کاظم بھی ذرا پیچھے ہٹ گیا تاکہ بریعہ پہلے جا سکے۔ لیکن بریعہ خوف کے مارے آگے نہیں بڑھ رہی تھی ۔ تو کاظم نے بریعہ کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر دروازے کے سامنے کر دیا اور جلال سے گلے ملا ۔ کاظم جانتا تھا کہ جلال اب وہی کرے گا۔ جو اس کی عادت، شوق اور جنون ہے ۔ کاظم نے جلال کا ہئیر سٹائل بھی ہاتھ مار کے جاتے ہوئے خراب کر دیا۔ جسے جلال نے بھی مسکراتے ہوئے ٹھیک کر لیا۔
دروازے میں کھڑی ہو کر مکمل طور پر اونچائی کے ڈر سے کانپ رہی بریعہ سے کاظم کی پیچھے جلال کی طرف دیکھنے سے ٹکر ہوگئی اور بیچاری بریعہ گول گیند کے مانند جہاز سے گر کر زمین کی طرف بڑھنے لگی۔ اس ٹکر کے بعد کاظم کو سہارا تو تو ملنے سے رہا اور جس سے سہارا مل سکتا تھا وہ تو پہلے تو راہِ فرار اختیار کر چکی تھی۔
تو اس طرح کاظم بھی اسی کے پیچھے پیچھے زمین کے طرف بڑھنے ( گرنے) لگا۔ کاظم کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنے ہوش کیسے سنبھالے اور یہ اتنی اونچائی سے بلاجواز کرنے والا خوش تو ہو ہونے سے رہا۔ بریعہ کے ساتھ کاظم کی بھی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔
خیر پتہ نہیں کیسے پر آنکھیں بند کر کے چیخ رہی بریعہ کے پیراشوٹ بیگ میں اچانک بال پھنس گئے تو بریعہ نے سارا ڈر بھلا کر اور چیخنا بند کر کے بالوں کو کھینچا جس کی وجہ سے اتفاقاً پیرا شوٹ کھل گیا ۔ نہیں تو بریعہ کا نرالا انداز دیکھ کر تو یہی لگ رہا تھا کہ وہ ضرور نیچے اس آئیلینڈ کے کنارے بیچ پر پڑے پڑے پتھر میں جا کر کیل کی مانند گڑھ جاے گی۔البتہ کاظم نے بھی اللہ اللہ کر کے پیرا شوٹ لیا لیکن پیراشوٹ بیگ کھولا اتنی دیر سے کہ بڑی مشکل سے اس آئیلینڈ کے کنارے عین بیچ پر جہاں پانی ریت کو دھکیل کر آتا ہے۔ وہاں اترا اور اترتے ہی پیرا شوٹ بیگ اتارنے کی بجاۓ اس جہاز کی طرف دیکھنے لگا جس میں جلال تھا۔ چونکہ کاظم نے ابھی پیراشوٹ بیگ اترا نہیں تھا اس لیے پیراشوٹ کا بڑا سا کپڑا بھی جب زمیں بوس ہوا تو کاظم کو اپنے نیچے چھپا لیا۔چونکہ پیرا شوٹ کا کپڑا مضبوط ہوتا ہے اس لیے وزنی بھی کافی ہوتا ہے۔کاظم اپنے اوپر سے کپڑے کو ہٹانے کوشش کرنے لگا کیونکہ پیراشوٹ کا کیڑا کافی بڑا بھی ہوتا ہے اس لیے کاظم آسانی سے نکل نہیں پا رہا تھا۔اس آئیلینڈ کے بظاہر دو حصے تھے۔ ایک حصہ بے حد چھوٹا تھا جو کہ بڑے حصے کے ساتھ جڑا تو ہا تھا مگر ان دونوں حصوں کے درمیان پانی کی ایک کھلی شفاف نہر تھی ۔ چھوٹا حصہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس حصے پر صرف چند بڑے بڑے پتھر ہی تھے۔
جہاز بڑے آئلینڈ کی بجائے اس چھوٹے آئیلینڈ پر پتھروں سے جا ٹکرایا اور ایک زوردار دھماکے سے تباہ ہو گیا۔ کاظم ، جو کہ ابھی تک اس پیراشوٹ کے کپڑے میں الجھا ہوا تھا ،اس کو جب دھماکے کہ آواز سنائی دی تو اس کو فکر ہوئی کہ کیا ہوا ہوگا ۔ کاظم نے جلدی جلدی میں ہاتھ پاؤں ہلاۓ اور اس بڑے کپڑے میں سے نکل کر اس سمت میں دیکھنے لگا جس سمت میں جہاز کو جاتے ہوئے پہلے دیکھا تھا ۔ کاظم نے جب اس طرف اٹھتا ہوا دھواں دیکھا تو کاظم بھی اسی طرف بےچینی سے بھاگا ۔
بریعہ نے پیراشوٹ تو کھول لیا تھا لیکن اب آگے اسے پیراشوٹ کنٹرول کرنا کافی مشکل لگ رہا تھا۔ تو جیسے تیسے کر کے پانی والے حصے سے آگے خشک حصے تک پہنچ گئی مگر پیراشوٹ ابھی اتنا نیچے نہیں آیا تھا کہ وہ اتر سکے۔ اور سامنے لگے بڑے بڑے ناریل کے دو پیڑوں میں اس کا پیراشوٹ پھنس گیا اور بریعہ بھی اس کی ساتھ ہی ہوا میں لٹک کر رہ گئی۔
" اوہ۔۔۔۔۔۔ شٹ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ( تبھی بریعہ کی نظریں نیچی تنور زمین پر پڑیں تو پھر سے چیخنے لگی ) کاظم۔۔۔۔۔۔ کاظم۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اوۓ کاظم کے دوست۔۔۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔۔۔۔ ارے کہاں چلے گئے " کیونکہ بریعہ کی پیٹھ بھی بیچ کی طرف ہی تھی اس لیے پیچ پر جہاز کی طرف دوڑ رہے کاظم کو دیکھ بھی نہیں پا رہی تھی۔ کاظم اس وقت ہلکا سا فکر میں بھی ڈوبا ہوا بریعہ کی بجائے جہاز کی طرف جا رہا تھا اور اچانک سامنے جلال کو سمندر سے باہر نکل کر آتے ہو دیکھ کر رک گیا۔
آپکے دماغ میں موجود سوال کہ " جلال کیسے بچا " اس کا جواب ۔
جلال کی جس عادت شوق اور جنون کی بات کی جا رہی تھی وہ یہی تھا کہ وہ بغیر کسی ڈر کے اونچے سے اونچے مقام سے چھلانگ لگانے کا شوق رکھتا تھا۔اب بات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کسی بھی مقام سے ۔ بات کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مقام سے جہاں سے انسان کے وجود کو کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ اس شوق کی وجہ سے جلال کو کئی دفعہ چوٹیں بھی آجاتی تھی مگر یہ جنون کم نہیں ہوتا تھا اور یہ جنون جلال کی عادت بھی بن چکا تھا. جلال نے بغیر کسی خوف و خطر کے نیچے سمندر میں چھلانگ لگا دی تھی اور کیونکہ اسے ان سب کی عادت تھی تو وہ بچ بھی گیا۔
کاظم سمندر کنارے ریت پر ہی کھڑا رہا اور جلال سمندر کے کنارے اس پرسکون کھڑے پانی میں پاؤں پھیلاتے ہوے آرہا تھا۔ پانی جب گرمی میں ٹھنڈا مل جاے تو تو بہت سکون دیتا ہے۔ جلال بھی پاؤں کی انگلیاں پھلاے شفاف پانی میں سے بڑھتا ہوا کاظم کے پاس گیا اور دوبارہ واپس ہلکے پھلکا گلے ملے۔
" تو باز نہیں آۓ گا نا اس حرکت سے " کاظم نے جلال کو ڈانٹتے ہوے کہا۔ جس پر جلال مسکرا دیا اور پھر کاظم بھی مسکرایا۔ ابھی دونوں نے مزید کوئی لفظ بولا بھی نہیں تھا کہ بریعہ کی چیخیں پھر سے انھیں سنائی دینے لگیں جو کہ ایک دو پل کی خاموشی کے بعد اب دوبارہ سے شروع ہو گئی تھی۔ کاظم اور جلال دونوں اسی کے لیے بھاگے کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہو گا اسے اور کافی آگے جا کر رک گئے۔ جہاں اے بریعہ کی آواز آرہی تھی
" کہاں گئی۔۔۔۔۔۔ آواز تو یہی سے آرہی تھی نا " جلال،کاظم سے اردگرد نظریں دوڑاتا ہوا مخاطب ہوا۔
بریعہ جو کہ زمین پر تھی ہی نہیں تو انہیں کیسے دیکھائی دیتی۔
" اوپر بھی دیکھ لو اب۔۔۔۔ یہاں ہوں میں " بریعہ تھوڑی شرمندگی سے بولی تو دونوں کی ہسی چھوٹ گئی۔
" ارے اتنا بڑا ناریل۔۔۔ ہاہاہاہاہا" جلال نے طنزاً قہقہہ لگایا۔
" بچو مجھے ذرا نیچے اترنے دو۔۔۔۔ خود ہی پتہ کر لوں گی تمھارا۔۔۔۔۔۔ون سائیڈڈ گنجے " بریعہ ، جلال کو اپنے اوپر ہنسا ہوا دیکھ نہ پائی تو بولی۔
" اچھا جب اتر آؤ گی تب دیکھیں گے۔۔۔۔۔ آؤ کاظم ہم چلیں " یہ کہہ کر دونوں ایک راستے پر چل دیے۔دونوں امیدوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جاتے دیکھ کر تو بریعہ بھی گھبرا گئی۔
" ارے۔۔۔ ارے میں اپنے بھائی کی ساتھ مذاق بھی نہ کروں اب۔۔۔۔۔۔ کیسی باتیں کرتے ہو بڑے بھائی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بہن کو چھوڑ کو یوں چلے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔جُلو بھیا " بریعہ نے فوراً معصومانہ رویہ اختیار کر لیا۔
" کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ جُلو۔۔۔۔۔۔ جلال سے سیدھا جُلو۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کوئی کامن سنس نامی چیز کے متعلق کبھی سنا ہے " جلال بھی اپنے نام کا کچومر نکلنے دیکھ کر چپ نہ رہا۔
تو پھر کاظم کے ضمیر نے گورا نہ کیا کہ کسی لڑکی کے اکیلا ہونے کا یوں فائدہ نہ اٹھایا جاۓ اور بریعہ کو مذید یوں لٹکنے سے بچا لیا جاۓ ۔ تو جلال سے آنکھ مار کر اشارہ کیا کہ " چل جانے دے یار چھوڑ اسے چل اتار لیتے ہیں "
" اچھا۔۔۔۔۔۔ چل پھر ایسا کر بیگ اتار دے۔۔۔۔۔۔۔میں تمھیں کیچ کر لوں گا " جلال بریعہ کے عین نیچے کسی گیند کو کیچ کرنے کے انداز میں کھڑا ہو گیا۔
" کیا۔۔۔۔۔۔نہ بھئی نہ۔۔۔۔۔ میں کیوں تیرے کہنے اپنی زندگی داؤ پہ لگاؤں۔۔۔۔۔ کچھ اور سوچو " بریعہ سے کودا تو جانا نہیں تھا اس لیے بہانے بنانے لگی۔
" اچھا۔۔۔۔۔ تو پھر ہم چلتے ہیں جب تم کوئی طریقہ سوچ لو تو ہمیں بتا دینا " اس بار کاظم بھی جلال کے حق میں بولا۔ بازی پلٹی دیکھی تو بریعہ بھی مان گئی اور بیگ کی پیٹی جو بیگ کو اور بیگ پہلے والے کو مضبوطی سے باندھتی ہے اسے کھولنے لگی اور جلال ہاتھ پھلاۓ بریعہ کی سیدھ بنا رہا تھا۔ بیگ کی پیٹی کھلی تو بریعہ جلال پر دھڑل سے آگری بریعہ تو بچ گئی لیکن جلال زمین بوس ہوا پڑا تھا۔ بریعہ جلدی سی اٹھ گئی اور کاظم جلال کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھا تو جلال نے اسے روک دیا۔
" نہیں بھائی نہیں۔۔۔۔۔۔پہلے اس سے یہ پوچھو کہ یہ ایسا کیا کھاتی جس سے یہ کوے کی طرح کائیں بھی کر لیتی ہے اور ہاتھی ہی طرح وزنی بھی ہو جاتی ہے " جلال زمین پر لیٹے ہوئے ہی بولا۔ لیکن پھر جلال زمین پر سے اٹھا اور پاس ہی پتھر پر بیٹھ گیا۔ بریعہ اس وقت اپنے وزن اور آواز کی تعریف سن کر ذرا غصے میں تو آئی مگر نہ کچھ ظاہر کیا اور نہ ہی کچھ کہا ۔ دوپہر اب شام کی طرف مڑ رہی تھی۔ سورج بھی تھوڑا ٹھنڈا ہونے لگا تھا ۔
" یہ آئیلینڈ کتنا بڑا ہو گا ؟ چل کے دیکھیں؟" کاظم نے بات کا رخ موڑنے کے لیے تجسس بھر انداز میں آئیلینڈ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔ اس متعلق دونوں نے مثبت سمجھ رکھ کر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
________تین دن کے وقفہ کے بعد_________
آج ان تینوں کو اس آئیلینڈ میں رہتے ہوے تیسرا دن تھا۔ گزارہ ناریل اور کچھ پھلوں پر کیا جا رہا تھا۔ صبح اٹھتے ہی سمندر کا پانی بہت خوبصورت مناظر دیتا ہے ۔ لیکن جب زندگی ہی ایک سمندر کنارے گزارنی پر جاے تو مشکل بن جاتی ہے۔ کیونکہ سمندر خوبصورت مناظر تو دے سکتا ہے مگر میٹھا پانی نہیں۔ اور ان میں سے میٹھا پانی زیادہ اہم ہوتا ہے۔
یہ آئیلینڈ کوئی ایک ڈیڑھ کلومیٹر تک پھلا ہوا تھا۔ جسے انھوں نے تین دنوں میں گھوم پھر لیا ۔ کاظم ذندہ دل آدمی تھی اسے یہ یقین تھا کہ کوئی اتنی بڑی دنیا میں ان جیسے اور بھی بہت سے ہونگے ۔ جو پچ گئے ہو البتہ جلال کو ایسی امید کم ہی نظر آتی تھی ۔
جلال کی طبیعت بھی ذرا سست سست سی ہونے لگی تھی۔ انھیں نہیں پتہ تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ دونوں بھی جلال کا خیال رکھتے تھے۔ بریعہ کو بھی اب ان دونوں سے کوئی ایری ٹیشن نہیں ہو رہی تھی اور ان کے درمیان بھروسے کے فضا بھی پیدا ہونے لگی تھی ۔ جلال اتنا بھی کمزور نہیں ہوا تھا کہ بس بستر پر ہی لیٹ جاتا ۔ لیکن اس کے کام کرنے میں کافی سستی ہوتی تھی اور کسی بات کو بڑھانا بھی بند کر دیا تھا آرام کی طرف زیادہ توجہ دینے لگا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سمندر باہر سے جتنا صاف اور پیارا نظر آتا ہے۔ اس سی کئی گنا زیادہ اندر سے خطرہ ناک ہے۔ جلال جب جہاز سے نکل کر کاظم کے طرف بڑھا تھا تو اس نے پاؤں اس ٹھنڈے شفاف پانی میں بڑے مزے سے پھیلاۓ تھے۔
دراصل اس پانی میں ایک مچھلی جسے دنیا " جیلی فش " کے نام سے جانتی ہے اس شفاف پانی میں ان کا بسیرا تھا۔ یہ مچھلی اتنی شفاف ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی کا کسی کو علم تک نہیں ہوتا۔ اس مچھلی کی عمر لاکھوں سال بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ مچھلی اتنی خطر ناک ہوتی ہے کہ اس کا زہر اگر جسم کو چھو بھی جاۓ ۔ تو موت پکی ہو جاتی اور اس مچھلی کا زہر دنیا کے طاقتور ترین زہروں میں شمار ہوتا ہے۔
جلال اس مچھلی کا شکار تو بن چکا تھا لیکن بات جو سمجھ نہیں ارہی تھی وہ یہ تھی کہ اس زہر سے چند منٹ میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ جبکہ جلال کو بس سستی ہو ہوئی وہ بھی تین دن بعد جا کے.
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z