ZombieWar - Episode 13

0

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 13

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu


- - -


کاظم کے جسم سے خون نکالنے والا پراسس آہستہ آہستہ اپنی راہ پر گامزن ہو گیا۔ چونکہ خون نکلنے کی وجہ سے کاظم کو بھی تھوڑی سستی سی ہونے لگی تھی اس لیے وہ وہیں وینٹیلیٹر پر لیٹا رہا لیکن اک الگ ہی ماحول ہونے کی وجہ سے نیند سے کوسوں دور رہا ۔ ڈاکٹر صوفیہ نے کاظم کے خون کا تھوڑا سا سیمپل لے کر چیک کرنے کے لیے ایک اور مشین میں ڈال دیا۔ 


جس میں سے نکلنے والے ایک کاغذ کو دیکھ کر ڈاکٹر صوفیہ چونک گئی اور جلدی سے اپنی اس لیب سے نکل کر باہر موجود بہت ساری لیبز میں سے بنی راہوں میں سے ہوتی ہوئی دوسری لیبز کے مقابلے اونچی جگہ جوکہ اسی لیبز والی سیکشن کی مین کنٹرول سائیٹ معلوم ہوتی تھی۔ جہاں پر سے سینئر ڈاکٹرز سبھی پر نظر بھی رکھتے اور اپنا کام بھی کر رہے تھے اور وہاں کھڑے ڈاکٹر ریحان دوسرے ڈاکٹرز کو کوئی نصیحت کر رہے انھیں مخاطب کر کے ڈاکٹر صوفیہ نے وہ کاغذ انھیں تھما دیا جو مشین میں سے نکال کر ڈاکٹر صوفیہ اپنے ساتھ لائیں تھیں چونکہ تمام لیبز کی دیواریں شیشے کی بنی تھیں تاکہ دوسرے سائنٹسٹز کو کسی الجھن میں ہونے پر جلدی سے مدد کی جا سکے۔ 


کاظم نے جب کمرے سے نکلنے کے بعد ڈاکٹر صوفیہ کی بڑھتی رفتا کو دیکھا تھا تبھی اسے تجسس ہو کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ تو کاظم بھی وینٹیلیٹر سے اٹھا اور شیشے کی اس لیب سے نکل کر ڈاکٹر صوفیہ کو فالو کرتے ہوئے وہیں جا پہنچا۔ 


   " سر۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس اینٹیڈوڈ بنا پانے کا یہی ایک راستہ تھا مگر اب اس وکٹم( کاظم ) کے خون میں سے بھی وہ نیورووٹنز نہیں نکالے جاسکتے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ صرف اتنے ہیں کہ صرف اسے ہی سروائو کروا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے جسم میں تھرٹی نائن پوائنٹ سیون پرسنٹ نیرووٹنز ہیں اور اتنے نیورووٹنز ایک اینٹیڈوڈ بنانے کے لیے بہت کم ہیں اور اوپر سے اسکے جسم میں بھی تھرٹی فائیو پرسنٹ یہ نیورووٹنز ہونے چاہیے اس کو وائرس-ٹی سے محفوظ رکھنے لے لیے " کاظم نے ڈاکٹر صوفیہ کی باتیں سن لیں تھیں اور ڈاکٹر ریحان کی نظر ڈاکٹر صوفیہ کے پیچھے کھڑے کاظم پر پڑیں تو ڈاکٹر صوفیہ بھی پیچھے مڑ کر کاظم کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ 


  " مایوس مت ہو لڑکے۔۔۔۔۔ اگر اللہ نے چاہا تو ہم کوئی حل ضرور نکال لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پر بھروسا رکھو " یہ کہہ کر ڈاکٹر ریحان نے کاظم کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور عینک اتار کر مایوس چہرے کے ساتھ آہستہ آہستہ اتر کر لیبز کی طرف بڑھ گئے۔ 


  " آپ اپنے ساتھ آنے والی اس لڑکی کو لے آئیں ہمیں اس کا بھی چیک اپ کرنا چاہیے۔۔۔۔ کیا پتہ کچھ بن ہی جائے " ڈاکٹر صوفیہ کاظم کو حوصلہ دیتی ہوۓ اس کاغذ کو لیے اپنی لیب کی طرف چلی گئی۔


کاظم یہ سب سننے کے بعد وہاں سے چل پڑا اور لیبز سیکشن سے نکل کر رہائشی سیکشن میں جہاں پر محفوظ کیے گئے لوگوں کو رکھا رہا تھا اس کی طرف بڑھا۔ اپنا کمرہ ملتے ہی جلدی سے اندر داخل ہو گیا۔


دوسری طرف بریعہ بھی کاظم میں سے غلطیاں نکالنے میں مصروف تھی پر ابھی تک کوئی غلطی نکال نہ پائی تھی ۔کاظم کافی دیر سے بنا بتائے گیا ہوا تھا اس لیے جلال کو اچھی خاصی جبکہ بریعہ کو بھی ہلکی ہلکی فکر ہو رہی تھی ۔تبھی کاظم کمرے میں داخل ہوا تو بریعہ اچانک اٹھ بیٹھی جبکہ جلال لیٹا ہی نہیں تھا۔ 


  " آااا ۔۔۔۔۔تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔بلا رہے ہیں " کاظم کے لہجے میں غیرمتاثرہ شرمندگی شامل تھی اور پھر بریعہ کی زبردست گھورتی آنکھوں کی طرف غیرہمواری سے دیکھتے ہوئے بولا


  " مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔ انھوں نے شاید خون کا ٹیسٹ لینا ہے۔۔۔۔۔ تمھارے " کاظم نے جان چھڑانے کے چکر میں جلال کی طرف دیکھتے ہوئے اوپر والے بیڈ پر بیٹھی بریعہ کو جواب دیا۔


   " ہاں نا۔۔۔۔۔ میرے بابا کا خون تم نے کر دیا اور اب میرا خون ان کے ہاتھوں کروانے کا ارادہ ہے تمھارا " بریعہ نے آواز کو دانتوں میں دباتے ہوئے کہا۔ 


ڈاکٹر صوفیہ کو تبھی یاد آیا کہ اس لڑکی( بریعہ ) نے تو اِس سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار کیا تھا ۔( بریعہ نے ڈاکٹر صوفیہ کی لیب میں ہی کاظم کو جو کہا تھا سب کے سامنے کہا تھا ) تو شاید اس وجہ سے وہ لڑکی اس کی بات نہ مانے۔ اس لیے وہ خود ہی بریعہ کو بلا کر لانے کے ارادے سے لیبز سیکشن سے نکل کر ان کے کمروں کی جانب بڑھیں اور جلد ہی ان کے کمرے کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر صوفیہ دروازے میں ہی کھڑی ہو گئیں۔ ڈاکٹر صوفیہ اپنی سوچ میں بالکل صحیح تھیں۔ کاظم بھی کسی معجزے کے انتظار میں کھڑا جلال کی طرف دیکھتا ہوا بریعہ کی باتیں کسی معصومانہ انداز میں کھڑا سن رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ کاظم کچھ کہتا ڈاکٹر صوفیہ بریعہ کو مخاطب کر کے بولیں۔ 


  " اے لڑکی! تمھارا بلڈ ٹیسٹ کرنا ہے جلدی اترو اور میرے ساتھ چلو ۔۔۔۔۔زیادہ وقت نہیں ہے" ڈاکٹر صوفیہ کا لہجہ تھوڑا اکڑا ہو تھا کہ جنرل کی روح انہی میں اتری ہوئی ہو ۔ جسے سن کر بریعہ خاموشی سے بےبسی ظاہر کرتے ہوئے بیڈ پر سے اتری اور ڈاکٹر صوفیہ کے ساتھ چل پڑی۔ 


کاظم بھی تھوڑا سکون محسوس کرتے ہوئے بلاساختہ آنکھیں بند کر کے اپنے والے سنگل بیڈ پر بیٹھ گیا اور پھر کچھ دیر بعد جلال کے کاظم کی حالت دیکھ کر ہنسنے لگا کے بعد کاظم بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگا۔( دوستوں جب آپس میں ہوں تو ایسی چولیں مار ہی لیتے ہیں )


بریعہ کا بھی ٹھیک اسی طرح ڈرپ لگا کر خون نکالنے کا پراسس شروع ہوا۔ جسم سے تھوڑا خون کم ہوا تو برے کے جوش کا لیول بھی کم ہوا اور سستی کے ساتھ ساتھ سکون کرنے لگی۔ اسی سکون کے دوران اسے کاظم کے ساتھ اپنے رویے پر تھوڑی شرمندگی محسوس کرنے لگی۔کیونکہ جب تک انسان آرام سے بیٹھ کر نہ سوچے تو حل تک نہیں پہنچ پاتا کوئی آدھے گھنٹے بعد بریعہ کی رپورٹ بھی اسی طرح لے کر ڈاکٹر صوفیہ ، ڈاکٹر ریحان کر پاس گئیں۔ اور نفی میں سر ہلا کر ڈاکٹر ریحان کو اس بار بھی ناکام ہونے کا بتا دیا۔ 


 " چل یار۔۔۔۔۔ چل کے اس کا پتا کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہیں خون نکلتا دیکھ کر بےہوش ہی نہ ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ آ جا " جلال نے بریعہ کے متعلق مذاق کستے ہوئے کاظم سے کہا۔ 


  " اسکا کیا پتا کہیں ہمارے خون سے وصولی کرنے کی نہ ٹھان لے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے بچ کے رہیں گے تو ہی اچھا ہوگا اپنے لیے " کاظم نے بھی بریعہ کے احترام میں مزید چاند لگا دیے اور پھر کچھ دیر بعد وہ خود ہی اٹھا اور جلال سے کہا " چل چلتے ہیں پھر 'خون' کی بازی لگانے "۔ 


 کاظم جلال کو ساتھ لیے لیبز سیکشن کی طرف چل پڑا۔ جلال اب پہلے سے بہتر چل پا رہا تھا۔ لیبز سیکشن میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر صوفیہ کو ڈاکٹر ریحان کے پاس کھڑی کچھ کہتے دیکھ کر کاظم اسی طرف چل دیا اور جلال بھی اسی کو فالو کرتے ہوئے ان کے قریب جا پہنچا۔ 


بریعہ نے جب کاظم اور جلال کو سامنے سے گزرتے دیکھا تو وینٹیلیٹر سے اٹھی اور ڈرپز نکال کر انھیں کے پیچھے چل پڑی۔ 


  " ہم ہاتھوں پہ ہاتھ دھر کے نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔۔۔ ہمیں کچھ بھی کر کے اینٹیڈوڈ تیار کرنا ہو گا۔ ہم مزید ایک دن تک کوشش کریں گے۔۔۔۔۔۔۔اگر ناکام ہوئے تو ان دونوں سے ہی اینٹیڈوڈ نکالنا ہو گا۔۔۔۔۔۔اگر پوری انسانیت کے لیے دو لوگ اپنی جان کا نظرانہ پیش کر بھی دیں گے تو شہید ہی ہونگے " ڈاکٹر ریحان نے بار بار کی ناکامی اور بڑھتے ہوئے وائرس سے تنگ آ کے اپنے پاس کھڑے ڈاکٹر صوفیہ سمیت چند اور ڈاکٹرز سے کہا۔ 


کاظم یہ باتیں سن کر تھوڑا سکتے میں آگیا لیکن اپنی غلطی دماغ میں چھائی ہوئی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔لیکن اسے اپنے ساتھ بلاوجہ ہی بریعہ کی جان کو خطرہ ہونا منظور نہ تھا۔ جلال اور بریعہ کو تو یہ سب نہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹرز کس متعلق بات کر رہے ہیں جلال بھی کاظم کے ساتھ ان ڈاکٹرز سے تھوڑا دور کھڑا تھا جہاں پر وہ ڈاکٹرز کے واضع دھیان میں نہ آئے تھے۔ 


 " ڈاکٹر۔۔۔ ہمیں مزید کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔ کم از کم اگر اس وائرس کے اینٹیڈوڈ کا فارمولا ہی مل جائے تو بہت جلد اینٹیڈوڈ تیار کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ہمیں ابھی خود سے اینٹیڈوڈ کا فارمولا تیارنے کی کوشش شروع کرنی چاہیے " ڈاکٹر صوفیہ نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر ریحان کو غصے کو کم کرنے کے لیے کہا۔ 


 بریعہ کو یہ سب سن کر کچھ یاد آیا کہ اس نے کسی اینٹیڈوڈ فارمولے کے متعلق کہیں سنا یا پڑھا ہے مگر اسے یاد نہیں آرہا تھا۔ بریعہ جوکہ کاظم اور جلال کے بھی پیچھے کھڑی تھی جلدی سے آگے بڑھی اور ان سے آگے کر بولی۔ 


  " ڈاکٹر۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آپکو اس اینٹیڈوڈ کا فارمولا دلا کر دے سکتی ہوں " بریعہ نے بےتابی سے الفاظ چن کر بول دیے۔ 


  " تم کون ہو لڑکی۔۔۔۔۔۔ اور یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔ جانتی نہیں یا باہر الرٹ بورڈ نہیں پڑھا کہ یہاں صرف رجسٹرڈ سٹاف ہی آ سکتے ہیں " ڈاکٹر ریحان کا غصہ تو ختم ہو چکا تھا لیکن لہجے میں وہی غصے والا انداز تھا۔ 


 " ڈاکٹر۔۔۔ یہ آپکے دوست ڈاکٹر جلال مصطفی کی بیٹی ہے ( اور نہ پتہ ہونے پر بریعہ سے سوال کر دیا ) کیا نام بتایا تھا تم نے؟ " ڈاکٹر صوفیہ نے ڈاکٹر ریحان کو معلوماتی انداز میں بتایا اور پھر بریعہ سے بھی سوال کر دیا۔ 


 " میں نے تو ابھی تک کچھ نہیں بتایا آپکو " بریعہ نے ایک بار پھر اپنی لاجواب ذہنیت کا نمونہ پیش کر دیا۔جسے سن کر ڈاکٹر صوفیہ نے دل ہی دل میں خود سے کہا " بیڑا غرق " ۔ 


  " بریعہ۔۔۔۔۔۔ بریعہ ہے نام اسکا " کاظم نے آگے بڑھ کر اس بات کو دبوچ کر وہیں ختم کر دیا اور اپنی موجودگی بھی وضع کر دی۔ 


 " او مائے گاڈ۔۔۔۔۔ پرنسس۔۔۔۔۔۔کتنی بڑی ہوگئی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔( پھر تھوڑے سیڈ ہو کر عینک اتار لی ) بیٹا۔۔۔۔۔۔۔دکھ تو بہت ہوا۔۔۔۔تمھارے بابا کے بارے میں سن کر۔۔۔۔۔وہ تمھارے بابا یا میرے دوست ہی نہیں بلکہ اس انسانیت کے ایک عظیم خیرخواہ بھی تھے۔۔۔۔۔۔۔ان جیسے سائنٹسٹز کی ہمیں ہمیشہ ضرورت رہے گی اس دنیا کو اور بےشک ان کی محنت کو یاد بھی رکھا جائے گا۔۔۔۔۔کیونکہ ان کے بنا کس وائرس پر قابو بےحد مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوتا " بریعہ ککے متعلق جان کر ڈاکٹر ریحان آگے بڑھے اور بریعہ کے والد کی عظمت کی ایک تعریف کی۔ جسے سن کر بریعہ کی آنکھوں میں بھی اعزازً آنسو آگئے اور ڈاکٹر ریحان نے بھی اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ 


  " رو نہیں بیٹا۔۔۔۔ اگر تم رو گی تو کیا تمھارے بابا کی روح خوش ہو پائے گی۔۔۔۔۔ نہیں بیٹا رو نہیں حوصلہ کرو " بریعہ نے ایک بار پھر آنسو صاف کیے اور ذرا سنبھل کر واپس لیب سے باہر نکل گئی۔ کاظم بھی یہ سوچ کر کہ اس کے پیچھے بھاگا کہ کہیں ایسے ہی کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے لیکن بریعہ اب اتنی بھی بےوقوف نہیں تھی کہ یوں ہی کچھ بھی کر جائے۔ 


وہ لیب سے باہر نکلی اور اسی کنیکٹر پورٹ کی طرف بھاگی جس کمرے میں وہ آبدوز دوسری آبدوزوں کے ساتھ ویسے ہی موجود تھی جیسے اسے کھڑی گیا گیا تھا۔ اس کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑے فوجی نے بریعہ کو اندر جانے روک دیا۔ 


  " مجھے سبمرین میں سے کچھ لینا ہے۔۔۔۔...ضروری ہے " بریعہ نے رکتے ہی فوجی گارڈ سے کہا لیکن فوجی گارڈ نے اسے روکے رکھا اور تبھی کاظم بھی بریعہ کے پیچھے پیچھے وہیں پہنچ گیا۔


  " ضروری فارمولا لینا ہے سر۔۔۔۔۔۔ابھی آ جائے گی۔۔۔۔پلیز " کاظم نے بھی فوجی گارڈ سے بریعہ کے حق میں ہی بات کی۔ دو لوگوں کے سلجھے ہوئے انداز سے بات کرنے سے وہ فوجی گارڈ بھی مان گیا۔ گارڈ بھی بریعہ کو لے کر اندر داخل ہو گیا اور کاظم کو باہر ہی کھڑا کر گیا یہ کہہ کر کہ اگر کوئی آیا تو اندر مت آنے دینا بنا میری اجازت کے یا جب تک میں نہ آجاؤں۔ 


کاظم باہر ہی کھڑا ہو گیا اور بریعہ بھی جلد ہی وہ فارمولے والے پیجز بیگ سمیت لے کر باہر نکل آئی ۔ بریعہ چونکہ کاظم سے ابھی تھوڑی شرم نہ تھی اس لیے بات نہ کر پانے کے وجہ سے دیکھ کر بھی یک دم سے اگنور کر رہی تھی۔ 


بریعہ جلدی سے وہ بیگ کر لیبز سیکشن میں جا پہنچی اور کاظم بھی اس کے بعد پہنچ گیا۔ 


 " یہی ہے وہ فارمولا۔۔۔۔۔۔۔۔بابا نے یہ اینٹیڈوڈ کے ساتھ ہی رکھا تھا " بریعہ نے وہ پیجز بیگ میں سے نکال کر ڈاکٹر صوفیہ کے حوالے کر دیے۔ 



جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)