Tamasha-e-Muhabbat - Episode 10

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 10


- - -

(ماضی)

پارٹی ختم ہوتے ہی انشراح اپنے کمرے میں چلی گئی___ آج اُس نے نور کو اپنے پاس ہی روک لیا تھا۔

وہ چینج کرکے جیسے ہی کمرے میں آئی تو نور خان تب تک سو چکی تھی____ نور خان کو سوتے دیکھ وہ کچن میں کافی بنانے کے ارادے سے گئی۔

وہ دو کپ کافی بنا کر جیسے ہی ٹیرس کی طرف بڑھی تو اسے ایک سایہ نظر آیا___ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اُس کا ولی خان ٹیرس پر بیٹھا چاند کو تکنے میں مصروف ہوگا۔

آپ کو اتنی رات کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا نشاء بی بی____ ولی خان نے پیچھے مُڑے بغیر کہا 

انشراح میر حیرت سے ولی خان کو دیکھنے لگی___ پھر خود ہی مسکرانے لگی وہ کیسے بھول گئی کہ سامنے موجود شخص ولی خان ہے____ وہ تو اس کی رُگ رُگ سے واقفیت رکھتا ہے تو کیسے اس کی آہٹ نہ پہچان سکے_____ 

پھر بھی وہ شرارتی انداز میں ولی خان کے سامنے جا کر کھڑی پوچھنے لگی___

آپ کو کیسے پتا کہ میں ہوں؟؟ کوئی اور بھی تو ہوسکتی تھی___ انشراح نے ولی کی طرف دیکھتے کہا 

آپ کو کیا خبر آپ کی آہٹیں میری سانسوں کو بحال کرتی ہیں نشاء بی بی___ ولی خان فقط یہ دل میں ہی کہہ پایا تھا اُس میں یہ بات نشاء کے سامنے کرنے کی ہمت نہ تھی_____

مجھے پتا چل جاتا ہے نشاء بی بی___ ولی خان بات بدلتے ہوئے بولا__

آپ کو مجھ سے میرا گفٹ نہیں چُھپانا چاہیئے تھا ولی خان___ ولی خان حیرت زدہ انداز میں مُر کر اُسے دیکھنے لگا___

کونسا گفٹ؟؟ وہ انجان بنتے بولا__

نشاء نے اُس کی طرف دیکھتے ٹھوس لہجے میں کہا

وہ جو آپ نے اپنی پاکٹ میں چُھپا رکھا ہے___ ولی خان کا ہاتھ بے اختیار اپنی پاکٹ میں گیا___

انشراح کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری__ 

وہ فاتحانہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی___

یہ گفٹ آپ کے قابل نہیں ہے انشراح بی بی___ ولی خان ہار ماننے کے انداز میں جیب سے ایک خوبصورت پائل نکالتے بولا__

اگر لے ہی آئے ہوتو پہنادو آپ___ انشراح میر نے اپنا پاؤں اس کی طرف بڑھایا__ 

یہ آپ کے قابل نہیں___ ولی خان بھی بضد تھا___

یہ میں فیصلہ کروں گی کہ کیا میرے قابل ہے کیا نہیں___ انشراح میر کے لہجے میں وارننگ تھی جس پر ولی خان ہار مانتے ہوئے ایک لمبا سانس لیتا ہے__

ولی خان زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا__ اور اس کے پاؤں اپنے گھٹنے پر رکھے اُسے پائل پہنائی__

انشراح میر اس کے چہرے کو تکتی رہی___

ولی خان نے آہستگی سے اُس کو پائل پہنائی__ اُسے یہ پائل انشراح کے پاؤں میں بہت اچھی لگی___ اُس کا دل بےساختہ کچھ گستاخی کرنے کو چاہا مگر وہ دل کو ڈپٹتے ہوئے اُٹھنے لگا جب انشراح کی آواز اُس کے کانوں میں گونجی___

آج سے یہ پائل میرے پاؤِں میں آپ کی محبت کی زنجیر بن کر رہے گی ولی خان__ اور یہ زنجیر مرتے دم تک نہیں کُھلے گی___

انشراح میر یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گئی___

جبکہ ولی خان یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھا ساکن ہوگیا__ اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کردی تھی اور اب اسے اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا تھا___

💘💘💘💘💘💘💘

انشراح میر کمرے میں آئی تو اُس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا____ ولی خان سے بات کرنے کے بعد اس کی آنکھوِں سے نیند دور تھی___ وہ کچھ دیر اور اس کے پاس بیٹھنا چاہتی تھی مگر ولی خان کے اجتناب پر وہ کمرے میں آگئی___ وہ محافظ تھا اس کا، اس کی عزت کا___ وہ اسے اپنی نیلی آنکھوں میں قید کرنا چاہتی تھی مگر وہ نہ کرسکی__ 

کمرے میں آتے ہی وہ ولی کو سوچنے لگی آج پھر اس کی رات جاگتے گزرنی تھی___ اور انشراح میر کو یہ رتجگے بہت عزیز تھے کیونکہ اُسے ولی خان عزیز تھا___

دوسری طرف رات تو ولی خان کی بھی جاگتے گزرنے والی تھی___

انشراح کی نیلی آنکھیں اس کے گرد حصار کیے ہوئے تھیں وہ چاہ کر بھی ان نیلی آنکھوں کے حصار سے نہ نکل سکا___

وہ کتنی راتیں اس کے لئے جاگتا تھا اب تو وہ گنتی بھول چکا تھا___ ولی خان یہ جانتا تھا کہ انشراح میر کا نازک وجود ولی کی آنکھوں کا وار برداشت نہیں کرسکتا تھا___

ولی خان نے کبھی اُسے نظر بھر کر دیکھا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کی نظروں کو سہار پاتی، نہ ہی ولی خان اس دلکش حسینہ کو امتحان میں ڈالنا چاہتا تھا___

وہ نظروں کی اس زبان سے پرہیز کرتا تھا مگر انشراح میر اس پرہیز کو سمجھ نہ پاتی تھی___

جب بھی نیلی آنکھیں اس کی گہری سیاہ آنکھوں سے ٹکراتی تو کچھ نہ کچھ بولتی تھیں__

❤❤❤❤

انشراح نے محسوس کیا کہ نور خان جاگ رہی ہے مگر اس نے نور سے کوئی سوال نہ کیا وہ جانتی تھی نور خان آج کل بہت ڈسٹرب یے۔

نور خان چت بستر پر لیٹی سرخ آنکھوں سے پارٹی میں ہوئے واقعات کو سوچ رہی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی___ یہ جانے بغیر کہ کوئی اس کی یاد میں شدت سے کروٹیں بدل رہا ہے

💓💓💓💓💓

(حال)

افق پر تیرتے بادلوں نے آسمان پر بسیرا کرلیا تھا___ہوا کے دوش پر اپنی منزل کی جانب گامزن یہ بادل لوگوں کو پیغام دے رہے تھے کہ کوئی بھی ایک جیسا نہیں رہتا___

وقت اور حالات انسان کو بدل کر رکھ دیتے ہیں___ انسان کی حالت ایک جیسی نہیں ہوتی___ وقت کبھی بھی انسان کو ہمیشہ کے لئے صاف شفاف نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ہمیشہ میلا رکھتا یے___

یر عروج کو زوال ہے__ اور یہ زوال بھی ہمیشہ نہیں رہتا___ وقت بدلتا ہے__ انسان کے معیار و اختیارات بدلتے ہیں___ انسان ایک جیسا نہیں رہتا__

وقت کی رفتار پر قدم رکھتا انسان ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی موڑ پر پہلے جیسا نہیں رہتا__،

وہ بھی جاگنگ کرتا اپنی پچھلی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا____

کل تک اس کی زندگی کیا تھی___ آج کیا بن گئی تھی___ ؟؟ وہ جاگنگ کرتا ہلکی پھلکی ورزش کرنے لگا__ پسینے کی بوندیں اس کے جسم پر چمک رہی تھی مگر اس کے چہرے کے تاثرات سخت پتھریلے تھے 

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا___ میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا___ مجھے بدلہ لینا ہے اپنی ماما کے ایک ایک آنسو کا____

میں جانور ہوں__ میں آگ ہوں ___ ہاں میں آگ ہی ہوں جو شاہ ولا کے ایک ایک مکین کو جلا کر راکھ کر دے گی___ مگر میری بےبی ڈول___ میں کیسے اُسے اذیت دے سکتا ہوں___ یو ڈیم اٹ ازلان شاہ___ نہیں بچو گے__ تم نہیں بچو گے___ تمہیں کوئی انائیتہ شاہ نہیں بچا سکتی___ تیمور کی حالت دیوانوں سی ہورہی تھی__

تیمور ولی خان بہت کچھ سوچتا اور طے کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا____

🔥🔥🔥🔥😊😊😊

(ماضی)

وقت یونہی تیزرفتاری سے گزر رہا تھا__ ازلان شاہ اور نور خان کی محبت بڑھتی جارہی تھی___

شاہِ من میں آپ کے گھر پروپوزل بھیجنا چاہتا ہوں___ نور خان جو ازلان کے ساتھ ایک قریبی ریسٹورنٹ آئی تھی__ سوپ پیتے اس کا ہاتھ ہوا میں معلق ہوگیا__

اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی__، اس کے چہرے پر کئی رنگ آکر بکھرے___ اس نے شرم سے سر جھکا لیا جبکہ ازلان شاہ کتنی ہی دیر اُس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا نہ سکا____ 

تم پر یہ پنک کلر بہت سوٹ کررہا ہے___ ازلان شاہ نے نور کی جھجک اور شرم کو ملحوظ رکھتے بات بدلی___

میں آپ کو سیاہ لباس میں بھی خوبصورت لگتی ہوں شاہ___ اگر پرپل پہنوں تو اس میں بھی___ کبھی میں آپ کو ہنستے ہوئے اچھی لگتی ہوں____

فلرٹ کررہے آپ میرے ساتھ___؟؟ نور خان اس سے استفسار کرنے لگی___

‏مجھے تم ہمیشہ سے تخیل کا ایک خوبصورت کردار ۔۔، دلربا شہزادی لگتی ہو کہ جس پہ گلابی، فیروزی، سیاہ سب رنگ سجتے ہیں 

ہر ادا دلنشیں رکھتی ہو —

نور خان کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو چمکنے لگے__ کس قدر محبت کرنے والا تھا اس کا شاہ___ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ یوں کسی کے دل پر راج کرے گی____ 

ازلان شاہ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا__ کس نے سوچا تھا کہ وہ مغرور شاہ جو ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دے وہ لندن پلٹ گھمنڈی شاہ اپنی محبوبہ کے قدموں میں بیٹھا اس کے آنسو صاف کر رہا ہوگا___

ازلان شاہ نے اپنی پاکٹ سے رنگ نکالی__ اور اُسے نور خان کے ہاتھوں کی زینت بنا دیا__

نور خان کتنی ہی دیر اس انگوٹھی کو دیکھتی رہی__

کیا زیادہ خوبصورت ہے یہ رنگ؟؟ ازلان نے سوال کیا__

نہیں اس سے زیادہ خوبصورت تو آپ کی محبت ہے شاہ__ نور نے مخمور لہجہ میں جواب دیا___ 

منظر بدل چکا تھا____ازلان شاہ جو کہ اپنے آفس میں بیٹھا ماضی کی اس یاد میں گم تھا اسے انشراح میر کی فون کال نے اپنی طرف متوجہ کیا___

ازلان شاہ سر جھٹکتا انشراح سے کال پر بات کرنے لگا___ 

اس کی ترجیحات بدل چکی تھی__ اس کی زندگی میں نور خان کی جگہ کسی اور نے لے لی تھی___ کال بند ہوتے اس نے ایک فیصلہ لیا___ اس کا یہ فیصلہ کس تباہی کا آغاز تھا وہ نہیں جانتا تھا__ مگر وہ جلد جان جائے گا__

💕💕💕

انشراح میر اپنے دادا کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی تھی___ سامنے ایک سربراہی کرسی پر میر حاکم اپنے جاہ و جلال کے ساتھ بیٹھے تھے__ اور ان کی داہنی سمت تھری سیٹر صوفے پر میر حاکم کی بھتیجی اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی تھی___

ان کی بیٹی رجاء میر فیشن کی دلدادہ ، 24 سالہ خوبصورت لڑکی تھی مگر انشراح کے مقابلے میں اس کا حسن ماند پڑتا تھا__

رجاء میر کی نظر جیسے ہی سامنے سے آتے اس شہزادے پر پڑی تو وہ ساکت ہوگئی__ سامنے ہی ولی خان اپنی سحرانگیز شخصیت سمیت لاؤنج میں داخل ہورہا تھا___

میر حاکم اسے دیکھتے ہی اپنے پاس بلاتے اور اس سے گفتگو کرنے لگے___ ولی خان نے ان کی بیٹے کی کمی کو پورا کیا تھا___ وہ ان کی دل سے عزت کرتا تھا___ وہ ان کا احسان مند تھا،__ ولی خان جو دوسروں کے لئے گھمنڈی اور نخریلا تھا وہ میر حاکم نور خان اور انشراح میر پر جان چھڑکتا تھا___ اس کا سرد لہجہ دنیا کے لئے تھا مگر ان تین لوگوں پر ولی خان کی بس ہوجاتی تھی وہ ان تین لوگوں کے لئے بہت نرم دل تھا___

رجاء میر ولی خان کو دیکھنےمیں مصروف تھی ولی خان یہ بات جانتا تھا

💖💖💖💖

آزر شاہ ازلان شاہ کے ساتھ آفس میں بیٹھا تھا جب ازلان شاہ نے اسے اپنی محبت نور کے بارے میں بتایا___ وہ اب اس سے ملنے کو بضد تھا___

آزر شاہ ازلان شاہ کا کزن تھا__ پورا خاندان اس کی عیاش فطرت سے واقف تھا مگر ازلان شاہ اس کے باوجود اس سے دوستی رکھتا تھا____

انسان کی پہچان اس کی صحبت سے ہوتی ہے مگر یہ بات ازلان شاہ کو سمجھ نہیں آتی تھی___ وہ آزر شاہ کی بری عادتوں کے باوجود اس کی دوستی کا دَم بھرتا تھا____

کچھ دنوں بعد ازلان شاہ نے نور خان کو آزر شاہ سے ملوا ہی دیا مگر آزر شاہ نے جونہی نور خان کو دیکھا تو اس کی عیاش فطرت لوٹ آئی__، اس کے حُسن کو دیکھتے ہی آزر شاہ کی رال ٹپکنے لگی___

آزر شاہ نے نور خان کو اکیلے دیکھتے ہی اپنی فطرت کا مظاہرہ کیا__ 

ہے نور میں جانتا ہوں تم ازلان جیسے پاگل کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی___ 

کیا مطلب؟؟ یہ کیا بکواس کر رہے آپ؟؟ نور خان غصے سے بولی

ارے میری بےبی کو بُرا لگا؟؟ چلو ایک ڈیل کرتے ہیں ازلان کے ساتھ ساتھ تم مجھے بھی خوش کردو___ 

اُس کے چہرے پر خباثت خوب ٹپک رہی تھی___

یو بلڈی باسٹرڈ___ نور خان نے اُسے ایک طمانچہ مارا___

جب ازلان شاہ نے آزر کے خبیث ارادے سُن لیے اور

 جیسے ہی ازلان شاہ نے آزر شاہ کو اس کی نور کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھا تو ازلان شاہ کا خون کھولنے لگا___ 

وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف لپکا اور اسے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا___ اور اندھا دھند اسے مارنا شروع کیا__ آزر نے ہمت مجتمع کرکے ایک زوردار مکا اسکے جبڑے پر مارا جس کی وجہ سے ازلان پیچھے ہٹا___

اس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا مگر وہ پرواہ نہ کرتا ہوا آگے بڑھا اور آزر پر مسلسل گھونسوں کی بارش کرنے لگا___ 

آزر بھی اپنے دفاع کے لئے لڑتا رہا دونوں لڑنا جانتے تھے مگر ازلان شاہ پر تو گویا خون سوار تھا___ وہ آج آزر شاہ کی جان لینا چاہتا تھا

جب واصف شاہ گھر داخل ہوئے اور یہ منظر دیکھتے ہی ازلان کے عتاب سے آزر کو بچانے آگے بڑھے___ مگر ازلان شاہ کسی کے قابو میں نہ آرہا تھا___ 

آزر شاہ نے اس کی نور کو چھیڑ کر اس کے اندر کے بیسٹ کو جگایا تھا____ 

جب نور نے دیکھا کہ ازلان شاہ کسی کے قابو میں نہیں آرہا وہ آگے بڑھی اور ازلان شاہ کی پشت پر ہاتھ رکھے اسے مخاطب کیا

شاہ چھوڑ دیں اُسے___ ازلان شاہ جوکہ آگ بنا تھا اس دلکش آواز کے سنتے ہی گویا اس پر کسی نے پانی کی پھوار کی ہو___

وہ بےقابو ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ آزر شاہ کو چھوڑتا ہے____

میں نے تمہیں اپنی نور کے صدقے زندگی بخش دی آزر شاہ___ یہ کہتے ہی وہ نور کو وہاں سے لے کر باہر چلا گیا___

اور پیچھے واصف شاہ اپنے بھتیجے پر گرج رہے تھے۔


- - -

to be continue...

2 Episodes will be posted every day...




-


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)