ZombieWar - Episode 8

0

Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

 Episode - 8

 Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim


 Offical Writer at KoH Novels Urdu

 - - -

کاظم بریعہ کو نیویگیٹ کرتا رہا اور بریعہ کاظم کے بتاے راستے پر جہاز کو موڑ لیتی ۔ جہاز پر سے وہ بلڈنگ جلد ہی انھیں دکھنے لگی گئی جس کے متعلق جلال نے فون پہ بتایا تھا ۔ ایک شخص کالی پینٹ کوٹ کے ساتھ سفید شرٹ اور سرخ ٹائی لگائے بلڈنگ کی چھت کے کنارے پر ہاتھ پھیلائے نیچے کی طرف بے خوف کھڑا سانسیں بھرتا یادوں میں گم سم کھڑا دیکھائی دے رہا تھا۔ 


کاظم نے پہلے ہی یہ طے کر چکا تھا کہ وہ جلال کو وہاں سے کیسے نکالے گا؟ اس نے جلال کو دیکھ لیا تھا مگر جلال کو یادوں نے جلال کو اردگرد کسی کی موجودگی کی بھنک بھی نہیں لگنے دی اسے کچھ خبر نہ ہوئی کہ اس کے اردگرد کہیں کوئی جہاز بھی ہے ۔ بریعہ نے بھی کاظم کے بتائے مطابق جہاز کو بلڈنگ کے بالکل اوپر سے کراس کرنے کے لیے جہاز کو سیدھ کر رکھا ۔ 


کاظم نے روپ گن ( Rope Gun KS-26) جو کہ بشمول ایک مضبوط رسی,ایک طاقتور گن تھی، اس کو گن ہینگر سے نکال کر جہاز کے مضبوط ہینڈلز کے ساتھ فکس کیا جو ایسی گنز کے جھٹکے برداشت کرنے کے لیے تھے اور جلال پر نشانہ سادھنے لگا ۔ 


تبھی اچانک چھت پر آنے والی سیڑھیوں کا دروازہ جسے جلال نے ذبردستی ایک معمولی سی کنڈی کے سہارے بند کیا ہوا تھا کیونکہ یہ دروازہ پوری بلڈنگ سے کنیکٹ کرتا تھا اور بلڈنگ میں موجود آدمخور جو اس دروازے کو اپنی پوری قوت سے جھٹکے دے رہے تھے کیونکہ انھیں دروازے کے دوسری جانب سے جلال کی مہک مل رہی تھے ۔ تبھی دروازے کی کنڈی بھی ٹوٹ گئی اور ان آدمخوروں کو راستہ ملتے ہی جلال پر حملہ کرنے کو دوڑے ۔ 


جلال جو ان سب سے بے خبر تھا اس نے بھی اتفاقاً چھت پر سے باہیں پھلوں بے خوف و خطر بس سینے میں کچھ درد اور آنکھوں میں آنسو لیے چھلانگ لگا دی ۔ کاظم کے لیے وقت پلوں کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ گزرتے ہوئے وقت کا ہر سیکنڈ جلال کو کاظم اور اس دنیا سے دور لے جا رہا تھا۔ کاظم، جلال کی عادتوں سے واقف تھا کہ وہ ایسا کچھ کر سکتا ہے۔اگر کوئی امید نظر نہ ائے تو جلال کے دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی جا رہیں تھیں۔


جہاز عین بلڈنگ اور جلال کے اوپر سے گزرا تو کاظم نے زمین کی سیدھ میں جلال کی طرف فائر کر دیا۔ گن سے ایک بوتل کے ڈھکن کی مانند ایک چھوٹی سی ڈبیہ اپنے ساتھ لمبی مضبوط رسی لیے نکلی اور ایک سیکنڈ میں تیزی سے بےسہارا زمین کی طرف بڑھ رہے جلال کی پیٹھ پر لگی تو ڈبیہ کے سامنے لگا چھوٹا بٹن دباؤ سے پریس ہو گیا اور وہی معمولی سے ڈبیہ ایک جال کی شکل اختیار کر گئی اور اپنے اندر جلال کو سمیٹ لیا۔ 


( کچھ لوگوں کو یہ نہیں پتہ ہوگا کہ ایسی کوئی گن ہے بھی یا نہیں۔ تو ان کے لیے یہ جواب ہے کہ حال ہی میں امریکی گنر پروفیشنل کمپنی نے ایسی ہی گن کے جلد متعارف کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ البتہ اس گن کو تصوراتی شکل آپکے اس معصوم سے رائیٹر یعنی میں نے دی ہے ) 


جال کے کھلتے ہی جلال کے وزن سے گن میں لگے سینسر نے رسی کو روک دیا اور واپس جلال کو لیے جہاز میں پٹخ دیا۔ جال نے جلال کو جس بے رحمی سے جہاز میں لا کر پھنکا تھا ۔ اس بے دردی کا اندازہ جلال کی کراہٹوں سے ہو رہا تھا۔ جلال جہاز میں دروازے کے سامنے ہی کمر کو پکڑے نیچے ہی جال کی اندر الٹا لیٹا ہوا کراہ رہا تھا۔


 کاظم جلدی سے گن کو پاس ہی پھینک کر جلال کی طرف لپکا اور چاقو نکال کر جال کاٹنے لگا۔ کاظم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی پھیلی ہوئی تھی۔ جال کافی مضبوط تھا۔ اس لیے جال کی ایک تار کو کاٹنے لے لیے تیز دھار والے اس چاقو سے دو بار وار کرنا پڑتا تھا۔ 

  " ارے پاگل۔۔۔۔۔۔ تجھے کہا تھا نا کہ آرہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔ تو تو وہاں سے کودا کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ " کاظم نے جلالل کو ڈانٹتے ہوئے سوال کیا۔


   " آہ ( جلال کمر کے کھچاؤ کی وجہ سے کراہا ) ۔۔۔۔۔۔۔یار مجھ سے کیا پوچھ رہا ہے رائیٹر سے ہی پوچھ۔۔۔جو مجھے مارنے پہ تلا ہوا ہے۔۔اور ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو مجھے معلوم تھا کہ تو مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔۔۔میں چاہیے موت کے منہ پر ہی کیوں نہ کھڑا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ضرور آۓ گا مجھے معلوم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ چھلانگ تو میرا , اللہ سے ایک سوال تھا کہ میں نے تیری زندگی میں واپس آکر صحیح کیا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پتہ ہے اللہ نے میرے سوال کا جواب مجھے بچا کے دے دیا ہے " جلال نے بھی کاظم سے گلے لگنے کے بعد اس کے سوال کا جواب مسکراتے ہوئے دیا۔


  " کیسی باتیں کر رہا ہے یار تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میری زندگی سے گیا ہے کب تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور اور برّہ کہاں ہے؟ " کاظم نے دلی جواب دینے کے بعد بالکل سنجیدگی پکڑ لی ۔ کاظم کا یہ سوال کو سنتے ہی جلال کی انکھوں میں آنسو آگئے۔ 


 " وہ مارکیٹ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھ سے یہ کہہ کر گئی تھی کہ جب آئے گی تو مل کر کیک بنائیں گے۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( جلال کی مزید جملہ بڑھانے کی ہمت نہ ہوئی اور اپنے آنسو پونچھنے کے بعد پھر سے بولا تو کاظم نے اسے بھی حوصلہ دیتے ہوئے گلے لگایا ) میں اسے ڈھونڈنے گیا بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔پر وہ نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔ پھر تیری فکر ہونے لگی تو میں تجھے ڈھونڈنے آگیا " جلال نے اس بار آنسو نہیں پونچھے اور اپنے درد کو چھپانے کے لیے مسکراتے چہرے کے ساتھ کاظم کی طرف دیکھتا رہا ۔ 


کاظم کو بھی اس بات بہت دکھ ہوا کیونکہ برّہ صرف جلال کی بیوی ہی نہیں تھی بلکہ کاظم جلال اور برّہ تینوں بچین کے دوست تھے ۔ تینوں یتیم تھے اور اکٹھے بڑے ہوۓ بعدازاں جلال اور برّہ نے محبت میں شادی کر لی ۔ 


کاظم کے چہرے پر بڑھتی ہوئی افسردگی کو کم کرنے کے لیے جلال پائلٹ سیٹ کی طرف اشارہ کر کے بولا


   " یہ چھمیا( لڑکی ) کون ہے؟ " یہ کہتے ہوئے جلال نے کاظم کو کاندھے سے ہلکی ٹکر ماری جو کاظم کو افسردگی سے باہر لے آئی اور کاظم اس طرف متوجہ ہوا۔ 


  " اوۓ۔۔۔۔۔ ون سائیڈڈ گنجے( جلال نے ون سائڈ ہئیر کٹ رکھا تھا )۔۔۔۔۔۔ میں چھمیا نہیں ہوں۔۔۔۔۔ او کے " بریعہ بھی جلال پر پائلٹ سیٹ پر بیٹھے ہی غرائی۔


  " ارے یہ ! یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کون ہے۔۔۔ آئی ڈونٹ نو ہر " کاظم نے بھی غیر ہموار جواب سے جلال کو ایک حیرت میں ڈال دیا ۔ یہ جواب سن کر بریعہ بھی بول اٹھی۔ 


  " او۔۔۔ ایم۔۔۔ جی۔۔۔ تو میں پھر اتنی دیر سے ایک انجان کی جان بجاۓ جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ شٹ " بریعہ کی جواب نے جلال کی نظروں کو کاظم کے جواب کا منتظر کر دیا۔ کاظم جو کہ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ بریعہ نے یہ جواب کیا سوچ کر دیا ہے کہ اس نے مجھے بجاۓ رکھا اب تک اور جلال سے بولا 


 " اگر 'جان بچانا ' اسے کہتے ہیں جو اس نے کیا تو بھائی یہ میری گاڈ فادر ہے۔۔۔۔۔۔۔اس نے ہر مقام پر وہی کیا جو یہ کہہ رہی ہے " جلال ان کی باتوں سے انجان تھا کہ یہ کس متعلق بات کر رہے ہیں۔ 


  " باۓ دا وے۔۔۔ ہم اب کراچی سے زیادہ دور نہیں جا پائیں گے۔۔۔۔۔۔۔فیول ختم ہو رہا ہے " بریعہ ان دونوں سے مخاطب ہوئی۔ 


 " تو ہم ابھی کہاں تک پہنچے ہیں؟ " کاظم نے بھی بحث چھوڑی اور فکرمندانہ لہجے میں بریعہ سے سوال کیا۔ 


   " ہم سمندر کے اوپر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مجھے کراچی کے سمندر کے شہروں کے نام نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہیں بھی تو " بریعہ نے انجانی کا مظاہرہ کیا۔ اس پر کاظم بھی سر پڑ کر بیٹھ گیا کہ اس پاگل نے جہاز کو واپس کیوں نہیں موڑا۔ 

 " اااا گائیز ایک اور نیوز بھی ہے ( دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے ) ہم لینڈ نہیں بھی کر سکتے ( کیوں ) کیونکہ یہاں پر کوئی ائیر پورٹ ہی نہیں دکھائی دے رہا " بریعہ نے بےطقے انداز میں دونوں کی چہروں کے رنگ اڑا دیے۔ دونوں بس اسی سوچ میں پڑ گئے کہ یہ واقعی پاگل ہے یا جان بوجھ کے سب کچھ کر رہی ہے۔ 


  " آہ۔۔۔۔۔ یعنی ہم سب کے سب اب مرنے والے ہیں " کاظم نے بھی منہ جھکاۓ اور سر پکڑے سوال کیا۔ 


 " سب۔۔۔۔۔۔( بریعہ نے جلال کی طرف دیکھا )۔۔۔۔سب۔۔۔( اور پھر اس بار جلال کی طرف دیکھا )......۔سب ہم کتنے ہیں تین۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں ہم ابھی بھی جمپ کر سکتے ہیں " بریعہ نے مشورہ دیا اور پائلٹ سیٹ پر سے اٹھ کر پیراشوٹ بیگ چیک کرنے لگی۔ 


  " ارے۔۔ ارے تم وہاں تو بیٹھو۔۔۔ جہاز کو تو سنبھالو " جلال بھی پریشان حال سے جال کی باقی تاروں کو کاٹنے لگا۔ 


 " اب جہاز کی فکر چھوڑو اور اپنی فکرو بچو اور یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔ بیگز صرف دو ہی ہیں۔۔۔۔۔۔( پھر بریعہ کاظم کے چہرے پر سے اڑتے رنگ گن کر واپس بولی ) تم دونوں دیسائیڈ کر لو کہ دوسرا بیگ کس نے لینا ہے " بریعہ نے بھی ایک بیگ پر اپنی ملکیت جتاتے ہوئے کہا۔اب کاظم اور جلال کے لیے ایک ہی بیگ تھا۔ جس کو ان دونوں میں سے کسی نے بھی نہیں اٹھایا بلکہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے یہ سوچ کر یہی لے لے ۔

تبھی جلال نے وہ پیراشوٹ بیگ اٹھا کر کاظم کو ٹھما دیا اور خود اٹھ کھڑا ہوا۔ بریعہ جھٹ سے بیگ پہن کر ان کی طرف گھورنے لگی۔ 


  " اوۓ۔۔۔۔۔ یہاں کوئی ایموشنل ڈرامے کا سین شوٹ نہیں ہو رہا ہے او کے۔۔۔۔۔ جہاز اب آہستہ آہستہ نیچے ہوتا جا رہا ہے اور جہاں تک کہ میرا خیال ہے یہ اس آئیلیڈ سے ٹکراۓ گا " بریعہ کے اس انداز نے سارے ایموشنل سین کی مت مار دی۔

 " کاظم تم دونوں کود جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس میرے والا راستہ ہے۔۔۔۔۔۔ مجھ پہ یقین رکھو اور جاؤ کود جاؤ " جلال نے کاظم کو بیگ تھما کر گلے لگایا اور تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تاکہ ان دونوں کے لیے راستہ بن جاۓ.



جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)