Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert
Episode - 10
Season - 1
Writer - Daoud Ibrahim
Offical Writer at KoH Novels Urdu
- - -
جیلی فش کے زہر سے چند میں بعد ہی موت واقع ہو جاتی ہے لیکن جلال تین بعد بھی صرف سست ہی ہوا تھا۔ اور مزید اس کی سستی بڑھتی جا رہی تھی۔تیسرے دن شام کے وقت جب سورج غروب ہونے کو تھا تب جلال اچانک کوئی کام کرتے زمین پر گر گیا۔ کاظم اور بریعہ نے دیکھا تو بھاگ کر جلال کے پاس آئے۔ چونکہ وہ بیچ کے کنارے پر ہی موجود رہتے تھے تاکہ کوئی مدد کا آثار ملے تو انھیں ڈھونڈنے میں دقت نہ ہو۔بریعہ نے بھی بھاگ کر سمندری پانی ہاتھوں میں بھرا اور جلال کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔ کاظم بھی اسے ہوش میں لانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
بے بسی کا سماں یوں تھا کہ وہاں اس وقت کوئی اور راستہ بھی نہیں مل سکتا تھا جسے وہ اپنا سکیں۔ کاظم نے جب جلال کی دھڑکنیں چیک کیں۔جلال کی دھڑکنیں کافی کمزور لگ رہیں تھیں۔جس سے کاظم کی ٹینشن مزید بڑھنے لگی ۔ تبھی یوں لگا جیسے کہ سمندر میں کوئی ہلچل ہے کیونکہ تین دن سے یہ جو سمندری آوازیں سن رہے تھے ۔ اب ویسی آوازیں نہیں آرہی تھیں بلکہ کچھ اور ہی محسوس ہو رہا تھا۔ جس نے دونوں کا دھیان جلد ہی متوجہ کر لیا۔
تبھی سمندری پانی میں ہلچل واضع ہونے لگی جو گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کو اب دوسری فکر لاحق ہو گئی کہ" اب یہ کیا ہے؟ " چونکہ سورج بھی ڈوبنے کو تھا اس لیے کچھ واضع نطر نہیں آرہا تھا انھیں لگا رہا تھا جیسے سمندر سے کوئی پتھر باہر نکل رہا ہو ۔ وہ پتھر جونہی بلند ہوتا جاتا واضع ہونے لگا ۔ تو پتہ چلا کہ وہ کوئی پتھر نہیں بلکہ سمندری آبدوز ہے۔ یہ آبدوز بہت بڑی تھی۔عام طور پر تو ایک آبدوز کے اندر داخل ہونے والا راستے اس کے اوپر ہوتا ہے مگر اس آبدوز کے سائیڈ پر بھی ایک مضبوط دروازے موجود تھا۔جو کچھ دیر بعد اچانک سے گیسوں کی آواز ( جس کی وجہ پاسکلز لا تھا ) کے ساتھ کھلا اور کچھ لوگ جو اعٰلی قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے ایک ترتیب میں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے اس دروازے میں دو قطاریں بناۓ نکلنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً پندرہ شخص ایک ترتیب سے ایک دوسرے کو کور (cover = ایک فوجی ٹیکنیک ہے جس میں ہر سپاہی اپنے اردگرد والے سپاہیوں کی حفاظت کرتا ہے ) کرتے ہوۓ آگے بڑھے ۔ اُن کے پاس گنز تھیں جنھوں دیکھتے ہی کاظم نے فوراً ہاتھ اوپر کر لیے اور اس کاظم کو ہاتھ اوپر کیے دیکھا تو بریعہ نے بھی دونوں ہاتھ بلند کر دیے۔ ان کے تمام تر ہتھیار کاظم ، بریعہ اور جلال پر نشانہ سادھے ہوئے تھے۔
" اپنی پہچان بتاؤ جلدی " اچانک آبدوز کے اندر سے آواز آئی۔
اس سے پہلے کہ کاظم اور بریعہ کچھ بولتے آج اچانک اس آئیلینڈ سے ایک دھند نما ہوا جلدی سے پھیلاتی کوئی کاظم اور بریعہ سمیت اس آبدوز کو پلوں میں اپنے اندر جھلسا کر آگے بڑھتی گئی۔یہ سفید رنگت والی دھند اصلی دھند کی طرح ٹھنڈی نہیں۔
کاظم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے کا سارا علاقہ آسمان سے لے کر زمیں تک دائیں وسعتِ نظر سے لے کر بائیں وسعتِ نظر تک اس دھند سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔تبھی کاظم اور بریعہ زور زور سے کھانسنے لگے۔ ان سپاہیوں نے تو چہروں پر ایک مخصوص ماسک پہنے ہوئے جو ہوا کو صاف کر کے اندر جانے دیتے تھے۔ البتہ بریعہ اور کاظم نے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں تھے اور وہ دونوں اس دھند کی وجہ سے زور زور کھانے لگے اور جلال ویسے ہی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ تبھی ان لوگوں میں سے دو دو آگے بڑھتے گئے اور کاظم ، بریعہ اور جلال کو اٹھا کر اس بڑی آبدوز کے اندر لے گئے۔
باقی کے سپاہیبھی چوکنے ہوگئے اور ان کو کور کرنے لگے ۔ جب دو سپاہی کاظم کو پکڑنے لگے تھے ۔ تبھی کاظم نے ان کے وردی کے کاندھے پر ایک لوگو ( LoGo ) دیکھا ۔ یہ پاکستانی مارخور آئی۔ ایس۔ آئی کا لوگو تھا۔ کاظم بریعہ اور جلال کو اندر کو اندر لا کر فوراً ایک سپاہی نے دروازہ بند کرنے والا بٹن دبایا تاکہ وہ دھند اندر داخل نہ ہو سکے۔
شام کے اس اندھیرے سے نکل کر وہ جب آبدوز میں داخل ہوۓ تو کچھ سکون کا سانس ملا اور کھانسی بھی ختم ہو گئی۔ سپاہیوں نے کاظم اور بریعہ کو دروازے کے سامنے ہی ایک کھلی جگہ پر لا کر گھٹنوں کے بل بٹھا دیا۔ ایک عورت نے نے آگے بڑھ کر بریعہ کی تلاشی لی اور ان سپاہیوں میں سے ایک نے کاظم کی تلاشی لی۔
" جلال کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے وہ " کاظم نے قریب کھڑے سپاہیوں سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوۓ پوچھا۔ جس پر کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ پل بعد ایک مضبوط جسم والا چالیس سالہ شخص جو کافی بے خوف اور ہمتی لگ رہا تھا ایک راستے سے داخل ہوا اور کاظم اور بریعہ کے سامنے کھڑے سپاہیوں نے کیا ۔ اس کی بغل میں ایک چھڑی تھی جو کہ عام طور پر جنرلز کے پاس ہوتی ہے۔
" جنرل ! ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے اور ابھی تک ان میں سے کوئی بھی وائرس کا شکار نہیں ہوا ۔ ہم نے انھیں بھی بچا لیا ہے۔ ان کا ایک تیسرا ساتھی بھی ہے جو کہ بےحوش تھا۔ ڈاکٹر صوفیہ اس کا چیک اپ کر رہی ہیں " ایک سپاہی نے رٹا رٹ سپیچ کی شکل میں یہ الفاظ جنرل کے سامنے واضع کر دیے ۔ جنھیں سن کے کاظم کے چہرے پر سکون والے تاثر بھی پیدا ہونا شروع ہوۓ۔
" تو پھر انھیں قیدیوں کی طرح کیوں بٹھایا ہوا ہے۔اس لڑکی کی مرہم پٹی کرو اور اس لڑکے کو ٹی۔ سی روم میں لے آؤ " اپنی کڑکتی ہوئی آواز سے جنرل نے حکم سنایا۔ جس پر " یس سر " کہتے ہوۓ وہی فوجی کاظم کی طرف بڑھا۔ کاظم اور بریعہ نے بھی یہ حکم سن لیا تھا تو خود بخود ہی کھڑے ہو گئے اور وہ فوجی کاظم کو بازو سے پکڑ کے جنرل کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ایک کمرے میں داخل ہو کر کاظم کو ایک ٹیبل کے دوطرفہ پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بٹھا دیا۔ سپاہی خود پیچھے دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور جنرل سامنے والی کرسی کو پیچھے کر کے ٹیبل پر مکے کی شکل میں ہاتھ مار کر کھڑے ہو گئے۔ کمرہ بالکل سفید تھا جیسے کوئی ٹارچر روم ہو۔
" لڑکے ! تم ہمیں اپنے بارے میں اور ان دونوں کے بارے میں سب کچھ بتاؤ گے وہ بھی سچ سچ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ تم نے دیکھا ابھی اسی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اگلو گے " جنرل نے غصے والی شکل بناۓ سوال کیا۔ جس پر کاظم نے انھیں سب کچھ سچ سچ بتا دیا کیونکہ نہ کوئی اور راستہ تھا۔ اور پاکستانی فوج تھی تو ان پر کاظم کو بھروسا بھی تھا۔
" سر یہی سچ ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں بھی تو پاکستانی الحمدللہ تو آپ سے جھوٹ بولنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا " کاظم نے سب بتا دینے کے بعد جنرل سے عاجزی بھی ظاہر کردی۔
" اس پروفیسر کا نام کیا بتایا تم نے۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اینٹیڈوڈ دیا تھا تمھیں " جنرل نے یہ سوال کاظم سے ذرا ہلکے لہجے میں کیا ۔
" جلال۔۔۔۔۔۔ جلال مصطفیٰ " کاظم نے بھی لڑکھتی ہوئی زبان سے جواب دیا۔ جس پر جنرل نے کاظم کے پیچھے کھڑے اس واحد سپاہی کی طرف دیکھا ۔
" سر یہ وہی پروفیسر ہیں جنھوں نے ہمیں اینٹیڈوڈ کے بناۓ جا چکے ہونے کی خبر دی تھی اور کہا تھا کہ اگلا سورج طلوع ہونے سے پہلے اینٹیڈوڈ پہنچ جاۓ گا " سپاہی نے بھی جنرل کی سوالیہ آنکھوں کا جواب دیا۔
اس کی بعد وہ جنرل جیسے قصوروار قیدی کو دیکھتے ہیں ویسے ہی کاظم کی طرف گھورنے لگے۔ کاظم بھی ان کا مطلب سمجھ گیا اور مزید عاجز ہو کر آنکھیں جھکا لیں۔
" سر میں اور کیا کرتا اگر میں چل بھی پڑتا تو کونسا تب تک پہنچ پاتا۔۔۔۔۔ سر راستہ کم از کم دس بجے پہنچنے کی اجازت دیتا تھا۔۔۔۔۔جبکہ وائرس رات میں ہی پھیل چکا تھا۔۔۔۔۔۔میرا وہ قدم بےوقوفی ہی سہی مگر دو لوگوں کی جان بچانے والا قدم ثابت ہوا ہے " کاظم نے بھی اپنی صفائی دی۔
اتنا سن کر جنرل بنا کچھ کہے کمرے سے نکل گئے اور ان کی پیچھے پیچھے ہی وہ سپاہی بھی کاظم کو اس کمرے میں تنہا کرسی پر بیٹھا چھوڑ کر نکل گیا۔ کاظم اٹھا اور واپس اسی راستے باہر نکل گیا جس راستے اسے یہاں لایا گیا آیا تھا۔
وہ کمرہ زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ کاظم جب وہاں پہنچا تو وہاں پر بریعہ نہیں تھی۔ کاظم نے ارد گرد دیکھا اور دوسری طرف کے راستے لی طرف بڑھا۔ ساتھ ہی دوسرے کمرے میں بریعہ کے سر پر بھی ایک ڈاکٹر چھوٹا پٹی کر رہی تھی۔ کاظم بھی اسی کمرے میں داخل ہو گیا۔ اسی کمرے کے ایک وینٹیلیٹر پر جلال کو لیٹویا ہوا تھا اور منہ پر آکسیجن ماسک لگایا ہوا تھا لیکن ابھی بھی وہ بےہوش ہی تھا۔
" ڈاکٹر کیسا ہے یہ اب۔۔۔۔۔ کیا ہوا تھا اسے " کاظم نے ڈھڑا دھڑ سوال شروع کر دیے۔
" دیکھیے مسٹر ابھی اسے ہوش نہیں آیا لیکن انشااللہ کل صبح سے پہلے پہلے اسے ہوش آجاۓ گا۔ اب آپ دونوں جائیں اور آرام کریں کل صبح ہمیں " شیلٹر ہاؤس" پہنچنا ہے اور تب تک آپکے ساتھی کی رپورٹ بھی آجاۓ گی اور ہوش آیا جاۓ گا " ڈاکٹر صاحبہ نے کاظم کو تسلی دی اور مائکروسکوپ پر کچھ کام میں مصروف ہو گئی۔
بریعہ اٹھی اور ڈاکٹر کے باہر نکل گئی اس کے بعد ہی کاظم بھی جلال پر نظریں جماۓ باہر نکل گیا۔ بریعہ ابھی باہر دروازے کے پاس کھڑی تھی اور کاظم سے مخاطب ہوئی
" تو تمھیں کیا لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہوگا " بریعہ نے یوں ہی سوال پوچھ لیا۔ کاظم کا موڈ بھی کافی سنجیدہ تھا۔ اس نے لاپرواہی میں سر نفی میں سر ہلا دیا ۔جس کے بعد بریعہ نے کوئی سوال نہیں کیا۔کاظم نے اب اس آبدوز کا طول و عرض ناپنا شروع کیا۔
آبدوز کے بڑے دروازے کے سامنے ایک کمرے کی جگہ خالی تھی اور دیواروں کے ساتھ کچھ ہتھیار وغیرہ کے ڈبے رکھے ہوۓ تھے ۔ پوری کی پوری آبدوز اندر سے سفید اور کالے ڈیزائن کی تھی۔ اس خالی صحن کے دائیں طرف بھی کمرے تھے اور بائیں طرف بھی کمرے تھے اور آبدوز کے درمیان سے ایک رراستہ آبدوز کے شروع میں موجود کنٹرول روم سے لے کر آخر میں بنے نٹز روم (ہتھیاروں والا کمرہ ) تک جاتا تھا اور ارد گرد سات کمرے تھے جن میں سے ایک ٹارچر روم اور ایک ڈاکٹر صاحبہ کا کمرہ ( لیب ) تھا۔ باقی کمرہ سپاہیوں کے اور ایک الگ کمرہ جنرل کا تھا۔ انھی کمروں میں سے ہر ایک کمرے میں ایک سنگل بیڈ کے اوپر دو اور سنگل بیڈز بھی ہوتے تھے تاکہ جگہ ضائع نہ ہو۔
خیر کاظم اور بریعہ بھی کسی کمرے میں ٹھر گئی۔رات بھی ہو رہی تھی تو نیند کی وجہ سے سو گئے۔ مجھے پتہ ہے کسی غیر مرد کے پاس ایک کمرے میں سونا کسی عورت کو اجازت نہیں دیتا مگر اس وقت اس کی کئی وجوہات تھیں۔ایک تو بریعہ کو اب کاظم پر بھروسہ بھی ہونے لگا تھا جو کہ احساسات کی ایک اہم کڑی ہے۔ اور دوسرا بریعہ کو کئی دنوں سے اس کی عادت بھی ہو چکی تھی ۔ تیسرا یہ کہ بھی تیز نیند نے اسے اس متعلق زیادہ سوچنے نہ دیا۔بریعہ بھی ٹیک اسی طرح اس کمرے میں سو گئی۔جس طرح کسی سفر جہاز میں مسافر ایک لیڈ میں ہی مگر علیحدہ علیحدہ بیڈز پر سو جاتے ہیں۔فرق بس اتنا تھا کہ اس وقت یہ دونوں کسی لیڈ میں نہیں بلکہ ایک کمرے میں تھے۔
کاظم کی رات گئے ایک جھٹکا لگنے سے آنکھ کھل گئی۔جس کے بعد اسے نیند نہیں آئی۔تو کاظم باہر نکل کر آہستہ آہستہ کنڑول روم میں جا پہنچا۔ کنٹرول روم میں اس وقت تین آدمی اور دو مزید عورتیں کمپیوٹر پر کچھ نقشہ جات پر نظریں گاڑھے اس اندھیرے میں سے نکال رہیں تھیں۔ کاظم کو یوں دیکھ کر ایک موٹا شخص حیران ہوا اور اس نے ایک کرسی کھینچ کر قریب کی اور کاظم کو بیٹھنے کا کہا۔
" یقیناً تمھاری آنکھ اس جھٹکے سے کھل گئی ہو گی۔ کوئی بات نہیں ایسے چھوٹے موٹے جھٹکے تو معمولی ہوتے ہیں ۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں ویسے بھی ہم صبح تک " شیلٹر ہاؤس" پہنچ جائیں گے " وہ شخص موٹا ضرور تھا مگر اس کی انگلی کمپیوٹر پر ایسے چل رہی تھیں جیسے اس سے اچھا کوئی کمپیوٹر چلا ہی نہ سکتا ہو۔ اس سے پہلے کہ کاظم کچھ بولتا وہ دوبارہ کاظم کے طرف متوجہ ہوا اور ہلکا سا سرگوش ہو کر بولا۔
" اچھا تم تو باہر سے ہی آۓ ہو نا تو بتاؤ کیسی ہے اب دنیا ۔۔۔۔۔۔مطلب میں سے سنا ہے کہ وہاں کوئی وائرس پھیل گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور انسان ہی انسانوں کی پپیاں لینے لگ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔او سنو۔۔۔۔تمھاری بھی کسی پپی لی ہے کیا " اس سوال سے کاظم کو کچھ جواب نہ آیا اور وہ شخص پھر سے بول پڑا۔
" اچھا تمھیں بتانے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ تمھارے چہرے پر بجے ہوۓ بارہ یہ بتا رہے ہیں کہ تم نہیں بتا پاؤ گے۔ " یہ کہہ کر موٹا شخص پھر سے کمپیوٹر پر مصروف ہو گیا۔
" اچھا یہ بتاؤ تم لوگوں نے ہمیں ڈھونڈا کیسے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ " شیلٹر ہاؤس " کیا ہے؟ " کاظم نے بھی ہمت کر کے سوال کر لیا۔ وہ شخص تھا تو موٹا مگر بہت کیوٹ بھی تھا اور بولتا تو بریعہ سے بھی زیادہ تھا۔
" او کے تو انجان لڑکے میرا اور میرے اس کمپیوٹر کا شکریہ ادا کرو کیونکہ اسی نے مجھے بتایا کہ اس آئیلینڈ میں کچھ زور دار مکینیکل دھماکا ہوا ہے اور پھر میں نے جنرل صاحب کو بتایا۔۔۔۔۔۔اور ہمارے جنرل صاحب ہیں بھی بہت کڑک ٹائپ کے۔۔۔۔۔۔۔ہم تو " شیلٹر ہاؤس " جا رہے تھے کوئی امپورٹینٹ خبر تھے اور جنرل صاحب نے کہا کہ چلو جاتے جاتے اگر کسی کی جان بچائی جا سکتی ہے تو اچھا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا کہا تم نے تمہیں شیلٹر ہاؤس کا بھی نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے ہاں تمھیں پتا بھی کیسے ہوگا۔۔۔۔۔تم تو وہاں کبھی گئے ہی نہیں ہوگے۔۔۔۔۔۔۔کوئی بات نہیں میں بتا دیتا ہوں بس یہ ایک سرور سے رابطہ کر لوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کچھ دیر بعد وہ موٹا شخص فارغ ہوا اور کاظم سے بولا ) دیکھو یار۔۔۔۔۔۔۔حکومت نے بہت عرصہ پہلے ہی دشمنوں کی چالوں کو پردے میں رہ کر سنبھالنے کے لیے ایک سیکرٹ تنظیم تشکیل کی تھی اور اب وہی ایک واحد سہارا ہے اس دنیا کا اور وہیں ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ اس دنیا میں کہاں کہاں اور کیا کیا ہو رہا ہے یا ہوا ہے ۔ اس وقت وہاں دنیا کے ماہر ترین سائینٹسٹز اور ہر قسم کا اعلٰی ہتھیار ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنطیم جانی گئی " دی شیلٹر " کے نام سے۔۔۔۔۔۔ یعنی تم یہ کہہ سکتے ہو جیسے زمین پر سب سے طاقتور تنظیم آئی۔ ایس۔ آئی ہے تو سمندر میں سب سے طاقتور تنظیم " دی شیلٹر " ہے جو کہ اب اس وائرس کے بعد " شیلٹر ہاؤس " بن چکی ہے.........۔۔اور کچھ۔۔۔۔ " یہ کہہ کر وہ مسکرایا دیا اور ایک اور اسے کمپیوٹر پر ایک اور نوٹیفیکشن ملا جس پر وہ کام کرنے میں مصروف ہو گیا۔کاظم کے لیے آج اتنی ہی معلومات کافی تھیں تو وہ بھی کچھ سوچتا ہوا اٹھ کر واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z