Tamasha-e-Muhabbat - Episode 11

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 11


- - -

(ماضی)


واصف شاہ اپنے کمرے میں بیٹھے ازلان شاہ کا انتظار کر رہے تھے___ ازلان شاہ کے اندر کا بیسٹ دیکھ وہ ششدر ہوگئے تھے___ اُن کا بیٹا اتنا جنونی نکلے گا یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا


مگر اس کے جنون کو ختم اس لڑکی نے کیا__ واصف شاہ اپنے بیٹے کی اس دیوانگی پر حیران تھے___ اُنہیں اس لڑکی کی قسمت پر رشک آرہا تھا__


ازلان شاہ جو کہ نور کو گھر چھوڑ کر آیا تھا اب واصف شاہ کا حکم نامہ سنتے ہی ان کے کمرے میں داخل ہوا___


وہ آتے ہی اُن سے گلے ملا اور سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا___ اُس کی نظریں واصف شاہ پر ہی تھیں وہ اُن کے بولنے کا انتظار کرنے لگا ____


واصف شاہ کتنی ہی دیر اُس کی طرف دیکھتے رہے__ پھر ایک گہرا سانس لیے گویا ہوئے


اگر کبھی وہ لڑکی تمہیں نہ ملی شاہ تو؟؟؟ واصف شاہ نے ڈرتے ہوئے سوال کیا__


تو ____ ازلان نے ایک نظر واصف شاہ کی طرف دیکھا ایک ڈر اُس کی آنکھوں میں ظاہر ہوا تھا جسے واصف شاہ محسوس کرچُکے تھے___ مگر جلد ہی اُن آنکھوں میں غصہ وحشت درآئی___


تو میں اس کے اور اپنے بیچ آنے والے ہر شخص کو تباہ و برباد کردوں گا____ ازلان شاہ نے بغیر کسی لحاظ کے جواب دیا___


اُس کے ٹھوس اور سرد لہجے میں کہے گے کچھ الفاظ ہی مقابل کو ششدر کر چُکے تھے___


ازلان شاہ کی یہ جنونیت واصف شاہ کو بہت کچھ باور کراچکی تھی___


وہ ازلان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اُس کے پاس بیٹھے اور اُسے سینے سے لگا لیا___ اُن کی جان بستی تھی اپنے بیٹے ازلان شاہ میں___


ازلان شاہ اُن کے سینے سے لگا اور اُن سے اپنی نور کے لئے محبت اور دیوانگی بیان کرنے لگا___ 


بابا ہم کل ہی اُن کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے ناں؟؟؟ ازلان شاہ نے اُمید بھری نظروں سے واصف شاہ کو دیکھا___


بالکل___ ہم کل ہی جائیں گے___ واصف شاہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئے__ وہ اُس کی آس نہیں توڑنا چاہتے تھے___ واصف شاہ سٹیٹس کانشیئس تھے مگر اپنے بیٹے کی چاہت کے سامنے وہ ہار مان گئے___ انہیں غریب گھر کی وہ لڑکی اپنے بیٹے کے لئے قبول تھی جس کا اُن کے بیٹے کے دل کی سلطنت پر راج تھا___


نور خان تنہا وارث تھی ازلان شاہ کی بے شمار چاہتوں کی___


دوسری طرف گھر پہنچتے ہی نور خان میر حاکم اور ولی خان کو دیکھتے ہی اُن کی طرف بڑھی___


میر حاکم آج صبح کی فلائٹ سے لاہور آئے تھے__ اب ان کا ارادہ نور کو واپس لے جانے کا تھا___

نور خان ان کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھ حیران ہوئی_


رات ڈنر کے بعد میر حاکم نے ولی اور نور کو کمرے میں بلایا__


نور یہ جو لڑکا میرے ساتھ آیا ہے یہ آیان شاہ ہے___ میری بہن کا پوتا__ میں چاہتا ہوں کہ آپ آیان کی دلہن بنیں__


نور خان جو کہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی یہ سنتے ہی اس نے سر اٹھایا___


اس نے تو ازلان شاہ کے علاوہ کبھی کسی کے بارے میں خواب میں نہ سوچا تھا____وہ کیسے کسی اور کی ہوسکتی تھی___ ابھی وہ ان سوچوں میں گم تھی جب میر حاکم کی آواز اس کے کانوں میں گونجی__


کیا آپ کو یہ رشتہ قبول ہے؟؟ نور خان ڈبڈباتی نظروں سے میر حاکم کو دیکھنے لگی__ ایک مان تھا میر حاکم کے لہجے میں ایک فخر تھا ولی خان کی آنکھوں میں____


کاش والدین بیٹیوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے سے پہلے اُن سے پسند نا پسند پوچھیں تو شاید کتنے ہی دل ٹوٹنے سے بچ جائیں___


نور خان کی زندگی ایک فلم کی طرح اس کے سامنے دوڑنے لگی__ تین سال کی تھی وہ جب اس کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھا___ اس نے جب سے ہوش سنبھالا

اپنے بھائی اور میر حاکم کو اپنی زندگی میں باپ کا کردار نبھاتے دیکھا تھا___


اُس میں کوئی دورائے نہ تھا کہ میر حاکم نے نور اور انشراح میں کوئی فرق نہ کیا تھا اور

آج اُسے فرض نبھانا تھا___ اُسے پگڑیوں کا مان رکھنا تھا___


اس نے ازلان شاہ سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اگلی شام وہ ازلان کے سامنے بیٹھی تھی___


ازلان شاہ اُس سے ملنے کا سنتے ہی اپنی ضروری میٹنگ کینسل کر چکا تھا ___ اب وہ نور خان کو دیکھنے میں مصروف تھا__ جب نور خان کی آواز نے اُس کی سماعت پر حملہ کیا___ اُس کے اعصاب سُن کردیئے___


میں آپ کی اِس جنونیت کو دیکھ ڈر گئی ہوں شاہ___ میں کبھی آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی__آپ ایک وحشی جانور ہیں___ میرا آپ کا کوئی جوڑ نہیں___ میرے بابا نے میرا رشتہ طے کردیا یے___وہ لڑکا بہت اچھا ہے کم از کم آپ کی طرح وحشی نہیں ہے___


اُس نے اپنے ہاتھوں سے انگوٹھی اُتاری اور کتنی ہی دیر اُسے دیکھتی ازلان کی طرف بڑھی__ ازلان جو کہ آج اس کے گھر رشتہ لے جانے والا تھا یہ بات سُن کر ساکت ہوا___


اُمید ہے آپ اب مجھے کبھی ڈسٹرب نہیں کریں گے__ نور خان نے گویا ازلان شاہ کو موت کی نوید سنائی ہو 


نہیں شاہِ من تم ایسے نہیں کر سکتی___ تم مجھے چھوڑ نہیں سکتی__ازلان شاہ آگے بڑھا اور اُس کا ہاتھ تھام لیا___


اُس نے اُمید بھری نظروں سے دیکھا__


میں فیصلہ کرچکی ہوں ازلان__ میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی__


وہ اٹھ کر باہر کی سمت جانے لگی جب ازلان شاہ اُس کے قدموں میں گرا محبت کی بھیک مانگنے لگا___


نہیں نور مجھے چھوڑ کر مت جاؤ___ میں مر جاؤِں گا__ نور تمہارا شاہ مر جائے گا___ تم جو کہو گی میں وہ کروں گا___ میں اب کبھی کسی کا دل نہیں دکھاؤں گا____


نور خان کا دل ڈبڈبایا_____وہ ازلان شاہ کو گلے لگانا چاہتی تھی اُسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اُس کے بغیر خود بھی مر جائے گی__ مگر اُس کے سامنے میر حاکم کا چہرہ آیا تو وہ اپنے دل کو ڈپٹتے ازلان شاہ کو اُس کے حال پر چھوڑ کر چلی گئی__


ازلان شاہ اُس کے پیچھے بھاگتا اس سے فیصلہ بدلنے کی درخواست کررہا تھا__ ہاں وہ مغرور شہزادہ گھمنڈی شاہ نور کے قدموں میں گرا اُس کا ساتھ مانگ رہا تھا___ کوئی دیکھتا تو حیران ہوجاتا___

مگر نور خان بے حس بنی رہی___ کیونکہ اُسے بیٹی اور بہن ہونے کا ثبوت دینا تھا____


وہ پورا راستہ روتی ہوئی گھر پہنچی اور ازلان شاہ وہیں سڑک پر بیٹھا رو رہا تھا____

 

نور نے گھر آتے ہی اپنی سم توڑ دی__ رات اندھیرے ہی وہ میر حاکم کے ساتھ شہر لاہور چھوڑ کر اسلام آباد آگئی___تاکہ ازلان شاہ اسے نہ ڈھونڈ سکے___


اور پھر قسمت نے محبت کرنے والے اس جوڑے کو الگ کردیا__ ایک بیٹی نے باپ اور بھائی کا مان ان کی عزت کی

 خاطر ایک باپ سے اس کا لاڈلا سپوت چھین لیا___


اگر نور خان جان لیتی کہ اُس کے اس فیصلے نے واصف شاہ کے بیٹے کو کس قدر برباد کیا ہے وہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی جان لے لیتی____


💕💕💕💕💕


رات ہوتے ہی ازلان شاہ پاگلوں کی طرح دوڑتا اس کے فلیٹ کی طرف گیا___ مگر وہاں پہنچتے ہی ایک بڑا تالا اس کا منہ چڑا رہا تھا___


وہ پوری رات سڑکوں پر بلاوجہ گاڑی چلاتا رہا___

اس نے اپنے لوگوں کو نور خان کو ڈھونڈنے پر معمور کیا__ مگر ہر طرف سے ناکامی مل رہی تھی__


ازلان شاہ کی حالت دیوانوں کی طرح ہوچکی تھی اس نے ہر لمحہ نور کو یاد کیا___ نور کی یادیں اُسے کسی ناگ کی طرح ڈستی تھیں اُس نے تنگ آکر دو بار خودکشی کی کوشش کی__ مگر ناکام ہوا__


ابھی بھی وہ ہاسپٹل میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا___ 


وہ ایک مال میں گیا تھا جہاں اُسے لگا کہ نور خان ہے___ وہ اُس کے پیچھے بھاگتا عمارت کی آخری منزل پر پہنچا___


اُس کے حواسوں پر صرف نور خان سوار تھی___ وہ اُس تک پہنچنے کے لئے بھاگ رہا تھا جب اُس کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ نیچے گر گیا____


اُسے ایمرجنسی میں ہاسپٹل لایا گیا جہاں ڈاکٹر اُس کے بابا کو مکمل مایوس کر چکے تھے___


مگر واصف شاہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے انہوں نے اپنے بیٹے کی زندگی کی دعائیں کی___ اور 24 گھنٹے کے صبر آزما امتحان کے بعد ازلان شاہ کی حالت خطرے سے باہر ہوگئی___


❤❤❤❤

1 ماہ بعد


آج وہ کتنے دنوں کے بعد گھر سے نکلا اور سیدھا ایک کلب میں گیا__ جہاں پہلی بار اُس نے حرام مشروب کو ہاتھ لگایا___


اب یہ اس کا معمول بننے لگا تھا__ ہرروز وہ کلب آکر گھنٹوں شراب پیتا___ 

وہ ابھی شراب کے نشے میں ٹُن تھا جب ایک لڑکی نیم برہنہ حالت میں اس کی طرف آئی___


ہیلو ہینڈسم___ ازلان شاہ جو کہ شراب کا گلاس منہ سے لگائے بیٹھا تھا اس لڑکی کے آنے پر بدمزا ہوا__


وہ بولا کچھ بھی نہیں__ بس غصے سے اُسے دیکھنے لگا ___ 


جب وہ لڑکی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتی اُس کے کانوں کے قریب سرگوشی کرتی بولی__


ون نائٹ اسٹینڈ___ ؟؟


اس لڑکی نے یہ کہتے ہی اپنی نیم برہنہ ٹانگوں کو ازلان شاہ کے گھٹنے پر رکھا جسے ازلان شاہ نے ترچھی نگاہوں سے دیکھا 


شیور___ ازلان شاہ یہ کہتا اس لڑکی کے ساتھ کلب کے پرائیویٹ روم کی طرف بڑھا___

وہ لڑکی پیچھے مُڑتے کسی کو تھمبس اپ کا سائن دیتی ہے___


ازلان شاہ اس لڑکی کو لیے روم میں اینٹر ہوا روم میں اینٹر ہوتے ہی اس نے اُس لڑکی کی پشت دروازے کی طرف کی اور اس کے بالوں کو سائیڈ پر کرتا اس کی گردن پر جھکا___


وہ اُس کی گردن پر جگہ جگہ بائٹ کرنے لگا___ وہ لڑکی خاموشی سے اُسے اپنا کام کرنے دے رہی تھی___


کچھ دیر بعد ازلان شاہ نے اُس کو کمر سے پکڑ کر بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں لٹایا__


لڑکی نے ازلان کو اپنی سمت کھینچا اور اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی___


ازلان شاہ نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے اس کے کانوں کے پاس سرگوشی کی__


جسٹ آمنٹ بے بی__ ازلان شاہ یہ کہتے ہوئے اس کے اوپر سے اٹھا__

اور شراب کی بوتل ہاتھ میں لیے اس لڑکی کے جسم پر انڈیلی___


وہ لڑکی اپنی اداؤں سے ازلان شاہ کو بہکانے کی کوشش کرنے لگی جب ازلان شاہ نے اس کے ہاتھوں اور پاؤں کو بیڈ پر پڑی چادر سے باندھ دیا__ اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھی


اب اُس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور اپنے ایک گارڈ کو اندر بلایا___


اُس کا گارڈ جیسے ہی اندر گیا__ ازلان شاہ بولا___


انجوائے ود ہر___ یہ کہتے ہوئے وہ اس لڑکی پر زہریلی نظر ڈالتا باہر کی طرف چلا گیا___ 


پیچھے اس کا گارڈ اور وہ لڑکی کمرے میں رنگ رلیاں منانے میں مصروف رہے___ وہ لڑکی اس شخص کو ازلان شاہ سمجھ رہی تھی مگر جیسے ہی اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی اس کے گارڈ کو دیکھ کر وہ فورا بیڈ سے اٹھی___


جب گارڈ نے اُسے لے جا کر ازلان شاہ کے بنائے ٹارچر سیل میں ایک کتےکے سامنے ڈال دیا

😌😌😌😌😌😌


تم نے اُس لڑکی کی یہ حالت کیوں کی؟؟ ازلان یہ کیا درندگی ہے___


پہلے تم نے اُس لڑکی کو اپنے گارڈ کے سامنے ڈالا اور پھر کُتے کے آگے____


ازلان تم انسان ہو کہ جانور؟؟ واصف شاہ ازلان پر چیخ چلا رہے تھے___


جو کہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے اُن کے سامنے بیٹھا مسکرا رہا تھا___


بابا میں جانور ہوں__وحشی ہوں __شرابی بھی بن گیا ہوں مگر زانی نہیں___ وہ لڑکی مجھے زنا کی دعوت دے رہی تھی اُس کا انجام تو اس سے بھی زیادہ عبرتناک ہونا تھا___


واصف شاہ یہ سنتے ہی سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گئے____


آپ کو لگا کہ عورت کا نشہ دوسری عورت ہی اتار سکتی ہے___ اس لئے آپ نے آزر کے کہنے پر اُس لڑکی کو میرے پاس بھیجا مگر آپ بھول گئے کہ آپ کے بیٹے نے کسی کے جسم سے محبت نہیں کی بلکہ کوئی آپ کے بیٹے کی روح میں بستی ہے اور ازلان شاہ نور خان کے علاوہ کسی لڑکی کو اپنے قریب نہیں آنے دے گا____ ازلان شاہ نے نور خان کی محبت کا نشہ کر رکھا ہے اور کوئی دوسری عورت یہ نشہ نہیں اتار سکتی__ خود نور خان بھی نہیں___


یہ کہتے ہی وہ کمرے سے چلا گیا واصف شاہ پریشانی سے سر کرسی کی پشت پر ڈالے سوچ میں گم ہوگئے____


نور خان نہیں جانتی تھی کہ پگڑی کی لاج رکھنے کی خاطر اس نے واصف شاہ کے ایک تہذیب یافتہ بیٹے کو درندہ بنا دیا ہے___


ہاں محبت اب تماشہ بننے والی تھی___ نور خان پر جلد انکشاف ہونا تھا کہ اُس کے پیچھے ہٹنے پر ازلان شاہ کس کس کو تماشہ بنائے گا___

💘💘💘💘


کیوں لیا تم نے یہ فیصلہ نور___؟؟تم انکار بھی تو کرسکتی تھی ناں__؟؟ انشراح میر نے نور سے سب کچھ سننے کے بعد اس سے استفسار کیا___


تمہیں سر نہیں جھکانا چاہیے تھا___


جن فیصلوں پر ہم سر اٹھا نہ سکیں وہاں سر جھکانا ہی دانشمندی ہے___،کیوںکہ جو سر اٹھاتے ہیں اُن کو سر کٹوانے پڑتے ہیں انشراح __ 


نور نے انشراح سے کہا___ 


انشراح نور کو بے بسی سے دیکھنے لگی___ 

تمہارے پاس اور بھی تو کوئی چوائس ہوسکتی ہے ناں؟؟ تم اس لڑکے کو بولو وہ رشتہ بھیجے___

 انشراح میر نور کی محبت کی داستان سن آبدیدہ ہوئی وہ نور کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی___

۔

میرے پاس چوائس ہے انشراح اور آخری چوائس میری یہ سانسیں ہیں___ مگر میں ایسا کچھ نہیں کروں گی جس کی وجہ سے میرے بڑوں کا سر جھکے___


میں ایک بیٹی ہونے کا فرض نبھا رہی ہوں___ ہوسکے تو تم بھی ایک بیٹی ہونے کا فرض نبھانا انشراح___


انشراح اس کی بات سنتے ہی اُسے دیکھتے بولی___


تم نے خود کہا ناں جو سر اٹھاتے ہیں ان کے سر کاٹے جاتے ہیں___


تو نور خان میں انشراح میر ہوں__، میں اپنے حق کے لئے لڑنا جانتی ہوں___ جو میرا ہے فقط میرا ہے__ میں اس کے لئے سر کٹوا بھی سکتی ہوں اور کاٹ بھی سکتی ہوں___


انشراح کے بے خوف لہجے نے نور کو چونکا دیا___


کیا گارنٹی ہے کہ سر تمہارا کاٹا جائے گا؟؟ یہ بھی تو ہوسکتا سر میرے بھائی کا کاٹا جائے__اور اگر ایسا کچھ ہوا تو یاد رکھنا انشراح میر، میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی___


نور خان کے تلخ لہجے کو انشراح میر نظرانداز کرتی کمرے سے چلی گئی___


😌😌😌😌


نور خان اور آیان شاہ کا رشتہ طے ہوچکا تھا ___شادی 3 سال بعد ہونا تھی___ نور خان نے خود کو ازلان شاہ کی یادوِں سے نکالنے کی کوشش کی مگر تین سال بعد اس مال میں اُسے دیکھنے کے بعد اس کا دل پھر سے اس کی طرف ہمکنے لگا___


مگر وہ بے بس تھی___ انشراح کو اس روز تھپڑ مارنے کی وجہ بھی یہی تھی وہ کسی صورت بھی اپنے شاہ کے کردار پر بات برداشت نہ کرسکی___


آج پارٹی میں اُسے دیکھنے کے بعد اس کے اجنبی رویہ اور اس کی نئی ترجیحات نے اُسے بہت کچھ باور کروایا___


نور خان اپنی جگہ خود چھوڑ چُکی تھی___ 


زندگی میں ہر چیز کا ری پلیسمنٹ ہوتا ہے__ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جگہ صرف آپ کی رہے گی__ آپ کچھ وقت کے لئے اس جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ آپ کی جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکتا تو آپ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں___


نور خان جو جگہ خود چھوڑ چکی تھی اب اس جگہ کسی اور کو برداشت نہ کرپارہی تھی___ 

💓💓💓💓💓💓


۔

رجاء انشراح میر کو کمرے میں لے کر آئی اور اسے پکڑ کر خوشی سے گھومنے لگی___ انشراح میر حیرت زدہ سی اُسے دیکھنے لگی___


کیا ہوا پاگل تو نہیں ہوگئی تم؟؟؟ رجاء کی اس بچگانہ حرکت پر وہ اتنا ہی بولی__


ہاں نشاء میں پاگل ہوچکی ہوں__ پاگل ہوچکی ہوں میں ولی خان کے سحر نے جکڑ لیا مجھے___ ولی خان کی اداؤں نے پاگل کردیا مجھے ___ میں اُس کی محبت میں مبتلا ہوگئی ہوں__،


رجاء میر رجاء میر نہیں رہی ولی خان بن گئی___ رجاء میر کو عشق ہوگیا ہے ولی خان سے___


رجاء میر کی نیلی آنکھوں میں عجیب چمک تھی___ کچھ پانے کا جنون___


اور انشراح میر پر یہ بات قیامت بن کر اتری__ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی لڑکی اس کے ولی خان کی دیوانی ہوسکتی ہے___ ولی خان تو اس کا عشق تھا___ وہ تو کتنی لڑکیوں کے راتوں کی نیند اڑانے کا سبب تھا_،،


کیا ولی خان بھی اس سے محبت کرتا یے__؟؟ اس سے آگے وہ سوچنے کی ہمت نہ کرسکی__ اس کا دل مکمل اچاٹ ہوچکا تھا___


کیا ہوگا اگر جو اس کا ولی خان کسی اور کا ہوگیا__؟ کیا وہ یہ برداشت کرسکے گی__ ہرگز نہیں___ وہ جلد از جلد اب ولی خان سے دوٹوک بات کرنا چاہتی تھی___


نوٹ: ایپی پڑھنے کے بعد لائک کمنٹ کریں پلیز🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻


- - - 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)