ZombieWar - Episode 2

2


 Novel - ZombieWar - Red Zone's Alert

Episode - 2

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim


__________________


ان آدمخوروں کی رفتار بےحد تیز تھی۔ کاظم نے بھی پتھروں کی اوٹ چھوڑی اور مکان کی طرف بھاگا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کس نے اس کے آواز نہ کرنے کا کہنے کے باوجود یہ حرکت کے تھی۔ کاظم اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا۔ مکان سے ابھی کافی دور تھا کہ ہیلی کاپٹر مکان کی چھت سے کافی اوپر ایک چکر لگا کر تیزی سے مدار سے نکل پڑا ۔ اس وقت اس کے دماغ میں ہزاروں سوال پیدا ہو رہے تھے۔ اسے دھچکا لگا تھا کہ وہ سب اسے وہاں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں جن کو اس نے موت کے منہ سے باہر نکالا تھا۔ اس کے دماغ میں کہانی دوبارہ سے شروع ہوئی جہاں سے اس کی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ 

 کاظم ایک کمپنی میں ڈلیورنگ کا کام کرتا تھا۔ اس یہ کام کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ اسے کسی سائنٹفک لیب سے کچھ کیمیکل ڈلیورنگ کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ لیب کوئی بڑی تو نہیں تھی مگر اس میں تیس , چالیس  چھوٹے بڑے سائنٹسٹسز دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اس لیب کو ضروری جگہ نہیں دی گئی تھی اور مجبوراً ان لوگوں کو اس قلیل جگہ پر مشکل کے ساتھ اپنا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ کاظم لیب کے مین روم کے باہر دوسرے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ٹی۔ وی دیکھ رہا تھا۔ ٹی-وی میں باقی خبروں کے ساتھ ایک خبر نشر ہورہی تھی _( پاکستان میں بھی ٹوٹ پڑا اچانک مصیبتوں کا پہاڑ۔ ابھی دنیا نے اس وائرس کا حل نکالا نہ تھا۔ پاکستان میں بھی اس عجیب و غریب وائرس کے بہت سے کیسز سامنے آنے لگے ہیں ۔ جی ہاں۔۔۔۔ایسے میں لوگ اپنے خاندان والوں کو بخشنے سے بھی گئے۔ دوسرے مملک کی طرح پاکستان میں بھی اچانک پھلنے والی وبا کے اثر سے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ انسان سے درندے بن جاتے ہیں۔ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کو کاٹنے کو ڈوڑتے ہیں ۔ اس وائرس کے جواب میں ابھی تک کوئی اینٹیڈوڈ  تیار نہیں کیا گیا ہے۔۔عوام ہے حکومت سے جواب کی مطلوب کہ کیوں اس کا اینٹیڈوڈ میسر نہیں ہے۔۔ کیا حکومت ہار مان گئی۔۔۔ کیا اب حکومت اپنے لوگوں کو یوں ہی انسان سے جانوروں میں بدلتے دیکھتی رہے گی۔۔۔۔ آخر کیا ہوگا  حکومت کا جواب جاننے کے لیے دیکھتے رہیے کے ٹی-وی۔

خبر ختم ہوئی تو لوگ بھی اس متعلق اپنی قیاس ارایاں کرنے لگے۔اس خبر نے جلدی ہی سب کا دھیان اپنی طرف کھیچ لیا تھا خبریں ختم ہوئیں تو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے شئیر کرنے لگے۔ تو ان میں بیٹھا ایک بوڑھا شخص بولا۔دیکھ لو۔۔دنیا اب ختم ہوئی سمجھو۔۔۔اب انسان ایسے ہی ختم ہوتے۔

اتنے میں ایک ملازم بلا جانے پر مین روم میں گیا اور پھر جلدی ہی واپس آ کر باہر بیٹھے لوگوں سے گویا ہوا۔

تم  میں  سے "  آکرہ ڈلورز کمپنی سے  کون آیا ہے؟ ۔۔

یہ سن کر کاظم اٹھا اور گلے میں لٹکا ہوا کمپنی کا آئی-ڈی کارڈ ہوا میں بلند کر کے ملازم کو اپنی موجودگی ظاہر کی ۔ ملازم دیکھ کر بولا۔آپ ہیں۔۔۔آپکو اندر ڈاکٹر صاحب بُلا رہے ہیں۔ دھیان سے جانا اور ڈاکٹر صاحب کے سامنے کسی ایک کو بات دہرائیے گا مت۔

کاظم نے مثبت انداز میں سر ہلایا اور پیچھے مڑ کر اس بوڑھے ششخص کے قریب جا کے آہستہ سے مخاطب ہوا۔  جو ٹی-وی پر نشر ہونے والی خبر کے متعلق سب سے پہلے قیاس آرا ہوا تھا۔ 

بابا جی۔۔ان چھوٹی موٹی مصیبتوں سے یہ دنیا مٹنے والی نہیں ہے۔۔۔جس دن یہ دنیا مٹے گی نا۔۔۔تب ایک چمکتی نیلی روشنی کا گولا آسمان سے اترے گا اور اس زمین کا سینہ چیر کر اندر گھس جاے گا۔

کاظم مسکرایا جس پر بوڑھا بھی جواباً مسکرایا۔۔اور کاظم لیب کے مین روم میں داخل ہو گیا۔ اس روم کے اندر مزید ایک شیشے کا کمرہ بنا ہوا تھا جس میں کیمیکلز وغیرہ رکھے ہوئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ابھی اس کمرے میں موجود کیمیکلز پر ریسرچ وغیرہ کر رہے تھے تھے ۔ کاظم ان ڈاکٹر صاحب کے قریب جانے کے لیے آگے بڑھا  تو ڈاکٹر صاحب نے اسے روک دیا ۔وہ ماسک پہنے ہوئے ہی بولے۔  

نہیں برخوردار ۔ اندر مت آنا بلکہ میں ہی باہر آتا ہوں۔  

یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب سفید ماسک اور سفید دستانے اتار کر باہر آو اور کہا۔ اچھا۔۔تو تم ہو برخوردار ۔۔جو میرا کام کرو گے۔

اس پر کاظم سمجھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے پہچانا نہیں , ڈاکٹر صاحب کی بات کا کچھ مطلب نہ سمجھتے ہوےمسکرا کر بولا۔  

   اہ۔۔سر میں پیکج ڈلیورنگ کرتا ہوں۔۔۔ مجھے  آکرہ ڈلورز کمپنی  سے بھیجا گیا ہے اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ ہی ڈاکٹر جلال مصطفی ہیں جنھوں نے مجھے بلایا ہے۔

مجھے معلوم ہے برخوردار۔۔میں نے ہی بلایا ہے۔ تمھیں یہ بیگ  راولپنڈی آئی-ایس-آئی ہیڈکوارٹرز تک پہنچانا ہے تمھیں اور جتنا جلدی ہو سکے اتنا جلدی پہنچانا ہے۔ اسے چاہے تم آج شام تک پہنچا دو کل صبح چار بجے سے پہلے پہلے تک یہ تمھاری مرضی ہے۔

           کاظم۔۔۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اس میں ایسا کیا ہے جو اتنا جلدی پہنچنا  ضروری ہے حالانکہ راولپنڈی پہنچنے میں دس سے بارہ گھنٹے لگ جائیں گے۔۔اور اس لیے آپکو کو ہماری ایمرجنسی سروس استعمال کرنی ہوگی۔

 برخوردار۔۔یہ جاننے کی تمھیں کوئی ضرورت نہیں کہ اس میں کیا ہے۔۔اور یہ جاننے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ تم یہ کیسے پہنچاؤ گے۔۔۔یہ وقت تمھاری کمپنی کی سپیڈ چیک کرنے کا ہے اور اگر تم اس میں کامیاب رہے تو ہی اگلی ڈلوری آپکی کمپنی سے کروائی جاےگی۔

      کاظم۔۔۔سر آپ میری بات نہیں سمجھ رہے۔یہ پالیسی ہے ہماری اس ایمرجنسی سروس کو استعمال کرنے کی۔۔دراصل ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا چیز اتنی ہڑبڑی میں ٹرانسفر کر ہے ہیں۔ کہیں اس سے ہماری کمپنی کو خطرہ نہ جھیلنا نہ پڑے۔

 قائدے کی باتیں کرتے ہو برخوردار۔۔پر ضدی بھی لگتے ہو۔۔تو سنو۔۔۔ابھی ابھی باہر تم نے جو خبریں سنی وہ اتنی ہی سچ ہیں جتنی کہ تم اور میں۔۔یہ وائرس سینکڑوں افراد پر سیکنڈ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے اور بدقسمتی سے اب پاکستان بھی اس شکار ہو چکا ہے۔۔تو  یہ ایک اینٹیڈوڈ ہے اُس وائرس کا  اور مجھے امید ہے کہ یہ کام کر جاے گا اور مزید محنت کی ضرورت نہ پڑے گی۔۔۔ تو سمپل الفاظ میں یہ چیز جو اس وقت تمھارے ہاتھوں میں ہے یہ حل ہے اس مصیبت کا جس سے یہ دنیا اس وقت جوجھ رہی ہے اور یہ چیز تمھیں جلدی سے جلدی اس لیے پہنچانی  ہے تاکہ یہ مصیبت مزید نہ بڑھے۔۔باہر تمھیں ڈاکٹر منیر صاحب ایک اینٹیڈوڈ کا ڈوز لگائیں گے تک کہ تم اس وائرس سے محفوظ وہاں پہنچ کر اپنا کام کر سکو جو میں نے تمہارے ذمے لگایا ہے مجھے امید ہے کہ  جنرل صاحب جہاں اتنے نسخے اپنا رہے ہیں اسے بھی ٹرا ے کرنے سے انکار نہیں کریں گے۔

کاظم نے یہ سن کر ڈاکٹر صاحب کو اس بات کی تسلی دلائی کہ وہ اس اینٹیڈوڈ کو وقت پر پہنچا دے گا۔ اور پھر کاظم وہاں سے وہ بیگ لے کر نکلا اور کمپنی میں میں جاکر کچھ امپورٹینٹ ڈاکومنٹس بناے۔ وہ ڈاکٹر صاحب کی باتیں بھول چکا تھا کیونکہ اسے وہاں بہت کام تھا اور وہاں سے پھر اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق گھر پہنچ کر کھانا کھا کر بیڈ پر لیٹ گیا  کیونکہ وہ کافی زیادہ کام کرنے کے باعث تھک گیا تھا ۔ پھر اس کے دماغ میں آیا کہ اسے تو یہ آچ شام تک پہنچانا تھا  لیکن پھر بولا کہ کوئی بات نہیں یہ کونسا پوری طرح کام کرنے والا ہے۔۔۔ کل صبح تک پہنچا دوں گا۔۔۔اب تو ویسے بھی کافی رات ہو گئی ہے۔۔۔۔سو کاظم اپنے رینٹ کے کمرے میں سو گیا۔اگلے دن معمول کے مطابق کاظم صبح صبح کمرے کا دروازہ کھول کر بالکونی میں آنکلا ۔ اسکی آنکھیں ابھی تک نیند سے بند تھیں۔ 

 کل رات بڑا کام تھا یار۔۔ آج تو آنکھیں کھل بھی نہیں رہیں۔

اور وہ عادت مطابق صبح صبح اٹھ کر  میڑاں( وہ عمل جو انسان صبح صبح اٹھ کر بازو پھیلا کر کرتا ہے ) کرنے کے لیے باہر نکلا۔ اس نے منہ کھولا  اور ایک لمبی سانس لی اور پھر انکھیں کھولیں۔ لیکن سامنے الٹی لٹکی لاش (جو کہ خون سے لت پت تھی اور چہرے کا نقشی بھی بگڑا ہوا تھا )کو دیکھ کے منہ بند کرنا بھول گیا ۔۔ پہلے دو سیکنڈ تو وہ سُن ہو گیا۔۔۔۔ اور آنکھیں پھٹ گئیں۔ پھر اس کی چیخیں نکلنے لگیں۔۔۔ وہ بھاگ کر چیختا چگاڑتا واپس کمرے میں گھس گیا دروازے کو بند کر کے دونوں کنڈیاں لگائیں ۔ اور دروازے کو پیٹھ لگا کر کھڑا ہو کر پورا منہ کھول کر لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اس کا سینہ اوپر نیچے اوپر نیچے ہو  رہا تھا۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد وہ دروازے کے ساتھ گھسٹ کر نیچے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سانس ابھی پھول رہیں تھیں ۔۔۔کہتے ہیں کہ صبح  صبح قدرتی حُسن دیکھنا عمر بڑھا دیتا ہے لیکن  کبھی سوچا تھا کی کسی صبح اتنا حسین منظر آنکھوں کے سامنے تین سینٹی میٹر  کے فاصلے پر پاۓ گا وہ اس قدر خوفذدہ ہوا تھا کہ خوف سے اس کا گلا سوکھنے لگا تھا ۔۔ چھوٹا سا  کمرا تھا۔ قریب ہی  پڑے جگ  کو ہی منہ لگا کر پانی پیا اور  بیڈ پر ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اسے حالات سمجھ نہیں آرہے تھے۔ جس وہ سویا تھا تو حالات ایسے نہ تھے لیکن جب کاظم اٹھا تو حالات بالکل بدل چکے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی کہی بات سچ نکلی وائرس بےحد تیزی سے پھیلا۔۔۔کاظم نے پہلے تو ہمت کر کے باہر جھانکا لیکن سرِعام پڑی لاشیں اور ان لاشوں کو نوچتے اور چیر پھاڑ کرتے ہوئے آدمخوروں کو دیکھ کر اس کے حوصلے پست ہو جاتے۔انسان چاہے خود کو جتنا بھی بہادر ظاہر کرے لیکن اس اصل حالات میں اسے بہادری یاد نہیں رہتی بلکہ انسان اپنی حقیقت پر آجاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ کاظم ایسا نہ تھا کیونکہ اس کی پاس اپنا کوئی نہ تھا جس کے سامنے وہ ڈھونگ کرتا۔ شروع سے ہی یتیم خانے کی مدد سے بڑے ہونے والے اس کاظم خود کی محنت اور ہمت کے ذریعے اس مقام  پر پہنچا تھا۔ اب اسے ایک بار پھر ہمت دکھانی تھی۔ دو دن تک وہ اسی کمرے میں بند رہا اور کھانے پینے کے سامان پر گزارہ کر رہا تھا  ۔ کچھ لوگ جو ابھی ذندہ تھے مگر  کسی وجہ سے ان آدم خوروں سے بچے ہوےتھے۔ جیسے ہی باہر آتے ان کے واروں سے بچ نہ پاتے اگر کوئی بچ بھی جاتا تو وہ وائرس ہوا سے بھی پھیلنے کی خصوصیت رکھتا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ جہاں کہیں بھی ہوا آکسیجن ہے وہاں تک کوئی محفوظ نہیں  لیکن کاظم حیران تھا کہ اسے اب تک کیوں کچھ نہیں ہوا  ۔ پھر اسے سامنے پڑا وہ اینٹیڈوڈ نظر آیا تو یوں اسے یاد آیا کہ اسے وہ حفاظتی ٹیکہ لگایا گیا تھا  جو کہ اس اینٹیڈوڈ کا بنا تھا۔یعنی یہ اینٹیڈوڈ کام کرتا تھا۔

جاری ہے۔۔

Next Episodes Will Be Uploaded On My Page

Post a Comment

2Comments
Post a Comment