Tamasha-e-Muhabbat - Episode 6

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 6

2  episodes rozana post hori han rozana is web pr


- = -


(ماضی)

3 سال پہلے

انشراح میر اپنے دادا کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں گئی تھی ایسے میں نور خان آجکل لاہور ولی خان کی طرف گئی__ ولی خان پڑھائی کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھا____ آج کافی دنوں بعد نور خان نے اپنی فیسبک لاگ ان کی___ 

جب اس کی نظر ایک پبلک پوسٹ پر پڑی__ 

محبت کے بارے میں لوگوں کے نظریات پوچھے گئے__ جس پر نور خان نے اپنا پوائنٹ آف ویو بیان کیا___

نور خان کے نزدیک محبت زات پات، رنگ و نسل کی تفریق سے پاک تھی__

محبت ایک معتبر جذبہ ہے جو رنگ و نسل، زات پات کی قید سے آزاد یے__ نور خان نے اپنا کمنٹ لکھ کر موبائل آف کردیا_

کچھ دیر بعد اس نے انشراح سے کال پر بات کی کال بند کرتے ہی اس کے موبائل کی سکرین پر نوٹیفکیشن چمکا__ نور خان نے جیسے ہی اوپن کیا تو اس کے کمنٹ کے جواب میں ایک آئی ڈی کا ریپلائی دیکھتے اس نے اپنا انبکس چیک کیا_

اے-ایس نام کی آئی ڈی اس کے سپام میں تھی نور خان نے چیٹ اوپن کی۔

اور اس سے ہیلو ہائے کیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد اے_ایس نے اسے دوستی کی پیشکش کی جسے نور خان نے ایکسپٹ کیا۔

آپ کا اصل نام کیا ہے؟ نور نے سوال کیا

ازلان شاہ__ اے_ایس کا جواب فورا آیا۔ 

نور کو باتوں باتوں میں وہ بہت اچھا لگا اور کیونکہ آج کل وہ بالکل فارغ تھی اس نے سوچا کہ دوست بنائے جائیں___ 

ازلان شاہ کا تعلق لاہور کے ایک ایلیٹ کلاس گھرانے سے تھا___ وہ پڑھائی کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھا اور آج کل پاکستان آیا ہوا تھا،

ازلان شاہ ایک لمبا چوڑا، گورا رنگ، سیاہ بال بغیر جیل لگائے ہوئے ایک سائیڈ پر کیے، مضبوط جسامت کا خوبرو مرد تھا__، اس کی پرسنالٹی میں ایک چارم تھا 

جنس مخالف اس پر فریفتہ ہوئے بنا نہ رہ سکتی مگر وہ مغرور مرد اپنی لاپرواہی سے کتنی حسیناؤں کا دل توڑ چکا تھا__

ازلان شاہ ایک امیر کبیر گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود خود کو عیاشی سے دور رکھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ اس کا وجود اس لڑکی کی امانت ہے جو اس کے دل کی سلطنت پر راج کرے گی____

ازلان شاہ کو تلاش تھی اس لڑکی کی، وہ محبت کرنے والوں میں شمار ہوتا تھا__اس کا عقیدہ محبت پر پختہ تھا______

ایک روز اس نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی جس پر نور خان کے کمنٹ نے اسے متاثر کیا_

 کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی محبت کے لئے مقابل کا ایک جملہ، ایک ادا ہی کافی ہوتی ہے__ 

ازلان شاہ نے اس کی پروفائل کھولی تو اس کی پروفائل پکچر دیکھ کر اسے زوم کیا__،

وہ کتنی ہی دیر اس حسینہ کو دیکھتا رہا__ اُس نے آدھی دنیا گھومی تھی مگر اتنا کامل حُسن جو اُسے اردگرد سے بےگانہ کردے___ اس نے ایسا حسن نہیں دیکھا تھا اس نے فوراً اس دلربا کو میسج کیا 

نور کا جواب آیا تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے بات کرنے لگا اور پہلی بار اس مغرور شاہ نے کسی لڑکی کو خود سے دوستی کی آفر کی۔

 یوں ان دونوں کی ہر روز بات چیت ہونے لگی_ 

آج نور خان اس سے ملنے ایک پارک میں آئی_ وہ اس کی دوستی پر آنکھ بند کر کے یقین کرتی تھی_

تصویریں کبھی کسی کا حسن بیان نہیں کرسکتی ___ ازلان شاہ نے نور کو دیکھتے کہا____ نور اس کی بات پر مسکرائی____

  دن رات اس سے باتیں کرتے اسے ازلان شاہ کی عادت ہوگئی_،،

کہا جاتا ہے کہ عادت لگنا محبت ہونے سے زیادہ خطرناک ہے____ 

اور نور خان کو ازلان شاہ کی عادت ہو چکی تھی۔جبکہ ازلان شاہ تو نور خان کے حسن کا اسیر ہوچکا تھا

پارک میں واک کرتے ازلان اور نور نے پھر سے محبت کے ٹاپک پر بحث شروع کی_

رومانس اور محبت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟؟ اے_ایس نے کمال مہارت سے سوال کیا__، 

محبت میں حوس نہیں ہوتی__ نور خان کے بےتکے جواب پر فورا ازلان نے قہقہہ لگایا۔ 

رومانس کیا ہوتا ہے؟ ازلان شاہ نے ایک اور سوال کیا۔

نور خان سرخ چہرہ لیے اسے دیکھنے لگی تو ازلان شاہ نے اس کی طرف دیکھا اور گویا ہوا۔

رومانس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ لڑکا،لڑکی ایک دوسرے کو چند کسز کریں اور پھر جسمانی تعلق بنائیں۔

"رومانس تو ایک فیلنگ ہے نور، 

یہ انسان کے اندر کا احساس ہے

اپنے محبوب کی ہر بات ماننا،

اس سے ڈھیروں باتیں کرنا، اس کی خوشی میں خوش ہونا ، اس کی رضا پر خود کو وار دینا، اس کی تکلیف میں اسے سہارا دینا، اس کے لئے اپنے ہاتھوں سے کافی بنانا، اس کے لئے شدید غربت میں گجرے خریدنا___اور چوڑیاں خرید کر اسے پہنانا"____ 

میرے نزدیک یہ سب رومانس ہے__ رومانوی جذبات یہی تو ہوتے ہیں اور اس وقت میں تم سے رومانس کررہا ہوں نور____ 

نور خان کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی اس شخص کی باتیں اسے بہت سپیشل فیل کراتی تھی____ 

وہ ہمیشہ لاجواب کر دینے والی باتیں کرتا تھا___

جلد ہی اس نے موضوع بدل دیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے شام کو وہ اسے اس کے اپارٹمنٹ تک چھوڑنے گیا۔

گھر آتے ہی نور اور ازلان میں پھر سے باتیں ہونے لگی اور یہ سلسلہ یونہی چلنے لگا. ان دنوں نور خان انشراح میر تک کو بھول چکی تھی۔ 

💓💓💓

نور خان مال آئی تھی اور کچھ ضروری چیزیں خرید کر گھر چلی گئی۔ مال میں اسے احساس ہوا کہ وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے مگر اسے وہم سمجھتے وہ گھر چلی گئی۔

گھر پہنچتے ہی اس نے ولی کو شاپنگ دکھائی۔ 

لالہ ہم کل نشاء کی برتھ ڈے پر انوائٹڈ ہیں" نور نے ولی خان کو یاد کرایا۔

ہاں مجھے یاد ہے___ میر سائیں کا فون آیا تھا مجھے سارے انتظام دیکھنے ہیں__، وہ دونوں بہن بھائی باتوں میں مشغول تھے۔ 

رات کے پونے بارہ بجے ولی اپنے کمرے میں آکر کچھ سوچنے لگا۔ کافی دیر سوچنے کے بعد وہ ایک نتیجے پر پہنچا اور ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی 

❤❤❤

Happy birthday to you my love

Ensharah Mir Hakim

رات بارہ بجے ایک انجان نمبر سے میسج ریسیو ہوا تو انشراح پریشان ہوگئی۔ مگر اس نے نظرانداز کردیا

اور وہ نور کی کال آنے پر اس سے باتیں کرنے لگی۔ اس سے کل کی پارٹی کو ڈسکس کرنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ سونے کے ارادے سے چینج کرنے چینجنگ روم میں گئی۔ 

5 منٹ بعد انشراح میر ریڈ نائٹی جس کا گلہ ڈیپ تھا اور ریڈ نائٹی میں اس کے دودھیا بازو اپنی چھب دکھا رہے تھے۔ گھٹنوں تک آتی اس نائٹی میں وہ بہت ہاٹ لگ رہی تھی۔ 

جونہی وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا۔ وہ اندھیرے سے ڈرتی تھی۔ اسے اپنے کمرے میں ایک سایہ نظر آیا اس سے پہلے کہ وہ چیخ کر گھر میں سب کو متوجہ کرتی وہ سایہ اس کی طرف تیزی سے بڑھا اور اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی چیخ کو روکا۔

انشراح میر خوف وڈر کی کیفیت میں تھی۔ جب وہ اپنے ہونٹ اس کے قریب لایا اور اس کے کانوں کے قریب سرگوشی کی۔

ڈرو مت! میں تمہیں نقصان پہنچانے نہیں آیا۔

I just wanna Celebrate your birthday

Babe

اس نے اپنے ہاتھ انشراح کی کمر کے گرد پھیلائے اور اسے پکڑتا ہوا سینٹر ٹیبل کی طرف لے کرگیا۔ جہاں ٹیبل پر پھول بکھرے تھے اور ان پھولوں کے درمیان ہارٹ شیپ کا ایک چھوٹا سا چاکلیٹ کیک رکھا تھا۔ 

Blow the candle 

اس نے حکمیہ انداز میں کہا تو انشراح ڈر کے مارے کینڈل بجھانے لگی

Cut the cake

اگلے حکم پر انشراح کا دل کیا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر روئے مگر وہ بے بس ہوچکی تھی اس نے کیک کٹ کیا اور کیک کٹ کرنے جیسے ہی وہ جھکی اس کے گہرے گلے پر اس شخص کی نظر پڑی اور وہ بے اختیار آگے بڑھا اس نے انشراح کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کیک کاٹا اور ایک بائٹ اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا۔ جسے اس نے مشکل سے کھایا۔ 

اب اس نے انشراح کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس لے جا کر اسے کس کی۔ وہ کتنی ہی دیر اپنے جذبات کی شدت اس کے ہونٹوں پر لٹاتا رہا اور جب انشراح کا سانس اکھڑنے لگا تو وہ اس سے الگ ہوا۔ 

اب اس کا اگلا نشانہ انشراح کی آنکھیں تھیں وہ ان پر اپنا لمس چھوڑنے لگا__

اب وہ اپنے ہونٹ انشراح کے کان کے پاس لایا اور مدہوش کن لہجے میں بولا__

جام پر جام پینے کا کیا فائدہ

رات گزرے گی ساری اتر جائے گی 

تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم 

عمر ساری نشے میں اتر جائے گی

اس کے کان کی لو کو دانتوِں میں دبائے  

انشراح کو سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر وہ اس کی گردن پر جھکا اور اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا۔ اس نے انشراح کو اپنے بازوؤّں میں اٹھایا اور بیڈ پر لے جاکر اس کے چہرے، کانوں کی لو، آنکھوں، گردن جگہ جگہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔ 

جیسے ہی اسے انشراح کے رونے کی آواز سنائی دی وہ اس سے الگ ہوا۔ اور اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہوتا وہاں سے چلا گیا۔

انشراح میر اس کے جانے کے بعد کتنی ہی دیر بےحس وحرکت بیڈ پر پڑی رہی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ وہ بھاگتی ہوئی واش روم میں گئی اور شاور کھول کر اس کے نیچے کھڑی ہوگئی۔

انشراح میر اپنے ہونٹوں اور پورے جسم کو رگڑ رہی تھی__ وہ اس شخص کے لمس کو مٹانے کی کوشش کررہی تھی_ اسے اپنی قسمت پر رونا آرہا تھا۔ 

وہ کتنی ہی دیر خود کو رگڑ رگڑ کر پاک کرنے کی کوشش کرتی رہی اور کمرے میں آتے ہی جب وہ منظر اس کے سامنے آیا تو وہ پھر سے رونے لگ گئی۔ وہ روتے ہوئے اپنےکمرے سے باہر نکلی جب ولی خان جو کہ اس کے کمرے کے پاس سے گزرا اسے اس حالت میں دیکھتاپریشانی میں اس کے پاس آیا۔ ولی خان جو کہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اپنی تمام تر وجاہت سمیت اس کی طرف بڑھا___

نشاء بی بی کیا ہوا آپ کو؟؟ آپ اس حلیہ میں یہاں کیا کررہی ہیں۔؟ ولی خان نے انشراح سے سوال کیا۔

انشراح اس کی آواز سنتے ہی بھاگتی ہوئی اُس کے گلے لگ کر رونے لگی۔ ولی خان اسے یونہی اس کے کمرے میں لے کر آیا۔ انشراح اسے سب کچھ من و عن بتانے لگی۔ جسے سننے کے بعد اس نے اسے سینے سے لگا کر تسلی دی۔ اور وہ کتنی ہی دیر اس کے سینے سے لگی پرسکون ہوکر سوگئی 

ولی خان بھی وہیں صوفے پر بیٹھا رہا اس نے جیسے ہی اسے خود سے الگ کرنے کی کوشش کی وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈالے خوفزدہ لہجہ میں بولی۔

مجِھے خود سے دور مت کرنا ولی خان، مجھے ظالم بھیڑیا نگل لے گا۔ مجھے اپنا آپ ، ولی خان کے ساتھ محفوظ لگتا ہے___ میری عزت کے محافظ فقط آپ ہو ولی خان____ولی خان کو اس کی آواز میں چھپے درد نے جھنجھوڑ دیا اور اس نے انشراح کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی اور صبح فجر کے قریب انشراح کی آنکھ کھلی۔ اس نے خود کو کسی مضبوط حصار میں محسوس کیا۔ وہ کتنی ہی دیر ولی خان کے چہرے کو تکتی رہی جوکہ اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں لیے بےخبر سو رہا تھا_____

کیا کوئی مرد اتنا دلکش ہوسکتا ہے؟؟ ولی خان کی ساحرانہ شخصیت اور مضبوط کردار نے انشراح میر کو اس کا دیوانہ کر رکھا تھا___ ولی خان ایک خوبرو اور وجیہہ مرد تھا__ اُس کے چہرے میں بلا کی کشش تھی__ اس کی آنکھیں مقابل کو مدہوش کرتی تھیں مگر وہ ان آنکھوں کو ہمیشہ گلاسز کے نیچے چھپا کر رکھتا تھا__ انشراح میر کتنی ہی دیر اس کے چہرے کو تکتی رہی جو کہ اس کا دلچسپ کام تھا___ ولی خان کو اپنے چہرے پر کسی کی نظریں محسوس ہوئی تو اس نے آنکھ کھولی اور انشراح میر کو اتنے قریب دیکھ کر رات والا واقعہ یاد آنے پر اس سے نظریں چُراتا باہر چلا گیا____ انشراح میر رات واقعے کے بارے میں سوچنے لگی وہ اب پہلے کی نسبت کافی حد تک ریلیکس تھی______

💖💖💖

ہاں جی کیا خیال ہے کون آیا تھا انشراح کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے؟؟ اینی گیسز؟؟


To Be Continue...

2  episodes rozana post hori han rozana is web pr


- = -


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)