Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 4
- = -
یہ منظر ہے آسٹریلیا کے ایک ٹاؤن کا جہاں جولائی کے موسم میں ٹھنڈ پڑنے کی وجہ سے ازلان شاہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آیا تھا
اس نے وہاں اپنے لیے اپارٹمنٹ خرید رکھا تھا۔ آج صبح سے انائیتہ شاہ اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ گھومنے نکلی۔ جب اس کی ایک دوست اسے رائڈنگ دکھانے کے لئے لے کر گئی۔ گراؤنڈ میں چاروں طرف شور شرابا لوگوں کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر انا بھی وہیں بیٹھ گئی وہ اس منظر سے محظوظ ہورہی تھی یوں لگتا تھا آسٹریلیا کا یہ پورا علاقہ وہاں اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہو۔۔ کچھ لوگوِں نے باقاعدہ ہاتھوں میں پلےکارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بہت خوبصورتی سے "خان" لفظ تحریر تھا.
تھوڑی دیر بعد مقابلہ شروع ہوا۔ اور بہت سے گھڑسوار اپنے اپنے گھوڑوں کو ریس کے میدان میں لے کر آئے۔ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز گونج رہی تھی ہر کوئی ایک دوسرے کو شکست دینے میدان میں اترا تھا۔ تبھی ایک شہہ سوار ان تمام گھوڑوں کو پیچھے چھوڑتا اپنے سرخ گھوڑے پر بیٹھا آگے بڑھا. اور بہت مہارت سے لائن کراس کرتا اس مقابلے کو جیت گیا۔ اب گراؤنڈ میں صرف خان کے نام کی گونج تھی۔ باقی سب پس منظر ہوچکا تھا۔
انائیتہ شاہ جلد ہی ان سب سے بیزار ہوچکی تھی وہ اب واپس گھر جانے لگی جب اس کی نظر ایک جگہ رکی تو وہیں تھم گئی۔ بلیک جنیز پر ریڈ ٹرٹل شرٹ پہنے،پاؤں میں گھٹنے تک آتے لمبے شوز پہنے، گہری سیاہ آنکھوں والا وہ شہزادہ ایک ہاتھ سے اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے، مغرورانہ چال چلتا اصطبل کی جانب جارہا تھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی اور آنکھوں میں ایک سردپن، وہ اپنے ساتھی کی کسی بات پر مسکرایا تو اس کے گال پر پڑتا وہ ڈمپل انائیتہ شاہ کے دل کی دنیا تہ و بالا کر چکا تھا۔
انائیتہ شاہ اس کے پیچھے بھاگی مگر تب تک وہ واپس جا چکا تھا۔ انائیتہ شاہ نہیں جانتی تھی کہ وہ وہاں سے کب اور کیسے گھر لوٹی۔
اس کے بعد انائیتہ شاہ اسے جگہ جگہ ڈھونڈتی رہی مگر وہ انجان شخص اسے نہ ملا۔ پورے پچیس دن انائیتہ شاہ اسے ڈھونڈتے گزارتی رہی۔ اس کی دلچسپی ہر چیز سے ختم ہوچکی تھی۔
وہ ہر سال وہاں جاکر اسے ڈھونڈتی مگر وہ اسے نہ ملا
۔آج ان کی واپسی تھی اور واپس جاتے ہی اس نے اپنی ماما کو سب کچھ من و عن بتایا۔ اپنی کیفیت سے انہیں آگاہ کیا۔
اور مسز شاہ پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی 16 سالہ بیٹی انائیتہ شاہ کچی عمر کی پکی محبت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکی ہے۔ نہ جانے اب اس کی منزل کیا ہونے والی تھی؟؟ یہ وقت بتانے والا تھا۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
اس کے بعد انائیتہ شاہ ہر سال وہاں جاکر اسے ڈھونڈتی تھی۔ مگر وہ اسے نہ ملا۔ وہ پاگلوں کی طرح اس جگہ بیٹھی رہتی وہ اس کی ایک جھلک کے لئے مررہی تھی_____ مگر وہ ستمگر نہ جانے کہاں جا چھپا تھا___
مجھے معاف کر میرے ہمسفر تجھے چاہنا میری بھول تھی
کسی راہ پر جو اٹھی نظر تجھے دیکھنا میری بھول تھی
کوئی نظم ہو کوئی غزل ہو، کہیں رات ہو کہیں سحر ہو
وہ گلی گلی وہ نگر نگر، تجھے ڈھونڈنا میری بھول تھی
😍😍😍😍
گھر پہنچتے ہی نور نے انشراح کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ تمہیں شرم نہیں آئی نشاء تم نے اس شخص کا بنا سوچے سمجھے اتنا ڈرامہ بنایا____ تمہارا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے اگر دادا جان کے رائیول اس خبر کو اچھالیں تو سوچو کتنی بدنامی ہوگی_،؟
نور کی باتوں کو نشاء نظرانداز کرتی اپنی جیولری اتارنے لگی۔ جیولری اتارنے کے بعد اس نے اپنا میک اپ ریموو کیا ، جب نور نے ریموول اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔
نشاء نے بھنویں سکیڑتے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا جس پر نور ایک بار پھر سے شروع ہوئی۔
تم نے آج مال میں بہت غلط حرکت کی ہے. وہ مرد بے قصور تھا۔۔
انشراح نور کی بات سنتے ہی غصے سے لال ہوئی۔
وہ بے قصور نہیں تھا۔ وہ مرد تھا مرد__اور مرد کی فطرت میں ہی ٹھرک اور بےوفائی ہے۔ آج اس شخص نے ہمیں حراس کیا کل کو کسی اور لڑکی کو کرسکتا___
اس سے پہلے کہ انشراح اپنی بات مکمل کرتی نور نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ انشراح میر حیرانگی سے نور کو دیکھنے لگی۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ نور خان اس پر ہاتھ اٹھا سکتی اور وہ بھی ایک غیر آدمی کے لئے__
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب نور خان کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
اس حقیقت کو سمجھو انشراح میر! مرد بھی باکردار اور پاکیزہ ہوتا ہے مرد بُرا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی نیت خراب ہوتی ہے اگر مرد بُرا ہوتا تو اسے نہ نبوت ملتی، نہ ولایت۔
مرد کی فطرت، مرد کی فطرت کہہ کر اس مخلوق کی توہین مت کرو انشراح میر۔ کیوںکہ اگر ایک مرد برا ہے تو اس سے آپکی حفاظت کے لئے اس کے خلاف آپ کے ساتھ دس مرد کھڑے ہوں گے۔ اس لئے مرد کو برا مت کہو انشراح میر۔ یہ بھی انسان ہوتا ہے۔
نور خان اپنی بات کہہ کر رکی نہیں اور انشراح میر کے لئے بہت سی سوچوں کے در واہ کرتی چلی گئی۔
💕💕💕💕💕
کیوں آئے ہو تم میری زندگی میں واپس؟؟ جب ایک بار چلے گئے تھے تو پھر سامنے کیوں آئے؟؟ اگر آہی گئے تھے تو مجھے نظرانداز کردیتے__اجنبی بن جاتے___کیوں میرے سامنے آکر میرے دل کی دنیا خراب کردی___
ابھی تو بھولی تھی تمہیں اففففف ازلان شاہ_____ میں تو بھول چکی تھی تمہیں___
نور خان اپنے کمرے میں آکر خوب روئی اور تصور میں کسی سے مخاطب تھی۔ جب اس کے ضمیر کی آواز نے اسے جھنجھوڑا۔
تم بھول چکی تھی اسے؟؟ نور خان خود کو دھوکہ دینا بند کرو__
نور خان کبھی بھی ازلان شاہ کو نہیں بھول سکتی۔ اس کے ضمیر نے اسے آئینہ دکھایا۔
ہاں یہ سچ ہے میں نہیں بھولی اس کو__نور خان اپنی آخری سانسوں تک ازلان شاہ سے محبت کرے گی. نور نے اپنے ضمیر کی آواز پر صرف اتنا کہا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
ازلان شاہ عشق ہے نور خان کا، بہت جلد یہ حقیقت آشکار ہونے والی تھی۔
مگرررر ____مگرکیا ازلان شاہ بھی محبت کرتا تھا نور خان سے__؟
جانے اب قسمت اور محبت کیا کھیل کھیلنے والی تھی۔
❤❤❤❤
نور اور انشراح میں سب معاملہ سارٹ آؤٹ ہوچکا تھا۔ نور خان اگلی صبح ہی انشراح میر سے معذرت کرنے اس کے کمرے میں گئی اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتی، انشراح نے اسے گلے لگا لیا۔
یہی تو ان کی دوستی تھی، نور خان نے اپنی فرسٹیشن انشراح میر پر نکالی کیونکہ دوست ہوتے ہی اس لئے ہیں۔ دوستوں میں سوری تھینکیو جیسے تکلفات بھی نہیں ہوتے۔ دوست تو بس ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں ایک دوسرے کی غلطیوں پر ٹوکتے ہیں۔
ایسی ہی دوستی انشراح اور نور کے بیچ تھی۔ مگر بہت جلد اس دوستی کو زوال آنے والا تھا__
وہ دونوں چاہ کر بھی اس طوفان کو نہیں روک سکیں گی۔
💕💕💕
آج کافی دنوں بعد انائیتہ شاہ اپنی دوستوں کے ساتھ آرٹ ایگزیبیشن دیکھنے آئی۔ دو ہی تو شوق تھے اس کے ایک پینٹنگ__دوسرا خان سے محبت💘💘
وہ آرٹ گیلری میں دنیا جہاں کے آرٹ کو دیکھنے میں مگن تھی۔ جب ایک خوبصورت پینٹنگ پر اس کی نظر پڑی۔
پہلی نظر میں ہی وہ پینٹنگ دیکھنے والے کے دل میں درد اور اداسی پیدا کرتی۔
یہ پینٹنگ کسی نے بہت خوبصورتی سے بنائی تھی۔ پینٹنگ میں ایک بچہ کسی ویران دشت میں تنہا کھڑا تھا۔ اور ایک اس کے گرد آگ کا دریا۔تھا۔ جہاں ایک عورت اور مرد رسیوں میں بندھے مظلومیت کی تصویر بنے تھے۔
اس پینٹنگ کو بنانے والے نے بڑی مہارت سے درد کی ایک تصویر کھینچی تھی جسے دیکھنے والا محسوس،کیے بنا نہ رہ سکتا۔ انائیتہ شاہ کی بھی یہی حالت تھی۔
وہ اس پینٹنگ کو خریدنا چاہتی تھی جب اس نے پینٹنگ پر
Not for sale
کا ٹیگ دیکھا تو اس کا موڈ خراب ہوگیا ۔ دور بیٹھی ایک خوبصورت عورت اس کے چہرے پر چھائی اداسی کو محسوس کرتی اس کی طرف بڑھی۔
"اگر کوئی چیز آپ کو نہ ملے تو اس پر پریشان اور اداس نہیں ہونا چاہیے گڑیا۔ اگر کوئی آپ کی پسندیدہ چیز کسی اور کو مل جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ کے لئے کچھ بھی نہیں،قسمت میں کچھ نہ کچھ آپ کے لئے ایسا ضرور ہوتا ہے جو آپ کو مل کر رہتا ہے"
انائیتہ شاہ جو کہ اداس کھڑی اس پینٹنگ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اس نے اپنے ہاتھوں پرکچھ دباؤ محسوس کرتے جب اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو ایک گریسفل لیڈی نے اس کو کاغذ پر لکھی یہ خوبصورت تحریر تھمائی۔ جس کو پڑھنے کے بعد انائیتہ شاہ پر انکشاف ہوا کہ وہ خوبصورت عورت قوت گویائی سے محروم ہے۔
اسے وہیل چیئر پر بیٹھی وہ گریس فل خاتون بہت اچھی لگی۔ اسے ان کی اذیت کا سوچ کر ہی دل بھر گیا اور وہ بےاختیار ان کے گلے لگ گئی۔ مسز خان اس معصوم لڑکی،کو سینے میں بھینچے کتنی ہی دیر اردگرد کے ماحول سے بےگانہ بیٹھی رہیں۔ کافی دیر بعد انا ان سے الگ ہوئی اور سچوئشن کو سمجھتے شرمندگی سے سر جھکا لیا تو مسز خان نے اس کا خوبصورت چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں😀
ہال کے اندر آتے تیمور ولی خان نے یہ منظر اپنی خوبصورت آنکھوں سے دیکھا۔ اس کی ماما کسی کے ساتھ ہنستی مسکراتی زندگی سے بھرپور لگ رہی تھیں۔ اسے اس لڑکی کو اپنی ماما کے ساتھ دیکھ کر جیلسی ہوئی۔ مگر ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھتے ہی تیمور ولی خان دل میں اس لڑکی کا شکرگزار ہوا۔ اور وہیں سے الٹے قدموں باہر چلا گیا
نوٹ: پلیز ایپی پڑھنے کے بعد لائک کمنٹ کردیا کریں۔
- = -