Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert
Episode - 12
Season - 1
Writer - Daoud Ibrahim
Offical Writer at KoH Novels Urdu
- - -
کنٹرول روم میں پہنچ کر کاظم نے جنرل کو مخاطب کیا
" سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تیار ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اپ ابھی سامان منگوائیں اور اینٹیڈوڈ کا سیمپل میرے خون میں بھی موجود ہے آپکو نیا اینٹیڈوڈ بنانے کے لیے جتنا خون چاہیے لے لیں آپ " کاظم نے جوش کم کیے بغیر جنرل سے کہا
" یہ تو اچھی بات ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ تمھیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ ہمارے پاس اس وقت ایسا کوئی وسائل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں پہلے شیلٹر ہاؤس پہنچنا ہوگا " یہ کہہ کر جنرل واپس آبدوز کی جنرل سیٹ پر جا بیٹھا اور کمپیوٹر پر سے آبدوز کو ڈائریکشن دینے لگا۔
آبدوز اب شیلٹر ہاؤس کے قریب پہنچ چکی تھی۔ شیلٹر ہاؤس کوئی چھوٹی موٹی آبدوز نہیں تھی بلکہ کئی کلومیٹر بڑی آبدوز تھی ۔ جس میں یہ اور کئی آبدوزیں ان کے ساتھ ایک بڑے سے نیچے کی طرف کھلنے والے دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔ان کے ساتھ ساتھ تقریباً چودہ آبدوزیں مزید شیلٹر ہاؤس میں داخل ہوئیں اور پھر دروازہ بند ہو گیا۔ دروازے سے اندر ابھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ تبھی لائٹس روشن ہوئیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اور اپنی آبدوزوں کو ایک کمرہ میں بند پایا جس میں پانی ہی پانی بھرا پڑا تھا دروازہ کھلنے کی وجہ سے۔ لیکن جلدی ہی یہ پانی دروازے کی سائیڈوں پر بنے سوراخوں میں داخل ہوتا ہوا ختم ہوگیا۔
ایک گیس کمرے میں پھیلی اور چند سیکنڈز میں ہی وہ گیس بھی اپنی ساتھ بچے کھچے پانی کو لے کر غائب ہو گئی۔ اس کے بعد آبدوزوں میں سے بہت سارے لوگ اترے تو آگے کی طرف ایک اور دروازہ کھلا جس کی دوسری جانب بہت سارے بے سہارا لوگ کچھ کھڑے تھے اور کچھ بیٹھے ہوۓ تھے اور ان سب کے اردگرد فوجی ماسک پہنے کھڑے تھے اور چلنے پھرنے سے روک رہے تھے تاکہ وہ ڈاکٹرز ان کا اچھی طرح چیک اپ کر لیں۔
جن کا چیک اپ ہوتا جاتا ان کو بھی آگے وقتی کمرے دکھاۓ جا رہے تھے۔ دروازہ کھلا اور کاظم سمیت آبدوزوں سے نکلنے والے اندر داخل ہوگئے ۔کاظم نے جلال کو وینٹیلیٹر سے اٹھا کر سہارہ دیتے ہوئے اپنے ساتھ کر لیا ۔ سبھی کی توجہ انھی کی طرف تھی سوائے ان ڈاکٹرر اور فوجیوں کے جو اپنے کام میں مصروف تھے۔
" تمام نئے آنے والی پلٹونوں کا استقبال ہے دنیا کے واحد اور سب سے جدید ترین محفوظ گاہ پر۔ سبھی سے گزارش ہے کہ مہربانی فرما کر چیک اپ زون میں جا کر کھڑے ہو جائیں تاکہ دوسروں کو آپکی وجہ سے تکلیف نہ ہو ( یہ الرٹ تین سے چار بار بجا ) " یہ الفاظ اوپر تقریباً چار منزل اور لگے سپیکروں سے آٹومیٹک نظام کے تحت بجنا شروع کو گئے۔ تبھی ایک ڈاکٹر جو کہ کپڑوں، پینتالیس سالہ عمر اور اپنے پیچھے پیچھے چلنے والے چار مزید ڈاکٹروں کی وجہ سے کسی اعٰلی درجے پر فائز لگتا تھا ان کی پلٹون کی طرف بڑھا ۔
" جنرل سلیمان! ویلکم ہے آپکا اس منفرد شیلٹر میں۔۔۔۔۔۔۔۔ اپکے والد صاحب کی ان کوششوں کو خاموش کرنا بےحد انصافی ہوگی جو انھوں نے اس شیلٹر ہاؤس کو بنانے میں سرانجام دی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ڈاکٹر صوفیہ ! آپکا بھی بےحد انتظار رہا ہے ہمیں آپکا بھی بہت بہت استقبال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپکی بہت بہت ضرورت ہے ہمیں یہاں پر امید ہے کہ آپ جلد ہی ہمارے دوسرے سائینسدانوں کے ساتھ مل کر وائرس-ٹی کا اینٹیڈوڈ تیار کرنے میں کا میابی ہو جائیں گے " اس ڈاکٹر نے جنرل سے دعا سلام کی جس پر جنرل کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر ڈاکٹر صوفیہ کی بھی تعریف کی۔
" ڈاکٹر ریحان مجھے خوشی ہو گی جو میں اگر ابھی اپنا وقت ضائع کیے بغیر سینئرز کو جوائن کر سکوں " ڈاکٹر صوفیہ نے بھی وقت نہ گنوائے اپنے مضبوط ارادے سے ڈاکٹر سے اجازت مانگی۔
" او ڈیٹس اے ریلی گڈ آئیڈیا۔۔۔۔ ابھی بھی جوائن کر سکتی ہیں تو ہمیں اور بھی خوشی ہو گی " ڈاکٹر نے بلامدّک حوصلہ افزائی کی۔
" ڈاکٹر۔۔۔۔۔جو میرے ساتھ سبمرین زیرہ۔ٹو۔سیون میں آۓ ہیں ان کا چیک اپ کر لیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہمیں ان پر اپنا وقت صرف کرنے کی بجائے نئے مجازیں کا چیک اپ کرنا چاہیے " ڈاکٹر صوفیہ نے صلاحاً ڈاکٹر ریحان کو مشورہ دیا۔
جس پر ڈاکٹر ریحان نے مسکراتا ہوا چہرے دکھا کر اپنے کسی ضروری کام کی طرف کسی اور ڈاکٹر کے بلانے کو ترجیع دی۔ کاظم بھی جلال کو ساتھ لیتے ہوۓ ایک فوجی کو رہنمائی پر کسی کمرے میں جس کی جگہ اس آبدوز جتنی ہی تھی مگر زیادہ سہولیات موجود تھیں۔کاظم نے جلال کو سامنے( ساتھ )والے بستر پر لٹایا اور خود ساتھ والا بستر چن کا بیٹھا ہی تھا اچانک دروازہ کھلا اور ایک فی میل جو کہ وردی میں تھی اندر داخل ہوئی اور پیچھے مڑ کر کسی سے کہنے لگی۔
" میم اور تو بس یہی ایک کمرہ ہے " پیچھے جو کوئی بھی ابھی باہر ہونی کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا۔ جلد ہی اندر داخل ہوئی تو وہ بریعہ تھی۔ بریعہ نے کام کو دیکھتے ہی چہرے پر غصے کے تاثر واپس نمایاں کر دیے۔
" مس۔۔۔ میں اس کمرے میں نہیں رہونگی۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔اور تو اور وہ ساتھ والا کمرہ بھی تو ابھی تک خالی ہی ہے نا۔۔۔۔۔۔تو اس میں کیا یے " بریعہ نے اپنا غصہ چنگھاڑتے ہوۓ اس فی میل سرور( فوجیوں کی ایک قسم ) پر چلانا شروع کر دیا۔
بریعہ کے اس رویے سے وہ تھوڑا غصہ تو ہوئی لیکن پھر اپنے آپ کو ایک سرور جانتے ہوئے سادہ سے انداز میں جواب دیا
" وہ کمرہ دوسری پلٹون کے لیے ہے۔۔۔اُس میں آپکی پلٹون کے لوگ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔مس سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کہ حفاظت کے لیے ہی ایک تدبیر ہے۔۔۔۔۔لیکن اگر آپکو اتنی ہی پرابلم ہے اس کمرے سے تو آئیں میں آپکو اسی کمرے تک واپس چھوڑ آتی ہوں " فی میل سرور مزید لہجہ ہلکا کر کے بولی۔
تببھی بریعہ کے دماغ نے اسی کمرے کے حولناک مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کیے۔ جس میں ایک موٹا ترین شخص مست نیند میں اپنے خراٹوں سے کسی بڑے انجن کو اپنی ہر سانس کے ختم ہونے تک بار بار اسٹارٹ کرنے کی ناکام کوششیں کر رہا تھا۔ ان مناظر کو یاد کر کے بریعہ چپ چاپ اگے بڑھ کر جلال کے بیڑ کے اوپر والے بیڈ پر چڑھ کر لیٹ گئی تاکہ کاظم سے دوری بنا کر اس سے غصے کا اظہار بھی کر سکے۔ہر کمرے میں صرف چار بیڈ تھے۔
کاظم دوسری لائن میں جلال کے برابر والی سیٹ پر بیٹھا ابھی بھی اسے ہی دیکھے جارہا تھا البتہ اب اس کی انکھوں میں شرمندگی نہیں جنون سوار تھا۔ان کے ایک دوسرے کو گھورتی ہوئی انکھوں کو جلال نے بھانپ لیا اور بات کو بڑھنے کے چانسز کو کم کرنے کے لیے کھانس کر ان کو توجہ حاصل کی تو کاظم نے فکراً پوچھا کہ کیا ہوا؟ جس پر جلال نے پانی کی فرمائش کی۔ بریعہ کے بیڈ کی طرف بڑھتے ہی وہ فی میل سرور بھی جا چکی تھی تو کاظم خود ہی جلدی سے باہر کی طرف نکال ۔
" جیسا ایک ویسا ہی دوسرا " بریعہ نے منہ میں ہی بڑبڑایا جسے جلال نے سن کر بھی اگنور کر دیا۔
کاظم ایک بلاک میں جہاں صاف پینے والا پانی اور دیگر مشروبات کو مختلف بٹن دبائے کر نکالا جا سکتا تھا۔کاظم نے جلدی سے اس بلاک کی طرف بڑھ کر پانی کا ایک گلاس بھرا اور واپس جنے ہی لگا تھا کہ ڈاکٹر صوفیہ نے اسے دیکھ کر روک لیا.
" ہمیں تمھارے خون کے کچھ سیمپل چاہیے۔۔۔۔ تو کیا تم " اتنا کہنے پر کاظم نے جلدی میں ڈاکٹر صوفیہ کی بات کاٹ کر کہا۔
" جی ڈاکٹر لیکن ابھی میرا دوست کمرے میں گھانس رہا ہے۔۔۔ تو میں اسے پانی دے آؤں " کاظم نے جلد سے فکر میں مبتلا ہو کر واپس کمرے کے طرف چلا گیا۔ کاظم کو جلال کی فکر اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ کوکین کا نشہ زوردار کھانسی کا بھی سبب بنتا ہے۔ کاظم کو تو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ جلال نے ان دونوں کی مزید مٹھ بھیڑ ہونے سے بچانے کے لیے یہ ایک جھوٹ بولا تھا۔کاظم کی فکر کی یہی وجہ تھی کہ کوئی دوبارہ مسلئہ نہ پیدا ہوجاۓ۔ یعنی جلال کو دوبارہ کوکین کی حاجت نہ پر جائے۔
کاظم نے جلدی سے پانی کا گلاس کمرے میں داخل ہوتے ہی جلال کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ جلال کو ابھی پانی کو کوئی حاجت تو نہیں تھی کیونکہ اس نے وینٹیلیٹر پر لیٹے ہوئے بس یہی تو کام کیا تھا۔ بس وینٹیلیٹر کے پاس پڑے مِڈ ٹیبل پر پڑے گلاس کو اٹھاتا اور گلاس بھرتا پھر سے گٹک جاتا۔ لیکن جب جھوٹ بولا تھا ۔ تو اسے سچ بھی تو ثابت کرنا تھا۔ تو گلاس پکڑا اور یہ بھی گٹک گیا۔
بریعہ جس نے غصہ ہونے کی وجہ سے ایک چادر کو اوڑھ رکھی تھا اور کاظم کے آتے ہی ڈسٹرب ہو جانے کا ناٹک کرنے لگی
" دروازے آرام سے بند نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔۔۔ دکھا نہیں کہ سو رہی ہوں "
جس کا جواب دینا تو دور کاظم اس کی طرف بغیر دیکھے انگور کرتے ہوئے ، ڈاکٹر صوفیہ کے کہے مطابق انھی کی طرف نکل پڑا۔ بریعہ کو یہ بات تھوڑی بُری اور عجیب لگی لیکن غصہ دکھانا تھا تو واپس چادر اوڑھ لی لیکن پھر بھی وہ اگنور کرنے والے کاظم کے متعلق ہی سوچوں میں گم ہونے لگی۔ جس سے باہر نکلنا اس کے لیے مشکل تھا اس لیے کوشش بھی چھوڑ دی اور اس کی غلطیاں ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئی۔
دوسری طرف کاظم نے بھی لیب ڈھونڈ کر ڈاکٹر صوفیہ کو کسی کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے باہر کھڑا ہو گیا ۔ جسے جلد ہی کام سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر صوفیہ نے اندر بلا لیا۔ لیب کے اندر بھی بےحد بڑی تھی اس لیب کے اندر بھی بہت ساری اور ٹیسٹز لیبز تھیں جہاں پر بہت سارے ڈاکٹر اپنی اپنی ریسرچ پر کام کرنے میں مصروف تھے۔ انھی لیبز میں سے ایک لیب میں ڈاکٹر صوفیہ کاظم کو لے گئیں اور ایک وینٹیلیٹر پر لٹا کر کچھ ڈرپز کاظم کے بازوں میں لگا دیں اور مشین پر کچھ بٹن دبائے جن کا مقصد خون کی مقدار طے کرنا تھا کہ کتنا خون کافی ہو گا۔
چونکہ کسی کی بھی باڈی سے خون نکالنے کا پراسس انتہائی نازک قسم کا ہوتا ہے تو کاظم کے جسم سے خون نکالنے کا پراسس آہستہ آہستہ سے اس راہ پر گامزن ہونا شروع ہو گیا۔
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z