Tamasha-e-Muhabbat - Episode 19

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 19


- - -

ریشما خان کو احمد اپنے ساتھ گھر لے کر گیا اور اس کو خوب بے عزت کیا__ مگر ریشما پر تو گویا ولی کو پانے کا جنون سوار تھا___


احمد کے والد جیسے ہی گھر لوٹے تو احمد کو ریشما پر چلاتے حیران ہوئے جب ان کے استفسار پر احمد نے اُن کے گوش گزار سارا واقعہ کیا جسے سننے کے بعد ان کے والد کو شرمندگی بھی ہوئی اور یک گونہ سکون محسوس ہوا___


وہ یہی تو چاہتے تھے کہ ولی خان ان کا داماد بنے__ بیشک ان کی بیٹی کا طریقہ غلط تھا مگر کہیں نہ کہیں ان کی دلی مراد پوری ہوئی تھی__


انہوں نے اگلے روز ہی ولی کو بلایا__ اور اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے درخواست کی کہ ولی اب اپنی امانت کو ان کے پاس سے لے جائے__ انہوں نے ولی کو اپنی بیماری کا بتایا جس پر ولی نے نا چاہتے ہوئے بھی ریشما کی زمہ داری اُٹھانے کا فیصلہ کیا__


ولی کے ہوٹل کا باس بہت اچھا تھا اُس نے ولی کی مجبوری سمجھتے ہوئے ریشما کا ٹکٹ بھی فائنل کیا__


احمد ایئر پورٹ پر جب اُسے سی آف کرنے گیا تو ولی کے الفاظ نے اسے ساکت کردیا___


میری بہن میری بیٹی تھی احمد__ اُس نے مجھے کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں چھوڑا__ میں نے محبت کے معاملے میں تمہاری اور اپنی بہن کو خودغرض پایا ہے ___ مگر وہ خودغرض نہیں تھیں__ وہ سب سے الگ تھیں احمد__، میں میری بہن کی خودغرضی کے بعد اب اُن کو فیس کرنے کی ہمت نہیں رکھتا___ ان کا خیال رکھنا تمہاری اولین ذمہ داری ہے احمد____


احمد خان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بولا__


اگر اتنی محبت ہے ان سے تو اپنا کیوں نہیں لیا تھا اُن کو____ 

میں اور محبت ایک دوسرے کے لئے نہیں بنے احمد خان___ ولی خان یہ کہتا ہی اس کے گلے ملتا اناؤنسمنٹ کی طرف متوجہ ہوا___


یوں وہ اس ملک سے چلا گیا__ وہ میر سائیں کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا__ مگر وہ مطمئن تھا کہ انشراح میر خوش ہے__ مگر وہ غلط تھا__اور بہت جلد اس پر یہ انکشاف جان لیوا ثابت ہونے والا تھا___


❤❤❤❤❤❤


یہ منظر ہے شاہ پیلس کے سب سے خوبصورت کمرے کا___ جو کہ ماسٹر بیڈ روم بھی تھا____ کمرے کے بیچوں بیچ جہازی سائز بیڈ رکھا گیا تھا سامنے ہی ایک بڑی فریم میں ازلان شاہ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہاتھ میں گٹار لیے تھا____


اُسے شعر و شاعری اور میوزک کا جنون کی حد تک شوق تھا____ اُس نے ایک نظر اس تصویر کو دیکھنے کے بعد اپنے اردگرد ڈالی___ کمرے کو نہایت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا___


وہ ابھی کمرے کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جب ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی___


بی بی جی یہ کھانا کھا لیں___ وہ ٹرے ہاتھ میں لیے اُس سے مخاطب ہوئی___


سُنو___ نور خان اُس کو پکارتی بیڈ سے اُٹھی___ 

ملازمہ اس کے بولنے کے انتظار میں کھڑی تھی___


جی بی بی صاحبہ___ ملازمہ بولی


یہ کمرہ ازلان شاہ کی پہلی بیوی کا تھا اُس کا سامان نظر نہیں آرہا___

نور خان اس سے پوچھتی الجھتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگی___


کون پہلی بیوی ؟؟؟ ازلان شاہ صاحب کا حُکم ہے کہ اُن کی صرف ایک ہی بیوی ہے اور وہ آپ ہیں نور شاہ___ اور رہی بات دوسری بی بی کی تو اُن کو گیسٹ روم میں رکھا گیا تھا__ اور پھر اگلی صبح وہ لوگ کہیں چلے گئے تھے___


نور خان کے کان سائیں سائیں کرنے لگے___ وہ وہیں بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی___


جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی نور خان کو دیکھ کر اُسے خوشی محسوس ہوئی جسے وہ سنجیدگی کے لبادے میں چُھپا گیا___


وہ دھیرے دھیرے قدم اَُٹھاتا اُس کی طرف بڑھا___ 


نور__ازلان کی آواز سنتے ہی وہ اپنی تمام ہمت مجتمع کرتی اُس کو گریبان سے پکڑے ہوئے تھی___


تم___ مممم ___ تمہاری جرآت کیسے ہوئی اپنی گندی زبان سے میرا نام لینے کی؟؟ تم ایک دھوکہ باز اور گھٹیا آدمی ہو___ تم نے مجھے اور میری دوست کو تباہ کردیا___ 


کیوں کیا تم نے ایسا ازلان شاہ____ ؟؟؟ میں تم سے نفرت کرتی ہوں فقط نفرت ___ ازلان شاہ نے نور خان کو دھکہ دیتے پیچھے ہٹایا___


اور پھر ایک زوردار تھپڑ اُس کے منہ پر مارا___ اور اس کے گال اپنے ہاتھوں میں لیے دباتے ہوئے اس کی طرف جھکا__


تم مجھ سے نفرت کرو گی؟؟ مجھ سے؟؟ ازلان شاہ سے؟؟ تم تو خود ازلان شاہ کی نفرت کے قابل نہیں ہو___ مگر کیا کروں یہ کمبخت دل___ تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دیتا___ تمہیں خود سے ایک پل کے لئے بھی دور نہیں کرسکتا تھا میں____


ازلان شاہ کے لہجے میں پہلے غصہ تھا مگر اب صرف اور صرف درد تھا___ تکلیف تھی___


میں کیا کروں نور شاہ میں تمہیں چاہ کر بھی بھلا نہیں سکا___ تم کو پانا میری زندگی کی سب سے بڑی حسرت تھی___ مجھے تم سے جنون کی حد تک عشق ہے نور خان___ میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں___


وہ یہ کہتے ہی نور خان کے لبوں پر جھکا انہیں قید کرچکا تھا___ نور خان کی سانسیں اکھڑنے لگی جب ازلان شاہ نے اُسے آزاد کیا اور پھر اُس کے پاس سے اُٹھتا ہوا سٹڈی روم کی طرف چلا گیا____


😍😍😍😍


ازلان شاہ سٹڈی روم میں بیٹھے آج ہونے والے واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا____


اُسے شاپنگ مال کا وہ منظر یاد آیا___ وہ نور خان کے چلے جانے کے بعد ہر چیز سے دلبرداشتہ لندن چلا گیا اور وہاں اس نے خود کو مصروف کر رکھا تھا صبح اس کی آفس اور رات کسی بار میں گزرتی___


وہ ہر رشتے ہر شخص سے بیزار ہوچکا تھا___ ان مصروفیات کے باوجود وہ تنہائی کے پل بہت مشکل سے کاٹتا تھا__


نور خان اور اس سے وابسطہ یادیں اُسے کسی طور چین لینے نہ دیتی تھیں___ واصف شاہ اُسے پاکستان بلا بلا کر تھک چُکے تھے جب ایک روز اُس نے ان کی بات مانتے واپسی کا فیصلہ کیا____


وہ آج واصف شاہ کے بنائے گئے ایک مال میں آیا تھا___ اس کا ارادہ مال کی اتھارٹی لینے کا تھا اور اس سلسلہ میں وہ مال کا جائزہ لینے لگا جب اُس کی نظر نور خان پر پڑی وہ کتنے ہی پل اُس دلربا کو دیکھتا رہا__ ایک درد کی لہر اس کے دل میں جاگی مگر وہ اس درد سے غافل ہوتا اپنی شاہِ من کو قریب سے دیکھنے کے لئے آگے بڑھا___


اُس کا ارادہ اُسے قریب سے دیکھنے کا تھا جسے عملی جامہ پہناتا وہ ان کے ٹیبل کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے کہ وہ نور کے قریب پہنچتا ایک لڑکی نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا___ اور پھر بنا سوچے سمجھے اس کی کردارکشی کی____


ازلان شاہ شرابی تھا بےحس تھا ظالم تھا مگر وہ زانی نہ تھا____اُس نے لڑکیوں سے کبھی تعلقات نہیں بنائے تھے___ مگر انشراح میر نے اُسے رسوا کیا تھا___ اُسے یاد تھا کیسے اُس کے اپنے ہی مال سے اُسے نکالا گیا___ 


وہ گھر آتے ہی کمرہ بند ہوگیا___غصہ اور جنون اس پر سوار تھا مگر جیسے ہی نور خان کا سراپہ اُس کے سامنے آیا وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا___ ایک سکون کی لہر اُس کے رگ و پے میں سمائی تھی___ وہ انشراح میر کے ہاتھوں تذلیل بھول چکا تھا____


صبح اس کی آنکھ فون کی رنگ سے کھلی___ اُس نے کال اُٹھائی یہ اُس کے دوست کی کال تھی____


ازلان تمہاری کل مال والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے____ دوسری طرف فون پر موجود شخص نے گویا اس کے اعصاب پر حملہ کیا ہو____


کیاّ_؟؟؟ کیا بکواس کررہے ہو تم؟؟؟ ازلان نے دھاڑتے ہوئے کہا 


میں تمہیں ویڈیو بھیجتا ہوں،___ یہ کہتے ہی اُس نے کال کاٹ دی


اور پھر اس کے فون پر نوٹیفکیشن ٹون سنائی دیتے ہی اُس نے فون آن کیا___


لوڈنگ کے بعد اُس نے جیسے ہی ویڈیو پلے کی تو ویڈیو پر کیپشن اور ویڈیو نے اُسے پاگل کردیا____


وہ غصے سے بپھڑتے ہوئے نیچے آیا اور واصف شاہ کے گوش گزار تمام معاملہ کیا___،


واصف شاہ نے اپنے سارسز سے کسی طرح وہ ویڈیو ہٹوا دی__ ویڈیو مال میں ہی کسی شخص نے بنائی تھی اُس کا مین ٹارگٹ میر حاکم کی پوتی کا سکینڈل بنانا تھا_____


ازلان شاہ نے اُس دن سے انشراح میر کی بربادی کا عہد کیا اور اُس کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کیں____


ازلان شاہ کو انشراح میر کے بارے میں جاننے میں فقط کچھ گھنٹے لگے تھے___ 


اُس نے انشراح میر کو سبق سکھانے کے لئے اُس کی سالگرہ کی رات کا انتخاب کیا___


وہ اس دوران نور خان سے مکمل طور پر غافل ہوچکا تھا__ وہ اُس مال میں نور کی موجودگی بھی بھول چکا تھا___


اُس نے انشراح میر کا نمبر نکلوایا اور اپنی ایک خاندانی ملازمہ کو ان کے گھر بھیجا___

کیونکہ ان دنوں میر حاکم کو ملازمہ کی ضرورت تھی جس وجہ سے انہوں نے بنا چھان بین کیے اس ملازمہ کو رکھ لیا__ اور ولی خان بھی ان دنوں وہاں نہیں تھا__ ورنہ اُس نوکرانی کی اینٹری کسی صورت ممکن نہ ہوتی_____


اُس نے نوکرانی کے زریعے گارڈ کو بیہوش کروایا اور اُسے معلوم تھا کہ میر ولا میں رکھے گئے جرمن شیفرڈ کو ملازم ایک بار پورے ایریا کا راؤنڈ لگواتا ہے___


اس لیے وہ مطمئن تھا کہ ان کے جانے کے بعد ہی وہ انشراح کے کمرے تک جائے گا___ ملازمہ نے اُس کے آنے سے پہلے ہی خفیہ کیمروں کی وائر ڈسکنکٹ کردی تھی___ 


اور انشراح کے کمرے کی لائٹ آف کرنا اس کے لئے مشکل نہ تھا____

ملازمہ نے اُس کے آنے سے پہلے کھڑکی کھول دی تھی__ وہ انشراح کے کمرے میں ایک بھرپور پلاننگ کے ساتھ آیا تھا__


اُسے انشراح سے بدلہ لینا تھا اور اس کے لئے وہ انشراح کی عزت تک تار تار کرنے کو تیار تھا انشراح کی سسکیوں نے بھی اُسے نہ روکا مگر جیسے ہی بیڈ پر انشراح پر جھکتے وہ ہر حد سے گزرنے والا تھا اُس کی آنکھوں کے سامنے نور خان کا سراپہ آیا اور وہ شرمندہ ہوتا اس کے کمرے سے چلا گیا___


گھر آتے ہی اس نے خود کو ملامت کی__ وہ نور خان کے علاوہ کسی لڑکی کے قریب ہونے کا سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا


اگلے روز پارٹی میں اس نے انشراح میر کو دیکھا تو ایک بار پھر سے اُس کے اندر بدلے کی آگ دہکنے لگی__ انشراح نے جب اس سے معذرت کی تو اس کے دماغ نے بہت تیزی سے کام کرنا شروع کیا__ 


ازلان شاہ کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی اُسے انشراح کی معذرت سے فرق نہیں پڑ رہا تھا___

اُس نے انشراح کودوستی کی پیشکش کی اور پارٹی میں ہی اُس پر یہ انکشاف ہوا کہ انشراح میر ولی خان سے محبت کرتی ہے___


اُس نے جب نور کو ولی کے ساتھ دیکھا تو اُسے ولی سے جیلسی ہوئی مگر جیسے ہی نشاء نے اُسے بتایا کہ نور خان ولی کی بہن ہے اُسے ولی سے نفرت محسوس ہوئی___


وہ نور خان کی بےوفائی کا سبب ولی خان کو سمجھتا تھا جبکہ ولی خان مکمل طور پر اس داستان سے لاعلم تھا____


اُس نے ولی خان کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ بھی ولی خان کی محبت کو اُس سے چھین لے گا___


اس کے لئے اُس نے انشراح کی طرف رشتہ بھیجا اور واصف شاہ کو یقین دلایا کہ وہ انشراح سے محبت کر بیٹھا___


جبکہ نور خان کی جیلسی اور بےچینی ازلان شاہ کو مزا دینے لگی تھی___


اب وقت انتقام کا تھا___ اُس نے ایک تماشہ کرنا تھا انشراح اور ولی کی محبت کو تماشہ بنانا تھا اور اپنی محبت کو حاصل کرنا تھا___


وہ کسی قیمت پر نور سے پہلے کسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا اس کے لئے ازلان نے نور خان کو انشراح سے شادی سے تین دن پہلے اغواء کیا___


اور اُس سے شادی کی___ اُسے دھمکی دی کہ وہ ولی خان کو جان سے مار دے گا ___ _


اور نور خان اپنے بھائی کی زندگی بچانے کے لئے ازلان شاہ سے شادی کرنے کے لئے رضامند ہوگئی___


وہ بہت خوش تھا اُس نے نور خان کو اپنا بنا لیا تھا نہ جانے اُس کی قربت میں ایسا کیا تھا نور خان بھی سب کچھ بھلا بیٹھی نور خان نے وہ تین دن ازلان کی قربت میں گزارے___ وہ جانتی تھی کہ سب لوگ شادی میں مصروف ہیں ایسے میں اُس نے ہاسٹل کا بہانہ کرکے ازلان کے ساتھ تین دن اور راتیں گزاری____


ازلان شاہ کی قربت اُس کی محبت نے نور خان کو بےبس کردیا____


انشراح سے نکاح والے دن صبح صبح اُس نے نور خان کو اپنے ارادے بتائے کہ وہ انشراح سے شادی کرے گا___ نور خان کتنی ہی دیر ازلان کو بےیقینی سے دیکھتی رہی___ وہ ایک فیصلہ کرتے آگے بڑھی اور ازلان شاہ کو گریبان سے پکڑتے دیوار سے لگایا اور اُس کے جسم پر جابجا اپنی شدتیں دکھانے لگی__،


آج جنون سوار تھا نور پر ازلان کو کسی طرح انشراح کی زندگی برباد کرنے سے روکنے کا___


وہ ازلان کی شرٹ پھارتی اُسے اتار چکی تھی اور اب گھٹنوں کے بل بیٹھی اسے مکمل بے لباس کرتی اُس کے جسم پر جگہ جگہ ہونٹ ثبت کرتی رہی___


ازلان شاہ نے نور خان کو اپنی بانہوں میں بھرا اور اسے لئے بیڈ تک پہنچا___ نور نے خود کو بھی بے لباس کیا اور وہ دونوں ایک دوسرے پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے رہے___


نور کے جنونی انداز نے ازلان کو بہت کچھ باور کرایا تھا___


وہ کتنے گھنٹے ایک دوسرے میں گم رہے جب واصف شاہ کی کال پر ازلان ہوش میں آیا اور نور کو گھر جانے کا حکم دیتا خود واشروم چلا گیا___


نور خان ابھی تک ازلان کی قربت کے خمار میں تھی وہ پورا راستہ ازلان کو گاڑی میں اپنی اداؤں سے فریفتہ کرتی رہی اور ازلان شاہ نے اُس سے رات کو ملنے کا وعدہ کیا____


نور خان کو اب بھی لگا کہ ازلان انشراح سے شادی نہیں کرے گا___ مگر وہ غلط ٹابت ہوئی تب جب اُس نے انشراح کو ازلان کی دلہن بنتے دیکھا___

وہ اپنی قسمت کو کوستی گھر آئی__ 

گھر آتے ہی اُس نے خود کو کمرے میں بند کیا ولی خان بھی جا چُکا تھا___ 

اب نور خان کو اپنی غلطی کا احساس شدت سے ہوا وہ اپنی عزت داؤ پر لگا چکی تھی___ وہ ازلان شاہ کے نکاح میں جا چکی تھی__ اور اپنا آپ اُسے اپنی مرضی سے سونپ چکی تھی____ نور خان کو جیسے ہی احساس ہوا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی____


دن یونہی سبک رفتاری سے گزر رہے تھے نور خان کو انشراح میر کے ہنی مون ٹرپ کا پتا چل چُکا تھا___


وہ خود کو کمرے تک محدود کرچکی تھی___ 

اسے اپنی خطاؤں پر شرمندگی تھی وہ آج شدت سے ولی کو یاد کر رہی تھی___


جب اُس کے موبائل کی رنگ ٹون بجی اُس نے بےدلی سے اپنا فون اٹھایا___ جیسے ہی واٹس ایپ آن کیا___ سامنے ایک ویڈیو تھی انشراح میر کی ویڈیو___ جس میں وہ ازلان شاہ کے ساتھ نیم برہنہ حالت میں ایک ہوٹل میں تھی___ مگر ازلان کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا___ نور خان جانتی تھی یہ ازلان شاہ ہی ہے___

ایک غصے کی لہر اس کے اندر دوڑی اور اُس نے ازلان کو کال ملائی____


کیا خیال ہے کل اس ویڈیو کو وائرل نہ کردوِں__ساتھ میں ایک خبر ہوگی ملک کے مایہ ناز سیاستدان میر حاکم کی پوتی اپنے ملازم ولی خان کے ساتھ انتہائی نازیبہ حالت میں پکڑی گئی____ ازلان شاہ نے کال ریسیو ہوتے ہی نور خان سے کہا_


بکواس بند کرو___ اپنی بکواس بند کرو ازلان شاہ___ میں جان سے مار دوں گی تمہیں___ نور خان ایک بپھڑی شیرنی کی طرح دھاڑی___


مار چکی ہو تم مجھے__ بہت پہلے ہی مار دیا تھا تم نے مجھے نور خان___ ازلان شاہ بھی اُسی کے انداز میں دھاڑا__


نور خان کو چپ لگ گئی__


کیا چاہتے ہو؟؟ نور خان نے ازلان سے سوال کیا___


فقط تمہیں___ تمہاری قربت___ تمہارا ساتھ___ ازلان شاہ مخمور لہجے میں بولا___


یہ نہیں ہوسکتا___ نور نے ٹھوس لہجے میں کہا___


ایسا ہی ہوگا__ اور اگر تم نے انکار کیا تو یہ ویڈیو وائرل کردوں گا___ تمہارے لالہ کا جو حال ہوگا تم سوچ بھی نہیں سکتی__ چلو ایک دوسری ویڈیو بھیجتا ہوں__،


اور تھوڑی دیر بعد جو ویڈیو تھی وہ ولی خان کی جیل میں تھی___ ازلان نے ولی خان کو ڈرگز سمگلنگ کے جھوٹے الزام میں گرفتار کروایا تھا___


نور خان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی___


نور خان ڈر گئی__ وہ نہیں جانتی تھی کہ ازلان شاہ صرف دھمکی دے رہا ہے وہ کبھی بھی ولی خان کی کردارکشی کا حوصلہ نہیں رکھ سکتا____


اور پھر وہی ہوا جو ازلان چاہتا تھا___ نور خان ایک غریب لڑکی تھی وہ اپنے لالہ اور اپنی دوست کی عزت بچانے کے لئے خود کو داؤ پر لگا چکی تھی____


ازلان شاہ نے پھر بھی انشراح کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی___ اُس نے بھری محفل میں اُسے بدنام کیا___


اور نور خان خاموش تماشائی بنی سب دیکھ رہی تھی___ قیامت تو تب ٹوٹی تھی نور خان پر جب اُس نے انشراح میر کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی___ 


ازلان شاہ نے بھری محفل میں اُسے اپنی خاندانی بیوی ڈکلیئر کیا مگر نور خان کے لئے یہ لفظ کسی گالی سے کم نہ تھا___


وہ کمزور تھی اُس کے پاس ازلان شاہ جیسے شخص کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی__ اُس نے خود کو قسمت کے حوالے کردیا___،


کیونکہ اس کے بعد اس کی میر ولا میں کوئی جگہ نہ تھی اور شاید اس کے لالہ کی زندگی میں بھی اُس کی کوئی جگہ نہ تھی____


وہ خود کو بہت مجبور ہوکر ازلان کے حوالے کرچُکی تھی اور ازلان شاہ تو گویا اُسے حاصل کرکے دنیا کو فتح کرلیا ہو____ وہ خوش اور مسرور سا آنے والے وقت کی پلاننگ کررہا تھا___ 

❤❤❤❤❤❤

 


نوٹ:خدارا ایپی پڑھنے کے بعد لائیک کمنٹ کردیا کریں

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)