Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 5
- = -
انشراح میر اپنے دادا جان کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مشغول تھی جب ولی خان کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
May I come in Dada Saiyn
اس نے نہایت شائستگی سے اندر آنے کی اجازت طلب کی.
آؤ آؤ میرے شیر____ دادا جان جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے ولی خان آگے بڑھ کر ان کے ہاتھوِں کا بوسہ لینے لگا۔ پیار احترام،عقیدت___کیا نہیں تھی ولی خان کے عمل میں۔
انشراح میر اس کی طرف دیکھنے لگی. وہ ایسا ہی تھا
"وہ ولی خان تھا، اپنے محسن کو نہ بھولنے والا،اپنے رشتوں پر جان چھڑکنے والا، اپنے عہد وفا کرنے والا"
اس کی ہر ہر ادا پر انشراح میر قربان جاتی تھی. دادا جان اور ولی خان اب باتوں میں مصروف تھے جب ولی خان نے کمپنی کی طرف سے الاٹ کیے گئے اپارٹمنٹ کا ذکر کیا۔
دادا جان اس کی کامیابیوں پر بہت خوش تھے۔
دادا سائیں میں نور کو اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو___ ولی خان نے نہایت سلیقے سے اپنا مدعا بیان کیا۔
ولی خان کی بات سنتے ہی انشراح کی دھڑکن تیز ہوگئی اس نے تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ اور نور خان ایک دوسرے سے دور رہیں گی۔
یہ آپ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ولی_؟ میں نور کو خود سے دور نہیں جانے دوں گی۔ انشراح فوراً بول اٹھی۔ دادا جان خاموش بیٹھے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
کس نے کہا کہ نور آپ سے دور جائے گی نشاء بی بی۔؟؟ ہم صرف اس گھر سے اُس گھر رہنے جارہے۔ میں ہر ویک اینڈ پر نور کو یہاں رہنے بھیجوں گا. اور ویسے بھی آپ یونی میں تو روز ملو گی__ولی نے انشراح کو سمجھایا۔
ولی خان اپنی بات پر قائم تھا اس نے دلائل کے ساتھ انشراح میر کو منا لیا اور اب دادا جان کی طرف سے اجازت کا منتظر تھا۔ دادا جان نے چاروناچار اسے اجازت دے دی.
وہ جانتے تھے کہ ولی خان جیسا خوددار لڑکا کبھی بھی ان پر بوجھ بننا پسند نہیں کرے گا۔ وہ اس کی خودداری کو دل سے تسلیم کرتے تھے۔ لہذا انہوں نے ولی خان کو اجازت دے دی۔
ولی خان اور دادا جان اب ملکی سیاست پر بحث کرنے لگے۔اور انشراح میر وہیں بیٹھی ولی خان کو دیکھنے میں مصروف تھی۔
اسے پہلو میں بٹھا کر اسے تکنے کا نشہ
کس قدر ہوگئی چہرے پر ضروری آنکھیں
انشراح میر کے لئے دنیا کا سب سے دلچسپ کام ولی خان کے چہرے کو تکنا تھا۔ اسے ولی خان کی سحرانگیز آنکھوں سے عشق تھا۔
دادا جان کا دھیان انشراح کی طرف ہی تھا وہ اپنی لاًڈلی بیٹی کی اس کیفیت سےواقف تھے مگر وہ جانتے تھے کہ ان کی لاڈوں پلی بیٹی ولی خان کے ساتھ ایڈجسٹ نہ کرسکے گی۔
یہی حقیقت تھی ایک اپرکلاس لڑکی کبھی بھی مڈل کلاس فیملی میں ایڈجسٹ نہیں کرسکتی۔ جبکہ مڈل کلاس لڑکی، اپر کلاس میں ایڈجسٹ کرلیتی ہے۔ میر حاکم اس حقیقت سے واقف تھے جبکہ انشراح میر کلاس ڈفرینس کو مانتی نہیں تھی۔
انشراح میر کا ماننا تھا کہ محبت تو بہت معتبر جذبہ ہے محبت تو محبت ہوتی ہے چاہے کسی بھی شکل میں ہو یہ دنیا کا واحد جذبہ ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔ محبت میں امیری غریبی نہیں دیکھی جاتی. محبت میں محبوب کا مقام بہت ارفع واعلی ہوتا ہے۔ عاشق کا کام صرف محبوب سے محبت کرنا ہے۔ محبوب کی ہاں میں ہاں، ناں میں ناں کرنا___محبوب کی خوشی اور رضا پر اپنی خوشی قربان کرنا__
مگر انشراح میر اس زمانے کے دستور کو بھول چکی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ محلوں میں رہنے والی وہ شہزادی اس غریب گھرانے کے اکلوتے کفیل کے لئے کن مشکلات کا باعث بن سکتی ہے__ وقت بتانے والا تھا کہ انشراح میر کی محبت ولی خان پر کیا قیامت توڑنے والی تھی۔
💕💕💕
انائیتہ شاہ کی مسز خان سے اٹیچمنٹ ہوچکی تھی اس نے سارا وقت ان کے ساتھ گزارا۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی سپیشل لوگوں کو ٹریٹ کرنے کا کورس کیا تھا۔ وہ گونگوں کی زبان جانتی تھی اس نے اشاروں سے مسز خان کے ساتھ گفتگو کی اور ان سے دوستی کرلی۔ گھر آنے سے پہلے اس نے ان سے اپنا نمبر ایکسچینج کیا۔
انائیتہ شاہ جیسے ہی گھر پہنچی تو مسز شاہ نے اسے پارسل کا بتایا وہ حیران تھی اسے یاد تھا اس نے کوئی چیز آرڈر نہیں کی تھی۔ جیسے ہی اس نے پارسل کھولا تو وہ خوبصورت درد بھری پینٹنگ دیکھتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔
یہ وہی پینٹنگ تھی جس پر "ناٹ فار سیل" کا ٹیگ لگا تھا مگر اب وہاں ایک کارڈ تھا جس پر نہایت خوبصورتی سے لکھا تھا
to the girl who has beautiful heart. Thank you for being the reason of my smile Anayta Shah
From "TWK"
انائیتہ شاہ حیران و پریشان اس پینٹنگ کو اپنے کمرے میں لے گئی۔ اور کتنی ہی دیر اس بھیبجنے والے کو سوچتی رہی پھر سر جھٹکتے شاور لینے چلی گئی۔
❤❤❤❤
انائیتہ شاہ کی مسز خان سے دوستی ہوچکی تھی اس کا بیشتر وقت ان کے ساتھ چیٹ کرتے گزرتا۔ آج اس نے ان سے ملنے کا ارادہ کیا
مسز خان نے اسے اپنا اڈریس سینڈ کیا۔ وہ وائٹ شرٹ پر بلیو ڈینم کی جینز پہنے اور بلیو ہی ڈینم کا اپر پہنے سن گلاسز ویئر کیے گھر سے نکلی۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کرتے وہ خان ولا پہنچی __ گھر داخل ہوتے ہی اس کی نظر اس خوبصورت لان پر پڑی تو وہ رنگ برنگے پھولوں کو دیکھتی اس گھرکے مکین کے اعلی ذوق سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ خوبصورت راہداری سے گزرتے ہال میں اینٹر ہوتے اس خوبصورت شیش محل کو دیکھتے وہ اس کی خوبصورتی میں کھو گئی۔ اسے اس گھر میں بہت اپنائیت اور سکون محسوس ہوا جو کبھی شاہ پیلس میں بھی محسوس نہ ہوا۔
اس نے آنے سے پہلے مسز خان کو اطلاع کردی تھی اور اب وہ اسے لان میں وہیل چیئر پر بیٹھی نظر آئیں تو وہ بھاگتی ہوئی ان کی طرف لپکی۔ اور انہیں گلے لگا لیا۔
مسز خان بھی اس کے لمس کو محسوس کرتی رہیں۔ وہ کتنی ہی دیر اسے خود میں بھینچے رہیں۔ پھر اسے لے کر اندر چلی گئیں اور اب انائیتہ شاہ اس گھر کے درودیوار کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی۔
اس نے پورا دن مسز خان کے ساتھ گزارا۔ جانے ان کے لمس میں ایسا کیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی ان سے دور نہیں ہو پارہی تھی۔
مسز خان نے اس کے لئے سپیشل خود کوکنگ کی۔ کھانے کے بعد اس نے خود ان کے لئے چائے بنائی۔ مسز شاہ نے اپنی بیٹی کو ہر طرح کا ہنر سکھارکھا تھا۔
چائے پینے کے بعد مسز خان نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئیں جب انائیتہ شاہ کال سننے کے ارادے سے ان کے کمرے سے باہر آئی. انائیتہ کی نظر سیڑھیوں کی طرف پڑی جو کہ ایک کمرے کی طرف جارہی تھیں۔ انائیتہ شاہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کمرے کی طرف جانے لگی جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ نیچے گرنے لگی۔
تیمور ولی خان جو آج آفس سے جلدی گھر لوٹ آیا اس نے جیسے ہی ہال میں قدم رکھا تو ایک لڑکی کو اپنے روم کی طرف جاتے دیکھا اس سے پہلے کہ وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتا اس کی نظر لڑکی کے پاؤں پر پڑی جو کہ سلپ ہوا تھا تیمور ولی خان بھاگتا ہوا اسے گرنے سے بچانے کے لئے آگے بڑھا۔
انائیتہ شاہ نے ایک زوردار چیخ ماری۔ اسے اپنا وجود ہوا میں لٹکتا محسوس ہوا۔ اس نے زور سے آنکھیں میچی ہوئی تھیں۔
اس کے معصوم چہرے کو دیکھ کر تیمور ولی۔خان کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
گوری رنگت جو کہ اب ڈر و خوف سے سرخ ہوچکی تھی آنکھیں میچے لبوں پر کوئی ودر کرتی وہ معصوم سی لڑکی پہلی نظر میں ہی تیمور ولی خان کو اچھی لگی۔ وہ اس دلکش حسینہ کو کتنی ہی دیر محسوس کرتا رہا اور پھر اس کے کانوں کے پاس ہونٹ لے جا کر سرگوشی کرتے انداز میں بولا۔
زندہ ہو تم لڑکی، اپنی آنکھیں کھول لو😀
انائیتہ شاہ جو یہ سمجھی کہ اب وہ ہاسپٹل میں آنکھ کھولے گی اپنے قریب کسی کی آواز سن کر آہستہ سے آنکھیں کھولتی خود کو صحیح سلامت دیکھ خوش ہوگئی۔
جیسے ہی اس کی نظر اس مسیحا پر پڑی تو انائیتہ شاہ کی سانس تھم گئی۔ یوں لگا جیسے اس کے 3 سال سے مردہ وجود کو دوبارہ سے زندگی سونپی گئی ہو۔ روح القدس اسے مرگ الموت بستر پر چند مزید سانسیں سونپے چلا گیا۔ اس کے چاروں طرف خوشی کے شادیانے بج اٹھے ہوں۔
اس وقت انائیتہ شاہ سے اگر اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی تو وہ وقت تھمنے کی چاہ کرتی_،_ انائیتہ شاہ کو اس وقت اپنا آپ کتنا معتبر لگا وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی___
خوش قسمت ہی تو تھی وہ ____
آج انائیتہ شاہ اپنے 3 سالہ عشق اپنے محبوب اپنے خان کی بانہوں میں تھی۔ اس نے تو تصور بھی نہ کیا کہ قسمت اس پر یوں مہربان ہوگی__
دوسری جانب تیمور ولی خان بھی ان نیلی آنکھوں کے سحر میں کھو چکا تھا مگر بہت جلد اس نے خود کو کمپوز کرلیا۔ اس نے انائیتہ شاہ کو اس کے زور پر کھڑا کیا۔ اور اب اسے خود سے الگ کیا۔
سنبھل کر چلا کرو بے بی ڈول😘😘😘___ تیمور ولی خان کی گھمبیر آواز انائیتہ شاہ کے کانوں سے ٹکرائی. وہ اردگرد دیکھنے لگی تو تیمور ولی خان سر جھٹکتے سیڑھیوں کی طرف جانے لگا۔
یہاں بےبی ڈول تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے___ جاتے جاتے وہ انائیتہ شاہ کے کانوں میں سرگوشی کرنا نا بھولا۔
انائیتہ شاہ ابھی تک خواب کی کیفیت میں تھی جب اسے ملازمہ نے مسز خان کا پیغام دیا تو وہ اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف بڑھی۔
انائیتہ شاہ کی نظر کمرے میں بیڈ کے پیچھے دیوار پر آویزاں ایک خوبصورت مرد کی تصویر پر پڑی۔ وہ مرد اپنی وجاہت میں مکمل تھا۔ اب انائیتہ کی نظر اس تصویر پر تھی۔ وہ اس سے پہلے اس تصویر پر دھیان نہ دے سکی مگر اب وہ تصویر اس کے لئے مرکزِ نگاہ بن چکی تھی۔
اسے تصویر میں وہ مرد اپنے خان کی طرح معلوم ہوا۔ اس کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کا خان زیادہ خوبصورت ہے یا پھر تصویر میں مسکراتا وہ شخص__،،،،
انائیتہ نے اب مسز خان کے کمرے پر نظر دوڑائی تو وہ پورا کمرہ مسز خان اور اس آدمی کی تصویروں سے بھرا تھا۔ کسی جگہ ایک 5 سالہ بچہ ان کے ساتھ تصویروں میں ہنستا مسکراتا تھا۔ انائیتہ شاہ کے لئے یہ جاننا مشکل نہ تھا کہ سامنے تصویر میں موجود مرد مسز خان کے لئے سراپا عشق ہے__،
تھوڑی دیر بعد تیمور ولی خان دروازہ ناک کرتا کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے مسز خان کے ہاتھوں کا احترام سے بوسہ لیا__ اور پھر خود ہی انائیتہ شاہ سے اپنا تعارف کرایا۔
آج 3 سال میں پہلی بار انائیتہ شاہ کو اپنے خان کا نام معلوم ہوا۔۔ انائیتہ شاہ نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جسے تیمور نے بدقت تھام لیا۔
مسز خان اپنے بیٹے کے اس فیصلے پر حیران اور خوش تھیں۔ یہ ملاقات تیمور ولی خان اور انائیتہ شاہ کی باضابطہ طور پر پہلی ملاقات تھی۔ آگے چل کر ان ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہونے والا تھا۔
😍😍😍
نور خان اور ولی۔خان کو اپنے نئے گھر شفٹ ہوئے 1 ہفتہ گزر چکا تھا۔ ولی خان نے ایک چھوٹا سا ویل فرنشڈ اپارٹمنٹ لیا تھا۔ نور خان نے کیونکہ انٹریئر ڈیزائننگ کے کورسز کر رکھے تھے اس نے اپنی مہارت سے اس گھر کو ڈیکوریٹ کیا تھا۔ وہ یونی جاکر انشراح سے ملتی کیونکہ ان کے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ تھے مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے لئے وقت نکالتی تھیں۔
میری گڑیا کیا سوچ رہی ہے؟؟ ولی خان جوکہ ابھی ابھی گھر لوٹا تھا اس نے نور خان کو اداس بیٹھے دیکھ اس سے استفسار کیا_ نور خان اس کی بہن نہیں جان تھی__ وہ اس کے دل کے بہت قریب رہتی تھی__ اس لئے اپنی بہن کی اداسی پر وہ پریشان ہوا_
کچھ نہیں لالہ بس نشاء کی یاد آرہی تھی__ نور خان نے اپنی پریشانی بتائی تو ولی خان بے ساختہ مسکرایا__ وہ اپنی بہن اور انشراح کی دوستی سے بخوبی واقف تھا__
اگر ایسی بات ہے تو چلو ہم آج ہی نشاء بی بی کی طرف چلتے ہیں__ ولی خان نے فوراً حل بتایا__ جس پر نور خان مسکراتی نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھنے لگی__ اس کا بھائی ایسا ہی تو تھا__دوسروں کے لئے جینے والا____ اپنوں پر سب قربان کرنے والا___ اسے فخر تھا اپنے بھائی کی اس سادگی و عاجزی پر__مگر بہت جلد نور خان کو نفرت ہونے والی تھی اپنے بھائی کی فطرت سے___ وقت بہت بڑا ستم کرنے والا تھا___ ایک طوفان ان کا منتظر تھا___
😍😍😍
نوٹ: اگر نیکسٹ ایپی آج ہی چاہیے تو جلدی سے 150 لائکس اور180 کمنٹس کریں ایپی پر___ ورنہ نیکسٹ ایپی رمضان کے بعد آئے گی ۔
- = -
2 episodes rozana post hori han rozana is web pr
- - -