Novel - Professor Shah
Zanoor Writes
Episode 13
- - -
افرحہ کا یونیورسٹی میں سارا دن کافی اچھا گزرا تھا جس سے وہ کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔وہ جلدی فری ہوگئی تھی۔اسی لیے ڈیپارٹمنٹ کی سڑھیوں میں بیٹھے اس نے شاہزیب کو میسج کیا تھا۔
"آپ کب تک فری ہوں گے؟"
میسج سینڈ کرتے اب وہ اس کے جواب کی منتظر تھی۔
چند منٹوں بعد ہی اسےجواب موصول ہوا تھا۔
"ابھی مجھے دو گھنٹے لگ جائیں گے۔۔تم ٹھیک ہو؟اگر کوئی پروبلم ہے تو مجھے فورا بتاو۔۔"
شاہزیب کا میسج پڑھتے اس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ نمایا ہوئی تھی۔
"نہیں۔۔میں ٹھیک ہوں بس جلدی فری ہوگئی تھی تو اب بور ہورہی تھی۔سوچا آپ سے پوچھ لوں کب تک فری ہوں گے؟"
اس نے لب کاٹتے تیزی سے موبائل کی سکرین پر لکھتے سینڈ کا بٹن دبایا تھا۔
"اچھا۔۔میں جلدی فری ہونے کی کوشش کروں گا۔۔"
شاہزیب کے میسج کو پڑھتے اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔اب اتنی دیر وہ یہاں اکیلی کیا کرتی۔۔
چند سیکنڈز بعد اپنے موبائل پر شاہزیب کی کال دیکھتے اس نے ہچکچاتے ہوئے کال اٹھائی تھی۔
"اس وقت کہاں ہوں ؟"
شاہزیب نے اسے کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر پوچھا
"اپنے گھر میں ہوں آپ بھی آجائیں۔۔"
اس نے لب دباتے ہوئے جواب دیا۔۔ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
"افرحہ آئی ایم سیریس۔۔۔جسٹ ٹیل می اس وقت کہاں ہوں۔۔"
شاہزیب کے سنجیدگی سے پوچھنے پر اس نے آنکھیں گھمائی تھی۔۔اس رات شاہزیب کی محبت والی بات یاد کرتے اس کے بےساختہ گال تپ اٹھے تھے۔۔
"مم۔۔میں ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی ہوں۔۔"
اس نے دھیمی آواز میں اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔
"لائبریری میں چلی جاو۔۔کوئی بک ریڈ کرلینا۔۔"
شاہزیب نے اسے سجیشن دی۔۔
"میرا دل نہیں کر رہا۔۔"
اس نے آنکھیں بند کرکے گہرا سانس لیتے جواب دیا۔۔
"اچھا۔۔لنچ کیا تم نے؟"
فکرمند سے لہجے میں پوچھا گیا۔۔
"جی میں نے لنچ کرلیا تھا۔۔"
افرحہ نے دھیمی مسکراہٹ سے جواب دیا اس کا فکر مند سا لہجہ اس کی دل کی تاڑوں کو چھیڑ رہا تھا۔۔
"اوکے ٹیک کئیر میں جلدی فری ہونے کی کوشش کروں گا۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔"
افرحہ کو ہدایت دیتا وہ کال بند کر گیا تھا۔۔افرحہ نے مسکراتے ہوئے فون اپنے سینے ساتھ لگایا جہاں اس کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔۔
وہ شاہزیب کے انتظار میں بیٹھی وقت گزارنے کے لیے کوئی ڈرامہ دیکھنے لگی تھی۔جس سے اسے وقت گزرنے کا علم بھی نہ ہوا تھا۔۔
شاہزیب کے میسج کرنے پر وہ بیگ کندھے پر ڈالتی یونیورسٹی سے نکلتی کورنر کی طرف چل دی تھی جہاں شاہزیب گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔
گاڑی میں بیٹھتے اس نے ایک نظر شاہزیب پر ڈالی تھی۔جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔افرحہ نے جھٹ سے نظریں موڑتے اپنی سیٹ بیلٹ باندھتے بیگ کو بیک سیٹ پر رکھ دیا تھا۔۔
شاہزیب اس کے یوں نظریں پھیرنے پر ہلکا سا مسکرایا تھا۔جووہ افرحہ کی نظروں سے چھپا گیا تھا۔
"کیسا گزرا دن ؟"
شاہزیب نے گاڑی سٹارٹ کرتے پوچھا۔۔
"آج کا دن بہت یاد گار تھا کیونکہ آپ جیسے عظیم شخص نے مجھے صبح ہی صبح زبردستی لفٹ جو دے دی تھی۔پھر دن تو میرا اچھا گزرنا ہی تھا۔اس کے علاوہ مجھے دو گھنٹے فضول میں سڑھیوں پر بیٹھ کر مکھیاں گننے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔جس کے لیے میں آپ کی بےحد مشکور ہوں۔۔"
وہ سنجیدگی سے تیز تیز بول رہی تھی۔۔
شاہزیب نے ایک نظر افرحہ پر ڈالی تھی۔۔اسے دوبارہ پہلے کی طرح بات کرتے اسے سکون ملا تھا۔۔ورنہ جس طرح وہ دو دن سے گھر میں بند تھی۔وہ کافی پریشان ہو گیا تھا۔اس کے ذہن میں ہر وقت افرحہ کا ہی خیال پچھلے کافی دنوں سے رہ رہا تھا۔۔
وہ اس کی سوچوں پر بری طرح قابض ہوچکی تھی۔شاہزیب نے سر جھٹک کر دوبارہ ڈرائیونگ پر فوکس کیا تھا۔لیکن اسے جواب دینا نہیں بھولا تھا۔
"آج کچھ زیادہ ہی تیزی سے تمھاری زبان چل رہی۔۔اس کا کچھ علاج کرنا پڑے گا۔۔"
شاہزیب پرسوچ انداز میں بولا تھا۔۔افرحہ نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔۔
"اب میں کچھ نہیں بولوں گی۔۔دیکھیے گا آپ میری آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے۔۔"
افرحہ بنا سوچے سمجھے بولی تھی۔۔شاہزیب نے اس کی الفاظ سنتے زور سے کار کو بریک لگائی تھی۔۔افرحہ کی طرف مڑتے اس نے اسے غصے سے دیکھا تھا۔۔افرحہ اس کے دیکھنے سے گھبرا گئی تھی۔۔
"ک۔۔کیا ہوا ؟ آپ نے بریک۔۔۔۔"
وہ سیدھی ہوتی پوچھ رہی تھی جب شاہزیب نے اس کی بات درشتگی سے کاٹی تھی۔۔
"شٹ اپ ہر وقت فضول بکواس کرتی رہتی ہو۔۔دوبارہ ایسا کچھ بولا تو خود تمھارا گلا گھونٹ کر تمھاری آواز بند کردوں گی۔۔پھر تم بولنے کے لیے ترس جاو گی۔۔"
اس کی طرف جھکتے شاہزیب ہر لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔افرحہ بری طرح گھراتی سیٹ سے چپک گئی تھی۔۔اس کو اپنی دھڑکنوں کا رقص کانوں میں سنائی دے رہا تھا۔
"س۔۔سوری۔۔"
وہ کنفیوز سی دھیمی آواز میں بڑبڑائی تھی۔۔شاہزیب نے اسے غصے سے گھورا تھا۔۔۔
ایک گہرا سانس خارج کرتے وہ اپنا غصہ کنٹرول کرتا گاڑی دوبارہ سٹارٹ کر چکا تھا۔۔
"یہ غصہ کسے دکھا رہے ہیں۔۔؟میں نہیں ڈرتی آپ سے جو کرنا ہے کرلیں۔۔"
افرحہ تھوک نگلتی بہادری کا مظاہرہ کرتی ائبرو اچکاتے بول رہی تھی۔۔شاہزیب نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی جو بہادر بننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"ہاں ہاں اب آپ مجھے گریڈز کی دھمکی دیں گے لیکن مجھے فر نہیں پڑتا۔۔"
وہ شاہزیب کو منہ کھولتے دیکھ کر ایک بار پھر بولی تھی۔۔
"تم صبح ناشتے میں کیا کھاتی ہو۔۔"
شاہزیب نے گلا کھنگارتے اسے گھور کر پوچھا تھا۔۔جس کی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"میں دیسی گھی کے پراٹھے کھاتی ہوں ان میں بڑی طاقت ہوتی ہیں لیکن اب وہ بھی کچھ دنوں سے نہیں کھا رہی لگتا ہے کسی کی نظر لگ گئی ہے۔۔"
وہ شاہزیب پر ایک نظر ڈالتی بولی تھی۔۔شاہزیب نے اس کی بات پر مسکراہٹ دبائی تھی۔۔اس سے بڑی ڈرامے باز اس نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔۔
"اوہ مجھے لگا کوے کھا کر آتی ہو تبھی ہر وقت چک چک کرتی رہتی ہو۔۔"
شاہزیب کے سنجیدگی سے بولنے پر اس کا منہ کھل گیا تھا۔۔
"آ۔۔آپ سڑے ہوئے انڈے کھا کر آتے ہیں تبھی اتنے سڑیل بنے پھرتے ہیں۔۔"
وہ لب دبا کر غصے سے اسے دیکھتی بولی تھی اب کی باری شاہزیب کا منہ کھلا تھا۔۔گاڑی کو بلڈنگ کے سامنے بریک لگاتے اس نے اس ٹڈی کو کٹیلی نظروں سے دیکھا تھا۔۔جو زبان دکھاتی گاڑی میں سے نکلتی اندر بھاگ گئی تھی۔
"ایڈیٹ۔۔"
شاہزیب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔
رات کا وقت تھا بریرہ آج کافی دنوں بعد باہر گئی تھی۔افرحہ کو اکیلے رہنے میں تھوڑا ڈر محسوس ہو رہا تھا لیکن خود کو سمجھاتے اس نے بریرہ کو یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
وہ کچھ دیر کے لیے سو گئی تھی۔چند گھنٹوں بعد اس کی آنکھ کھلی رات کے دس بج رہے تھے۔۔بھوک محسوس کرتے وہ بمشکل بیڈ سے اٹھتی اپنے لیے کچھ بنانے کا سوچتی فریش ہوکر کیچن میں داخل ہوئی تھی۔۔
فریج میں پیرا فروزن پیزا نکالتے اس نے اون میں رکھا تھا۔بریرہ کا خالی کمرہ دیکھ کر اسے یقین ہو گیا تھا۔کہ وہ کافی لیٹ ہی آئے گی۔
لاونج میں ٹی وی اون کرتی مووی لگا چکی تھی۔۔کچھ دیر بعد اون سے پیزا نکالتے وہ مزے سے بیٹھ کر کھانے لگی تھی۔جب اچانک دروازے پر ہوتی بیل نے اس کی دھڑکن بڑھا دی تھی۔۔پیزا اس کے کانپتے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا۔۔
ایک دم اس کے سامنے چند راتوں پہلے کا منظر آیا تھا۔۔اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی۔۔وہ تیزی سے اٹھتی کمرے میں بھاگی تھی۔
اپنا فون تیزی سے ڈھونڈتے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے مشکل سے شاہزیب کا نمبر ملایا تھا۔۔جو تیسری رنگ پر اٹھا لیا گیا تھا۔۔
"و۔۔وہ کک۔۔کوئی م۔۔میرے ف۔۔فلیٹ پر آیا ہے ب۔۔بریرہ گھر نن۔۔نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"
وہ ہانپتی ہوئی بمشکل الفاظ ادا کر پا رہی تھی۔شاہزیب جو نیند سے بیدار ہوتا اس کی کال سن رہا تھا۔تیزی سے اٹھ کر اپنی شرٹ پہنتے وہ باہر کی طرف بھاگا تھا۔۔
"افرحہ کالم ڈاوںن میں دیکھ رہا ہوں کون ہے۔۔تم خود کو سنبھالو پینک مت ہو۔۔"
شاہزیب اس کی اکھڑتی سانس محسوس کرتا بولا تھا۔افرحہ نے گہری کانپتی سانس خارج کی تھی۔۔خوف سے زمین پر سمٹ کر بیٹھتی وہ پسینے سے شرابور ہوچکی تھی۔۔
"پ۔۔پلیز جلدی آجائیں۔۔"
وہ نم آواز میں بڑبڑائی تھی۔۔
شاہزیب باہر نکلا تھا جب بریرہ کو دروازے پر بیل بجاتے دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔
"افرحہ بریرہ بیل دے رہی ہے۔۔دروازہ کھولو میں باہر ہی موجود ہوں۔۔"
شاہزیب نرم آواز میں بولا تھا۔۔بریرہ کا دھیان شاہزیب کی طرف گیا تھا۔۔
"افرحہ ٹھیک ہے ؟"
اس نے پریشانی سے پوچھا وہ اپنی کیز کہیں گرا چکی تھی۔تبھی بیل دے رہی تھی تاکہ افرحہ دروازہ کھول دے۔۔
"افرحہ میری بات سنو اقر فورا دروازہ کھولو۔۔"
شاہزیب اس کے کوئی جواب نہ دینے پر سنجیدگی سے بولا تھا۔۔
"ن۔۔نہیں مم۔۔مم۔مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا۔۔"
وہ کانپتی ہوئی بولی تھی اس واقعے نے اچھا خاصا اثر اس پر چھوڑ دیا تھا۔۔
"میں بالکونی سے تمھارے فلیٹ میں داخل ہو رہا ہوں گھبرانا مت۔۔"
بریرہ کی طرف دیکھے بنا شاہزیب تیزی سے فلیٹ میں داخل ہوتا اپنی بالکونی کی طرف گیا تھا۔۔
"م۔۔میں ر۔۔روم میی۔۔میں ہوں۔۔"
وہ اکھڑے سانسوں سے بمشکل بول رہی تھی۔
ان کی بالکونی میں کودتے اس نے فون ہنوز کان سے لگایا ہوا تھا۔۔تیزی سے باہر کا دروازہ کھولتا وہ خالی لاونج دیکھتا افرحہ کے کمرے کی طرف بھاگا تھا۔۔دروازہ کھولتے ہی اس کی نظر کونے میں سمٹ کر بیٹھی تکلیف سے سانس لیتی افرحہ پر گئی تھی۔۔اس نے تیزی سے روم کی لائٹس اون کی تھیں۔۔جس سے اندھیرے کمرے میں روشنی چھا گئی تھی۔
اس کو دیکھتے ہی گہرے گہرے سانس لیتی افرحہ کے ہاتھ سے فون گر چکا تھا۔۔
"تمھارا انحیلر کہاں ہے؟"
شاہزیب نے جلدی سے پوچھا تھا۔۔افرحہ کے بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔شاہزیب نے تیزی سے دراز کھولتے اس کا انحیلر نکالا تھا۔۔
اس کو انحیلر تھماتے وہ اس کے قریب ہی زمین پر بیٹھ چکا تھا۔۔بریرہ پریشان سی افرحہ کے روم کے دروازے میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
انحیلر اسعمال کرنے سے اس کا سانس قدرے بحال ہو گیا تھا۔۔
"مم۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے وو۔۔وہ واپس آجائے گا۔۔"
افرحہ انحیلر زمین پر رکھتی بےساختہ شاہزیب کے قریب ہوتے خوف سے آنکھیں پھیلائے بول رہی تھی۔۔اس واقعے نے اس پر گہرا اثر چھوڑ دیا تھا۔۔
شاہزیب نے بنا سوچے سمجھے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔۔
"شش۔۔میرے ہوتے ہوئے کوئی تمھاری طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔۔یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔۔کوئی تمھیں کچھ نہیں کہے گا۔۔"
اس کے گرد حصار باندھتے شاہزیب نرم لہجے میں لب بھینچ کر بولا تھا۔۔
"ن۔۔نہیں آ۔۔آپ جھوٹ بال رہے ہیں وو۔۔وہ پھر آجائے گا۔۔"
افرحہ شدت سے روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔
"چپ دوبارہ اس بارے میں سوچنا مت۔۔جب تک میں یہاں موجود ہوں کوئی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔اب فورا اٹھو منہ دھو کر آو۔۔"
اس سے دور ہوتے شاہزیب نے اسے کھڑا کیا تھا۔۔افرحہ کا بھیگا چہرہ دیکھ کر اس نے زور سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔
افرحہ کانپتی ٹانگوں سے سر ہلاتی واشروم میں چلی گئی تھی۔۔
"مجھے لگتا ہے افرحہ کو ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔۔"
بریرہ پریشانی سے بولی تھی۔۔شاہزیب نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اپنا سر ہلایا تھا۔۔
"ہمم۔۔کل میں یونیورسٹی سے اسے ڈاکٹر پاس لے جاوں گا۔۔"
شاہزءب لب بھینچ کر بولا تھا۔۔
"کیا آپ اس کے بارے میں سیریس ہیں ؟"
بریرہ نے سنجیدگی دے اسے دیکھتے استفسار کیا تھا۔۔
"اور آپ کو کیا لگ رہا ہے میں یہاں اس کے ساتھ مزاق کر رہا ہوں۔۔"
اس کی بات پر برہم ہوتے شاہزیب آنکھیں گھماتا ہوا بولا۔۔
"شاہزیب میر حاتم فضول چیزوں پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔۔"
وہ اپنا نام لیتا گردن اکڑا کر بولا تھا۔۔اب کی بار بریرہ نے آنکھیں گھمائی تھی۔۔
"واٹ ایور۔۔ اگر میں نے افرحہ کو کبھی بھی آپ کی وجہ سے روتے دیکھا تو اپنی خیریت منائیے گا۔۔اور ہاں میں باہر بیٹھی ہوں افرحہ کے فریش ہوکر آنے کے بعد فورا اپنے فلیٹ کا رخ کیجیے گانن"
برہرہ لب بھینچ کر بولتی باہر چلی گئی تھی۔۔شاہزیب نے بے ساختہ اپنا سر جھٹکا تھا۔۔
افرحہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تھی۔۔شاہزیب نے اس کے صاف شفاف چہرے پر نظریں ٹکائی تھی۔۔
"تم ریسٹ کرو اور زیادہ سوچنا مت۔۔ اگر زیادہ ڈر لگے تو مجھے کال کر لینا۔۔"
شاہزیب نرم لہجے میں بولتا واپس جانے لگا تھا جب افرحہ نے اسے روکا تھا۔۔
"پلیز تھوڑی دیر رک جائیں۔۔میرے سونے کے بعد چلے جائیے گا۔۔"
افرحہ نظریں جھکائے انتہائی دھیمی آواز میں بولی تھی۔شاہزیب نے اس کا عقابی نظروں سے جائزہ لیا تھا جو ابھی بھی کافی ڈری ہوئی لگ رہی تھی۔
"اوکے میں یہاں بیٹھا ہوں تم سونے کی کوشش کرو۔۔"
شاہزیب اس کے کمرے میں موحود کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا افرحہ سر ہلاتی بیڈ پر کمفرٹر لے کر لیٹ گئی تھی۔۔
شاہزیب خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔جو مکمل طور پر کمفرٹر میں چھپ چکی تھی۔۔وہ اس کا یہ ڈر ختم کرنا چاہتا تھا۔۔جس کے لیے ڈاکٹر سے کنسلٹ کرنا بہت ضروری تھا۔۔
وہ کافی دیر بیٹھا افرحہ کے سونے کا انتظار کرتا رہا تھا۔۔اس کے سونے کے
وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔
- - -
جاری ہے۔۔