Professor Shah - Episode 5

0

Novel - Professor Shah


Writer - Zanoor Writes

Episode 5




- - -


خالی اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی افرحہ نے گہری سانس لی تھی۔۔وہ اس شخص کا لمس خود پر ابھی تک محسوس کر رہی تھی۔۔
اپنے کمرے کی طرف بڑھتے شاہزیب کا کوٹ کندھوں سے اتارتی وہ آرام سے بیڈ پر رکھتی شاور لینے چلی گئی تھی۔۔
شاور لینے کے بعد وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔شاہزیب کا کورٹ وہ اسے صبح دینے کا سوچتی طے لگا کر رکھ چکی تھی۔
بال کھنگھی کرتے اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی تھی۔۔اس کا گال ہلکا ہلکا سوچا ہوا لگ رہا تھا۔۔
گال کو ہلکا سا انگلیوں سے چھوتے اس کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔۔اس کی آنکھوں کے آگے دوبارہ وہ منظر آیا تھا۔۔
اپنا سر جھٹکتے وہ بال بنا کر لیٹ گئی تھی۔۔اس کے ذہن کے پردوں پر شاہزیب کی لڑتے ہوئی یاد لہرائی تھی۔۔شاہزیب کے بارے میں سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں کب کھو گئی اسے علم نہ ہوا۔۔
آج وہ یونیورسٹی جانے کی بجائے فلیٹ میں ہی تھی۔۔فریش ہوتی وہ اپنے لیے ناشتہ بنا رہی تھی جب بریرہ کیچن میں داخل ہوئی تھی۔
"گڈ مارننگ برڈی۔۔"
بریرہ مسکرا کر بولی تھی۔
"گڈ مارننگ۔۔"
افرحہ نے بھی مسکرا کر اسے جواب دیا تھا۔بریرہ کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی سمٹی تھی۔۔
"اوہ مائی گاڈ برڈی یہ کیا ہوا ہے تمھارے چہرے پر۔۔"
بریرہ نے قریب آتے افرحہ کے چہرے کو بغور دیکھا تھا۔۔افرحہ نے ناشتہ بناتے اسے دھیمی آواز میں سب بتا دیا۔۔
"کہاں ہے وہ کمینہ اس کو تو میں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گی۔۔اس ک*ے کی ہمت کیسے ہوئی اپنے گند ہاتھوں سے تمھیں چھونے کی۔۔"
بریرہ اس کی باتیں سن کر اسے اپنے گلے سے لگاتی طیش میں بول رہی تھی۔۔
"اللہ کا شکر ہے پروفیسر شاہ وقت پر آگئے بریرہ۔۔"
وہ نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔وہ اس کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتی تھی لیکن کس طرح کرے اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
"میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں تم بتاو میں کیا کروں۔۔۔"
افرحہ بریرہ سے الگ ہوکر پوچھنے لگی۔۔
"کیوں نہ تم ان کے لیے کچھ کھانے میں اچھا سا بنا کر لے جاو۔۔۔"
بریرہ نے زیادہ دماغ پر زور دیے بنا جواب دیا۔۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے میں آج ویسے بھی بیکنگ کرنے کا سوچ رہی تھی۔۔"
افرحہ نے چہکتے ہوئے کہا تھا۔۔پل میں اس کا موڈ بدل کر خوشگوار ہو گیا تھا۔۔
بریرہ کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد وہ لنچ بناتی اس کےبعد اپنے کام میں جٹ گئی تھی۔
"عادل تمھاری گرل فرینڈ کافی دیر سے تمھارا کیبن میں ویٹ کر رہی ہے۔۔"
عادل جو لنچ کرتا واپس لوٹا تھا اسے اس کے ساتھ جان نے بتایا۔۔
"میری کیا ؟"
اس نے حیرت سے ائبرو اچکاتے پوچھا۔
"تمھاری گرل فرینڈ کی بات کر رہا ہوں عادل۔"
جان جھنجھلا کر بولا تھا۔۔
"میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔۔"
وہ جون کو جواب دیتا تپا ہوا اپنے کیبن کی طرف بڑھا تھا۔۔جہاں اس کی نامعلوم گرل فرینڈ موجود تھی۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ اور تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے خود سے منصوب کرنے کی۔۔۔"
عادل اپنے کیبن میں کرسی پر بیٹھی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے بیٹھی بریرہ کو دیکھتا ناگواریت سے تیز لہجے میں بولا تھا۔۔
"تمھیں اپنی گرل فرینڈ بنانا تو دور کی بات میں تو کبھی تمھاری طرف دیکھوں بھی نہ۔۔"
عادل اس کی ولگر ڈریسنگ پر نظر ڈال کر بولا تھا جو پینٹ شرٹ میں ملبوس تھی۔۔جبکہ بریرہ کا کوٹ کرسی کی پشت پر جھول رہا تھا۔
"پہلی ملاقات میں میرے ہاتھ سے کھایا گیا تھپڑ اتنی جلدی بھول گئے ہو؟"
ٹیبل سے ٹانگیں ہٹاتے وہ کھڑی ہوتی اس کے روبرو آئی تھی۔۔جو غصے سے سرخ ہونے لگا تھا۔۔
"تمھیں پولیس پر ہاتھ اٹھانے کے جرم میں اندر بند کرنے میں مجھے زرا بھی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔"
عادل غصے سے کٹیلے لہجے میں بولا تھا۔
"اتنے سرخ کیوں ہو رہے ہو؟ پریشر کوکر کی طرح پھٹ نہ جانا ویسے مجھے تمھارے کانوں سے دھواں نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔"
بریرہ اسے مزید تپانے کے لیے اس کا سرخ چہرہ دیکھتی بول رہی تھی۔۔عادل کی رات کی باتیں وہ بھولی نہیں تھی تبھی عادل کا پوچھتی اس جگہ آئی تھی۔۔
"منہ بند رکھو اپنا۔۔اور صاف صاف بتاو کس کام کے لیے آئی ہو۔۔"
عادل مٹھیاں بھینچتا سنجیدگی سے بولا تھا۔مزاق اپنی جگہ مگر اس کا یہاں آنا اسے قطعی پسند نہیں آیا تھا۔۔
"تمھیں تپانے آئی تھی آلو۔۔"
وہ ایک آنکھ دبا کر بولی تھی۔عادل نے اپنے بالوں میں ہاتھ ہھیرتے خود کو مقابل کی سانسیں بند کرنے سے روکا تھا۔۔
"ویسے آفس اچھا ہے تمھارا۔۔"
"میرے نوکر بنو گے۔۔؟ اوپس میرا مطلب میرے باڈی گارڈ۔۔"
وہ آنکھ دبا کر بولتی عادل کو زہر لگ رہی تھی۔
"ایک منٹ سے پہلے نکل جاو یہاں سے ورنہ لاک اپ میں بند کردوں گا۔۔"
عادل غصے سے بولا تھا۔۔
"اوہ میلے بےبی کو غصہ آگیا ہے۔۔میں اپنے بےبی سے ملنے آتی جاتی رہا کرووں گی۔۔"
عادل کو تپاتی وہ مزید اسے چھیڑتی گنگناتی ہوئی نکل گئی تھی۔۔اس کا مقصد عادل کو تنگ کرنا تھا جو وہ اچھے سے کرچکی تھی۔۔جبکہ عادل اس کی بات پر کلس کر رہ گیا تھا۔۔
شام کے وقت افرحہ فریش ہوتی شاہزیب کا کوٹ اور اس کے لیے کپ کیکس بنا کر لے گئی تھی۔۔اس کے چہرے کی سوجن کافی حد تک ختم ہوگئی تھی جس کا اس نے شکر ادا کیا تھا۔
شاہزیب کے فلیٹ پر بیل دیتے وہ منتظر سی کھڑی تھی۔۔کچھ منٹ گزر جانے کے بعد جب اسے کوئی جواب نہ ملا وہ مایوسی سے واپس لوٹنے لگی تھی۔جب دروازہ کھولنے پر اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔۔
"ہ۔۔ہیلو پروفیسر۔۔"
بلیک سویٹ شرٹ اور گرے ٹروازر میں ملبوس شاہزیب کو دیکھتی وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی تھی۔۔اس کے نم بال اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ ابھی شاور لے کر نکلا تھا۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
سفید فراک میں ملبوس افرحہ کو دیکھتے اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔۔اس کی نظریں بھٹک کر افرحہ کے چہرے پر موجود حسین مسکراہٹ پر گئی تھی جو اس کی بات سن کر سمٹ گئی تھی۔۔جسے دیکھتے اس کے ماتھے پر مزید بل پڑگئے تھے۔۔
"م۔۔میں آپ کا کوٹ دینے آئی تھی۔۔"
وہ کوٹ والا بیگ اس کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی تھی۔۔شاہزیب نے اس کے ہاتھ سے بیگ چھیننے کے انداز میں لیتے دروازہ کھٹاک سے افرحہ کے منہ پر بند کرنا چاہا تھا جب افرحہ نے دروازے میں پاوں بے ساختہ رکھتے اسے روکنا چاہا تھا۔۔
لیکن شاہزیب کے تیزی سے دروازہ بند کرنے کے چکر پر وہ زور سے افرحہ کے پاوں پر لگ چکا تھا۔
"آہہہ۔۔ میرا پاوں۔۔"
افرحہ کی سسکاری سنتے ہی شاہزیب نے جھٹکے دروازہ واپس کھول دیا تھا۔۔
"عقل نام کی کوئی چیز ہے تم میں یا نہیں ؟ مجھے تو شک ہے تمھارا دماغ ہی خالی ہے۔۔ایڈیٹ۔۔"
اس کی بےوقوفی پر شاہزیب بنا اس کے زخمی پاوں کا لحاظ کیے تیز لہجے میں بول تھا۔۔
"مجھے کوئی شوق نہیں تھا پاوں دروازے میں دینے کا۔۔آپ کے شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ بنا کر لائی تھی۔۔لیکن آپ ٹھہرے کھڑوس کوٹ پکڑ کر فورا دروازہ بند کرنے لگے تھے۔"
وہ اسے زبردستی کپ کیکس کا باکس پکڑاتی اپنے پاوں کی طرف دیکھتی رونے والی آواز میں بول رہی تھی۔۔اس کے پاوں سے خون نکلنے لگا تھا۔۔جس سے اسے تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔۔
"مجھے تمھارا شکریہ کی ضرورت نہیں ہے۔۔بس ایک کام کرو میرے پر بہت بڑا احسان ہوگا۔۔"
شاہزیب کے بولنے پر افرحہ اپنی آنکھیں اٹھاتے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"کیسا کام ؟"
افرحہ نے لب تر کرتے پوچھا۔
"میرے سامنے مت آیا کرو۔۔"
وہ بنالحاظ کیے سرد لہجے میں بولا تھا۔۔
"آ۔۔۔آپ بہت کھڑوس ہیں۔۔"
وہ غصے اور تکلیف سے بولتی تیزی سے اپنے فلیٹ میں چلی گئی تھی۔۔شاہزیب نے اس کے پاوں سے نکلتی خون کی چند بوندیں زمین پر گرتے دیکھ کر مٹھیاں بھینچی تھیں۔۔
اپنے فلیٹ کا دروازہ زور سے بند کرتے شاہزیب نے کپ کیکس والا باکس اوپن کیچن کے کاونٹر پر رکھ دیے تھے۔۔اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ کھانے کا۔۔۔
"کھڑوس۔۔"
اپنے زخمی پاوں کو صاف کرتے مرہم لگاتے ہوئے وہ بڑبڑائی تھی۔۔اپنی تکلیف کا بدلہ اس سے لینے کا سوچتے افرحہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔بریرہ معمول کے مطابق فلیٹ سے باہر تھی۔۔
وہ رات ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔۔رات کے گیارہ بجتے ہی وہ اپنے فلیٹ سے نکلتی شاہزیب کے فلیٹ کے دروازے کے پاس جاتی بیل بجاتی واپس اپنے گھر لڑکھڑاتی ہوئی بھاگ آئی تھی۔۔
شاہزیب جس کی پندر منٹ پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔دروازے پر بیل سنتا وہ دروازہ پر گیا تھا۔۔دروازے کھولنے پر باہر کسی کو نہ دیکھنے پر شاہزیب نے بےزاریت سے ادھر ادھر راہداری میں جھانکتے دروازہ بند کر دیا تھا۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سنتے ہی افرحہ دوبارہ اپنے فلیٹ سے نکلتی شاہزیب کے فلیٹ پر بیل بجا کر واپس تیزی سے اپنے فلیٹ میں چلی گئی تھی۔۔
شاہزیب جو ابھی کیچن میں کھڑا پانی پینے لگا تھا۔۔ایک بار پھر بیل سنتا ماتھے پر بل ڈالے دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔
باہر دوبارہ کسی کو نہ پاکر اس کو جھنجھلاہٹ کے ساتھ غصہ آنے لگا تھا۔۔
دو تین منٹ ایسے ہی دروازہ کھول کر وہ ادھر ادھر دیکھتا رہا تھا۔ابھی وہ دروازہ بند کرتا واپس اندر آیا ہی تھا کہ ایک بار پھر بجتی بیل نے اس کا پارہ ہائی کردیا تھا۔۔
دوبارہ دروازہ کھولنے پر کسی کو ناپاکر وہ مٹھیاں بھینچتا دروازہ زور سے بند کرتا باہر ہی کھڑا ہو گیا تھا۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سنتی افرحہ جو دوبارہ اپنے فلیٹ سے نکلی تھی۔۔بپھرے ہوئے شاہزیب کو باہر دیکھ کر اس کی ہوائیاں اڑی تھیں۔۔
افرحہ کو دیکھتے ہی اس کا میٹر شارٹ ہوا تھا۔۔ایک ہی جست میں اس کے پاس پہنچتے وہ اس کا بازو دبوچ چکا تھا۔۔
"یو ایڈیٹ۔۔تم ہی بار بار میرے فلیٹ کی بیل بجا کر مجھے تنگ کر رہی تھی نہ۔۔"
وہ اسے جھنجھوڑتا ہوا پوچھ رہا تھا۔۔غصے کی شدت سے اس کی گندمی رنگت میں سرخیاں گھلنے لگی تھیں۔۔آج اس کی برداشت جواب دے گئی تھی۔۔
"آ۔۔آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔"
افرحہ پکڑے جانے پر آنکھیں پھیلائے ڈرتی ہوئی انکار میں بولی۔۔
"شٹ اپ مجھے اچھے سے پتا ہے میری زندگی حرام کرکے تمھیں سکون ملتا ہے۔۔"
شاہزیب اس کے جھوٹ بولنے پر مزید بپھرا۔۔
"س۔۔سوری۔۔"
وہ کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔۔مقابل کے غصے کی شدت کا اندازہ اسے اچھے سے ہو گیا تھا۔۔
"آج میں تمھیں بتاتا ہوں نجھے تنگ کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔"
شاہزیب اسے بازو سے کھینچتا ہوا اپنے اپارٹمنٹ کی طرف لے جانے لگا تھا۔۔
افرحہ کے ڈر سے پسینے چھوٹ پڑے تھے۔۔
"آئی ایم سوری پروفیسر۔۔"
شاہزیب کی گرفت میں پھڑپھڑاتی وہ کانپ اٹھی تھی۔۔شاہزیب بنا اس کی بات پر کان دھرے اسے کھینچتا ہوا فلیٹ میں لایا تھا۔۔
"یہاں سے ایک قدم بھی اٹھانے کی کوشش مت کرنا۔۔"
شاہزیب افرحہ کی آنکھوں میں دیکھتا وارن کر رہا تھا۔۔افرحہ آنکھیں پھیلائے اس کی بات کو اگنور کیے فلیٹ کے دروازے کی طرف بھاگی تھی۔۔
اسے لاونچ میں چھوڑتا شاہزیب جو اپنے روم میں گیا تھا۔۔واپس آتے ہی اسے باہر بھاگتا دیکھ کر اس نے چھوٹی آنکھیں کرکے اس ٹڈی کو گھورا۔۔
"روکو۔۔تمھیں میں نے کہا تھا یہاں سے ہلنا بھی مت۔۔"
ایک ہی جست میں افرحہ کے پاس پہنچتا وہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہوا بولا تھا۔۔
افرحہ کا ہاتھ سیدھا اس کے سینے سے ٹکرایا تھا۔۔شاہزیب نے اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود گن افرحہ کے سر پر رکھی تھی۔۔
گن دیکھ کر افرحہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔۔
"مجھ جیسی پیاری اور معصوم لڑکی کو مایں گے آپ ؟ "
"مجھ معصوم کو مار کر سیدھا جہنم میں جائیں گے۔۔"
وہ اس کے اتنے قریب ہونے پر اور گن دیکھتے گھبراتی ہوئی بول رہی تھی۔۔
"معصوم بچوں کو مارنا بہت بڑا گنا ہوتا ہے۔۔"
وہ معصوم منہ بناتی سیانوں کی طرح بولی تھی۔۔وہ افرحہ ہی کیا جو خاموش ہوجائے۔۔
"شٹ یور ماوتھ۔۔ یہ کو تم چیپ ٹرکس کرکے مجھے اپنی طرف لبھانے کی کوشش کر رہی ہو ان طریقوں کو میں بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں۔۔دوبارہ یہ جاہلوں والی حرکتیں۔میرے ساتھ کرنے سے پہلے سو بار سوچ لینا کیونکہ اب کی بار میں تمھیں قتل کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔۔"
"اور میں بہت خطرناک بندہ ہوں۔۔سیدھا لوگوں کو جہنم پہنچانے میں مجھے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔۔تم جیسے دو تین معصوموں کو مارنے سے اس دنیا کا بھلا ہوجائے گا۔۔اور میری بھی جان چھوٹے گی۔۔"
وہ بندوق کی نال اس کے ماتھے پر دباتا سفاکیت سے بولتا افرحہ کا سانس خشک کر گیا تھا۔۔
اسے شاید پہلی بار میں شاہزیب سے صحیح ڈر محسوس ہو رہا تھا۔۔ٹھنڈی گن اپنی پیشانی میں کھبتی محسوس کرکے افرحہ کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔۔
"اس سے پہلے میں اپنا ارادہ بدل لوں بھاگ جاو۔۔"
اس کا بازو جھٹکے سے آزاد کرتا شاہزیب سپاٹ لہجے میں بولا۔۔
افرحہ موقع پاتے ہی تیزی سے وہاں سے بھاگتی اپنے پاوں میں اٹھنا والا درد بھی نظر انداز کر گئی تھی۔۔
شاہزیب نے آج اسے اچھا خاصا ڈرا دیا تھا۔۔وہ آئیندہ اس سے پنگا نہ لینے کا سوچتی سوگئی تھی۔لیکن شاہزیب کی حرکت نے اسے اندر تک ہلا دیا تھا۔



جاری ہے۔۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)