Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 11
- - -
بریرہ نیند سے بیدار ہوتی فریش ہوکر کپڑے چینج کرتی گرین ویسٹرن سٹائل کا ڈریس پہنے تیار کھڑی تھی۔اس کا بالکل دل نہیں تھا پارٹی میں جانے کا لیکن اس کے پیرنٹس کی مسلسل کالز اور میسجز نے اسے مجبور کیا تھا آج پارٹی میں وہ اسے اس کے ہونے والے فیانسی سے ملوانے والے تھے۔۔
بریرہ بےزار سی اپنا کلچ اٹھاتی اور موبائل تھے باہر نکلی تھی۔افرحہ کو فلیٹ میں کہیں بھی موجود نہ پاکر اس کو انفارم کرنے کے لیے وہ سٹکی نوٹس پر اپنے جانے کا لکھ کر فریج سے لگا گئی تھی۔۔
یہ پارٹی اس کے پیرنٹس کی کمپنی کے اینول ڈنر کے لیے رکھی گئی تھی۔پارٹی میں داخل ہوتے ہی اس کی جانب کئی نگاہیں متوجہ ہوئی تھیں۔
وہ گردن اکڑاتی اپنی پیرنٹس کو دیکھتی ان کی جانب گئی تھی۔وہ جاتے ہوئے ویٹر سے وائن کا گلاس لے کر بھی اپنے اندر انڈیل چکی تھی۔۔تاکہ ٹھنڈے دماغ سے اپنے پیرنٹس سے بات کرسکے۔۔
"واٹ دا ہیل از رونگ ود یو۔۔ہم ایک گھنٹے سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔۔اور تم ہماری کالز اور میسجز کا بھی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔"
مسز شہروز غصے سے اپنی آواز دھیمی رکھتی ہوئی بولی تھیں۔۔
"ٹریفک جام میں پھنس گئی تھی اور فون کی طرف میرا دھیان نہیں گیا موم۔۔"
وہ لب بھینچ کر تمیز کے دائرے میں رہتی ہوئی بول رہی تھی۔۔
"شٹ اپ بریرہ ابھی جسٹن اسی طرف آرہا ہے۔۔کوئی بھی بدتمیزی کرنے کی کوشش مت کرنا۔۔"
شہروز صاحب سنجیدگی سے سخت لہجے میں بولے تھے۔۔
بریرہ نے زور سے اپنے لب اور مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔
"آپ ایک نان مسلم سے میری شادی کر رہے ہیں۔۔؟"
وہ جسٹن کا نام سنتی غصے کی شدت سے کانپتی پوچھ رہی تھی۔
"اوہ کم اون ہنی اٹس ناٹ آ بگ ڈیل۔۔"
مسز شہروز مسکراتے ہوئے اس کے بازو کو دباتے ہوئے بولی تھیں۔۔بریرہ کے منہ سے ایک تکلیف دہ سسکی نکلی تھی۔۔جسٹن کے ان کے قریب آنے پر مسز شہروش نے اس کا بازو آزاد کیا تھا۔۔
"ہیلو جسٹن۔۔کیسے ہو تم ؟"
مسز شہروز مسکرتے ہوئے جسٹن سے گلے ملی تھیں۔۔بریرہ کو بےساختہ ان لوگوں سے کراہت محسوس ہوئی تھی۔۔منہ پر ہاتھ رکھتے اس نے بےساختہ آنے والی قے کو روکا تھا۔۔
"ہائے سویٹ ہارٹ یو آر لوکنگ بیوٹیفل۔۔"
جسٹن بریرہ کی طرف مڑتا مسکراتا ہوا اس کے گال پر جھکا تھا۔۔جب اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے بریرہ نے اس کو روکا تھا۔۔
"میں اس سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔۔"
جسٹن کو پیچھے دھکیلتی وہ شہروز صاحب سے غصے میں بولتی جانے لگی تھی جب مسز شہروز کا ہاتھ بےساختہ اٹھا تھا اور بریرہ کے دائیں گال پر چھاپ چھوڑ گیا تھا۔۔
ہال میں ایک دم خاموشی چھا گئی تھی۔۔بریرہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھتے ایک کٹیلی نظر ان دونوں پر ڈالی تھی۔اپنے ہاتھ میں موجود بیگ پر گرفت مضبوط کرتی وہ بنا کسی کی طرف دیکھے تیزی سے چلتی وہاں نکل گئی تھی۔
ہال سے باہر نکلتے ہی آنسو اس کی آنکھوں سے نکلتے گال ہر بہنے لگے تھے۔۔گاڑی میں بیٹھتے سٹیرینگ ویل پر سر ٹکاتے وہ اونچی آواز میں رونے لگی تھی۔۔
پانچ منٹ بعد خود کو سنبھالتے اس نے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تھا اس کا گال ہلکا ہلکا سرخ ہوگیا تھا۔۔اس نے سسکی روکتے کار اسٹارٹ کی تھی۔کار فل سپیڈ سے چلاتے ایک بار پھر اپنے چہرے پر پڑنے والے تھپڑ کو یاد کرتی وہ شدت سے رو پڑی تھی۔
آنسووں کی وجہ سے اسے کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔بےدھیانی سے اسے مین روڈ پر ریڈ سگنل نہیں دکھا تھا تبھی سامنے سے آتی اکر میں اس کی کار زور سے ٹکرائی تھی۔اس کے بعد اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا۔۔
اس کی آنکھ جب کھلی تو اس نے خود کو ہوسپٹل میں پایا تھا۔۔اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔۔اس کا ہاتھ بےساختہ اپنے سر پر گیا تھا جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔
"اوہ فائنلی میڈم کی آنکھ کھل ہی گئی۔۔"
جانی پہچانی آواز سنتے اس نے دائیں جانب دیکھا تھا جہاں۔صوفے پر بیٹھا عادل اپنے پولیس یونیفارم میں ملبوس اسے گھور رہا تھا۔۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو آلو۔۔؟"
"اور مجھے کیا ہوا ہے۔۔؟"
وہ اپنا سر تھامتی بےزاریت سے پوچھ رہی تھی۔۔
"تمھارا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔۔کیونکہ تم نے ریڈ سگنل کروس کیا تھا۔۔تمھارے سر پر چوٹ آئی ہے ویسے کچھ نہیں ہوا۔دوسری گاڑی میں جو شخص موجود تھا اسے ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں ہیں۔۔میں نے اسے بہت مشکل سے تمھارے خلاف کیس کرنے سے روکا ہے۔۔لیکن ایک بری خبر ہے۔۔"
عادل بولتا ہوا آخر پر افسوس سے اسے دیکھنے لگا تھا۔۔بریرہ کا دل بےساختہ دھڑکا تھا۔۔
"کیسی بری خبر ؟"
اس نے اپنا خشک گلا تر کرتے کانپتی آواز میں پوچھا تھا۔۔
"حادثے کے دوران تمھارا دماغ کہیں گرگیا ہے۔۔"
عادل مسکراہٹ دباتا بولا تھا۔۔بریرہ نے غصے سءے اسے گھورا تھا۔۔اپنے دائیں جانب موجود ٹیبل سے اٹھاتے شیشے کا گلاس اس نے عادل کی طرف پھینکا تھا جو ہنستا ہوا بروقت پیچھے ہٹ گیا تھا۔۔
"بدتمیز آلو۔۔۔تمھارے پاس عقل نام کی چیز ہی نہیں ہے۔۔آہہ۔۔"
غصے سے بولتے اچانک سر میں درد سے اٹھنے والی لہر محسوس کرتے وہ خاموش ہوگئی تھی۔۔
"تمھیں کچھ دیر تک یہ درد محسوس ہوتا رہے گا۔۔زیادہ چیخو مت اس سے تمھارا بھی نقصان ہوگا اور میرے کان کر پردے بھی متاثر ہوں گے۔۔"
عادل اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا بولا تھا۔۔بریرہ نے اسے گھورا تھا۔
"کیا ٹائم ہو رہا ہے۔۔"
بریرہ نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا تھا۔۔
"صبح کے تین بج رہے ہیں۔۔۔تمھیں ڈسجارج کر دیا گیا ہے۔۔میں تمھارے اٹھنے کا ہی انتظار کر رہا تھا تاکہ تمھیں گھر چھوڑ سکوں۔۔"
عادل اپنی ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
"خیریت اتنے مہربان ہو رہے ہو؟"
وہ اٹھتی ہوئی اسے گہری نظروں سے دیکھتی پوچھنے لگی۔۔
"میں اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں۔۔اب چپ چاپ چلو۔۔"
عادل ایک دم سنجیدہ ہوتا بولا تھا۔۔بریرہ آنکھیں گھماتی اٹھی آہستہ سے اٹھتی اس کے پیچھے چلنے لگی تھی۔
"یہ تمھاری میڈسن ہے ساتھ پرسکریپشن بھی ہے۔۔یاد سے میڈسن لے لینا۔۔اس سے بہتر محسوس کرو گی۔۔"
اسے بلڈنگ کے سامنے ڈراپ کرتے عادل نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔بریرہ دھیمی آواز میں اسے شکریہ ادا کرتی اندر چلی گئی تھی۔۔
افرحہ چار دن سے بریرہ کا بہت زیادہ خیال رکھ رہی تھی اور اسے کہیں جانے بھی نہیں دے رہی تھی۔۔زید بھی کل کی فلائٹ سے پاکستان جاچکا تھا جس پر افرحہ نے سکون کا سانس لیا تھا ورنہ موقع پاتے ہی وہ اس کے پاس پہنچ جاتا تھا۔۔
افرحہ کا ٹیسٹ بھی بہت اچھا ہوگیا تھا۔جس پر وہ شاہزیب کی مشکور تھی جس نے اس کی تیاری میں مدد کی تھی۔
آج اس کے ٹیسٹ کا رزلٹ تھا۔اسے خواہ مخوہ ہی گھبراہٹ ہورہی تھی۔شاہزیب کے کلاس میں داخل ہوتے ہی وہ شدید نروس ہوگئی تھی۔
"میں آپ لوگوں کے ٹیسٹ چیک کر چکا ہوں۔۔آپ میں سے جو تین لوگ سلیکٹ ہوئے ہیں ان کے سب سے بہترین ٹیسٹ تھے۔۔تین لوگ جو سلیکٹ ہوئے ہیں وہ ہیں چارلی، جان اور افرحہ۔۔"
افرحہ جو آنکھیں بند کرتے سن رہی تھی۔۔شاہزیب کے نام لینے پر اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی تھیں۔اس کی چہرے پر ایک جان دار مسکراہٹ نمایا ہوئی تھی۔۔
افرحہ کی نظریں بےساختہ شاہزیب کی نظروں سے ملی تھیں۔۔جس کے ہونٹ افرحہ کو ہلکے سے اوپر اٹھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔۔
افرحہ کا دل ایک دم تیزی سے دھڑک اٹھا تھا۔۔شاہزیب کی نظروں کی شدت نے اسے نگاہیں جھکانے پر مجبور کر دیا تھا۔
"آپ تینوں کو وینیو اور ٹائمنگ آج شام تک ای میل کردی جائے گی۔۔امید ہے آپ تینوں کو وہاں سے کچھ سیکھنے کو ملے گا۔۔"
شاہزیب بولتا ہوا تینوں کی طرف دیکھتا کلاس ڈسمس کرگیا تھا۔۔
وہ شاہزیب سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن چارلی نے اسے روک لیا تھا۔۔چارلی سے بات کرتی وہ شاہزیب کے آفس میں گئی تھی۔۔
دھڑکتے دل سے ناک کرتے اجازت ملنے پر اندر داخل ہوتے افرحہ مسکراتے ہوئے شاہزیب کو دیکھتے بولنے لگی تھی۔۔
"میں نے آپ کو کہا تھا نہ اس بار میں اے پلس لے کر دکھاوں گی۔۔"
افرحہ مسکراتے ہوئے بولی تھی شاہزیب نے ائبرو اچکاتے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔
"تمھیں بہت بڑی غلط فہمی ہے بی گریڈ ہے تمھارا۔۔وہ بھی میں نے بہت مشکل سے دیا ہے۔۔"
شاہزیب اس کا گہری نظروں سے جائزہ لیتا بولا جو براون کرتے اور جینز میں بلیک کوٹ پہنے گلے میں مفلر ڈالے بالوں کی پونی بنائے مسکراتی ہوئی اس کے حواسوں پر چھا گئی تھی۔
"اب آپ جان بوجھ کر ایسا بول رہے ہیں۔۔"
افرحہ منہ بناتے ہوئے بولی تھی۔۔
"اور میں ایسا کیوں کروں گا۔۔؟"
کوہنیاں ٹیبل پر ٹکائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساتے ہوئے شاہزیب نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
"کیونکہ آپ مجھ سے جل رہے ہیں۔۔میں نے آپ کو غلط ثابت کردیا۔۔"
افرحہ اتراتے ہوئے بولی تھی۔شاہزیب نے بھنویں بھینچ کر اسے گھورا تھا۔۔
"زیادہ ہوا میں اڑنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی تمھارا گریڈ چینج کردوں گا۔۔"
شاہزیب کے سنجیدگی سے بولنے پر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔
"آپ ایسا نہیں کرسکتے۔۔"
وہ لب کاٹتی بولی تھی۔۔
"مجھے چیلنج کر رہی ہو؟"
شاہزیب نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے پوچھا۔۔اس کی نظر بےساختہ افرحہ کے ہونٹوں پر گئی تھی۔۔جنھیں دانتوں تلے دبائے وہ ان کا خون نکالنے والی ہوگئی تھی۔
"ن۔۔نہیں میں ویسے ہی بول رہی ہوں۔۔اچھا میں چلتی ہوں میری کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔"
افرحہ تیزی سے بولتی اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر نکل گئی تھی۔۔
"ایڈیٹ۔۔۔"
وہ دھیرے سے مسکراتا بڑبڑایا تھا۔
کانفرنس کا دن تھا آج اس کی کوئی کلاس بھی نہیں تھی۔۔بریرہ کے ساتھ سارا دن گزارتی وہ شام کو تیار ہونے لگی تھی۔۔سکن کلر کا لونگ سلیو ویسٹرن سٹائل کا گاون پہنے افرحہ تیار کھڑی تھی۔بریرہ نے اس کا لائٹ میک اپ کر دیا تھا اب وہ اس کے بالوں میں لوز کرل ڈال رہی تھی۔۔
"میں زیادہ اوور تو نہیں لگ رہی ؟"
افرحہ نے خود کو شیشے میں دیکھتے گھبراتے ہوئے بریرہ سے پوچھا۔۔
"نہیں برڈی تم ایک دم ہوٹ اور ڈیسنٹ لگ رہی ہو۔۔"
بریرہ کے ایک آنکھ دبا کر بولنے پر افرحہ کے گال سرخ ہوگئے تھے۔۔
"بہت بدتمیز ہو تم۔۔"
افرحہ اپنے گالوں پر اپنے ٹھنڈے ہاتھ رکھتی خفگی سے بولی تھی۔بریرہ اس کے بولنے پر ہنس پڑی تھی۔افرحہ کو پک کرنے چارلی آرہی تھی۔وہ ہی اسے لے کر وینیو پر جانے والی تھی۔۔
"اپنا خیال رکھنا برڈی۔۔"
بریرہ سے ملتی چارلی کا میسج ملنے پر وہ فلیٹ سے نکل گئی تھی۔۔
مطلوبہ وینیو میں پہنچتے گاڑی سے نکلتے ہی ان کا سامنا جان اور شاہزیب سے ہوا تھا۔۔
افرحہ پر نظر پڑتے ہی شاہزیب ساکت ہوا تھا۔لائٹ میک اپ میں سکن گاون اس پر انتہائی حسین لگ رہا تھا۔۔جان کی نظر بھی افرحہ پر محسوس کرتے شاہزیب نے اپنے جبڑے بھینچے تھے۔۔بلیک پینٹ کوٹ میں وہ کافی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔
"ہمیں اب اندر چلنا چاہیے۔۔"
شاہزیب سنجیدگی سے افرحہ کی طرف دیکھے بنا بولا تھا۔۔افرحہ کو شاہزیب اندر جانے کے بعد نظر انداز کرنے لگا تھا جسے افرحہ کے ساتھ چارلی اور جان بھی محسوس کر رہے تھے۔۔
کانفرنس کے درمیان بریک ہونے پر سب لوگ ریفریشمنٹس سے لطف اندوز ہورہے تھے۔افرحہ موقع پاتے ہی اکیلے کھڑے شاہزیب کے پاس گئی تھی۔۔
"آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں۔۔؟"
افرحہ نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ اس کا نظر انداز کرنا اسے بری طرح پریشان کر رہا تھا۔
"میں ایسا کیوں کروں گا ؟"
شاہزیب بنا اس کی طرف دیکھے ہاتھ میں پکڑے وائن کے گلاس کو گھورتا ہوا جوابا پوچھ بیٹھا۔۔
"مجھے محسوس ہو رہا ہے ایسا۔۔۔کیا میں نے کچھ غلط کیا ہے۔۔؟"
افرحہ نے لب دباتے نظریں جھکائے اس سے پوچھا تھا۔
"تمھیں یہاں لانا ہی میری سب سے بڑی غلطی ہے۔۔"
شاہزیب اسے دیکھے بنا زہر خند لہجے میں بولا تھا۔۔افرحہ کے اندر چھنا کرکے کچھ ٹوٹا تھا۔
"آپ بہت برے ہیں۔۔"
وہ اپنا ڈریس مٹھیوں میں زور سے بھینچتی نم آواز میں بولتی تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔شاہزیب کی نظروں سے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔۔
"شٹ۔۔یہ میں نے کیا کر دیا۔۔"
اپنا ماتھا مسلتا وہ بڑبڑایا تھا۔اسے شدید افسوس ہو رہا تھا افرحہ سے اس طرح بات کرنے پر۔۔وہ سب کی نظریں افرحہ پر دیکھ سکتا تھا۔جس سے اسے شدید جھنجھلاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔وہ خود بھی افرحہ سے نظریں ہٹا نہیں پا رہا تھا تبھی وہ اسے دیکھنے سے گریز کرتا اسے اگنور کر رہا تھا۔۔
افرحہ کو ہال سے باہر نکلتے دیکھ کر وہ اس کے پیچھے جانا چاہتا تھا۔لیکن اس کے ایک کولیگ نے اسے روک لیا تھا۔۔
افرحہ اپنے آنسو بمشکل روکتی واشروم میں فریش ہونے گئی تھی۔۔شیشے میں خود کو دیکھتے بےساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلتے اس کی گال پر بہہ گئے تھے۔۔
"میں اب کبھی بھی ان سے بات نہیں کروں گی۔۔"
بےدردی سے اپنے آنسو پونچھتی وہ اپنے بگڑتے ہوئے تنفس کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اس کے ہاتھ شدتِ جذبات سے کانپ رہے تھے۔۔لب دبا کر اپنی سسکی روکتے اس نے اپنے کلچ سے ٹیشو نکالتے اپنی آنکھوں کے نیچے پھیلتا لائنر فورا صاف کرتے میک اپ سے وہ ٹھیک کیا تھا۔۔
"کھڑوس۔۔سڑیل۔۔اللہ پوچھے۔۔"
وہ اپنے کانپتے لبوں کو زور سے بھینچتی بول رہی تھی۔۔
"پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔۔"
وہ غصے سے شیشے میں خود کو دیکھتی بڑبڑا رہی تھی۔
جب دروازہ کھلنے کی آواز پر دائیں طرف دیکھتے کسی انجان آدمی کو واشروم میں داخل ہوتے دروازہ لاک کرتے دیکھ کر افرحہ کی آنکھیں پھیل گئی تھی۔۔
جاری ہے۔۔