Novel - ZombieWar Red Zones Alert
Episode 3
Season 1
Writer - Daoud Ibrahim
- - -
ایسے حالات میں انسان کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ہوتا ہے۔یہی حال کاظم کا تھا۔جب کبھی وہ باہر نکلنے کا سوچتا تو باہر کے وہی حالات دیکھ کر گھبرا جاتا۔ کچھ دن ایسے ہی گزرے تو راشن دانہ سب ختم ہو گیا۔ جو کچھ اس کے کمرے میں موجود تھا۔ عقل پر زور دیا تو دماغ میں بات آئی کہ اب جلدی سے جلدی اسے کھانے کا بندوبست کرنا پڑے گا اور اگر یہ اب نکلتا ہے کھانے کی تلاش میں تو کچھ امید بھی کی جاسکتی ہے کھانا ملنے کی لیکن بعد میں بھوک سے کمزوری ہوجائے گی۔ جس کی وجہ سے اس سے کچھ نہیں ڈھونڈا جائے گا اور خدا جانے کہاں تک جانا پڑے۔ ہمت بڑھائی اور دروازے کی کنڈی اٹکانے اور دروازے کے ساتھ پریشر پیدا کرنے کے لیے لگائی ہوئی کرسی کے اوپر چڑھ کر اس نے شیشے سے باہر جھانکا۔ پرانی وضع کے دروازوں کے اوپری حصوں میں شیشے کا کام ہوتا تھا۔ باہر کسی کو بھی نہ پا کر اس نے خاموشی سے وہ کرسی ہٹائی اور دروازے کی کنڈی کھول کر باہر نکلا۔ وہ خاموشی سے ڈرتا ہوا سڑکوں کے اردگرد پڑے سامان اور ٹھیلوں کی اوٹ بنائے ہوئے شمال کی جانب بڑھتا رہا۔وہ جہاں کہیں بھی ان آدمخوروں کو دیکھ لیتا وہیں دور سے واپس مڑ پڑتا اور پھر پیٹ کا خیال آتا تو دوبارہ چل پڑتا۔ کہیں ان آدمخوروں کو دیکھ کر چھپ جاتا اور کہیں ان آدمخوروں کو ایک دوسرے سے لڑتے وقت رفتار اور ان کے عجیب و غریب کرتب دیکھ کر حیران رہ جاتا جو وہ ایک دوسرے سے لڑتے وقت کرتے تھے اور گرنے یا کچلے، جب وہ گروہ کی شکل میں دوڑتے تو کچھ لنگڑے ہونے کی وجہ تیز چلنے والوں کے نیچے آ جاتے۔ جانے بعد ایسے اٹھتے جیسے نرم مائم بستر پر سے اٹھ رہے ہوں اور انھیں کچھ محسوس ہی نہ ہوا ہو۔ محسوس ہوتا بھی کیسے ان میں جان ہوتی تو ہی کچھ محسوس کرتے اور نہ ہی کچلنے والے آدمخور شکار کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ کرتے تھے۔ پرواہ کرنا تو دماغ ہی سکھاتا ہے اور ان کے پاس تو کچھ ایسا تھا ہی نہیں استعمال کرنے لائق۔ چھپتے چھپاتے، چلتے چلاتے وہ ایک ریسٹورنٹ کے سامنے سے گزرا۔ تو بھوک کی وجہ سے کنٹرول کھو کے اس کی طرف لپکا۔ ریسٹورنٹ کھولا نہیں گیا تھا کیونکہ وبا رات کے وقت پھیلی تھی۔ اس لیے ریسٹورنٹ کے سارے دروازے بند تھے مگر ایک کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی۔ تو اس نے دائیں بائیں نظر دوڑائی اس ایریا میں کوئی زیادہ نہیں ہلچل نہیں تھی نہ کوئی آدم زاد اور نہ ہی کوئی آدمخور نظر آرہا تھا۔ اس لیے وہ آسانی سے ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے ریسٹورنٹ کے اندر گھس گیا۔ حیرانی کی بات تھی کہ ساری لائیٹس چل رہیں تھیں۔ اسے شک ہوا کہ وہاں ضرور کوئی انسان ہوگا لیکن صرف شک تھا۔ اس لیے کچھ کہہ نہیں تھا کہ بول کر رسک لیا جائے۔ اس ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر جمپ کیا تھا لیکن جمپ کرنے کے فوراً بعد لائٹس کو آن دیکھ کر الرٹ ہوا اور اسی پوزیشن میں قائم رہنے کے لیے ہلا نہیں۔ اس کی ٹانگیں تھوڑی سی بیٹھنے کے انداز میں مُڑی ہوئیں تھیں۔ جیسا کہ اونچی جگہ سے جمپ کرنے کے بعد ہوتی ہیں اور دونوں بازو بھی اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر پھیلائے ہوا میں ساکن کر کے جھکا کھڑا تھا تاکہ کوئی غلطی سے بھی غلطی ہو کر آواز پیدا نہ ہو جائے۔ جس کے متعلق وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ ذرا سی آواز بھی باآسانی دور تک سن سکتے ہیں۔
ساکن کھڑا ادھر ادھر نظریں گھما رہا تھا کی شاید اگر کوئی یہاں ہوا تو وہ الڑٹ ہو سکے۔ پھر سامنے ٹیبل پر پڑی پیک ڈبل روٹی اور سارا کھانے کا سامان، جو کہ ریسٹورنٹ کی ملکیت تھا، دیکھ کر اسکی بھوک بڑھی۔ بھوک بڑھی تو بھوک نے دلاسا دیا کہ شاید اسے یوں ہی شک ہوا ہے کوئی نہیں ہے یہاں پہ اور یوں کاظم پگھل گیا۔ وہ پہلے ہی بہت بھوکا تھا۔ تو جلدی سی کھانے پہ جھپٹ پڑا۔ اس نے دو بریڈز کے درمیان جیم لگا کر منہ میں تھونسا اور اگلے دو کی تیاری کرنے لگا۔ وہ اگلے دو بریڈز پر جیم لگا رہا تھا، پر کسی نے اس کی گردن پر پیچھے شاٹ گن تانی۔ پھر پیچھے سے کسی عورت کی آواز آئی۔
"خبردار ! پیچھے مڑنے کی کوشش مت کرنا اور دونوں ہاتھ اوپر کرو۔۔۔ پہلے تو کاظم نے نہ مانا لیکن رک گیا تھا۔تو پھر اس مرتبہ آواز گرجی۔۔۔اوپر کرو ہاتھ اپنے۔۔۔! سنا نہیں تم نے۔۔۔کاظم جس نے کئی دنوں سے کسی آدم زاد کی چیخوں کے علاوہ کوئی آواز نہیں سنی تھی۔ جب زندہ انسان کی آواز سنی تو چونکا اور یکدم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بغیر جیم سے بھری انگلیاں صاف کیے دونوں ہاتھ اوپر کیے۔۔۔جی ہاں اگر آپ انداز ہ لگا رہے تھے تو ہاں۔۔آپکا اندازہ درست ہے۔ وہ بریعہ ہی تھی۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کو ابھی جانتے تو تھے نہیں۔ اسی لیے وہ کاظم پر گن تانے کھڑی تھی۔۔۔جب انسان نے کئی دنوں سے کسی دوسرے انسان کی آواز نہ سنی ہو۔ تو آنسانی آواز سن کر کیسا لگتا ہے اس کا اندازہ تو ہے مجھے۔۔لیکن وہ آواز ایک اوپوزٹ جینڈر کی ہو تو کیا ہی بات۔۔مینز آواز تو ہوتی ہی ہے لیکن تب وہ پیاری بھی لگنے لگتی ہے۔ جیسے کاظم کے لیے بریعہ اور بریعہ کے لیے کاظم۔۔۔سمجھ تو سکتے ہی ہوگے بھئی۔ کاظم ابھی تک لاچاری کی، خوشی کی مسکراہٹ بھی نہیں مسکرا پایا تھا۔ جس سے وہ اپنی معصومیت کی گواہی دیتا۔ منہ پر خالص بےبسی والی مسکراہٹ لیے واپس مڑا۔ دونوں ہاتھ اوپر تھے۔ سامنے بریعہ کھڑی تھی۔ کاظم نے اس کی بات نہیں مانی تھی اور وہ منع کرنے کے باوجود واپس مڑا تھا۔ تو اسے گن تاننے والی لڑکی سے ایک اور دھمکی کی امید تھی لیکن جب کاظم کی بے بسی والی مسکراہٹ دیکھی تو اُسے کاظم کے منہ میں بریڈ نظر آیا۔ جسے اس نے آتے ہی دبوچ لیا تھا۔ جب کاظم کو لگا کہ وہ اس کے منہ میں موجود بریڈ دیکھ رہی ہے۔ تو کاظم نے جلدی سے اسے حلق سے نیچے اتار لیا۔ بریعہ نے سامنے ٹیبل پر بریڈ کا پیکٹ کھلا دیکھا۔ تو غصے میں رونی صورت بنائے بولی۔
" ہیییں۔۔۔تم نے میرے بریڈ کھا لیے۔۔۔۔اس سے پہلے کہ کاظم کچھ بولتا۔۔۔تم نے میرے بریڈ کے دو سلائیز کھا لیے۔۔۔اور وہ بھی اتنے بےدرد طریقے سے۔۔کیونکہ اس وقت کھانا ملنا مشکل تھا۔وہاں جو کھانا ٹیبل پر تھا۔ وہ بریعہ نے ہی جمع کیا تھا۔۔۔
بریعہ رونی شکل بنائے بالکل طیش میں آ گئی اور گن وہیں پھینک کر بریڈ بچے ہوے سلائیز کو واپس جلدی جلدی سے اٹھا کر شاپر میں ڈالنے لگی۔ بریعہ نے گن لاپرواہی سے چھوڑ دی تھی۔اسے گن سے زیادہ کھانے کی فکر ہو رہی تھی۔ اب گن کاظم کے سامنے لاوارث پڑی تھی۔ کاظم نے آبروؤں کو اوپر نیچے کرتے ہوئے گن کو اٹھانے کا خیال کیا۔ بریعہ کو بھی اپنی بے وقوفی کا خیال آیا تو خود سے ہی بولی۔
" میں نے گن کیسے پھینک دی۔۔۔ہاۓ میں تو گئی اب ہائے بریعہ یہ تو نے کیا کر دیا۔۔نئیں۔۔۔اب تیری خیر نئیں. "
انہی خیالوں میں گم وہ واپس مڑی تو دیکھا کہ کاظم ویسے ہی ہاتھ اوپر کیے ساکن کھڑا اسے کو گھور رہا تھا لیکن جب بریعہ نے دیکھا تو اس نے منہ دوسرے طرف کر کے سیٹی مارنی شروع کر دی۔ جس کے متعلق وہ سینکڑوں پیشگوئیاں گر چکی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کے بےطقی، مصنوعی مسکراہٹ مسکرائے۔ تو کاظم نے ایک ہاتھ ہلا کر انگلی سے گن کی طرف اشارہ کیا اور ہاتھ واپس کھڑا کر لیے۔ بریعہ نے جلدی سے گن اٹھا لی۔ وہ حیران ہوئی کہ اس لڑکے نے گن کیوں نہیں اٹھائی۔ بھئی وہ اٹھاتا بھی کیسے۔ اسے مہینوں بعد ملنے والے واحد انسان سے تعلقات خراب نہیں کرنے تھے اور وہ تو تھی بھی لڑکی۔ وہ اس کا کیا ہی اکھاڑ سکتی تھی۔۔۔>نو فیمینزم پلیز<۔۔۔اس متعلق بریعہ نے زیادہ نہیں سوچا کیونکہ اسے دماغ لڑانا بالکل پسند نہیں تھا۔کاظم نے بھی چہرے کی بناوٹ سے ایسا ظاہر کیا کہ اس کا گن اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ایک معصوم سی شکل بنا لی۔ مجھے بھی نہیں پتہ کہ وہ واقعی اتنا معصوم تھا یا خوبصورت لڑکی دیکھ کر دل میں ایسی حرکت کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ یہ دراصل ابھی پرسنل معلومات ہے لیکن بعد میں کاظم سے پوچھ آپکو بتا دوں گا۔ انھیں سٹالز، وہ لکڑی کے ڈبے جن میں برتن رکھے تھے، کے دوسری جانب سے سامان کے گرنے کی آواز آئی۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر واپس کاظم پر گن تان کر بریعہ نے اسے بلی کا بکرہ بنا دیا۔ کاظم بھی بے بس تھا۔ ایک تو حسین لڑکی اوپر سے خطرناک گن بھی تو کاظم بےچارہ چل پڑا۔ سٹالز کی اوٹ سے دوسری طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ بریعہ نے پیچھے سے پوچھا کہ کون ہے؟ کاظم نے نفی میں سر ہلایا کہ کوئی نہیں ہے۔ بریعہ نے دوبارہ دیکھنے کا کہا تو اس بار غور سے دیکھا تو بھی کوئی نظر نہیں آیا۔ پھر بریعہ نے اسے کالر سے پکڑ کے پیچھے کیا اور خود دیکھنے لگی لیکن پھر اسے بھی کوئی نظر نہیں آیا پر ایک بلی انگینٹھی پر مری ہوئی تھی وائرس سے۔ بریعہ بولی۔
" ارے بے وقوف بس اک پیاری سی بلی ہی تو ہے۔۔۔۔بےکار میں اتنا ڈر رہے تھے تم۔۔۔ڈرنے کی بات نہیں ہے اب وہ آرام اسے اونچی جگہ چڑھ کر سو رہی ہے۔کاظم اسے اسکی باتوں سے پاگل بھی سمجھ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مری ہوئی بلی کسی بھی اینگل سے پیاری تو نہیں لگ رہی تھی۔ لیکن کاظم جو اس کی باتیں سن رہا تھا۔ جب تنگ آگیا تو دوسرے طرف مڑا۔ تو سامنے وہ آدمخور کھڑا جیسے ان کی باتیں سن رہا ہو۔ کاظم کا جسم و دماغ سن ہوگئے۔ جب اس نے سامنے ایک آدمخور کو پایا۔ سامنے کھڑے آدمخور کو پھٹی آنکھوں سے گھورتے ہوئے پیچھے کھڑی بریعہ کو کاندھے پر انگلی مار کر مخاطب کیا تو بریعہ نے مائنڈ کیا کہ اس نے مجھے ہاتھ کیسے لگایا اور اسی وجہ سے جب وہ واپس مڑی تو سامنے کھڑا آدمخور کو دیکھ کر اس کے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر بھی گن اٹھا اور فائر کر دیا۔ ماشاءاللہ کیا نشانہ تھا. آٹھ۔ نو گولیاں ایک ساتھ نکلی مجال ہے ایک بھی اس آدمخور کے قریب سے بھی گزری ہو۔ البتہ، فائر کرنے بعد خود ضرور دڑھام سے پیچھے پڑے کنستروں کے ڈھیر میں جا گری تھی۔ وہ شاٹ گن تھی۔ اس کے سارے سینز ال٥ی ہی ہوتے ہیں۔ کاظم نے حالات قابو سے باہر جاتے محسوس کیے جو کہ کبھی اصل میں ان کے قابو میں تھے بھی نہیں۔ وہ آدمخور ابھی تک ہلا بھی نہیں تھا۔ شاہد اس کا پیٹ بھر ہوا تھا۔ کاظم نے جلدی سے توا اٹھایا اور اس آدمخور کے سے پر دے مارا۔ جس سے اسے کچھ نہیں ہوا۔ کاظم کی مزید پھٹ گئی۔۔۔ہمت۔۔۔پھٹی ہوئی ہمت کو واپس پکڑا اور پھر سے دھڑادھڑ وار شروع کر دیے۔ جن میں سے کس وار پر وہ گرا اور کس وار پر اس کی کھوپڑی کا کچومر نکلا، نہیں معلوم۔ بریعہ پیچھے پڑے کنستروں میں سے اٹھی اور گن سے اس مرے ہوئے آدمخور پر پھر سے فائر کیا جو کہ عین کھوپڑی بچا کے ساتھ ہی فرش پہ لگا اور واپس بریعہ انھی کنستروں میں گری۔ عام گن کے مقابلے کسی شاٹ گن میں سے ایک بار میں پانچ سے نو گولیاں نکلنے کے باعث آواز اور پریشر کئی گنا بڑھ جاتا جاتا ہے جسے قابو کرنا کم از کم ایک ان-ٹرینڈ لڑکی سے بس میں تو نہ تھا۔ خیر پہلا خون کر کر کاظم کو اچھا تو بالکل نہیں لگ رہا تھا۔ پر بریعہ جو اپنے فائر کا نشانہ دیکھنے سے پہلے ہی کہیں اور پہنچ چکی تھی۔ اس نے اپنا کیا ہوا شکار سمجھ کر اس آدمخور کو بڑا دعب سے اسے لات ماری اور کہا " بڑا آیا مجھ تھا سے پنگا لینے۔۔دیکھوں اب کیسے زمین پر دھول چاٹ رہا ہے۔۔دیکھو دیکھو۔۔بریعہ نے کمر سیدھی کرتے ہوئے کہا اور پہلے قتل کی صدمے میں ڈوبے کاظم کو کاندھے پہ حوصلہ دینے والی انداز میں تھپکی دی لیکن حالات اتنی جلدی کہاں قابو میں آنے تھے۔ شاٹ گن کی کئی گنا زیادہ آواز سے بہت سے آدمخور اب ان کے طرف اصل میں گولی کی آواز کی طرف، آواز چل پڑے تھے۔ تعدار میں کافی زیادہ ہونے اور ایک ہی طرف سے آنے کے باعث زلزلے کی طرح کی زمین میں تھرتھراہٹ پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ جس کے متعلق پریشان ہو کر وہ دونوں ٹوٹی ہوئی کھڑکی جس سے وہ اندر آۓ تھے۔ اسی سے باہر جھانکا تو مشرقی جانب سے ایک گروہ جن کی تعداد کم از کم بھی بہت زیادہ تھی اس ریسٹورنٹ کی طرف دوڑا رہا تھا۔
- - -
جاری ہے۔۔۔
Agli Episode Jaldi Chahiye Ho To Commen Kr Dia Krein.. Ta Ke Hame Khabar Ho Sake...👌👍😊😊❤
Writer - Doaud Ibrahim