Professor Shah - Episode 6

0

 

Novel - Professor Shah

Writer - Zanoor Writes
Episode 6

- - -


افرحہ شاہزیب کے کل ڈرانے کی وجہ سے آج شرافت سے اس سے دور رہنے کا سوچ رہی تھی۔۔
مہرون ٹاپ اور بلیک جینز میں سکن لونگ کوٹ میں وہ بالوں کو باندھے مفلر گلے میں ڈالے اپنے فلیٹ سے نکل رہی تھی جب شاہزیب کو باہر نکلتے دیکھ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی تھی۔
شاہزیب ایک نظر اس پر ڈال کر آنکھیں گھماتا لفٹ کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔افرحہ بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے لفٹ کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔
اس کے پاوں میں ابھی بھی ہلکی ہلکی درد تھی جس کی وجہ سے وہ قدرے سلو چل رہی تھی۔افرحہ کے لفٹ میں داخل ہوتے ہی شاہزیب نے گراونڈ فلور کا بٹن دبایا تھ۔
"گ۔۔گڈ مارننگ۔۔"
افرحہ چند سیکنڈ بعد منہ بناتے ہوئے بولی تھی۔۔شاہزیب نے اسے بخوبی نظر انداز کر دیا تھا۔۔وہ اس وقت ٹڈی سے بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
اس کے بری طرح نظر انداز کرنے پر افرحہ کو غصہ آیا تھا۔۔لًت کے کھلتے ہی شاہزیب نکل گیا تھا۔۔افرحہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی جانے لگی تھی۔۔
"میرے پیچھے پیچھے کیوں آرہی ہو؟"
اپنے پیچھے افرحہ کے نازک قدموں کی آواز سنتے شاہزیب ماتھے پر بل ڈالے اس کی جانب مڑا تھا۔۔
"و۔۔وہ م۔۔میں۔۔"
افرحہ اپنی انگلیاں مڑوڑتی آنکھیں معصومیت سے جھپکاتی گھبرا گئی تھی۔
"تمھیں رات میں میری بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ؟ "
یہ لڑکی صبح صبح ہی اس کا دماغ گرم کرنے لگی تھی۔شاہزیب نے مٹھیاں بھینچتے اسے گھورا تھا۔اسے حیرت تھی کہ رات کو ڈرانے کے باوجود بھی وہ لڑکی پھر اس سے پنگا لینے کی جرت کر رہی تھی۔۔
"م۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے بس اسٹاپ تک اکیلے جاتے ہوئے۔۔اور میری دوست بھی گھر نہیں ہے جو مجھے بس اسٹاپ تک چھوڑ سکے۔۔"
وہ نظریں جھکاتی معصومیت سے بول رہی تھی۔۔
"اس سے میرا کیا لینا دینا ؟ میں نے تمھاری حفاظت کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔۔کیب کرواو اور چپ چاپ میرے سامنے سے غائب ہوجاو۔۔"
شاہزیب اکھڑے انداز میں احساس سے عاری لہجے میں گویا ہوا۔۔
"آپ پلیز مجھے بس اسٹاپ تک چھوڑ دیں میں پکا آپ کو تنگ نہیں کروں گی۔۔"
وہ اس کی بات پر کان دھرے بغیر بولی تھی۔۔کیب وہ کروانا نہیں چاہتی تھی کیونکہ اکیلے سفر کرنے سے اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔
"میں تمھاری کوئی مدد نہیں کروں گا پہلی فرصت میں نکل جاو۔"
وہ سرد مہری سے بولتا اپنی کار کی جانب بڑھ گیا تھا۔
"پلیز اس بار چھوڑ دیں اسٹاپ پر آئیندہ نہیں کہوں گی۔۔"
وہ شاہزیب کے پیچھے پیچھے دوبارہ چلنے لگی تھی۔
"یہ آخری بار ہے اس کے بعد میں کوئی مدد نہیں کروں گا۔۔"
شاہزیب گہرا سانس لیتا اس کی جانب مڑتا خود پر قابو پاکر سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
"شکریہ پروفیسر۔۔"
وہ چہک کر بولی تھی۔شاہزیب کے ساتھ وہ آرام سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔۔چند منٹ کی خاموشی کے بعد افرحہ کی زبان پر کھجلی ہونے لگی تھی اور وہ افرحہ ہی کیا جو خاموش بیٹھ جائے۔۔
"کیا آپ کی کوئی فیملی نہیں ہے ؟"
اس نے متجسس ہوتے پوچھا۔شاہزیب کی گرفت سٹئیرینگ ویل پر مضبوط ہوئی تھی۔۔
"اگر تم نہیں چاہتی میں تمھیں گاڑی سے باہر پھینک دوں تو خاموشی سے منہ بند کرلو۔۔"
شاہزیب اس کی طرف دیکھے بنا تیز لہجے میں بولا تھا۔۔
"س۔۔سوری اب میں کچھ نہیں بولوں گی۔۔"
وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتی آنکھیں پھیلا کر بولی تھی۔۔
"اچھا صرف ایک بات بتا دیں اس کے بعد کچھ نہیں بولوں گی۔۔"
چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد وہ مزید بولی تھی۔
"کیا آپ میرڈ ہیں ؟ یا آپ کی کوئی گرل فرینڈ ہے ؟ "
افرحہ اشتیاق سے پوچھ رہی تھی۔اس کے ذہن میں اس دن شاہزیب کے ساتھ دیکھی لڑکی کی تصویر لہرائی تھی۔
"اٹس نن آف یور بزنس۔۔ناو گیٹ آوٹ۔۔ایڈیٹ"
بس اسٹاپ کے سامنت کار کی بریک لگاتے وہ سرد لہجے میں بولا تھا۔اس لڑکی کی زبان مجال ہے جو کبھی بند ہوجائے۔۔
"ش۔۔شکریہ پروفیسر۔۔"
وہ ہلکی سے مسکان سے بولتی تیزی سے نکل گئی تھی۔۔شاہزیب کے خطرناک تیوروں سے وہ ڈر گئی تھی۔اس کے گاڑی سے نکلتے ہی شاہزیب فل سپیڈ سے گاڑی چلاتا ہوا کے جھونکے کی طرح غائب ہو گیا تھا۔
افرحہ یونیورسٹی میں کلاسزز سکون سے لیتی گھر کے لیے جلد نکل گئی تھی۔۔ٹھنڈی ہوا اور ہلکی ہلکی ہوتی برفباری سے اس کے گال سرخ پڑگئے تھے۔
فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے وہ برفباری کو انجوائے کرتے ہوئے بس اسٹاپ تک گئی تھی۔۔بیگ میں سے ہیڈ فونز نکالتے وہ بس میں بیٹھ چکی تھی۔۔سن ہوتے ہاتھوں کو کوٹ میں چھپائے وہ بس سے باہر نکل کر اسٹاپ پر کھڑی ہوگئی تھی۔۔
واپسی کے راستے کی طرف دیکھتے اسے وحشت ہو رہی تھی اس کا اکیلے گھر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔۔سردی میں ٹھٹھرتی وہ بس اسٹاپ پر ہی بیٹھ گئی تھی۔بریرہ کو پک کرنے کے لیے بلانے کا سوچتے اس نے سن ہوتے ہاتھوں سے موبائل نکالا تھا۔
کئی بار کال ملانے کے بعد بھی بریرہ نے اس کی کال نہیں رسیو کی تھی۔۔اپنے لب دباتے وہ سنسان رستہ دیکھتی گہری سانس لیتی اس طرف جانے لگی تھی۔۔
تیز تیز قدم اٹھاتی وہ ایک دو جگہ سلپ ہوتی بچی تھی۔۔اپنی بلڈنگ کے قریبی مارکیٹ کے پاس پہنچ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔۔
بلڈنگ کی طرف بڑھتے اس کے کانوں میں بلی کی آواز پڑھی تھی۔۔اس نے ارد گرد دیکھا تھا جب روڈ کے سائیڈ پر ایک پنجرے میں اسے بلی پڑی ہوئی دکھائی دی تھی۔۔
"اتنی کیوٹ مانو کو کون یہاں چھوڑ گیا ہے۔۔؟"
اس نے بڑبڑاتے ہوئے سفید رنگ کی بلی کو دیکھا تھا۔۔بلی کو پنجرے سمیت اٹھاتی وہ بڑھتی ٹھنڈ محسوس کرتی تیزی سے بلڈنگ میں چلی گئی تھی۔۔
فلیٹ میں داخل ہوتے وہ اسے لاونچ میں ایک سائیڈ پر رکھ چکی تھی۔۔گھر میں انسٹال ہیٹنگ سسٹم سے اسے سکون ملا تھا۔۔
فریج میں سے دودھ نکال کر بلی کو پنجرے سے نکال کر اس کے سامنے رکھتی وہ چینج کرنے چلی گئی تھی۔۔چینج کرتی وہ باہر نکلی ہی تھی جب لاونچ میں موجود صوفوں کا حشر دیکھ کر وہ صدمے میں چلی گئی تھی۔۔
بلی اپنے پنجوں سے سارے صوفوں کو ادھیڑ چکی تھی جبکہ وہاں موجود شو پیس کو بھی وہ توڑ چکی تھی۔۔
افرحہ نے آنکھیں پھیلا کر لاونچ میں بلی کے لیے نظریں دوڑائیں تھیں۔وہ اسے اوپن کیچن کے کاونٹر پر بیٹھی دکھی تھی۔۔
دانت نکالتی وہ افرحہ کی طرف بھاگی تھی جب افرحہ اس جنگلی بلی کو اپنے طرف بڑھتے دیکھ کر باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔کانپتے ہاتھوں سے لاک کھولتے وہ بلی کے اپنے پاس پہنچنے سے پہلے ہی فلیٹ سے باہر نکلتی دروازہ واپس بند کر گئی تھی۔۔
اپنے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتی وہ ڈر سے کانپتی فلور پر بیٹھ گئی تھی۔ٹھنڈ اسے اپنے جسم کو چیرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی چونکہ اس نے گھر میں پہننے والا ٹروازر اور سمپل سی لانگ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔جس سے اسے اپنی ہڈیاں جمتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔
موبائل بھی اس کا کمرے میں تھا وہ کسی کو کال بھی نہیں کرسکتی تھی اور فلیٹ کی کیز بھی اس کے پاس نہیں تھی جس سے وہ دوبارہ اندر چلی جاتی۔۔بریرہ بھی اپنے پیرنٹس کے گھر گئی ہوئی تھی اور جیسا موسم تھا اسے لگ رہا تھا وہ صبح ہی واپس لوٹے گی اور صبح تک یقینا اس نے فریز ہوجانا تھا۔۔
فلور پر سکڑ کر بیٹھتی وہ خود کو گرم رکھنے کی حد درجہ کوشش کر رہی تھی۔لیکن ٹھنڈ سے بجتے گال اور سن پڑتا جسم اس کے حواس بھی منجمد کرنے لگا تھا۔۔
شاہزیب لفٹ سے نکلتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر زمین پر بیٹھی افرحہ پر پڑی تھی جو اب اسے آنکھیں اٹھا کر امید سے دیکھتی کھڑی ہوگئی تھی۔۔
"پ۔۔پروفیسر۔۔"
پرپل ہوتے ہونٹوں سے سرگوشی میں وہ دھیمی آواز میں بول رہی تھی۔۔شاہزیب نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا جب اسے گرتے دیکھ کر ایک ہی جست میں اس تک پہنچتے وہ اسے تھام چکا تھا۔۔
"افرحہ۔۔"
اس کا ٹھنڈا گال تھپتھپاتے وہ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ناکام ہوتے وہ اپنا پتھر دل موم کرتا اسے بازوں میں اٹھا کر اپنے فلیٹ میں لے گیا تھا۔۔اسے لاونچ میں صعفے پر لیٹاتا شاہزیب واپس اس کے فلیٹ کی طرف گیا تھا۔۔
اس کے فلیٹ پر مسلسل بیل دینے کے باوجود کسی کے دروازہ نہ کھولنے پر وہ گہرا سانس بھرتا اپنے فلیٹ لوٹ گیا تھا۔۔یقینا اس مصیبت کے اٹھنے تک اسے اپنے فلیٹ میں ہی شاہزیب کو رکھنا پڑنا تھا ورنہ صبح تک ٹھنڈ میں اس نے سرد لاش بن جانا تھا۔۔
اپنے روم سے کمفرٹر نکال کر وہ صوفے پر پڑی افرحہ پر احسان کرنے کے انداز سے پھینک چکا تھا۔شاور لے کر فریش ہوتا شاہزیب اپنے لیے کھانے کو بنانے لگا تھا۔۔ایک عرصہ اکیلے رہنے سے اسے کوکنگ کرنی آگئی تھی۔
اپنے لیے پاستہ بناتا ساتھ ریڈ وائن نکالتا وہ کیچن کاونٹر پر رکھتا وہاں بیٹھ کر کھانے لگا تھا۔۔برتن واش کرکے وہ ابھی فری ہوا ہی تھا کہ فلیٹ کی بیل بجتی سن کر دروازہ کھولنے گیا تھا۔۔عادل کو دیکھتے ہی اس نے آنکھیں گھمائیں تھی وہ تن کر دروازے کے آگے کھڑا ہو گیا تھا۔۔افرحہ کی موجودگی میں وہ عادل کو اندر نہیں بلانا چاہتا تھا۔۔
"پیچھے ہٹو اندر آنے دو مجھے ورنہ ٹھنڈ میں میری کلفی جم جائے گی۔۔"
وہ شاہزیب کے تن کر دروازے کے آگے کھڑا ہونے پر بجتے دانتوں کے ساتھ بولا تھا۔
"تم کل آنا ابھی میں کچھ مصروف ہوں۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے بولا تھا۔۔عادل نے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔
"اچھا تو پیچھے تو ہٹ مجھے ابدر تو آنے دو میں ڈسٹرب نہیں کروں گا۔۔"
وہ شاہزیب کو ہلکا سا پیچھے پش کرتا بولا تھا جو چٹان بن کر دروازے میں کھڑا تھا۔
"میں نے بولا نہ کل آنا ابھی میں کچھ مصروف ہوں۔۔اب جاو یہاں سے۔۔"
شاہزیب نے تیز لہجے میں بولتے دروازہ بند کرنا چاہا تھا جب عادل اسے دھکا دیتا اندر داخل ہوا تھا۔۔
"زرا مجھے بھی تو دیکھنے دو کس چیز میں مصروف ہو تم۔۔"
تیزی سے بولتا وہ اندر داخل ہوا تھا جب اس کی نظر صوفے پر لیٹی افرحہ پر گئی تھی۔
"تمھیں میری بکواس سنائی نہیں دی تھی۔۔"
شاہزیب غصہ میں بولا تھا اس کا بےدھڑک اندر آجانے پر اسے شدید غصہ آرہا تھا۔
"یہ کون ہے شاہزیب ؟ "
عادل نے حیرت سے پوچھا تھا۔۔
"میری سٹوڈنٹ ہے بےہوش ہوگئی تھی صرف اس لیے یہاں لایا ہوں۔"
شاہزیب بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا تھا۔
"تمھارا دماغ خراب ہے ؟ اسے اس کے گھر چھوڑ کر آو۔۔"
"کسی نے اسے تمھارے گھر دیکھ لیا تو جانتے ہوں نہ کیا ہوگا۔۔اس لڑکی کو وہ یونیورسٹی سے نکال دیں گا ساتھ ہی تمھیں بھی سسپینڈ کردیں گے۔۔"
عادل شاہزیب کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"یار ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے۔۔شاید اس کی دوست ابھی گھر نہیں ہے وہ آئے گی تو میں اسے نکال دوں گا۔۔"
شاہزیب سٹریس کم کرنے کے لیے کیچن کی طرف بڑھتا کیبنیٹ میں سے شراب کی بوتل نکال کر گلاس میں انڈیلنے لگا تھا۔
"فار گاڈ سیک۔۔۔اس لڑکی کی ذمہ داری تم پر ہے اور تم ڈرنک کر رہے ہو۔۔"
"پہلے ڈرگز اور اب یہ لڑکی۔۔تم نے اپنا کئرئیر برباد کرنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔۔"
عادل تپا ہوا بولا تھا۔۔شاہزیب کی گرفت گلاس پر بےساختہ مضبوط ہوئی تھی۔۔
"مجھے اچھے سے اندازہ ہے میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے تمھیں یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔۔"
شاہزیب جھنجھلا کر تیز لہجے میں بولا۔۔
"یہ ہی وہ لڑکی تھی جسے تم نے اس شخص سے بچایا تھا؟"
عادل نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔شاہزیب کی خاموشی نے اس کے سوال کا جواب دے دیا تھا۔۔
"تم پسند کرتے ہو اس لڑکی کو؟"
شاہزیب کے چہرے پر نظریں جمائے عادل نے پوچھا۔اس کا سوال شاہزیب کو حیران کرگیا تھا۔
"تم پاگل ہوگئے ہو۔۔مجھے یہ لڑکی سخت زہر لگتی ہے۔۔صرف انسانیت کی خاطر اس کی مدد کی ہے۔۔"
شاہزیب شراب کے گھونٹ لیتا عادل کو غصے سے گھورتا ہوا بولا تھا۔
"انسانیت کی خاطر؟ ہمم۔۔۔ چلو مان لیتے ہیں شاہزیب۔۔لیکن اس لڑکی سے دور رہو تمھاری جاب بھی اس کی وجہ سے جاسکتی ہے۔"
عادل سنجیدگی سے اس سے بولا تھا۔۔جوابا شاہزیب نے ہنکار بھرا تھا۔عادل اس سے کچھ مزید دو چار باتیں کرتا اسے وارن کرکے واپس چلا گیا تھا۔۔
شاہزیب بھی گہری سانس لیتا ایک نظر افرحہ پر ڈال کر روم میں چلا گیا تھا۔۔
"ہائے اللہ مرگئی۔۔"
صوفے سے زمین پر گرنے سے افرحہ کی آنکھ کھلی تھی۔اپنی آنکھیں مسلتے اس نے ادھر ادھر کنفیوز نظروں سے دیکھا تھا۔۔رات کو اپنی بےوقوفی یاد کرتے اس کی آنکھیں پوری کھل گئی تھیں۔
" باہر کا راستہ اس طرف ہے۔۔"
شاہزیب جو کیچن میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
شاہزیب کی آواز سنتے افرحہ نے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔
"میرے پاس فلیٹ کی کیز نہیں ہیں۔۔"
وہ منہ پھولاتی بولی تھی۔
"یہ میرا سر درد نہیں ہے اب نکل جاو یہاں سے۔۔شکر کرو رات کو تمھیں باہر جمنے سے بچا لیا۔۔"
شاہزیب اپنے ناشتے کی پلیٹ واش کرتا ہوا بولا تھا۔۔افرحہ نے لب کاٹے تھے۔
"میرے فلیٹ میں ایک جنگلی بلی ہے اسی کی وجہ سے میں فلیٹ سے باہر نکلی تھی۔۔آپ پلیز کسی کو بلا کر میرے فلیٹ کا لاک اوپن کروا دیں۔۔میرے پاس موبائل نہیں ورنہ میں خود ہی کال کر لیتی کسی کو۔۔"
افرحہ اپنے بال ٹھیک کرتی شاہزیب سے بولی تھی۔
"اوکے میں یہ کام کروا دیتا ہوں لیکن اس کے بعد میرے سامنے مت آنا۔۔"
اپنا موبائل نکالتا سنجیدگی سے بوکتا شاہزیب اپنے جاننے والے ایک دوست کو بلا چکا تھا جو لاک کھولنے میں ماہر تھا۔
شاہزیب کے فرسٹ لیکچرز نہیں تھے اس لیے اس نے تھوڑا لیٹ ہی یونیورسٹی جانا تھا۔جبکہ افرحہ کا فلحال یونیورسٹی جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
کچھ ہی دیر میں شاہزیب کا دوست لاک کھول کر جاچکا تھا۔
"پلیز بس لاسٹ کام کر دیں اس جنگلی بلی کو پنجرے میں بند کرنے میں مدد کر دیں۔۔"
افرحہ فلیٹ کے باہر کھڑی شاہزیب کے آگے ہاتھ جوڑ کر التجائیہ بولی تھی۔۔شاہزیب نے غصے سے اس ٹڈی کو گھورا جو اس پر مصیبت بن کر نازل ہوئی تھی۔۔
اس سے بنا بحث کیے وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔افرحہ باہر ہی کھڑی تھی اس کا فلحال اندر جانے کا ارادہ نہیں تھا۔۔
شاہزیب نے نظریں ادھر ادھر دوڑاتے بلی کو ڈھونڈنا چاہا تھا جب وہ اسے صوفے پر بیٹھی دانت نکال کر دیکھتی ہوئی دکھائی دی تھی۔۔
شاہزیب نے آگے بڑھتے اس بلی کو پکڑنے کی کوشش کی تھی جب بلی نے اپنے پنجے شاہزیب کے بازو پر مارے تھے۔۔اس کے بازو سے خون نکلنے لگا تھا۔۔شاہزیب نے اپنے بازو پر ہوتی جلن کو نظر انداز کرکے پھرتی سے کام لیتے تیزی سے بلی کو دوسرے ہاتھ سے دبوچتے صوفے کے پاس پڑے پنجرے میں بند کر دیا تھا۔
"بلی کو بند کر دیا ہے میں نے اب دوبارہ میرے سامنے مت آنا۔۔بہت بڑا احسان ہوگا تمھارا۔۔میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے جب سے میں نے اس فلیٹ میں رہنے کی غلطی کرلی ہے۔"
فلیٹ سے باہر نکلتے شاہزیب افرحہ سے کٹیلے لہجے میں بولا تھا۔
"شکریہ۔۔آپ نے میری بہت ہیلپ کی ہے۔۔واقعہ آپ میرے لیے فرشتہ ہیں۔۔جو اللہ نے خاص میری مدد کے لیے بھیجا ہے۔"
وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی جب شاہزیب کے بازو پر نظر پڑتے اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
"ی۔۔یہ آپ کے بازو پر کیا ہوا ہے؟۔۔آئیں میں آپ کے بینڈیج کر دوں۔۔"
پنجوں کے نشان دیکھتے افرحہ نے اس کا بازو تھامنا چاہا تھا لیکن وہ پیچھے ہٹ گیا تھا۔
"مجھے دوبارہ چھونے کی کوشش مت کرنا۔۔"
اسے سختی سے بولتا وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تھا۔۔افرحہ کی اداس اور پریشان نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔۔


جاری ہے۔۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)