Tamasha-e-Muhabbat - Episode 1

0





تماشائے محبت

ماہی راجپوت 

قسط #1


- - - 


 شہر خموشاں میں رات کے آخری پہر گھپ اندھیرا تھا ہر طرف سناٹا چھایا تھا۔ ماحول میں پھیلی اس خاموشی میں دور سے آتی ہوئی کتوں کے بھونکنے کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔

 وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا دروازہ عبور کرتا اندر آیا اس کی چال میں شکستگی تھی۔

 اس کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا۔ وہ جس کی چال میں غرور اور اکڑ ہوتی تھی آج اپنے قدموں کو گھسیٹتا ہوا اس مطلوبہ قبر کے قریب پہنچا۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اس کے اپنے اسے دفنا کر گئے تھے۔ وہ زندگی سے بھرپور لڑکی آج دو گز زمین کا حصہ بن چکی تھی۔

 "ہماری داستان نہ رہے گی داستانوں میں" کی عملی تصویر بنی وہ لڑکی آج اس مغرور شہزادے کے دل کی سلطنت کو تہ و بالا کر کے جا چکی تھی۔

ایک ٹیس سی اس کے دل سے اٹھی تھی۔ آج اس کا انتقام پورا ہوا تھا اسے تو خوش ہونا چاہئے تھا پھر وہ رو کیوں رہا تھا۔۔ ؟؟

وہ اس لڑکی کو منوں مٹی تلے دفن کر چکا تھا اسے تو اپنی جیت پر خوشی ہونی چاہیے تھی۔ جیت ؟؟کونسی جیت؟؟ وہ جیتا کہاں تھا؟؟ وہ تو ہار چکا تھا۔

آج اس لڑکی کی موت سے نہ صرف وہ بکھرا تھا بلکہ 

اس نے کسی کا مان ٹوٹا تھا __کتنی امیدیں توڑی تھیں__

یا شاید اس معصوم لڑکی کی محبت کو تماشا بنایا تھا____ وہ اسے رسوا کر چکا تھا__

 اسے دو دن پہلے اس کی بھیجی وہ غزل یاد آئی_،

میرے ساتھی!

میری یہ روح میرے جسم سے پرواز کر جائے

تو لوٹ آنا

میرے بے خواب راتوں کے عذابوں پر 

سسکتے شہر میں تم بھی 

ذرا سی دیر کو رکنا

میری بے نور ہونٹوں کی دعاؤں پر 

تم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کر رو دینا

بس اتنی بات کہہ دینا

مجھے تم سے محبت ہے


اس غزل کا ایک ایک حرف اس کے حال کی ترجمانی کر رہا تھا مگر وہ دلکش حسینہ جسے وہ حال دل سنانے آیا تھا وہ تو خاموشی کا لبادہ اوڑھے اس منوں مٹی تلے دفن تھی۔

کل تک وہ ظالم بنا تھا آج وہ ظالم بنی تھی۔ اس وقت اس شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والے مرد کی ٹوٹی بکھری حالت قدرت کے اس نظام کی عکاسی کررہی تھی ۔

"کہ ہر عروج کو زوال ہے'

وہ وہیں اس شہر خموشاں میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔

دو منزلہ شیشے سے بنا خان ولا پوری آب و تاب سے کھڑا تھا۔ ولا کی بیشمار روشنیاں رات کی سیاہی کو روشنی میں بدل رہیں تھی سفید آہنی گیٹ سے اندر آئیں تو نگاہ کو خیرہ کر دینے والا یہ ولا جس کی چاروں طرف پھولوں سے بھرا ، مہکتا لان تھا۔دور دور تک رنگ برنگے پھول پھیلے تھے۔۔فرسٹ فلور کے گلاس والز سے پردے ہٹے ہونے کی وجہ سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ جہاں وہ ہال میں رکھے صوفہ کم بیڈ پر وہ نیم دراز تھا۔یہ خوبصورت ولا اس کے بابا کے خواب کی تعبیر تھا۔

یہ پیارا گھر تیمور ولی خان کا کے جان سے پیارے بابا ولی خان کا تھا۔

 تیمور ولی خان جو شہزادوں سی آن بان رکھتا تھا۔وجاہت میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا۔مغرور ایسا کہ اسکی بے رخی جان سے مار ڈالے اور مہربان ہونے پر آئے تو اپنا سب کچھ وار دے۔

۔اسکی وجاہت میں اسکی سحر انگیز آنکھیں تباہی مچاتی تھیں۔۔۔جن میں ایک سرد پن تھا ۔۔۔۔پر بلا کی دلکش آنکھیں تھیں۔ سیاہ مری پلکیں جن میں جھانکتی سیاہ آنکھیں۔ اس ظالم کی آنکھیں ایسا وار کرتیں کہ سامنے والا چاروں شانے چت ہو جاتا۔

عورت کی حسین آنکھوں کے بارے میں تو بہت سنا ہے کہ عورت کی آنکھ حسین ہو تو مرد اپنا دل ہار بیٹھتا ہے پر اگر مرد کی آنکھ حسین ہو تو عورت جوگن بن جاتی ہے اپنا آپ وارنے کو تیار ہوجاتی ہے

۔تیمور خان کی آنکھوں میں بھی وہی جادو تھا۔جس سے وہ خوب واقف تھا۔وہ ایک محبت بھری نظر سے اگر دیکھ لیتا تو جنس مخالف اس پر اپنی جان وار دیے۔

اس وقت سنجیدہ چہرہ ، روشن آنکھیں والا تیمور ولی خان سوچوں کے جال میں پھنسا تھا۔اس کی شرٹ کے دو بٹن کھلے اور آستینیں کہنیوں تک فولڈ ہونے کی وجہ سے اسکے مضبوط بازو دکھائی دے رہے تھے۔وہ ایک لمبا چوڑا مضبوط مرد تھا وہ جو اپنے اندر پہاڑوں سے ٹکرانے کی قوت رکھتا ۔اسکے براؤن بال منتشر تھے۔پر کشش آنکھوں میں عجیب سی کیفیت تھی۔لمبی سانس کھینچ کر اسنے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ لبوں سے لگایا۔

وہ ہر رات یونہی گھنٹوں اس پوزیشن میں بیٹھا ہال میں لگی ایک فیملی انلارج فوٹو کو دیکھتے گزار دیتا تھا۔ نہ جانے کتنی سوچیں اس کے زہن میں آتی تھیں اور وہ ان سوچوں کے زیر اثر مختلف کیفیات سے گزرتا تھا۔ اچانک فون کی بیل بجی اور اس کا دھیان اس تصویر سے ہوتا ہوا اپنے موبائل کی طرف گیا۔ اس نے بائیں ہاتھ سے کال ریسیو کی اور سپیکر سے پار اس دوسرے شخص کی بات سننے لگا۔ 

سر کل آپ آفندی صاحب کے ہاں پارٹی پر انوائٹڈ ہیں۔۔سپیکر کے پار اس کے سیکرٹری نے اسے شیڈول بتایا۔

"تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے ان چونچلوں کی عادت نہیں ہے"۔۔ تیمور خان کی غصیلی آواز گونجی اور اس نے فون بند کر دیا۔ 

اس نے ایک نظر سیڑھیوِ سے اوپر جاتے ایک کمرے پر ڈالی ۔۔۔

 اب اس چہرے پر اداسی کا بسیرا تھا۔۔ تیمور خان کے بدلتے تاثرات سمجھ سے باہر تھے۔ مگر بہت جلد یہ حقیقت بھی آشکار ہوجانی تھی۔۔۔

وہ دیوار پھلانگتا ہوا کھڑکی کے راستے اس کمرے میں داخل ہوا۔خوش قسمتی سے کھڑکی کھلی تھی ۔کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی نے فسوں خیز ماحول پیدا کر رکھا تھا سامنے ہی وہ دنیا جہاں سے بیگانہ اپنے بیڈ پر لیٹی سو رہی تھی۔ ایک دھیمی مسکراہٹ تیمور ولی خان کے ہونٹوں کو چھو کر گزری۔۔

 وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز کے زیر اثر سو رہی ہے۔ ریڈ نائٹی سے جھلکتے اس کے دودھیا بازو ، گلابی ہونٹ بکھرے بھورے بال وہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت تیمور ولی خان کا ایمان ڈگمگانے والی تھی۔ تیمور ولی خان آہستہ سے اس کے گال پر جھکا اور اسے اپنے ہونٹوں سے چھوتا ہوا اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے بولا ۔

Happy birthday to you baby doll

سرگوشی کرتے ساتھ تیمور ولی خان نے اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ ثبت کیے۔

  اس سے پہلے کہ وہ مزید بہکتا اس نے وہاں سے جانا مناسب سمجھا۔ وہ ویسے ہی دیوار پھلانگتا واپس چلا گیا۔ جوں ہی وہ اپنی گاڑی کے پاس پہنچا تو اس نے ایک نظر اپنے پیچھے موجود اس حویلی پر ڈالی۔۔

اور اس کے تاثرات سنجیدہ ہوگئے۔ غصہ سنجیدگی درشتگی کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں ۔ اس کا سیکرٹری حمزہ جو اس کا واحد دوست تھا اس نے تیمور کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا 

"تیمور ولی خان خود کو ازیت دینا بند کردو یا پھر ان کو معاف کردو۔"۔ حمزہ کی بات سنتے ہی وہ تلخی سے مسکرایا۔

"جو آپ کو برباد کردے آپ اسے برباد کردو یہ اصول تھا یہی اصول ہے اور یہی اصول رہے گا"

تیمور ولی خان کی سنجیدہ آواز حمزہ احمد کو بہت کچھ باور کراچکی تھی۔



جاری ہے۔۔۔ 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)