ZombieWar - Episode 4

0


 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 4

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu


- - -


اتنے بڑے آدمخوروں کے گروہ کو اپنی جانب آتے دیکھ کر ان دونوں کے چہروں پہ ہوائیں آڑنے لگیں۔ کاظم نے جلدی سے اپنا کھلا ہوا منہ بند کیا اور بھاگنے کے لیے پیچھے والے راستے کا انتخاب کر کے دوڑ لگا دی۔ پھر کاظم دوبارہ واپس آیا اور چیخیں مار رہی بریعہ کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر اسی پچھلے دروازے کی طرف لے بھاگا۔ آدمخور ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کے نیچے کچلے جا رہے تھے اور پیچھے سے دوبارہ اٹھ کر دوڑ لگا رہے تھے۔ کاظم جب پیچھے کے دروازے سے باہر نکلا تو سامنے ایک اور چھوٹا سا گروہ تھا۔ان آدمخوروں کا جن میں کوئی سات یا آٹھ آدمخور ہونگے اور وہ کسی دوکان میں شیشے کے دوسری جانب تھے لیکن وہ سب کسی اور کام میں مصروف تھے۔ ان دونوں کو دیکھ کر وہ آدمخور ان کے طرف دوڑے مگر بیچ میں شیشہ ہونے کے وجہ سے وہ اس سے باہر نہ آسکے پر اس شیشے کو توڑنے میں مگن ہو گئے۔ وہ دونوں یہ دیکھ کر ان کے طرف سے مطمئن ہوگئے کہ یہ تو اب باہر نہ آسکیں گے لیکن ایک مصیبت پیچھے سے بھی آ رہی تھی۔ تو پھر سے انھوں نے دوڑ لگا دی۔ وہ سب آدمخور جو پیچھے اسے آرہے تھے ایک منٹ کے لیے غائب ہو گئے تھے اسی ریسٹورنٹ میں۔ کاظم اور بریعہ جلدی سے بنا سوچے سمجھے کار میں بیٹھ گئے لیکن یہ کوئی انگلش فلم تو تھی نہیں۔ یہ پاکستان تھا اسی لیے گاڑی میں چابی ہی نہیں تھی اتنے میں وہ شیشے کے دوسری جانب پھنسے آدمخور بھی شیشے کو توڑ کر باہر آ نکلے۔ بریعہ ہڑبڑی میں جلدی سے کار سے نکلی اور ایک طرف بھاگ گئی۔اسے یہ امید تھی کہ کاظم بھی پیچھے پیچھے آ رہا ہو گا اور بنا پیچھے دیکھے دوڑتی گئی۔ جب کاظم نکلنے لگا تھا تو اسے وہ ریسٹورنٹ میں سے آدمخور جو کہ شیشہ توڑ چکے تھے، باہر نکلتے ہوئے نظر آگئے بریعہ کافی دور نکل چکی تھی۔ پر کاظم کو یقین تھا کہ اب اگر وہ باہر نکلا تو بہت جلدی ہی آدمخوروں کا لقمہ بن جائے گا۔ اس لیے اب وہ اسی کار میں بیٹھ کر درودشریف پڑھنے لگا۔ وہ سب آدمخور اب اکٹھے ہوکر کار پر حملہ ور ہوگئے جس میں کاظم موجود تھا۔ انھوں نے بریعہ کو بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آدمخور کار کی توڑ پھوڑ کرنا شروع ہو گئے۔ کچھ کار کے اوپر بھی چڑھ گئے ۔ کاظم اب اکیلا ان کے ہتھے نہیں لگنا چاہتا تھا۔ وہ اکیلا تھا اور آدمخور کم از کم بھی پچاس  ہونگے۔ دوسری طرف بریعہ بھی بھاگتے ہوئے کسی کھلے دروازے والے مکان کے اندر گھس کر چھپ گئی۔ اس گھر کے اندر کافی اندھیرا تھا۔جسے بریعہ نے ابھی تک نوٹس نہیں کیا تھا۔بریعہ نے جلدی سے باہر جھانک۔

ارے یہ کہاں رہ گیا۔۔ کہیں وہ ان کے ہتھے تو نہیں لگ گیا۔۔ نہیں بابا نہیں۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ابھی دیکھتی ہوں۔

یہ کہہ کر وہ باہر جانے لگی لیکن جلدی ہی رک گئی۔ شاید اسے کسی اور آدمخور نے بھی اندر آتے دیکھ لیا تھا۔ بریعہ نے اس آدمخور کو اسی گھر کی طرف بڑھتے دیکھا جس میں وہ خود تھی۔ تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی۔ یہ والا آدمخور بہت ہی بدصورت تھا۔ یہ شاید بہت زیادہ انفکٹ ہوا تھا اس وائرس سے۔ اس کا منہ بھی چمگادڑ کی طرح تیکھا تھا مگر بہت بڑا بھی تھا۔ اس کی جسامت بھی بہت زیادہ تھی۔ اس کی پیٹھ میں سے دو پر نکل رہے تھے جو کہ ابھی زیادہ بڑے نہیں تھے لیکن نکل رہے تھے۔ بریعہ کی ڈر سے چیخ نکلنے والی تھی مگر اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی آواز ختم کی۔ بریعہ کی ڈر سے سانسیں پھولنے لگی تھی۔ وہ اندر اندھیرے کی طرف دوڑ گئی ۔ وہ سامنے دیوار سے ٹکرا گئی اور وہیں پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی ۔ وہ بھیانک آدمخور آگے بڑھ رہا تھا۔ اُسے بھی اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن آدمخور اپنی سونگھنے کی حس استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ بریعہ بھی اپنے گھٹنوں پر رینگتی ہوئی دوسری طرف بڑھنے لگی۔ اس آدمخور سے دور۔ وہ مکمل طور پر ڈری ہوئی تھی۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے وہ پیچھے اس آدمخور کی طرف بھی دیکھے جا رہی تھی۔ وہ آدمخور ابھی بھی سیدھی جانب بڑھ رہا تھا۔جس جانب وہ پہلے جا رہا تھا۔ تبھی بریعہ کی اندھیرے میں ایک اور ٹکر ہوئی۔ وہ کوئی سٹال تھا جس میں سے برتن نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔ بریعہ وہیں بیٹھ گئی اور ایک سیکنڈ کے لیے دیکھا کہ اس سے کیا ٹوٹ گیا ہے۔ اُدھر وہ آدمخور یہ آواز سن کر جلدی سے اسی کی طرف بڑھا اور بریعہ بھی ایڑھیاں رگڑتے ہوئے اپنے پیچھے یعنی اس آدمخور سے دور جانے لگی۔ دور دیور سے جا لگی اور اپنے منہ پر بھی ہاتھ رکھ کر زور سے دبا دیا تا کہ غلطی سے بھی کوئی آواز ا پیدا نہ ہو۔ وہ آدمخور اب اُسی کی طرف آگے بڑھا اور وہ غُرا رہا تھا اور منہ میں سےلعاب بہہ رہا تھا جو کالے اور بھورے رنگ کا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر وہاں پہنچ رک گیا جہاں پر وہ پلیٹیں گِریں تھیں۔ پھر اس نے دوبارہ کچھ سونگھا اور ان پلیٹوں کو روند کر آگے بڑھا۔ وہ منہ نیچے کیے ٹیڑھا ہوئے اپنی بڑی جسامت کو جھکائے سونگھتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ کبھی وہ ادھر سر کر کے گھورتا اور سونگھتا تو کبھی اس طرف منہ کر کے گھورتا اور سونگھتا بھی۔ بریعہ اسے دیکھ بہت گھبرا گئی۔ وہ آدمخور جس کے سر کا سائز بریعہ کے سر کے چار گنا تھا۔ وہ آدمخور سونگھتے ہوئے اتنا قریب پہنچ گیا کہ اگر بریعہ سانس لیتی تو وہ اساس کی موجودگی پہچان لیتا۔

 بریعہ کے سامنے صرف چار انگلیوں کے فاصلے پر اس آدمخور کا منہ تھا لیکن وہ آدمخور اپنی سونگھنے کی حس سے اسے اچھے سے اسے پہچان نہ سکا جس کی وجہ اس آدمخور کے جسم کی ایک نئے سرے تعمیر تھی اور وہ آدمخور مزید آگے بڑھنے لگا بریعہ بھی جھک گئی اور اس کی بڑی، بے ہودہ اور کھلی ٹانگوں کے بیچ سے رینگتے ہوئے اس آدمخور کے دوسری جانب نکل گئی۔ وہ آدمخور اگے بڑی آسانی سے دیوار توڑ کر آگے بڑھ گیا۔ اب تک تو وہ جھکا ہوا تھا پھر جب وہ کھڑا ہوا تو ڈھیڑھ منزل تک اس کا قد تھا۔ اس آدمخور کے اب سینگھ بھی نکلنے لگے تھے اور پیٹھ پر بھی جلد پھٹ کر دو چمگادڑ جیسے پر نکل آئے۔ جو بہت جلد بےرنگ سے کالے ہو گئے شاید اسے اب تکلیف ہوئی یا ویسے ہی عادتاً اس نے آسمان کی طرف منہ کر کے زوردار دھاڑ ماری۔ جو انتہائی خوفناک تھی۔ اس دھاڑ سے پہلے تو وہ آدمخور بھی خوف ذدہ ہوگئے جو کاظم کی کار کا ایک شیشہ توڑ چکے تھے اور پیچھے ہٹ گئے اور پھر بھاگ گئے۔ کاظم بڑی مشکل سے بچا تھا۔ اسے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں رہی تھی۔ اس نے گاڑی میں پڑے ایک پین سے ایک طرف سے گاڑی کے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے ان آدمخوروں کو آندر آنے سے روکے رکھا تھا۔ کاظم جلدی سے باہر نکلا اور جس طرف بریعہ گئی تھی اسی طرف ہو لیا مگر اسے وہ وہاں کہیں نظر نہیں آئی۔ اس نے وہ بڑا سا آدمخور نہیں دیکھا تھا اور وہ اسی کی طرف بڑھتے جا رہا تھا۔ کاظم ادھر ادھر اسے ڈھونڈتے دیکھتے ہوئے ایک لوہے کے ڈرم سے ٹکرایا تو اس سے بھی شور پیدا ہوا اور اسے اس بڑے آدمخور نے سن لیا جو بہت قریب کھڑا دھاڑ مارنے سے فارغ ہوا تھا۔ تو وہ آدمخور کاظم کی طرف بڑھنے لگا۔ کاظم نے ابھی تک اتنا بڑا دیوہیکل آدمخور نہیں دیکھا تھا۔ اسکے دانت اسے مزید خوفناک بنا رہے تھے یعنی وہ تقریباً ایک انسان، چوہے اور چمگادڑ تینوں کا مجموعہ تھا۔ وہ بڑا آدمخور کاظم کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ پر کاظم اسے دیکھ کر حیران ہوئے جا رہا تھا۔ کاظم جلدی ہی حوش سنبھال کے اسی ڈرم کو سیدھا کر کے اس کی پیچھے چھپ گیا۔ وہ آدمخور آگے بڑھتا ہوا ڈرم کی دوسری جانب پہنچا تو کاظم وہاں نہ تھا۔ وہ بھی ڈرم کہ دوسری جانب چلا گیا تھا اور پھر کہیں سے کاظم کی پیٹھ پر ایک چھوٹا کنکر لگا۔ اس نے کنکر اٹھا کے پیچھے دیکھا تو بریعہ اسے اسی طرف جلدی سے بھاگ آنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ تبھی اس دیوہیکل آدمخور نے ایک ٹانگ سے اس ڈرم کو آڑا دیا۔ اب کاظم بے سر و سامان بیٹھا بریعہ کا اشارہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اچانک ڈرم کو اڑتا دیکھ کر گھبرایا اور پوری رفتار سے بریعہ کی طرف اس تنگ گلی کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس آدمخور کی جسامت کی وجہ سے رفتار میں بھی کمی آگئی تھی۔ کاظم وہاں پہنچنے میں کامیاب تو ہو گیا پر کاظم کے پیچھے ہی آدمخور بھی بھاگا لیکن تنگ گلی میں گھس نہ پایا اور مکانوں کی توڑ پھوڑ کرنے لگا تاکہ آگے نکلنے کےلیے راستہ بنا سکے۔ کاظم اور بریعہ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ اس گلی میں سے ایک اور گلی میں داخل ہوگئے جو اس کے مقابلے میں تھوڑی کھلی تھی۔ وہاں ایک اور کار موجود تھی جو سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی تھی ۔ کاظم کو اس کی جگہ دیکھ کر لگا کہ اس میں چابی ضرور ہوگی۔ وہ جلدی سے اس کے اندر داخل ہوا جبکہ بریعہ باہر ہی رہی اور گلی کی شناخت کرنے لگی۔ تبھی وہ آدمخور بھی مکانوں کے بیچ میں سے جگہ بناتے ہوئے وہاں پہنچنے والا تھا۔ بریعہ کا دھیان اب اس آدمخور کی طرف تھا۔ تبھی کاظم نے گاڑی سٹارٹ کر لی اور بریعہ یکدم سے کار کے اندر بیٹھ گئی۔

چلانی آتی ہے کہ نہیں۔۔جلدی کر نھیں تو ادھر آ جا۔۔میں چلا لیتی ہوں۔بریعہ بولی جو کی مکمل ٹینشن میں تھی۔ کاظم گاڑی چلانے کی بجائے اسے اپنی آبروؤں کو اوپر نیچے کر کے گھورنے لگا اور جب وہ بہت قریب پہنچ گیا تو بریعہ نے باہر نکلنے کے لیے دروازے کے ہینڈل کو پکڑا۔ تبھی کاظم نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا لی۔

او ہو۔۔۔ اندھے ہو کیا۔۔بریعہ غرائی اور اپنے بال ٹھیک کیے جو کہ کار کے جھٹکے سے آگے آگئے تھے۔ 

پھر کاظم نے پوری رفتار سے گاڑی بنا کسی منزل کے اک راستے پر بڑھا دی کاظم کی دماغ میں اس وقت شہر سے جلد از جلد نکلنا تھا۔ بریعہ پیچھے اس آدمخور کی طرف جھانک رہی تھی جس کی نظروں سے وہ دونوں جلدی ہی اوجھل ہو گئے۔ انھیں راستے میں بہت سی راشیں پڑی دیکھیں۔ بہت تباہی مچی ہوئی تھی اس وائرس کی وجہ سے۔ جسے اس سے پہلے انھوں نے صرف فلموں میں ہی دیکھا تھا لیکن سچ میں جب آنکھوں کے سامنے وہ مناظر آئے تو دل دہلنے لگے تھے۔ ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ کاظم نے اپنے آنسو پونچھے تو بریعہ کا دھیان بھی کاظم کی طرف ہو گیا۔ بریعہ نے ایک ٹھنڈا سانس اپنے سینے میں بھرنے کی ناکام کوشش کی اور کاظم سے بولی۔

میں بریعہ ہوں اور تم۔۔ بریعہ نے بھی آنسو پونچھ کر اس کی ہاتھ بڑھایا لیکن کاظم کا دھیان بریعہ سے پہلے دور کھڑے دو انسانوں پر پڑا۔ تو بریعہ نے بھی انھیں دیکھا اور چونک گئی کہ کہیں یہ انفکٹڈز ہی نہ ہوں۔ انھیں خطرہ نہیں لینا تھا کیونکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ واقعی وہ انسان تھے یا وہی آدمخور کسی نئی قسم کے ساتھ نمودار ہوئے ہوں۔ جب کاظم اور بریعہ نے غور سے دیکھا تو ان دونوں کی حرکتیں انسانوں جیسی ہی تھیں پر پھر بھی وہ احتیاط کے طور پر بہت سنبھل کر گاڑی چلا رہا تھا۔ 

 ہیلپ۔۔ ہیلپ۔۔ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم انسان ہی ہیں۔۔ہم ان جانوروں جیسے نہیں ہیں۔ ہیلپ۔۔ ہیلپ۔۔

ان میں سے ایک شخص یہ صدائیں دے رہا تھا۔ کاظم نے قریب جا کر گاڑی روکی تو وہ دونوں جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ 

 پلیز گاڑی کو پوری رفتار سے جلد از جلد بھگا لو اور یہاں سے نکلو۔۔جلدی۔۔انھوں نے ابھی ہماری آواز سن لی ہو گی وہ درندے کہیں نہ کہیں پہنچ چکے ہونگے۔۔۔۔جلدی بھگاؤ اس گاڑی کو۔۔

کاظم نے گاڑی بھگائی اور شہر سے باہر نکلنے والے راستے پر چل دیا۔جلد ہی گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ ایک لمبے سفر کے بعد اب وہ کسی ریگستان میں تھے۔ شاید وہ تھل کی صحرا میں پنجاب تک پہنچ چکے تھے۔ ان کی گاڑی بہت لمبے سفر کے بعد بند ہو گئی۔ان دونوں میں سے ایک نے گاڑی میں پیٹرول میٹر کی طرف اشارہ کیا تو وہ بالکل ختم ہو گیا تھا۔ 

وہ۔۔۔میٹر ۔۔پیڑو ختم ہو گیا ہے لگتا۔

اب وہاں پر کسی مدد کے آنے کی بھی امید نہیں تھی اور وہ کار تھی پر اب بے کار تھی۔ تو اس کار کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھنا پڑا۔ اب وہ کسی ٹھکانے کی تلاش میں تھے جہاں پر وہ رات گزار سکیں لیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ چھوٹے آدمخور انھی کے پیچھا کر رہے ہیں۔ 


- - -

       جاری ہے۔۔۔ 


جی تو پھر کیسی لگی آج کی قسط اپنےی اپنی رائے کا اظہار لمبے لمبے کمنٹس میں ضرور کریں۔ تاکہ ہمارے دل کو بھی تسلی ہو۔۔۔ 😐😐😑😶😶


- - -

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)