Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert
Episode - 20
Season - 1
Writer - Daoud Ibrahim
Offical Writer at KoH Novels Urdu
-=-
کاظم کو گولی بھی لگ چکی تھی لیکن اس کو کوئی درد جیسے محسوس ہی ہوا ہو۔ بس گولی کے پریشر سے ایک جھٹکا لگنے کے بعد وہ پھر بھی ویسے ہی کھڑا رہا۔ چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں دوبارہ کھول لیں اور جس طرف سے گولی آئی تھی اس طرف گردن دائیں طرف ٹیڑھی کر کے گھورنے لگا ۔فوجیوں کے آگے جلال کھڑا تھا ۔ کاظم ایک نظر جلال کی طرف دیکھا۔ کاظم کے ہونٹوں میں سے خون نکلنے کی وجہ سے وہ خون باہر تھوڑا جم بھی گیا تھا۔
کاظم یہ سب کچھ آہستہ آہستہ کر رہا تھا کیونکہ اس کا اپنے جسم پر پورا قبضہ نہیں تھا۔ کاظم نے آہستہ سے اپنا رخ بریعہ کی طرف کر لیا اور تھوڑا آگے بڑھا۔بریعہ جوکہ کار سے پیٹھ لگائے آنکھیں نم کیے اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ بھی جلدی سے آگے بڑھی کاظم کو بریعہ کی طرف بڑھتا دیکھ کر فوجیوں نے ایمرجنسی طور پر گولیاں چلا دیں۔
چونکہ یہ طے نہیں تھا کہ گولی کون چلائے گا۔تو ہنگامی حالات میں سبھی فوجیوں نے گولیاں چلا دیں ۔بریعہ بھی آگے بڑھ رہی تھی تو وہ بھی گولیوں کی زد میں آ سکتی تھی لیکن کاظم نے جلدی سے آگے بڑھ کر گولیاں اپنی پیٹھ پر لے لیں۔ فوجیوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں گولیاں اب کاظم کے جسم سے پار نکل کر اس لڑکی( بریعہ ) کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس لیے جلدی ہی فائرنگ روک دی لیکن وہاں کا تو نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ کاظم کی پیٹھ پر بے انتہا گولیاں چسپاں ہوئی تھیں لیکن مجال تھی کہ کوئی گولی اس کے جسم میں داخل بھی ہوئی ہو۔
بریعہ اس وقت کاظم کی باہوں میں محفوظ تھی لیکن بریعہ کو ابھی اپنے اردگرد کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس نے بےالتحابانہ ہاتھ اٹھایا اور کاظم کے چہرے پر آہستہ آہستہ سے اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔ کاظم بھی انہی لمحوں میں کھو سا گیا لیکن کاظم کو جب وائرس نے پھر سے جھڑک دی تو وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا۔
اس میں پھر سے آدمخوروں والی خصوصیات شدت پکڑنے لگی تھیں۔ کاظم نے پھر سے ان سے دور بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اسے پہلے کہ اس کا خود پر کنٹرول ختم ہو ۔ کاظم بریعہ کے احوال اسی کے حوالے کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا اور ایک چھلانگ لگا کر پاس کھڑی گاڑیوں کے اوپر کود گیا ۔ گاڑی ٹائروں تک وہیں زمین میں دھنس گئی اور پھر سے کود کر دوسری گاڑی کا بھی حال یونہی برا کرتے ہوئے وہاں سے جلدی ہی کسی دوسری سڑک میں داخل ہو کر مکانوں کی وجہ سے گم ہو گیا۔
اس بار کسی نے کاظم کا پیچھا نہیں کیا۔ جلال بھی اسے دیکھتا ہی رہ گیا کیونکہ کسی نے بھی کبھی ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔جلال نے جلدی سے آگے بڑھ کو بریعہ کو سنبھالا اور ان فوجیوں میں سے ایک فوجی انہیں مخاطب کرتا ہوا بولا۔
" ہم یہاں نہیں رک سکتے۔۔۔۔۔۔۔جلدی سے واپس ہیڈکوارٹرز چلنا ہو گا۔۔۔۔۔ جلدی۔۔۔۔۔۔ فالو آس " یہ کہتے ہوئے وہ فوجی پھر سے اردگرد چوکنی نظروں سے گھورتے ہوئے ایک دوسرے کو کور کرتے ہوئے واپس ہیڈکوارٹرز کی طرف جانے والے راستے پر بڑھنے لگے۔بولنے آدمخور ابھی بھی ویسے ہی کھڑے تھے۔ انھیں کہاں جانا تھا۔ کہیں بھی تو نہیں۔
وہ سب واپس جانے ہی لگے تھے لیکن تبھی زمین میں تھرتھراہٹ سی پیدا ہونے لگی جو کہ بڑھتے وقت کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ سبھی گھبرانے لگے۔کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تبھی سب کی گھبراہٹ عروج پر پہنچ گئی جب سامنے کے جوائنٹ سڑکوں میں سے سیلاب کی طرح گرتے اٹھے کچلتے لیکن کسی سیلاب کی طرح بڑھتے آدمخوروں کو دیکھا۔ سامنے ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چار نہیں بلکہ بے شمار آدمخور اک تیز رفتار کے ساتھ انہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔وہ کاروں سے اور گولیوں کے شور سے اس طرف متوجہ ہو کر آئے تھے۔
سامنے تو صرف موت تھی پیچھے کی طرف بھاگنا چاہا پیچھے بھی ایک طوفان کی طرف آدمخور بڑھ رہے تھے۔ باقی دو اطراف بلڈنگز تھیں۔ وہ کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ بوڑھے آدمخوروں کا غصہ حرکت میں آیا ۔کچھ آگے آنے والے آدمخوروں پر ٹور پڑے اور کچھ پیچھے کی طرف والوں پر ٹوٹ پڑھے۔ بوڑھے آدمخوروں کی سارے آدمخوروں پر غضب کی دھاک بیٹھی تھی کہ انھیں دیکھتے ہی وہ آدمخوروں دھڑا دھر رکتے گئے اور پیچھے سے آنے والی ایک دوسرے کے اوپر سے اوپر دباتے گئے اور وہ بوڑھے آدمخور بھی ساتھ ہی وہیں رک گئے۔
اچانک اوپر سے نہ جانے کہیں سے بارش کی طرح اور بہت سارے بوڑھے آدمخور زمین پر کودتے آ پہنچے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دائرہ جہاں دس بارہ آدمخوروں کچھ فوجیوں ، جلال اور بریعہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اب وہاں ایک پنپتی ہوئی فوج دِکھ رہی تھی۔
اب یہ وہ موقع تھا۔جس مطابق اس ناول کا نام زومبی وار رکھا گیا۔ ایک طرف بوڑھے آدمخور فوجیوں کے ساتھ تھے۔تو دوسری طرف وہ جوان آدمخور تھے ۔وہ سب تو آدمخور تھے ۔ اپنی جان سے بےفکر تھے لیکن وقت کے ہر سوال پر ایک کرارا جواب بننے والی پاک فوج بھی ان آدمخوروں میں بےخوف کھڑی تھی۔ ایک جنگ شروع ہونے والی تھی۔ تبھی ان شاہینوں میں سے ایک فوجی کی نظر بے سہارا بریعہ کو سنبھالے جلال پر پڑی۔ اس نے ایک دوسرے فوجی کو اپنے ساتھ لیا۔ دوسرا فوجی حنیف تھا۔
وہ دونوں جلدی سے آگے بڑھے اور بریعہ اور جلال کو ڈائریکٹ کرتے ہوئے اپنے ساتھ لیے پیچھلی عمارت کے دروازے کی طرف بڑھے ۔ شیشے کے دروازے پر پیڈ لاک تھا۔ حنیف نے گن کی ایک سٹکل مار کر تالا توڑ دیا۔عمارت کے اندر گھستے ہی دوسری طرف کے دروازے کی طرف بڑھے لیکن بدقسمتی سے لاک توڑنے کی آواز سن کر دروازے کے اس طرف کھڑے آدمخور بھی ان کی طرف دوڑے آئے، رہے تھے۔ حنیف کے ساتھ والے فوجی سے موقع پر فائرنگ شروع کر دی۔ جلال ، بریعہ کو لے کر حنیف کے ساتھ ہی برابر والی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔
وہ فوجی فائرنگ کرتا ہوا ۔ ان آدمخوروں کا لقمہ بن گیا۔ اب حنیف بھی سیڑھیاں چڑھنا جاتا اور ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کرتا جاتا۔ پانچویں منزل تک پہنچ کر سامنے والے کمرے میں پہلے بریعہ کو داخل کیا اور پھر خود بھی گھس گیا اور حنیف کے آتے ہی دروازہ زور سے بند کر دیا۔
شیلٹر ہاؤس سے آئی۔ ایس۔ آئی ہیڈکوارٹرز ایمرجنسی کال کی گئی ۔
" جنرل۔۔۔۔۔۔ اینٹیڈوڈ پہنچ چکا ہے۔ یم جلد لانچ کرنے جا رہے ہیں ابھی بس میزائلز تیار ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ پندرہ منٹس لگ جائیں گے "آئی۔ ایس۔ آئی ہیڈکوارٹرز سے کسی جنرل کی آواز آئی۔
" بہت اچھے۔۔۔۔۔۔ اب میری بات غور سے سنو۔۔۔۔۔۔ اس وقت شیلٹر پر بہت ساری آدمخور وہیلز ٹوٹ پڑی ہیں۔۔۔۔۔ہم ان پر اندر سے حملہ نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔شیلڈ کی پاور تھرٹی نائن پر سینٹ وہ گئی ہے۔۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب ہم بچ پائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم بچا لو گے سب کو۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کی ایک بار پھر سے پاکستان ان کی آخری دفاعی لکیر بن کر ثابت کر نا ہوگا کہ جب تک آئی ایس آئی ہے۔۔۔۔۔کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کو ثابت کرنا ہوگا۔۔۔۔۔" یہ کہتے ہوئے جنرل جوش سے چیخ پڑے۔کسی وہیل کے اینٹینا پر حملہ کرنے کی وجہ سے اب دوبارہ کنیکٹشن لوسٹ ہو گیا۔
بوڑھے آدمخور بوڑھے تو تھے لیکن جوان آدمخوروں کے مقابلے میں دوسرا قد اور زیادہ ماس کی وجہ کم تعداد میں بھی نمایاں دکھ رہے تھے۔
جلال بھی بریعہ اور حنیف کے ساتھ جس کمرے میں تھا اس کی تباہ شدہ حالت دیکھ کر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بوڑھے آدمخور جو اچانک اوپر سے کہیں سے آ ٹپکے تھے وہ اردگرد والی بلڈنگز کے اوپر پہلے ہی کسی وجہ سے موجود تھے۔
تبھی ایک بوڑھے آدمخور نے خود کو نہ سنبھالتے ہوئے دھاڑ ماری جسے جنگ کا اعلان سمجھ کر سارے آدمخور ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ فوجیوں نے بھی جنگی عملی نامہ فالو کرتے ہوئے کاروں کی اوٹ پکڑی اور تاک تاک کر نشانہ لگانے لگے۔ ہر گولی سے ایک ہیڈشاٹ لیتے ہوئے ایک ایک آدمخور گرتا جاتا۔ جب تک وہ آدمخور قریب آتے جاتے بہت سارے آدمخور گر چکے تھے۔
بوڑھے آدمخور بھی بس آگے سے آگے بڑھتے جا رہے تھے اور ان آدمخوروں کو پٹکتے جاتے. وقت کم تھا۔ انھیں جلدی سے ہیڈکوارٹرز پہنچنا تھا۔ابھی تک کچھ فوجی بھی آدمخوروں بن چکے تھے اور باقی جو دور تھے وہ ابھی بھی فائرنگ میں مگن تھے۔ جلال کھڑکی میں آیا اور نیچے باہر والے فوجیوں پر نظریں گاڑھیں۔اس کی آنکھوں سامنے دو فوجی ان کے کا لقمہ بنے اور باقی بھی جلد ہی آدمخور بن گئے۔
جلال کو اب کوئی امید نظر نہ آ رہی تھی۔ دروازہ بھی شاید زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ جلال نے پلان بنایا کہ ہم تینوں کے پاس گنز تو ہیں ہی۔ کمرہ بھی کافی کھلا ہے ہم کمرے کے آخر میں جا کھڑے ہونگے۔ بریعہ دروازہ کھول کر دروازے کے اوٹ میں چھپ جائے گی۔ دروازے کے اس پار آدمخور اتنے نہیں ہیں کہ ہم تین مل کر بھی انھیں ختم نہ کر سکیں۔ ایسا ہی کیا گیا ۔ جلال اور حنیف کمرے کے باہر بالکونی میں جا کھڑے ہوئے اور وہیں سے کھڑکیوں میں سے دروازے کی طرف گنز تان کے کھڑے ہوئے۔
بریعہ ڈر تو رہی تھی لیکن ایسا کرنے سے وہ زیادہ محفوظ ہو سکتی تھی۔ وہ جلدی سے دروازہ کھول کر اس کی اوٹ میں چھپ گئی۔ آدمخور جیسے ہی آگے بڑھے جلال اور حنیف نے فائرنگ شروع کر دی۔ آدمخور وہیں گرنے لگے۔ بالکونی تک پہنچنے تک صرف دو آدمخور بچے تھے جنھیں بریعہ نے فائر کر کے ختم کر دیا۔
اس سے پہلے کہ گولیوں کی آواز سن کر اور آدمخور آتے انھیں وہاں سے نکلنا تھا۔ وہ اس کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ایک بار پھر سے زمین کپکپانے لگی۔ ایسے میں انھیں زمین کی طرف جانا مہنگا پڑ سکتا تھا۔ تو وہ چھت کی طرف چل دیے چھت پر جا کر وہ ایک بار پھر سے چونک گئے۔ چھت پر سے انھیں زمین پر دو منزل بڑا آدمخور دکھا۔ بریعہ اس آدمخور کو پھٹ سے پہچان گئی۔ یہ وہی آدمخور تھا جن سے بچتے بچاتے وہ کراچی سے نکلے تھے۔
وہی آدمخور سر پر بڑے گول سینگھ پیٹھ پر دو چمگادڑی پر بھی تھے۔ چہرہ بھی کسی چوہے اور چمگادڑ کا مجموعہ لگتا تھا۔ اس کے ایک ایک قدم پر زمین میں دور تک ایک لرز پیدا ہوتی تھی۔ اس نے آتے ہی دو قدموں سے بہت سارے آدمخور بشمول چند بوڑھے آدمخور کچل دیے۔ اس کو دیکھ کر واضع ہو رہا تھا کہ اسے بوڑھے آدمخور بھی نہیں روک سکتے۔
اس آدمخور نے چھت پر کھڑے جلال بریعہ اور اس فوجی کو بھی جلد ہی دیکھ لیا اور اپنا ایک ہاتھ انھیں کچلنے کے ارادے سے آگے بڑھایا۔ تبھی ایک طرف سے اسی کا ہم قد لیکن ایک عام آدمخور کی طرح دیکھنے والا آدمخور کہیں سے اچانک آکر اس پر حملہ آور ہوا اور اس کے سینے پر اپنے دونوں پاؤں پاؤں ایک ساتھ مار کے اسے پیچھے گرا دیا۔ خود بھی گرا لیکن جلدی دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔
انھیں نہیں معلوم ہو رہا تھا کہ وہ کون ہے۔ تبھی بریعہ نے اسے پہچان لیا وہ کاظم تھا۔
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z