Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 15
- - -
شاہزیب کا روز کا معمول بن گیا تھا افرحہ کو یونیورسٹی لے جانے اور لے آنے کا۔۔ڈاکٹر کے ساتھ سیشنز سے افرحہ بھی کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔
شام کا وقت تھا افرحہ شاہزیب کے ساتھ یونیورسٹی سے واپس لوٹی تھی۔اس نے شاہزیب سے بلڈنگ کے سامنے والی پارک میں کچھ دیر والک کرنے کی فرمائش کی تھی۔
شاہزیب کافی تھکا ہوا تھا لیکن پھر بھی اس کی بات مانتا ساتھ چل پڑا تھا۔پارک میں والک کرتے ان کے گرد گہری خاموشی حائل تھی۔
کبھی کبھی چپکے سے افرحہ شاہزیب پر نظر ڈال لیتی تھی۔اس کے برعکس شاہزیب کا سارا دھیان ہی افرحہ پر تھا۔۔
"آپ نے مجھے کبھی اپنا مکمل نام نہیں بتایا ؟"
افرحہ اس کے نام کے بارے میں سوچتی پوچھنے لگی۔
"تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔۔"
سنجیدہ سے لہجے میں شکوہ کن انداز میں جواب دیا گیا۔۔
افرحہ نے پلکوں کی جھالر اٹھاتے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا تھا۔۔
"کبھی خیال ہی نہیں آیا۔۔اب پوچھ رہی ہوں بتائیں اپنا نام۔۔۔"
افرحہ رک کر اس کے روبرو آتی پوچھنے لگی۔۔
"مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا۔۔"
شاہزیب نے اپنے دکھتے سر میں انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا۔۔
"توبہ توبہ اب آپ اپنا نام بتانے کے لیے بھی مجھ سے پیسے لیں گے۔۔"
وہ آنکھیں پھیلائے حیرت سے پوچھنے لگی۔۔
"تمھیں نام جاننا ہے یا نہیں۔۔؟"
شاہزیب نے مسکراہٹ دباتے چہرے کا رخ دوسری جانب کرتے پوچھا۔۔
"نہیں رہنے دیں میرے پاس کوئی پیسے نہیں ہے دینے کے لیے۔۔"
افرحہ منہ پھولاتی ہوئی بولی تھی۔
"میں نے کب کہا مجھے پیسے چاہیے ؟"
شاہزیب نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔۔
"پھر کیا چاہیے ؟"
وہ حیرانی سے پوچھنے لگی۔۔
"تمھارا دل۔۔"
شاہزیب اس کی نظروں سے نظریں ملاتا گھمبیر آواز میں بولا تھا۔
اس کی انوکھی بات نے افرحہ کو ساکت کیا تھا۔۔اس کے دل کے سازوں نے ایک شور برپا کردیا تھا۔۔شاہزیب نے آہستہ سے اس کے چہرے پر آئی لٹ کو اسکے کان کے پیچھے اڑسا تھا۔
افرحہ کے گال تپ اٹھے تھے۔۔ہاتھوں کی مٹھیاں کو زور سے بھینچے وہ نظریں جھکا گئی تھی۔۔
"میں چاہتا ہوں تمھارے دل پر صرف میری حکمرانی ہو۔۔۔تم صرف میری بن کر رہو۔۔تمھارے ہر خیال میں میری پرچھائی ہو۔۔تمھاری ہر سانس کے ساتھ میرا نام تمھاری زبان پر آئے۔۔"
وہ اس کی جھکی نظریں ،سرخ گال اور لرزتی پلکیں دیکھتا مبہوت سا بول رہا تھا۔۔
"آپ بہت بڑی قیمت مانگ رہے ہیں۔۔"
وہ اپنی گھنی پلکوں کی جھالر اٹھاتی کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔شاہزیب کی آنکھوں میں موجود تپش نے اسے دوبارہ آنکھیں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
"یہ تو ابھی بہت چھوٹی چیز ہے میں تمھیں اپنی ملکیت بنانا چاہتا ہوں۔۔ساری دنیا سے چھپا کر اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔۔تمھارے دل پر اپنے نام کی مہر لگانا چاہتا ہوں۔۔"
شاہزیب شدتِ جذبات سے بولا تھا۔افرحہ کو اپنی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دیتی محسوس ہو رہی تھیں۔۔
"پ۔۔پلیز خاموش ہوجائیں۔۔"
وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتی ہانپتی ہوئی گویا ہوئی مقابل کے پرتپش لہجے نے اس کو ڈرا دیا تھا۔
"فلحال میں خاموش ہوجاتا ہوں لیکن مجھے یہ سب چیزیں تم سے چاہیے۔۔تمھارا دل ، تمھاری سوچیں ، تمھاری محبت۔۔"
وہ اس کے گلابی ہوتے چہرے پر نظریں ڈالتا شدتِ جذبات سے گویا ہوا۔
"میرا نام شاہزیب میر حاتم ہے۔۔"
وہ افرحہ کی کانپتی پلکوں کو بغور دیکھتا بولا تھا۔۔افرحہ نے جوابا دھیرے سے سر ہلایا تھا۔۔
"م۔۔مجھے یاد آیا میرے بابا کی مجھے کال آنی تھی۔۔مم۔۔مجھے دیر ہورہی ہے۔۔آپ سے بعد میں بات ہوگی۔۔"
وہ کانپتی آواز میں اس کی عقابی نظروں سے دور جانے کے لیے بولتی تیزی سے پارک سے بھاگ گئی تھی۔شاہزیب نے اپنی جینز کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے اس کو بلڈنگ کے اندر جاتے دیکھا تھا۔۔
اپنے سردرد کو کم کرنے کے لیے اس نے سگریٹ جیب سے نکال کر سلگائی تھی۔وہ افرحہ کی سوچوں میں گم آہستہ سے چلتا گاڑی میں سے اپنا سامان نکالنے لگا تھا جب اس کی نگاہ افرحہ کی نوٹ بک پڑ پڑی تھی۔۔اسے دیکھتے ہی شاہزیب کو افرحہ سے ملنے کا بہانہ مل گیا تھا۔۔
"افرحہ فلیٹ میں داخل ہوتی اپنے روم میں چلی گئی تھی جب واقعی حقیقت میں اس کے والد صاحب کی کال آگئی تھی۔
رحیم صاحب کی کال اٹینڈ کرتی وہ بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔۔جب گلا کھنگارتے حال احوال پوچھنے کے بعد رحیم صاحب مزید بولے تھے۔۔
"افرحہ بیٹا تم جانتی ہو نہ ہم نے ہمیشہ تمھاری ہر خواہش پوری کی ہے تم نے کینیڈا جاکر پڑھنے کی ضد کی وہ بھی ہم نے پوری کردی۔۔تم میں ہماری جان بستی ہے۔۔ہم تمھارے لیے ایک فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔۔"
رحیم صاحب توقف سے بولے تھے۔۔افرحہ کو دھڑکا سا لگ گیا تھا۔۔
"کیسا فیصلہ بابا جانی۔؟"
"تمھارے لیے زید کا رشتہ آیا ہے اور ہم ہاں کرنے کا سوچ رہے ہیں۔۔زید آنکھوں دیکھا بچا ہے اور کافی سمجھدار بھی ہے۔۔تمھاری مما بھی میرے فیصلے سے متفق ہیں۔۔"
رحیم صاحب نرمی لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولے تھے۔۔ان کی بات سے افرحہ کا رنگ فق ہوا تھا۔
"کیا ؟ زید کا رشتہ ؟ وہ بھی میرے لیے ؟ بابا جانی میں اسے بھائی مانتی ہوں۔۔مجھے یہ رشتہ منظور نہیں۔۔"
وہ لب دبا کر خود کو چیخنے سے روکتی جھٹکے سے سیدھی ہوکر بیٹھتی بولی تھی۔اس کی نظریں اچانک دروازے کی طرف گئی تھی۔جہاں کھڑا شاہزیب مٹھیاں بھینچی سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
"فون سپیکر پر ڈالو۔۔"
وہ دھیمی آواز میں غرایا تھا۔۔افرحہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔لیکن شاہزیب کو اپنی جانب قدم بڑھاتے دیکھ کر وہ جلدی سے کال سپیکر ڈال چکی تھی۔
"افرحہ تم چند دن لے لو پھر سوچ کر ہمیں بتا دینا۔۔اور وہ کونسا آپ کا اصلی بھائی ہے۔۔۔سارے کزن شادی سے پہلے بھائی بہن ہی ہوتے ہیں آپ اپنا نظریہ بدل کر سوچیے گا۔۔۔"
رحیم صاحب شفقت بھرے لہجے میں بول رہے تھے۔۔۔
"منع کرو ابھی۔۔۔"
وہ ایک ہی جست میں افرحہ کے قریب پہنچتا نوٹ بک بیڈ پر پھینکتا اس کے کان کے قریب جھکتا غرایا تھا۔۔افرحہ کے ہاتھ کانپ گئے تھے۔ ۔شاہزیب کا غصہ دیکھ کر اس کی جان ہوا ہونے لگی تھی۔۔۔
"ب۔۔بابا جانی می۔۔۔میں زید سے شادی نہیں کرنا چاہتی آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔۔"
وہ اپنا خشک حلق تر کرتی گویا ہوئی۔۔شاہزیب کی سانسیں اپنے بےحد قریب محسوس کرتے ویسے ہی اس کی جان ہوا ہو رہی تھی۔
"تم ایک دفعہ میری خاطر اس بارے میں سوچ لو۔۔"
رحیم صاحب نرم لہجے میں گویا ہوئے افرحہ چاہ کر بھی انکار نہیں کرپائی تھی۔
"ا۔۔اوکے بابا جانی میں ض۔۔ضرور سوچوں گی۔۔آپ سے بعد میں بات ہوتی ہے اللہ حافظ۔۔"
وہ شاہزیب سے نظریں پھیرے تیزی سے بولتی کال کاٹ چکی تھی۔"
"کیا کہا تم نے؟ تم اس کے بارے میں سوچو گی۔۔؟"
افرحہ کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتا وہ اس کے سر کو پیچھے جھٹکتا زہریلے لہجے میں پھنکارا تھا۔۔
افرحہ کو یہ دوسری بار شاہزیب سے شدید خوف محسوس ہوا تھا۔پہلی بار جب اس نے گن سے افرحہ کو ڈرایا تھا اور اب اس کی آنکھوں موجود انجانے جنون نے۔۔
"م۔۔میں نے ویسے ہی بولا تھا۔۔"
وہ کانپتی آواز میں بولی تھی مقابل سے اس وقت شدید ڈر لگ رہا تھا۔
"تم اس شخص کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائی تو تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔پاکستان جاکر اس شخص کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔۔۔"
"شاہزیب میر حاتم اپنی ملکیت کے بارے میں کسی کو سوچنے کی اجازت بھی نہیں دے گا۔۔۔"
وہ اس کے بالوں پر گرفت مضبوط کرتا دھاڑا تھا۔۔
"آپ پاگل ہیں۔۔۔دور ہٹیں مجھ سے۔۔میں آپ جیسے سائیکو انسان کی ملکیت نہیں ہوں۔۔۔میرا جو دل چاہے گا میں وہ ہی کروں گی۔۔جس کے بارے میں سوچنا چاہوں گی سوچوں گی۔۔۔آپ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتے۔۔۔"
وہ شاہزیب سے اپنے بال چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی چبا کر بول رہی تھی۔۔شاہزیب اسے اس وقت پاگل انسان لگ رہا تھا۔۔
"مجھے سائیکو تم نے بنایا ہے۔۔تم میری زندگی میں زبردستی گھسی تھی۔۔کسی جادوگرنی کی طرح میرے اوپر اپنا جادو چلا کر میرے حواسوں پر سوار ہوئی تھی۔۔کیا میں نے کہا تھا میرے قریب آو۔۔؟ مجھے اپنا ایڈیکٹیو بناو۔۔مجھے اپنے پیچھے پاگل کرو؟"
وہ اس کے بال اپنی گرفت سے آزاد کرتا اس کے چہرے کو دبوچتا ہوا چیخا تھا۔۔افرحہ کا دل نازک پتے کی طرح کانپنے لگا تھا۔
"پلیز م۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔جائیں یہاں سے۔۔ مجھے آپ سے خوف محسوس ہو رہا ہے۔۔"
وہ کپکپاتی آواز میں اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس کرتی ہوئی گویا ہوئی۔۔
"میری جان مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو ؟ میں تمھیں کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچاوں گا۔۔"
شاہزیب اپنا غصہ کنٹرول کرتا اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں نرمی سے بھر چکا تھا۔۔
"مجھ سے بس ایک وعدہ کرو تم اس شخص کے بارے میں نہیں سوچو گی۔۔اور صبح ہی اپنے پیرنٹس کو کال کرکے انکار کرو گی۔۔میں نہیں چاہتا وہ شخص تمھارے بارے میں کوئی غلط خیال بھی اپنے ذہن میں لائے۔۔"
شاہزین انگوٹھے سے اس کا گال سہلاتا نرم لہجے میں گویا ہوا تھا۔۔افرحہ نے لرزتی پلکوں سے اس کی طرف دیکھے بنا دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
"میں انھیں کیا جواب دوں گی ؟"
وہ اس کے ہاتھ نرمی سے اپنے چہرے سے ہٹاتی پوچھنے لگی۔۔
"تم انھیں بتا دینا تم مجھے پسند کرتی ہو۔۔ بہت جلد تمھارے گھر میرا رشتہ بھی پہنچ جائے گا۔۔"
شاہزیب اس سے ایک قدم پیچھے ہٹتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔
"میں اس سب کے لیے تیار نہیں ہوں۔۔"
وہ جھنجھلا کر بولی تھی۔۔
"میرے ساتھ نکاح کا مائینڈ بنا لو۔۔تمھارے پیرنٹس سے اجازت ملتے ہی میں تمھیں اپنی ملکیت بنا لوں گا۔۔صرف تمھاری وجہ سے تمھارے پیرنٹس کے فیصلے کا لحاظ کر رہا ہوں ورنہ اب مجھے تم سے شادی کرنے کے لیے کوئی نہیں روک سکتا۔۔"
شاہزیب جس انداز میں اس کی ٹھوڑی اپنی دو انگلیوں سے اٹھاتا اس کی نظروں میں دیکھتا بولا تھا۔۔افرحہ بری طرح سہم گئی تھی۔۔وہ شخص پوری طرح اس کے پیچھے پاگل ہوچکا تھا۔
"میں اپنے پیرنٹس کے خلاف کبھی بھی اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ نہیں لوں گی۔۔"
وہ پختہ لہجے میں شاہزیب سے نظریں ملا کر بولی تھی۔۔
"لٹس سی۔۔"
وہ جبڑے بھینچ کر اس سے پیچھے ہٹتا سرد آواز میں بولتا الٹے قدم اٹھاتا اس کے روم کا دروازہ کھولتا اور زور سے بند کرتا جا چکا تھا۔وہ اس کی نوٹ بک واپس کرنے آیا تھا بریرہ کہیں جانے لگی تھی جب شاہزیب کو اس نے بےفکری سے فلیٹ میں جانے دیا کیونکہ اتنے دنوں سے اسے یقین ہو گیا تھا شاہزیب کبھی بھی افرحہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔
وہ ساری رات شاہزیب کی باتیں سوچتی رہی تھی۔۔ایک پل بھی سکون سے نہیں سو پائی تھی۔صبح صبح اٹھتی وہ دو کب کافی بھی اپنے اندر انڈیل چکی تھی تاکہ اس کی آنکھیں کھلی رہ سکیں۔۔آج ضروری ٹیسٹ نہ ہوتا وہ کبھی بھی یونیورسٹی نہ جاتی۔۔شاہزیب کے روبرو جانے کے خیال سے ہی اسے جھر جھری محسوس ہونے لگی تھی۔
ہمت مجتمع کرتے وہ بیگ کندھے پر ڈالتی اپنے پاوں تقعیبا گھسیٹتی ہوئی لفٹ کی طرف لے جانے لگی تھی جب لفٹ میں پہلے سے ہی داخل شاہزیب کو دیکھتے اس نے اپنا رخ سڑھیوں کی طرف کر لیا تھا۔۔
"افرحہ فورا لفٹ میں آو۔۔"
شاہزیب کی تیز چنگھارتی آواز سن کر افرحہ نے دانتوں تلے لب دبا لیے تھے۔
"می۔۔میں آج سڑھیوں سے جانا چاہتی ہوں تاکہ میری تھوڑی بہت ایکسرسائز بھی ہوجائے۔۔"
وہ تھوک نگلتی دھیمی آواز میں بولی تھی۔
"فورا یہاں آو میں تمھیں کوئی فالتو بات سننے والا نہیں ہوں۔۔مجھ سے چھپ کر بھاگنے کی کوشش کر رہی ہو۔۔میری نظروں سے تم اب چھپ نہیں سکتی۔۔اس سے پہلے میں تمھارے پاس آو تم خود شرافت سے یہاں آجاو۔۔"
وہ رعب دار لہجے میں سنجیدگی سے بولا تھا۔۔افرحہ من میں اسے کوستی مردہ قدموں سے لفٹ کی جانب بڑھ گئی تھی۔
"اب سکون مل گیا آپ کو؟"
وہ لفٹ میں داخل ہوتی چڑ کر بولی تھی۔شاہزیب کے ہونٹوں کے کنارے ہلکے سے اوپر اٹھے تھے۔۔
"تم میرا سکون ہو اور جب جب تم میرے پاس ہوتی ہو مجھے سکون ملتا ہے۔۔"
شاہزیب اس کی جانب ہلکا سا جھکتا بولا افرحہ نے فورا اپنی نظریں شاہزیب سے پھیر لی تھیں۔۔
"تم نے اپنے پیرنٹس کو انکار کر دیا ؟"
شاہزیب لفٹ کھلتے ہی باہر نکلتا افرحہ سے سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔۔افرحہ نے اس کے سوال کو ان سنا کر دیا تھا۔۔
"افرحہ میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔"
اب کی بار شاہزیب جھنجھلا کر تیز لہجے میں بولا تھا۔۔
"نہیں کل بات کروں گی۔۔"
افرحہ نے ڈر کر اچھلتے دھیرے سے جواب دیا۔۔
"مجھ سے وعدہ کرو افرحہ۔۔میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑو گی۔۔"
اسے گاڑی کے پاس روکتے وہ اپنی ہتھیلی اس کی جانب بڑھا چکا تھا۔۔اس کے لہجے میں انجانہ سا خوف تھا جسے افرحہ محسوس نہیں کر پائی تھی۔
افرحہ اس کی فرمائش پر گھبرا گئی تھی۔۔نظریں اس کی کالی سیاہ مقناطیسی آنکھوں سے ٹکرائی تھی اور وہ ساری گھبراہٹ اور خوف کو بھولتی مبہوت سی ٹرانس کی کیفیت میں اس کی آنکھوں میں دیکھتی اپنا نازک چھوٹا سا ہاتھ اس کی ہتھیلی میں رکھ چکی تھی۔
"میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کبھی بھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی۔۔"
شاہزیب نے اس کی نازک سی ہتھیلی کو نرمی سے ہلکا سا دبایا تھا۔۔اس کے الفاظ شاہسیب کے سلگتے دل پر پھوار بن کر برسے تھے۔۔
"اب اپنی بات پر قائم رہنا افرحہ۔۔"
وہ سرسراتے لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ فورا ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی تھی۔۔اسے ایک پل کو سمجھ نہ آیا وہ کتنا بڑا وعدہ مقابل سے کرچکی ہے۔۔
"یہ میں نے کیا کردیا۔۔"
وہ سب کچھ سمجھ آنے پر گھبراتے ہوئی سوچنے لگی تھی۔۔شاہزیب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر بھی وہ بعی طرح اپنی ہی سوچوں میں الجھ گئی تھی۔۔اسے اپنے جذبات سے بھی آہستہ آہستہ واقفیت ہونے لگی تھی۔۔اتنا تو وہ جانتی تھی کہ شاہزیب اس کےدل میں اپنا مقام بڑی شان سے بنا چکا تھا۔
جاری ہے۔۔
saeeeeeee
ReplyDelete