں لائے گا__
انائیتہ ان کی بات پر غور کرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی__ اب اُس کی منزل وہ کمرہ تھا جہاں جانے کی کسی کو اجازت نہ تھی__ انائیتہ شاہ کے لئے وہ کمرہ بہت پراسرار تھا___
یاد رکھنا انائیتہ شاہ ان بند دروازوں کے پیچھے اکثر
بھیانک راز ہوتے ہیں جن کا جاننا فقط تباہی لاتا ہے__
انائیتہ شاہ کتنی ہی دیر ان کے چہرے کو دیکھتی رہی__
اُسے ہر حال میں تیمور کی زندگی کے بارے میں جاننا تھا__اسے تیمور کی زندگی سے نہیں اُس کے ساتھ سے دلچسپی تھی__اس لئے اسے کھنگالنا اس کی مجبوری تھی__ وہ تیمور کی زندگی سے ہر تکلیف ختم کرنا چاہتی تھی__ مگر وہ بےبس تھی__
نوٹ: براہ مہربانی لائک کمنٹ کردیا کریں