ZombieWar - Episode 14

0

 

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 14

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu


- - -

ڈاکٹر صوفیہ نے ایک بار چیک کیا کہ یہ فارمولا قابل استعمال ہے بھی یا نہیں اچانک ڈاکٹر صوفیہ کے خوشی سے جھوم اٹھیں اور وہ پیج اپنے ساتھ کھڑے ڈاکٹر ریحان کے حوالے کر دیا۔ 


  " بہت اچھا کیا تم نے بریعہ۔۔۔۔۔۔۔ہم ابھی بغیر وقت ضائع کیے اینٹیڈوڈ کی تیاری شروع کرتے ہیں " ڈاکٹر ریحان نے یہ کہہ کر وہ پیج کسی اور ڈاکٹر کو دیا جس نے اس پیج کو ایک مشین میں ڈال دیا تاکہ مشین آٹومیٹکلی ضروری کیمیکلز فراہم کر دے۔سبھی بے انتہا خوش تھے کیونکہ اب ایک بہت بڑی مشکل ٹل چکی تھی۔


بریعہ نے اپنے سر پر سے ایک بوجھ ہٹا دیا تھا ۔وہ پیچھے مڑی ۔ پیچھے تو کاظم اور جلال کھڑے تھے تو انھیں دیکھ کر یک دم سنبھل کر سر جھکاۓ چہرے پر آئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے سائیڈ سے گزر گئی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ بریعہ بھی اپنے بیڈ پر لیٹی چادر اوڈھے یہی سوچ رہی تھی کہ اب وہ اپنے کیے کی معافی کیسے مانگے۔ اس نے تو غصے میں زیادہ ہی بول دیا تھا اور دوسری طرف کاظم بھی اپنے بستر پر لیٹا انتظار کر رہا تھا کہ کب دوبارہ بولے گی یہ۔ کاظم کو اب تک یہ محسوس ہو چکا تھا کہ بریعہ اب اپنی غلطی سمجھ چکی ہے اور اب شرمندہ بھی ہے ۔ کاظم بھی بریعہ کے کچھ کہے بغیر کچھ کہہ سکتا تھا اور جلال بستر پر لیٹا ان دونوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کوئی بھی کہے کچھ بھی کہے لیکن کہے تو سہی یار۔ 


شیلٹر ہاؤس بہت بڑا تھاتھا اور چونکہ سمندر میں پانے کے اندر تھا اس لیے کافی اندھیرا تھا لیکن ہر طرف لگے بلبوں سے دن رات ایک جیسے ہی منظر نظر آتا۔پانی پینے کے لیے کاظم کمرے سے باہر نکال اور واٹر بلاک میں جا کر پانی کا گلاس نکال کر پینے لگا۔تبھی اسے ڈاکٹر صوفیہ جلدی سے لیبز سیکشن سے نکل کر شیلٹر ہاؤس کے کنٹرول روم کی طرف بھاگی جا رہی نظر آئیں۔جو کہ لیبز سیکشن کے بالکل سامنے تھا لیکن دونوں میں تقریبا پندرہ بیس کمروں کا فاصلہ تھا۔ کاظم بھی ڈاکٹر صوفیہ کے پیچھے کنٹرول روم میں جا پہنچا۔ جہاں ان کے آبدوز والے جنرل سمیت اور بھی بہت سارا فوجی عملہ کمپیوٹرز کے ذریعے شیلٹر ہاؤس کے ایک ایک چپے پر اپنی چوکنی نظریں گاڑھے عائد اپنا کام سرانجام دے رہا تھا۔ کنٹرول روم بھی لیبز سیکشن جتنا بڑا ہی تھا۔ اس میں تقریباً ایک سو کے قریب فوجی جوان اور قوم کی بیٹیاں اپنے کام کے جوہر دیکھا رہیں تھیں۔


کاظم بھی آگے بڑھا اور سیدھا جنرل کے پاس جا کھڑا ہوا۔ 

  " سر۔۔۔۔۔اینٹیڈوڈ میں لے کے جاؤں گا ہیڈکوارٹرز تک( جنرل کے چہرے پر سوال ابھرے ) سر یہ میری غلطی کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔۔ اور اب میں اس وائرس کو مٹا کر ہی سکون کر سکوں گا..... پلیز سر۔۔۔۔۔مجھے لے جانے دیجیئے " کاظم نے جنرل سے درخواست کی تاکہ وہ اپنی غلطی سدھار سکے مگر جنرل ہونے کی وجہ سے وہ کسی عام انسان کو کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے بلکہ اپنے فوجی جو کہ اس کام کو نہایت خوشی اور دلیری سے سرانجام دینا جانتے ہیں ان سے ہی کروانا چاہتے تھے۔ 


   " لڑکے تمھارا جانا مناسب نہیں ہو گا۔۔۔۔ اور نہ تمھیں کسی راستے کا پتہ ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ تم اپنی حفاظت کر پاؤ گے۔۔۔۔ شیلٹر ٹیم تنظیم میں جو جوان بھرتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اچانک صورت حال پیدا ہو گئی تو انھیں کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔میجر امجد جانتے ہیں کہ کیسے اینٹیڈوڈ کو پہچایا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیٹا تم سے جو ہوا وہ تمھاری غلطی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ خدا کو جو منظور تھا وہی ہوا۔۔۔۔۔ اس میں نہ تو تم ردوبدل کر سکتے ہو نہ ہم۔۔۔۔۔ امید ہے کہ تم میری باتیں سمجھ پا رہے ہو۔۔۔۔۔۔ تمھارے دوست کو تمھاری ضرورت ہے۔۔۔۔ جاؤ اس کے پاس " جنرل کا لہجہ کاظم کو سمجھانے کی کوششوں میں پوری طرح مگن تھا لیکن کاظم ابھی بھی کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میری غلطی کی وجہ سے کوئی اور کیوں مشکل میں پڑے۔ 


تبھی ایک عورت وردی میں ملبوس جنرل سے تھوڑی دوری پر رک آ کر رکی اور بولی

   " سر۔۔۔۔۔۔ میجر امجد کی طبیعت مزید بگڑتی جا رہی ہے " یہ سن کر جنرل پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔  


  " کیا ہوا میجر امجد کو؟ " جنرل کے چہرے پر سوالیہ انداز جھلکنے پر وہ عورت دوبارہ بولی

  " سر۔۔۔۔ میجر امجد کی ہارٹ بیٹ ٹھیک ہونے کی بجائے مزید نازک ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں اس اینٹیڈوڈ کے بنائے جانے سے پہلے ایک ٹیسٹ اینٹیڈوڈ دیا گیا تھا۔۔۔۔ جس نے وقتی طور پر تو صحیح نتائج دیے مگر اب وہ اینٹیڈوڈ میجر امجد کے دل پر اثرانداز ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھیں ایمرجنسی وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں انھیں شیلٹر ہاؤس سے باہر بھیج نہیں پائیں گے " یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی مگر جنرل کو گہری پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ 


  " اچھا۔۔۔۔۔ تم جاؤ۔۔۔اور میجر امجد کے متعلق ہر بات سے آگاہ رکھنا مجھے " جنرل ابھی گہری پریشانی میں مبتلا تھے۔انھیں بس میجر امجد سے ہی امید تھی کیونکہ میجر امجد ایک بہترین سپاہی تھے۔ ان کی بہادری کے کسی محاذ پر رتی برابر بھی کم نہ ہوتی۔


 وطن کے لیے ہر وار سینے پر کھانے کے لیے تیار رہنے والے کروڑوں نامور سپاہیوں میں سے ایک میجر امجد نے وطن کی خاطر ہی وہ اینٹیڈوڈ لگوا کر اکیلے کراچی کے سمندر سے لے کر راولپنڈی ائی ایس آئی ہیڈکوارٹرز تک لے جانے کے لیے تیار ہو چکے تھے مگر اینٹیڈوڈ بنانا انتہائی مشکل کام تھا۔سائنٹسٹز کی کسی غلطی کی وجہ سے وہ اینٹیڈوڈ اب کنٹرول سے باہر ہو رہا تھا اور میجر امجد کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرز اور سائنٹسٹز نے کسی طرح میجر امجد کو تو اب بچا لیا تھا لیکن اب وہ اس قابل نہیں تھے کہ ایک دو ہفتے سے پہلے وینٹیلیٹر سے اٹھ سکیں۔


کاظم ابھی بھی جنرل کے پریشانیوں میں کہیں گم چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔اتنا وقت نہیں تھا کہ دو ہفتوں تک میجر امجد کے وینٹیلیٹر سے اٹھنے کا انتظار کیا جا سکے۔تو جنرل نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بولے۔ 


  " تیاری کرو چلنے کی۔۔۔۔۔۔ لیکن احتیاط سے تمھیں آج ہی اگلے دو گھنٹوں میں نکلنا ہوگا۔۔۔۔۔ بیٹا اب بھی تم ہی آخری امید ہو ہماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھاری مرضی ہے کہ تم امیدوں پر پورا اترو گے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے پورا اترو گے " جھکی ہوئی آواز میں یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے۔ 


کاظم کے لیے یہ موقعہ خوشی کا تو نہیں مگر وہ پھر بھی وہ چہرے پر کھوکھلی مسکراہٹ لیے واپس مڑا ۔ مسکراہٹ کھوکھلی اس لیے تھے کہ اب اسے اپنے دو پیاروں کو چھوڑ کر جانا تھا۔اس کے لیے کمرے تک کا راستہ جیسے میلوں لمبا ہو گیا تھا۔کاظم ہر قدم کے ساتھ ایک گزرا ہوا لمحہ بن کر یاد کیے اس کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔پانی والے بلاک تک پہنچتے ہی اس نے یادوں کو سمیٹ کر پانی کا گلاس بھر کر پیا اور دوبارہ بھر کر جلال کے لیے لے کر چلنے لگا ۔ کمرے میں داخل ہوا اور جلال نے بھی اسے دیکھ کر پوچھ لیا ۔


   " یار تو پانی ساتھ والے بلاک سے لینے جاتا ہے یا میلوں دور سے کہیں۔۔۔۔۔۔۔کہاں رہ جاتا ہے تو " جلال نے کاظم کو کہتے ہوئے ڈانٹ ہوئے پانی کا گلاس پکڑ لیا۔ 


بریعہ ابھی بستر کی چادر اوڑھے لیٹی تھی اور کاظم سے معافی مانگنے کے لیے ہمت جٹا رہی تھی۔


   " میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جا رہا ہوں " کاظم کے یہ الفاظ سن کر جلال نے پانی نے پانی پیتے ہوئے ایک وقفے سے کاظم کی طرف متوجہ ہوا۔ بریعہ بھی یک دم متوجہ ہو گئی لیکن بے ہمت تھی تو چادر تک نہ ہلائی بلکہ غور سے بات سننے کے لیے کان کھڑے کر لیے۔ 


  " اب کہاں جا رہا ہے بھئ۔۔۔۔۔۔۔۔تو رک جا اب۔۔۔۔۔آرام کر لے۔۔۔۔۔۔میں جاتا ہوں۔۔۔۔۔بتا مجھے کہاں جانا ہے "جلال نے پانی گا گلاس ختم کر کے کھڑا ہو گیا کیونکہ اسے اصل بات نہیں معلوم تھی کہ کاظم کس متعلق بات کر رہا ہے ۔ اس لیے جلال کا لہجہ بھی نارمل تھا۔ 


  " نہیں یار۔۔۔۔۔۔۔تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔واپس راوپنڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اینٹیڈوڈ لے کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( کاظم نے بریعہ جو کہ چادر اوڑھے لیٹی تھی اس کی طرف دیکھا ) وہ۔۔۔۔غلطی ہو گئی تھی نا مجھ سے ایک۔۔۔۔۔۔۔اسے ہی ٹھیک کرنا ہے " کاظم کی باتیں سن کر جلال کے چہرے پر سے تمام رنگ فرار ہو گئے اور جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا مگر اس سے تو اچانک حال تو بریعہ کا تھا۔بریعہ کے ہوش اڑ چکے تھے اور بجلی کی رفتا سے بیڈ پر سے اتری اور سیدھی کاظم کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔



جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)