Tamasha-e-Muhabbat - Episode 3

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 3


- - - 


 You the love, you the light 

You the color of my blood 

You the pain, you the Cure

You the only thing I want touch 

 کمرے میں تیز آواز میں میوزک چل رہا تھا اور بیس سالہ ایک خوبصورت نقوش والی لڑکی، بھورے بال، گلابی ہونٹ اور نیلی آنکھوں والی شہزادیوں کو مات دیتی حسن کی ملکہ انشراح میر کے ہاتھ بھی اتنی ہی تیزی سے میک اپ کرتے چل رہے تھے۔ حسن زہانت اس نے اپنے دادا میر حاکم سے وراثت میں چرایا تھا۔ وہ میر ولا کی اکلوتی وارث انشراح میر تھی۔ 

میر حاکم کا تعلق ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سے تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے کو سیاست میں دلچسپی نہ تھی وہ باہر سے تعلیم حاصل کرکے آئے تو اپنے گاؤں کی خدمت کرنے کا ارادہ کیا۔ میر زرار اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ایک رات انکا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایکسیڈنٹ ہائی وے کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ حادثے میں میر زرار کی بیوی اور ان کا بیٹا مرگئے۔ انشراح کی طبیعت خرابی کی وجہ سے اسے گھر ہی دادا کے پاس چھوڑا گیا تب سے انشراح میر اپنے دادا کے جگر کا ٹکڑا بنی ہوئی تھی وہ اسے خود سے کسی قیمت الگ نہ کرتے تھے۔ 

انشراح بظاہر بہت لاپرواہ اور گھمنڈی لڑکی تھی مگر وہ دل کی بہت اچھی تھی۔ اسکی ایک ہی دوست تھی نور خان جو کہ اس کے دادا کے ملازم کی بیٹی تھی۔ مگر انشراح کی دوست ہونے کی وجہ سے نور پر اس کی عنایات قیمتی تحائف کی صورت میں ہوتی تھی۔

 انشراح نور پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرتی تھی۔ اور نور تو اپنی جان تک نچھاور کرنے کو تیار تھی ان دونوں نے آج تک ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپایا تھا وہ دو جسم ایک جان تِھی۔ 

❤❤❤

 مسز شاہ کا رخ ایک کمرے کی طرف تھا۔ یہ کمرا بہت خوبصوتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا کمرے کے وسط میں ایک گول پرنسز بیڈ تھا جسکے چاروں طرف سفید جالی دار پردے لگے تھے۔ سائیڈ ٹیبل پر ایک تصویر رکھی گئی تھی مسز شاہ کی پوری دنیا اس تصویر میں ہنستی مسکراتی نظر آرہی تھی اور اس تصویر کو دیکھتے ہی ایک خوبصورت مسکراہٹ ان کے لبوں کو چھو کر گزری۔ بیڈ پر اوندھے منہ دنیا جہاں سے بے خبر سوئی ان کی بیٹی تھی "انائیتہ ازلان شاہ"

مسز شاہ نے کرٹنز ہٹائے اور کھڑکی کھولی جیسے ہی سورج کی کرنیں کمرے میں پڑی تو انائیتہ شاہ کو چاروناچار بیدار ہونا پڑا۔ 

انائیتہ ازلان شاہ نیلی آنکھوں بھورے بال، لمبی مڑی پلکوں والی ایک خوبصورت لڑکی تھی جس نے اپنے باپ ازلان شاہ سے حسن چرایا اور اپنی ماں سے دھیما لہجہ، حساس دل انا نے جلدی سے مسز شاہ کو مارننگ ہگ کیا اور بھاگ کر واش روم چلی گئی۔ 

میں تمہارا ڈائننگ پر انتظار کررہی ہوں انا جلدی سے تیار ہوکر نیچے آؤ"

"اوکے مام"۔۔ انا نے آواز لگائی 

25 منٹ کے بعد انا آف وائٹ ٹاپ اور بلیک جینز اور کورٹ شوز پہنے ایک ہاتھ میں اپنا لیدر کا سیاہ اوورکوٹ تھامے سیڑھیوں سے نیچے اتری۔ تب تک گھر کے تمام افراد ناشتہ کر کے اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ انا شاہ کی نظریں اپنے باپ کے کمرے کی طرف تھی۔ 

"تمہارے ڈیڈ آج جلدی میں چلے گئے"۔ اس نے مسز شاہ کو کہتے سنا۔۔

انا کا موڈ یہ سنتے ہی خراب ہو چکا تھا۔ وہ باہر کی طرف جانے لگی۔

بیٹا ناشتہ تو کر جاؤ۔ مسز شاہ نے اپنی لاڈلی بیٹی سے استفسار کیا 

مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ کینٹین سے کچھ کھالوں گی آئی ایم آلریڈی ٹو لیٹ۔

یہ کہتے ہی وہ ڈرائیور کو آواز لگاتی یونی کے لئے گھر سے نکل پڑی۔ اور مسز شاہ سر جھٹکتے اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔ وہ جانتی تھی ان کی بیٹی کا موڈ خراب ہوچکا ہے اور اس کے موڈ کو بحال صرف ایک ہی شخص کر سکتا تھا

 اسکا باپ "ازلان واصف شاہ"

وہ جانتی تھی کہ انا کا باپ اسے منا لے گا وہ اپنے بابا کی لاڈلی تھی۔ ازلان شاہ کا غرور تھی اس کی بیٹی مگر کون جانتا تھا کہ بہت جلد یہ غرور بھی ٹوٹنے والا تھا۔


ایک لڑکی کی پوری زندگی میں صرف ایک ہی ایسا مرد ہوتا ہے جو اس کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کرتا اور وہ ایک شخص اس کا باپ ہوتا ہے مگر کیا باپ کے گناہوں کا کفارہ بھی بیٹی کو ادا کرنا پڑے گا؟؟ یہ سوچ آتے ہی مسز شاہ کانپ گئی۔

❤❤❤❤❤

نشاء جلدی کرو بھائی ہمیں لینے کے لئے پہنچ گئے ہیں۔ نور نے نشاء سے کہا تو نشاء کی آنکھیں چمک اٹھی وہ جو سر جھکائے سکیچنگ کرنے میں مصروف تھی یہ سنتے ہی اس نے سکیچ بک سائیڈ پر رکھی اور جلدی سے اپنے آپ کو ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا تنقیدی جائزہ لینے لگی۔ نور اسکی اس حرکت کا سبب جانتی تھی مگر خاموش رہی۔ 

میں کیسی لگ رہی ہوں۔۔؟؟ انشراح نے استفسار کیا 

Beautiful as always.. نور نے کہا 

Hahahaha like seriously?? 

نشاء ہنستے ہوئے مڑی اور نور کو ہگ کیا۔ دونوں گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملی۔۔

I love you 

I'm so lucky to have you in my life.. 

Please never ever leave Me alone..

نشاء کی جزبات سے بھرپور آواز گونجی۔

I'll ever never leave you Nisha.. Im always here for you..

نور نے اس سے وعدہ کیا۔۔

اور پھر دونوں جی بھر کر ہنسی۔ اور ساتھ کھڑی قسمت انہیں دیکھ کر مسکرائی۔۔ نہ جانے اب قسمت کیا کھیل کھیلنے والی تھی۔؟

10 منٹ کے بعد ان دونوِں نے دادا سے الوداعی اجازت ملتے ہی پورچ کا رخ کیا. جہاں بلیک کلر کی چمکتی ہوئی لینڈ کروزر ان کے انتظار میں کھڑی تھی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی دونوں نے سلام کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے ان کے سلام کا جواب سر ہلا کر دیا۔ 

کہاں جانا ہے؟ ولی خان نے استفسار کیا

Gigga Mall"

نور نے جواب دیا. اور ولی خان نے گاڑی کا رخ مال کی جانب کیا ۔

ولی خان 28 سالہ ایک خوبرو نوجوان گھنے بال، مڑی ہوئی پلکیں، خوبصورت سحرانگیز آنکھیں، ہلکی داڑھی، اور سرخ وسفید رنگت کا مالک ایک وجیہہ شخص تھا۔ وہ نور کا بھائی تھا جو اپنی جاب کے سلسلے میں آجکل لاہور میں مقیم تھا۔ اس نے سکالرشپ پر اپنا ایم بی اے کمپلیٹ کیا اور اب ایک کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔ وہ بلا کا حسین ہونے کے ساتھ ایک خوددار لڑکا تھا. 

نشاء زرار میر اس خوددار ولی خان پر دل وجان سے فریفتہ تھی اور ولی خان یہ بات جانتا تھا.

 کچھ باتیں جان کر بھی انجان بننا پڑتا ہے کچھ جذبات کو سمجھ کر بھی نا سمجھ بننا پڑتا ہے اور یہ بات ولی خان جانتا تھا مگر انشراح میر نہیں جانتی تھی وہ جلد جان جائے گی۔ 

❤❤❤❤❤❤

یونی میں پورا دن انا کا موڈ آف رہا وہ جانتی تھی کہ اس نے جانِ انجانے میں اپنی ماں کا دل دکھایا تھا وہ ایک بار اپنے باپ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ ایسی کیا وجہ ہے جو وہ اور اس کی ماما ایک ہی گھر میں اجنبیوں کی طرح رہتے تھے؟؟؟

۔ وہ وجہ جاننا چاہتی تھی مگر کون بتاتا اسے وجہ۔؟؟

 کبھی کبھار اس کا موڈ بگڑ جاتا اسے اپنی ماں پر بھی غصہ آتا۔ 

شاہ ولا کا زرہ زرہ جانتا تھا کہ ازلان شاہ اپنی بیوی پر کس قدر مرتا تھا۔ مگر ایک ان کی بیوی تھی جو بے حس تھی۔ جس کے پاس کوئی جزبات نہ تھے۔ انا ازلان شاہ وہ وجہ جاننا چاہتی تھی۔

مگر کیا انائیتہ ازلان شاہ کا نازک دل وہ بوجھ اٹھا سکتا تھا جو اس کی ماں پچھلے 20 سالوں سے اٹھائے پھر رہی تھی

❤❤❤❤❤

انشراح مال میں پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنے فیورٹ ڈیزائنر کی شاپ پر گئی اور نیو کلیکشن کے کیٹلاگ دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔

 نور کی نظریں پورے فلور کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جبکہ ولی خان اپنے فون پر مصروف ہوگیا۔

 تقریباً 1 گھنٹے کے بعد انشراح کو اپنے لیے 3 سوٹ پسند آہی گئے۔ اس نے نور کو بھی حسب عادت شاپنگ کرائی اور نور کی نظریں اپنے بھائی پر ٹکی ہوئی تھی وہ جانتی تھی کہ اس کے بھائی کو یہ سب پسند نہیں ہے مگر وہ نشاء کا دل بھی نہیں دکھانا چاہتی تھی.

 تھوڑی دیر کے بعد وہ تنیوں فوڈ کورٹ میں بیٹھے لنچ کرنے لگے۔نور کی نظر ایک جگہ پڑی تو وہ ٹھٹھک گئی۔

 وہ تو دعائیں کر رہی تھی کہ زندگی میں کبھی اسکا سامنا اس شخص سے نہ ہو، ابھی تو وہ اس کو بھولی تھی پھر وہ اسے دوبارہ سامنا کیسے کر سکتی تھی؟؟؟

 اف یہ کیا ہوگیا تھا؟؟ وہ کیونکر اس شخص کا سامنا کرپائے گی؟؟ 

ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھی جب انشراح نے اسے جھنجھوڑا. 

وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اپنے آپ کو کمپوز کیا۔ 

  جبکہ دوسری جانب ازلان شاہ اس پری وش کو دیکھتے ہی حوش وحواس سے بیگانہ ہوگیا۔ 

وہ دنیا گھوم چکا تھا 5 سال یورپ میں رہ کر آیا تھا مگر ایسا کامل حسن آج تک اس نے نہ دیکھا تھا۔ وہ بے خودی میں ان کے ٹیبل کی طرف آیا جبکہ وجدان کاؤںٹر پر بل پے کرنے چلا گیا تھا۔ ازلان شاہ کی نظریں مسلسل اس ٹیبل پر اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی اس کی دھڑکن مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھی وہ بے خودی کے عالم میں اس پری وش کو دیکھے جا رہا تھا اور یہی حالت دوسری طرف نور خان کی تھی وہ بھی اسی کیفیت میں ازلان شاہ کو دیکھے جا رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ ازلان شاہ کی نگاہ کا مرکز کون یے؟دونوں ارد گرد کی دنیا سے بے گانہ تھے۔ 

مگر نور خان کو ہوش تب آیا جب اس نے ایک ذناٹے دار تھپڑ کی آواز سنی۔ اس نے سامنے دیکھا تو ازلان شاہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے دوسری جانب منہ کیے کھڑا تھا جبکہ انشراح لال بھبھوکا چہرہ لیے غصے کی حالت میں اسے گھور رہی تھی۔

  دو منٹ لگے تھے ازلان کو صورتحال سمجھنے میں۔

 انشراح اس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مار چکی تھی۔ اب انشراح اس کو زلیل کرنے میں مصروف تھی فوڈ کورٹ میں بہت سے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ 

اکیلی لڑکی دیکھی نہیں ٹھڑک جھاڑنے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔

کیوں بھئی تمہارے اپنے گھر ماں بہن نہیں ہے۔۔۔۔

شکل سے تو بہت شریف گھرانے کا لگتا ہے کیا یہ تربیت کی تھی گھر والوں نے؟؟ ۔۔۔۔

ایسی بہت سے چہ مگوئیاں ازلان شاہ کا خون جلانے کے لئے کافی تھی وہ غصیلی نظر انشراح پر ڈالے وہاں سے چلا گیا۔ 

وہ تو اس پری وش کو دیکھتے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکا تھا۔ وہ اسے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا وہ تو بس ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس دلربا کو دیکھ رہا تھا۔

🔥🔥🔥🔥 

گھر پہنچتے ہی ازلان شاہ اپنے کمرے میں گیا اور زور سے دروازہ دیوار سے مارا۔

اس نے اپنی ٹائی کی ناٹ کھولی موبائل اور والٹ بیڈ پر پھینکا اور یونہی واش روم میں شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ 

20 منٹ تک ازلان ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑا اپنے غصے کو قابو کرتا رہا مگر غصہ تھا کہ بڑھتا جارہا تھا

You have to paid for this 

وہ غصے میں بڑبڑایا اور پھر ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں سے چھو کر گزرا۔ 

 انشراح کی زندگی میں کیا طوفان آنے والا تھا وہ یہ نہیں جانتی تھی۔۔ مگر وہ جلد جان جائے گی. 

پھر وہ تیار ہوکر سونے کے لئے لیٹا مگر ابھی تک اس کا غصہ کم نہ ہوا۔ اچانک سے ایک خوبصورت خیال آتے ہی وہ مسکرا اٹھا۔

❤❤❤❤❤❤❤ 

2 دن بعد

انائیتہ اور مسز شاہ شاپنگ کے لئے مال آئی تھیں اور دونوں ماں بیٹی اپنی شاپنگ میں مصروف تھیں۔ آج کا دن دونوں ماں بیٹی نے ایک ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انا اپنی ماں پر جان چھڑکتی تھی۔


دوسری جانب تیمور خان بھی پورا دن مسز خان کے ساتھ گزارنے والا تھا۔ ماں ایک بہت ہی خوبصورت احساس اور رشتہ ہے۔ اس رشتہ کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔

وہ جانتا تھا اس کی ماں بہت کچھ سروائیو کر چکی تھی۔ اس نے آج تک اپنی ماں کو صرف اور صرف اپنی جنگیں تنہا لڑتے دیکھا تھا۔ اس کی ماں اندر سے ٹوٹی ہوئی تھی

"اور اندر سے ٹوٹا ہوا شخص کبھی نارمل نظر نہیں آئے 

گا مطلب کہ اُس کے جزبات میں شدت پائی جائےگی وہ ہنسنے لگے گا تو بُہت زیادہ ہنسے گا

 چُپ رہے گا تو گِہری خاموشی اِختیار کرلے گا

خُود کو لوگوں سے انگیج کرے گا تو بُہت زیادہ انگیج کر لے گا 

اور تنہا رہے گا تو سائے کو بھی ساتھ برداشت نہیں کرے گا"

  وہ اپنے باپ کی قسمت پر رشک کرتا تھا جس کو اس کی ماں کی محبت ملی تھی۔ کیوںکہ اندر سے ٹوٹے ہوئے لوگ جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو وہ اس پر جان کی بازی تک لگا دینے کو تیار ہوتے ہیں۔۔

❤❤❤❤❤❤❤

وہ لوگ شاپنگ کرنے میں مصروف تھے۔ کہ انا کی نظر سامنے اٹھی تو وہ سٹل ہوگئی۔

3 سال کے بعد وہ اس چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ 3 سال لگے تھے اسے اس کو ڈھونڈنے میں اور وہ 3 سال سے پاگلوں کی طرح اس سے محبت کیے جارہی تھی۔

 وہ اس کے پیچھے بھاگی مگر تب تک وہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ مسز شاہ انا کو ڈھونڈتے ہوئے اس کے پیچھے آئی تو اپنی بیٹی کی وہ حالت دیکھ کر وہ جان گئی تھی کہ اس کی بیٹی آج پھر اس کیفیت سے گزر رہی ہے۔ وہ اسے سنبھالتے ہوئے گھر لے کر آئی۔  

- - -

Plz do comment after reading the Epi. 

براہِ مہربانی ایپی پڑھنے کے بعد لائک کمنٹ بھی کردیا کریں۔

- - -

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)