Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 14
- - -
"آج تمھاری شام کو ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لی ہے۔۔میں جلدکی فری ہوجاوں گا تم بھی اگر کوئی لاسٹ لیکچر ہے تو چھوڑ دینا۔۔"
شاہزیب اسے یونی لے کر جارہا تھا۔جب گلا کھنگارتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
افرحہ رات کے واقعہ کے بعد صبح سے خاموش ہی تھی۔۔اسے عجیب سی شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔۔شاہزیب کی بات سنتے اس نے پلکیں اٹھا کر شاہزیب کی طرف دیکھا تھا۔۔
"مجھے کسی کے پاس نہیں جانا۔۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولی تھی۔۔
"میری بات ایک بار تمھیں سمجھ نہیں آتی۔۔؟"
شاہزیب نے ایک سنجیدہ نگاہ اس پر ڈالی تھی۔افرحہ نظریں اس سے پھیر کر باہر دیکھنے لگی تھی۔۔
"مجھے میرے طریقے سے بات منوانے پر مجبور مت کرو۔۔کیونکہ وہ تمھیں بلکل بھی پسند نہیں آئے گا۔۔"
شاہزیب ڈرائیونگ کرتا لب بھینچ کر گویا ہوا۔۔افرحہ کا یوں نظریں پھیرنا اسے جھنجھلاہٹ کا شکار کر گیا تھا۔۔
"کیا کریں گے آپ ہاں ؟ بتائیں زور زبردستی کریں گے۔۔؟ "
وہ چٹخ کر اونچی آواز میں بولی تھی۔۔شاہزیب نے سٹرینگ ویل پر اپنے گرفت مضبوط کی تھی۔
"ہاں ضرورت پڑی تو تمھیں یونیورسٹی سے کڈنیپ کرلوں گا۔۔مجھے ہلکے میں لینے کی غلطی مت کرنا۔۔"
وہ جبڑے بھینچتا افرحہ پر ایک نظر ڈال کر سرد لہجے میں بولا تھا۔۔اس کا اونچی آواز میں بولنا اسے شدید ناگوار گزرا تھا۔۔
"مجھے ڈرانے کی کوشش مت کریں میں ڈرپوک ہرگز بھی نہیں ہوں۔۔"
وہ گردن اکڑا کر اسے گھورتی ہوئی بولی تھی۔۔
"مجھے چیلنج کر رہی ہو؟"
شاہزیب نے دانت پیستے ہوئے جس قدر سنجیدگی سے کہا تھا۔۔افرحہ بھی ایک پل کے لیے گھبرا گئی تھی۔
"آپ کو میری ہر بات چیلنج یا بکواس ہی لگتی ہے۔۔"
وہ منہ پھولاتی ہوئی بولی تھی۔۔
"تم میرا دھیان اصل مقصد سے مت ہٹاو۔۔آج ہم ڈاکٹر پاس ضرور جائیں گے۔۔۔مجھے بےوقوف بنانے کی کوشش مت کرنا اور نہ ہی چھپنے کی کوشش کرنا۔۔ورنہ تمھیں زمین کے اندر سے بھی ڈھونڈ لاوں گا۔۔"
وہ یونیورسٹی سے تھوڑی دور گاڑی روکتا افرحہ کی طرف جھکتا اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سرد لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ کا سانس خشک ہوگیا تھا۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے ڈرائیں تو مت۔۔میں چلی جاوں گی ڈاکٹر کے پاس۔۔"
افرحہ بیک سیٹ سے اپنا بیگ اٹھاتی ہوئی بولی تھی۔۔
"گڈ گرل۔۔"
شاہزیب مطمئن ہوتا سر ہلا کر نرم لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ کے ہرٹ نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔اس کی بےساختہ نظریں شاہزیب سے ملی تھی۔۔شاہزیب کے ہونٹ ہلکے سے اوپر اٹھے دیکھ کر افرحہ کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔۔
"اوہ میری جان آلو۔۔۔کیسے ہو تم ؟ مجھے مس کیا ؟"
بریرہ عادل کے آفس میں دھڑلے سے داخل ہوتی بنا دیکھے بولی تھی۔۔
عادل جو اپنے سینئر آفسر کے ساتھ بیٹھا کیس ڈسکس کر رہا تھا۔۔اس آفت کے اچانک ٹپکنے پر اور بنا دیکھے بولنے پر وہ خجل سا ہوا تھا۔۔جبکہ اس کے الفاظ سے عادل نے دانت پیسے تھے۔۔اتنے دن اس کے نہ آنے پر وہ سکون میں تھا اسے لگا تھا وہ اسے بھول گئی ہوگی لیکن ایسا ہوسکتا تھا بریرہ اسے بھول جائے وہ آج فرصت ملتے ہی اس کے پاس چلی آئی تھی۔۔
"ہم بعد میں بات کریں گے عادل۔۔"
اس کی سینئر آفسر نے ایک سرسری نظر بریرہ پر ڈالتے فائل اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
"آئی ایم سوری سر میں کچھ دیر بعد آپ سے بات کرتا ہوں۔۔"
عادل ایک غصیلی نظر بریرہ پر ڈالتا بولا تھا۔۔بریرہ زبان دانتوںن تلے دبائے کھڑی تھی۔۔
"یہاں آنے کی زحمت کیونکہ کی تم نے ؟ مجھے بلا لیتی میں اپنی جان کو لینے آجاتا۔۔"
عادل اپنی سیٹ سے اٹھتا اس کی جانب قدم اٹھاتا ہوا بولا تھا۔۔
"دیکھو مجھے نہیں پتا تھا تمھارے ساتھ کوئی اور بھی موجود ہے۔۔اس لیے میرا کوئی قصور نہیں ہے ساری غلطی تمھاری ہے تمھیں باہر بزی ہونے کا بورڈ لگانا چاہیے تھا۔۔"
وہ گردن اکڑاتی دروازے کی جانب دھیرے سے قدم اٹھاتی سارا ملبہ اس پر ڈال گئی تھی۔۔
"تم ثابت کیا کرنا چاہتی ہو ؟ کہ تمھارا یہاں آکر بلاوجہ فضول کے بولنے میں میری غلطی ہے؟"
وہ جس کڑے تیور لیے ایک ہی جست میں اس کے روبرو پہنچتا گویا ہوا تھا۔۔بریرہ ایک پل کو گھبرا گئی تھی لیکن فورا خود کو سنبھالتی وہ چہرہ اوپر اٹھا کر اسے گھورنے لگی تھی۔۔
"بالکل تمھاری غلطی ہے۔۔تم نے مجھ سے پنگا لیا اور مجھے بندریا کہا۔۔اب تاقیامت تمھیں سزا بھگتنی پڑے گی۔۔اور شکر کرو تمھاری سزا اتنی خوبصورت ہے۔۔ورنہ تم آلو جیسے ہو کوئی بھی منہ نہ لگائے۔۔"
وہ مغرور انداز میں اپنی جانب اشارہ کرتی پھر اس کے کلین شیو چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی۔۔
"یہاں کی ہر لڑکی مجھ پر مرتی ہے یہ تو میں ہوں جو کسی کو گھاس نہیں ڈالتا۔ پتا نہیں وہ کونسی منحوس گھڑی تھی جب میری ملاقات تم سے ہوئی۔۔"
وہ غصے سے جبڑے بھینچتا ہوا بول رہا تھا۔بریرہ نے اپنی آنکھیں گھمائی تھی۔۔
"بس یہ ٹیپکل ڈائلوگ ہی ہے تمھارے پاس۔۔بندہ کوئی نیا ڈائلوگ بولے جیسے کہ تم جیسی حسین پری کو رات کے سناٹے میں لفٹ دینا میرے لیے سب سے بڑے اعزاز کی بات تھی۔۔یہ کیا ہوتا ہے منحوس گھڑی تھی۔۔"
وہ سینے ہر بازو باندھتی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتی آخر میں اس کی نقل اتارنے لگی تھی۔۔
"تم دوبارہ یہاں آئی تو تمھیں لوک اپ میں ڈال دوں گا سفید بندریاں۔۔باپ کے پیسے پر عیش کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرلیا کرو۔۔ہر وقت دوسروں کی جان کا وبال مت بنا کرو۔۔"
وہ اسے بازو سے دبوچتا دروازہ کھول کر اسے اپنے کیبن سے باہر دھکا دیتا درشتگی سے بولا تھا۔۔بریرہ آنکھیں گھماتی اسے منہ چڑھاتی گردن اکڑا کر خاموشی سے چلی گئی تھی۔۔اس کا مقصد عادل سے ملنا تھا جو پورا ہوچکا تھا۔۔
عادل نے اس کے جانے کا بعد تپ کر زور سے دروازہ بند کر لیا تھا۔۔
افرحہ ڈاکٹر سے ملنے کے بعد واپس آرہی تھی اس کا سیشن ڈاکٹر کے ساتھ کافی اچھا گزرا تھا جس سے وہ پہلے کی نسبت قدرے بہتر محسوس کر رپی تھی۔۔
"تم میرے ساتھ ڈنر کرو گی۔۔؟"
شاہزیب نے اپنی شرٹ کا کالر درست کرتے بنا افرحہ کی طرف دیکھے پوچھا تھا۔۔
افرحہ کی نظریں بےساختہ اس کے چہرے پر گئی تھی۔۔ہلکی بئیرڈ میں چھپے عنابی ہونٹوں کو اس نے سکٹی سے بھینچا ہوا تھا۔کالی گہری سیاہ آنکھیں روڈ پر مرکوز تھیں جبکہ سیاہ گھنے بال اس کے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔وہ دیکھنے میں ہی انتہائی پرکشش لگتا تھا۔۔
"افرحہ تم نے جواب نہیں دیا۔۔؟"
شاہزیب نے اس کے جواب نہ دینے پر ایک نظر اس پر ڈالتے پوچھا جو مبہوت سی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔شاہزیب کی آواز سنتے ہوش میں آتے ہی اس نے اپنی نظریں پھیر لی تھی۔۔
"جج۔۔جی جیسا آپ مناسب سمجھے۔۔"
وہ گھبراتے ہوئے اپنی نم ہتھلیاں شرٹ سے صاف کرتی بولی تھی۔۔
"آر یو اوکے ؟"
شاہزیب نے اس کے گالوں پر چھاتی ہوئی لالی کو دیکھ کر پوچھا تھا۔۔
"جی۔۔"
افرحہ نے لب کاٹتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔شاہزیب نے اچانک اس کی جانب جھکتے اپنے ہاتھ کی پشت اس کی پیشانی پر رکھی تھی۔۔افرحہ کرنٹ کھا کر اس سے دور ہوئی تھی۔۔
"ی۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟"
وہ اپنے تپتے گالوں پر ہاتھ رکھتی خشمگی سے پوچھنے لگی۔۔
"تمھارا ٹمریچر چیک کر رہا تھا۔۔تمھارے گال ریڈ ہیں مجھے لگا شاید فیور نہ ہوگیا ہو۔۔بٹ آئی ایم رونگ۔۔"
شاہزیب کندھے اچکاتا ہوا بولتا گاڑی روکتا اس کی طرف متوجہ ہوکر مزید بولا تھا۔۔
"تم بلش کر رہی ہو۔۔"
شاہزیب نے جس طرح چٹکی بجا کر کہا تھا۔۔افرحہ شدید شرمندہ ہوگئی تھی۔اس کے گال مزید شرمندگی سے تپ اٹھے تھے۔
وہ منہ پھولاتی تیزی سے گاڑی سے نکل گئی تھی۔۔شاہزیب اپنی مسکراہٹ چھپاتا اس کے پیچھے ہی باہر نکلا تھا۔۔
"روکو میرے ساتھ تم اندر جاو گی۔۔"
شاہزیب ایک ہی جست میں اس کے برابر پہنچتا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
افرحہ اس کی بات مانتی اس کے برابر چلنے لگی تھی۔۔ٹیبل پر بیٹھتے وہ کھانا آرڈر کرچکے تھے۔۔
دونوں کے درمیان گہری خاموشی حائل تھی۔شاہزیب افرحہ کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔اور افرحہ اس کی نظروں سے پزل ہوتی اپنی انگلیوں سے کھیل رہی تھی۔۔وہ شاہزیب کی نظروں کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔۔وہ جان کر بھی انجان بن رہی تھی۔۔
"آپ ڈرگز کیوں لیتے ہیں ؟"
کھانا سرو ہونے کے بعد وہ لوگ کھانا کھا رہے تھے۔۔ جب افرحہ نے پہلی ملاقات شاہزیب کے ساتھ یاد کرتے انتہائی دھیمی آواز میں پوچھا تھا۔
اگر شاہزیب کی مکمل توجہ افرحہ پر نہ ہوتی تو شاید وہ اس کی بات سن بھی نہ پاتا۔۔
"تمھیں کیسے پتا چلا۔۔؟"
وہ کھانے سے ہاتھ روکتا اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساتا ٹھنڈے ٹھار لہجے میں پوچھنے لگا۔۔شاہزیب کی گہری کالی آنکھیں اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔وہ شاید پہلی ملاقات بھول گیا تھا۔تبھی پوچھ رہا تھا۔
"آپ کو یاد نہیں۔۔؟"
افرحہ نے لب کاٹتے اس سے پوچھا۔۔
"کیا یاد نہیں مجھے؟"
شاہزیب کے سرد ترین لہجے میں پوچھنے پر افرحہ گھبرائی تھی۔۔
"ہماری پہلی ملاقات کلب میں ہی ہوئی تھی۔۔جب میں نے آپ سے کلب میں مدد مانگی تھی۔۔لیکن آپ نے میری مدد نہیں کی تھی۔۔"
وہ چھوٹی آنکھوں سے مقابل کو گھورتی ساتھ اپنی زبان کے جوہر بھی دکھا رہی تھی۔
شاہزیب کو نشے میں ہونے کے باعث کچھ خاص یاد نہیں تھا۔افرحہ کی باتوں سے اسے کچھ کچھ یاد آیا تھا۔۔
"آپ نے بتایا نہیں کیوں ڈرگز لیتے ہیں۔۔؟"
اس نے ایک بار پھر سوال داغا شاہزیب نے پرسوچ اندز میں اسے دیکھا تھا۔
"صرف کبھی کبھار سکون حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔۔میں ایڈیکٹیو نہیں ہوں۔۔"
شاہزیب نے سوچ سمجھ کر اسے بتایا تھا۔۔افرحہ کھانے سے ہاتھ روکے اسے دیکھنے لگی تھی۔۔
"کیا آپ کو صرف ڈرگز ہی ملے تھے سکون حاصل کرنے کے لیے۔؟"
"کیا آپ نے کبھی اللہ پاک سے رابطہ نہیں کیا ؟ سکون صرف اللہ پاک کی ذات میں ہے۔۔یہ دنیاوی چیزیں سب وقتی ہوتی ہیں۔۔"
افرحہ اس کی جانب دیکھتی سنجیدگی سے بولی تھی۔۔شاہزیب نے دھیرے سے سر ہلایا تھا۔۔
"تم نے کھانا کھا لیا ہے ؟ اب چلیں ؟"
شاہزیب نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔
"اتنی جلدی ؟ ابھی آپ نے کچھ کھایا بھی نہیں۔۔"
وہ اس کے اچانک جانے کا بولتے سن کر گویا ہوئی۔۔
"تمھاری باتوں سے میرا پیٹ بھر گیا ہے۔۔اب اٹھو چلیں۔۔"
وہ چند نوٹ والٹ سے نکال کر ٹیبل پر پھینکتا ہوا کھڑا ہو گیا تھا۔۔افرحہ کی باتوں سے اس کا خوشگوار موڈ آف ہو گیا تھا۔۔
"آئی ایم سوری اگر میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہو۔۔"
وہ گھبراتی ہوئی کھانا چھوڑ کر اپنا اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔۔شاہزیب اسے اگنور کرتا باہر چلا گیا تھا۔
سارے راستے شاہزیب نے افرحہ سے بات نہیں کی تھی۔وہ جب بھی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی شاہزیب اسے گھوری سے نوازتا خاموش کروا دیتا۔۔
افرحہ چاہ کر بھی اس سے کچھ نہیں کہہ پائی تھی تبھی خاموشی سے شاہزیب کے ساتھ اپنے فلیٹ میں چلی گئی تھی۔۔
عادل شاہزیب کے فلیٹ کے باہر کھڑا اس کا کافی دیر سے انتظار کر رہا تھا جب اسے شاہزیب اپنی فیورٹ سٹوڈنٹ کے ساتھ آتا دکھائی دیا تھا۔۔
عادل نے ایک سرسری نظر افرحہ پر ڈالتے اس کا جائزہ لیا تھا۔
شاہزیب عادل کی سوالیہ نظروں کو نظر انداز کرتا فلیٹ کا لاک کھول چکا تھا۔۔
"کب سے میرا انتظار کر رہے ہو؟"
شاہزیب نے اپنی جیکٹ اتار کر ہینگ کرتے ہوئے پوچھا۔
"مجھے چھوڑو تم یہ بتاو کہاں سے سیر سپاٹے کرکے واپس آرہے ہو؟"
عادل اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتا پوچھنے لگا تھا۔
"افرحہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا پھر اس کے بعد ہم نے ڈنر کیا اور واپس آگئے۔۔"
شاہزیب سادہ سے لہجے میں بولتا اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال چکا تھا۔۔
سگریٹ نکال کر سلگاتے وہ پیکٹ شیشے کے میز پر پھینکتا گہرے گہرے کش لینے لگا تھا۔
"واو۔۔۔تمھاری عقلمندی کو سلام۔۔تمھارا دماغ صحیح تھا ؟ اگر کوئی تم دونوں کو وہاں دیکھ لیتا تو جانتے ہوں نہ تم دونوں نے بری طرح پھنس جانا تھا۔۔مگر نہیں مسٹر شاہزیب میر حاتم اپنی فیورٹ سٹوڈنٹ کے ساتھ ڈنر کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔۔"
اسے سگریٹ سلگاتے دیکھ کر وہ طنزیہ انداز میں بولا تھا۔۔
شاہزیب نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔
"میں نے اس بارے میں سوچا نہیں۔۔"
وہ سگریٹ کے مرغلے ہوا میں چھوڑتا لاپرواہ انداز میں بولا تھا۔عادل نے تپ کر اسے دیکھا تھا۔۔
"دن بہ دن تم ذہین ہوتے جارہے ہو۔۔اس لڑکی کے ساتھ رہ کر تمھارا دماغ بھی خراب ہوگیا۔۔"
عادل جھنجھلا کر بولا تھا جب شاہزیب نے ایک دم اس پر جھپٹ کر اس کا کالر دبوچا تھا۔۔
"اس کے بارے میں کوئی غلط بات میں برداشت نہیں کروں گا۔۔"
"اس کا ذکر بھی دوبارہ اپنی زبان پر مت لانا ورنہ یہ ہی شاہزیب میر حاتم تمھارے چہرے کا نقشہ بگاڑنے میں ہچکچائے گا نہیں۔۔"
"اور مجھے تو ایک بات بتا جب مجھے کوئی فکر نہیں تو تمھیں کیا تکلیف ہے۔۔کیا میں نے کبھی تمھاری زندگی میں دخل اندازی کی ؟نہیں نہ پھر مجھے بھی اطمینان سے جینے دے۔۔وہ لڑکی میرے سکون کا باعث ہے اس کی وجہ سے کئی دنوں سے میں نے کلب کا رخ نہیں کیا اور تم اسے برا بول رہے ہو۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے سرد ترین لہجے میں بولتا عادل کو حیران کر گیا تھا۔۔
"سوری یار بس مجھے تمھاری فکر ہے اور میں نے اسے کچھ برا نہیں کہا میں نے بس ایک بات کہی ہے۔۔"
عادل اس سے کالر چھڑواتا خفگی سے بولا تھا۔۔
"اس کے بارے میں مزاق میں بھی کوئی بات مت کرنا۔۔اٹس آ وارننگ۔۔"
شاہزیب جس انداز میں بولا تھا۔۔ایک پل کو عادل بھی گھبرا گیا تھا۔۔
"اوکے اوکے ٹیک اٹ ایزی۔۔"
عادل نے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔شاہزیب نے گہرا کش لیتے خود کو پرسکون کیا تھا۔۔عادل اگر مزید افرحہ کے مطلق کوئی بات کرتا تو یقینا شاہزیب نے اس کا منہ تور دینا تھا تبھی عادل اپنی بھلائی سمجھتا خاموش ہو گیا تھا۔۔
جاری ہے۔۔
- - -