ZombieWar - Episode 11

0


 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 11

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu


- - -

کاظم بھی واپس اسی کمرے میں جا بیڈ پر لیٹ گیا۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی البتہ سونے کی کوششیں جاری تھیں۔ کاظم کبھی دوسری رو میں دوسرے بیڈ پر بڑے سکون کی نیند سو رہی بریعہ کی طرف دیکھتا اور پھر واپس سر پر بازو رکھ کر لیٹ جاتا۔ کاظم کو نیند کیوں نہیں آرہی تھی اس کی وجہ بھی کافی خطرناک تھی " جب کاظم سے ان دو بھائیوں نے دغابازی کر کے ہیلی کاپٹر اڑایا تھا ۔ تب کاظم بھی واپس اس مکان کی طرف بھاگا تھا تو ایک آدمخور نے کاظم پر دو بار حملہ کیا تھا ۔ جن میں سے ایک بار کاظم کے کاندھے پر ناخن گاڑھے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا چونکہ ناخن لگا تھا اس وجہ سے وائرس کی ہلکی سی مقدار کاظم کے جسم میں بھی منتقل ہو گئی تھی۔اینٹیڈوڈ لگے ہونے کی وجہ سے کاظم کو ابھی تک کچھ نہیں ہوا تھا۔ پر وائرس نے اپنا اثر تو دکھانا ہی تھا۔ کاظم کی نیند بھی اسی وجہ سے خراب ہو رہی تھی۔ 


   سونے کی کوشش کرتے کرتے کاظم کی کب آنکھ لگ گئی اسے پتہ بھی نہیں چلا۔ اگلی صبح کاظم اٹھا تو بریعہ وہاں اپنے بستر پر نہیں تھی۔


  کاظم اٹھا اور باہر نکل کر سیدھا ڈاکٹر صاحبہ کی لیب میں جلال کو دیکھنے گیا۔جلال کو اب ہوش آ چکا تھا اور وینٹیلیٹر پر لیٹا نطریں جھکاۓ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوۓ کچھ سوچوں میں گم تھا ۔ تبھی کاظم کے آنے کے بعد اسے دیکھ کر جلال مسکرایا اور کاظم کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیلی۔کاظم جلال کے پاس آکر ٹیبل پر بیٹھا ہی تھا کہ جنرل کے آنے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔ 


   " کیا ہوا تھا اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ کسی قسم کا خطرہ بن سکتا ہے " جنرل نے اندر داخل ہوتے ہی مریض کی موجودگی کی وجہ سے سادہ لہجے میں ڈاکٹر صاحبہ سے سوال کیا۔ 


  " سر۔۔۔۔۔ اس کا نام جلال احمد ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور سر یہ بےہوش ہوا تھا جس کی وجہ کوئی وائرس نہیں بلکہ جیلی فش کا زہر تھا جوکہ انھیں سمندر پر ہونے کی وجہ سے کسی طریقے سے لگ گیا تھا۔ یہ وائرس-ٹی ( وہی وائرس جو پوری زمین پر پھیلا ہوا تھا ) کا شکار نہیں ہو سکا کیونکہ اس کی جسم میں کوکین نامی ڈرگ کی موجودگی کے آثار ملے ہیں۔ یہ شخص شاید ڈرگز کا نشہ یا دھندا کرتا تھا ( کاظم کو ڈاکٹر کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ سب اس کے دوست کے بارے میں کہہ رہی ہے ) اور جہاں تک کہ ان دونوں کی بات ہے ( ڈاکٹر نے کاظم اور بریعہ کی طرف اشارہ کر کے کہا ) ان دونوں کو وائرس-ٹی کا اینٹیڈوڈ ، وائرس کے پھیلنے سے پہلے ہی لگایا گیا تھا ( جس پر کاظم اور بریعہ نے پل کے لیے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ) اگر ہمیں اس اینٹیڈوڈ کی ذرا سی مقدار ان کے جسم سے مل جائے تو وائرس-ٹی کا اینٹیڈوڈ بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ " ڈاکٹر صاحبہ نے بھی رپورٹ کو ایک نظر دیکھنے کے بعد جنرل کو بتایا۔ 


  " تم لوگوں کو اینٹیڈوڈ کس نے دیا تھا " جنرل نے ایک بار پھر اپنی گرجتی ہوئی آواز میں ان دونوں سے پوچھا۔ 

جس پر کاظم نے بتایا کہ " ڈاکٹر جلال مصطفیٰ نامی لوکل لیب کے مالک نے ایک دن اسے بلایا تھا اور ایک اینٹیڈوڈ کا نام بتا کے ایک منی بیگ اس کے حوالے کیا تھا اور کہا تھا کہ آئی۔ ایس۔ آئی ہیڈکوارٹرز پہچانا ہے۔۔۔۔۔۔ اسی نے اس اینٹیڈوڈ کو محفوظ منزل تک پہنچا سکنے کے لیے یہ اینٹیڈوڈ مجھے لگایا تھا " کاظم نے لڑکھڑاتی زبان سے جواب دے دیا۔ 


تبھی جنرل نے اپنا رخ بریعہ کی طرف کیا۔ 

  " میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسی سائینٹیسٹ کی بیٹی ہوں۔ ۔۔۔۔جن کا بنایا ہوا اینٹیڈوڈ اگر " یہ شخص" ( اس پر بریعہ نے زور دیا ) اس کے مقام تک پہنچا دیتا تو آج وہ زندہ ہوتے۔۔۔۔۔بابا نے ہی مجھے وہ اینٹیڈوڈ دیا تھا " بریعہ نے آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں کاظم کے لیے نفرت جھلکنے لگی ۔ بریعہ نے کاظم کی دیکھتے ہوۓ کہا۔ جسے سن کر کاظم ہکا بکا ہو کر سن ہوا رہ گیا اور یہ کہہ کر بریعہ اس ڈاکٹر صاحبہ کے اس کمرے سے نکل کر اسی روم میں کی طرف آنے لگی ۔ جس میں انھوں نے رات گزاری تھی۔ کاظم نے بھی بریعہ کے بعد ہی دروازے پر روک لیا۔ بریعہ نے بھی رک کر نفرت بھری آنکھوں کاظم اس کی طرف دیکھا۔ تو کاظم کچھ کہہ نہ پایا۔ 


  " میں تمھیں پسند کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم۔۔۔۔۔۔ تم نے وجہ ہی ختم کر دی۔۔۔۔۔۔۔ تم سے پیار نہیں کیا جاسکتا " بریعہ کی آنکھوں میں پھر سے آنسو بھر آۓ اور کمرے میں داخل ہو کر دروازہ لاک کر دیا۔ کاظم کے پاس بریعہ کو مزید کچھ کہنے کا حق ہی نہیں تھا ۔ تو منہ لٹکا کر اپنی اس بےوقوفی کو کوستے ہوۓ واپس ڈاکٹر صاحبہ کی لیب کی طرف چلا آیا۔ جنرل بھی اپنے اسی سپاہی کو کوئی بتاتے ہوۓ لیب سے نکل رہے تھے کہ کاظم کو دیکھ کر اس کے سامنے آکر رکے۔ 


   " لڑکے تم نے جو بےوقوفی کرنی تھی کر دی۔۔۔۔۔۔ ان تم ڈاکٹر صوفیہ کو وہ اینٹیڈوڈ دو تاکہ وہ کوئی حل نکالیں " جنرل نے کاظم کو سمجھانے والے لہجے میں کہا۔ 

  " وہ اینٹیڈوڈ تو تباہ ہو گیا ہے سر ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک اور بیوقوفی کر دی۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بےوقوف نہیں گناہ گار بن گیا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب جو کچھ بھی ہوگا اس کا ذمہ دار میں ہونگا۔۔۔۔۔ میری غلطی کا انجام ہے یہ " یہ کہہ کر کاظم بھی اب اپنی غلطی کو گناہوں کی شکل دیے زندگی سے اوکھ کر مزید کچھ کہے بغیر انسوؤں کو آنکھوں میں ہی روکے آگے نکل گیا اور وینٹیلیٹر پر لیٹے جلال کے پاس جا کر کرسی بیٹھ گیا۔ جلال ابھی ہوش میں تھا۔ 

  " مجھے عبد الواحد نے ایک بار کوکین زبردستی دی تھی۔ کہتا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا۔ پھر میرے دل میں پتی نہیں ہونے لگا۔سر پھٹنے لگا تھا۔ تو اس نے مجھے دوبارہ کوکین دی تو میں ٹھیک ہو گیا۔ میرے دل میں کوکین کی چاہت پیدا ہوتی گئی۔پھر وہ مجھے بلیک میل کرنے لگا کہ اگر میں اس کے لیے کام کروں گا تو مجھے کوکین ملے گی نہیں تو میں یوں ہی ہر روز موت والی زندگی جیونگا۔ میں اس کی باتوں میں آکر تجھے چھوڑ کر اس کے پاس چلا گیا۔ پھر گروہ میری زندگی میں واپس آئی۔ اس نے مجھے نشہ کرتے دیکھا تو کہا یا تو اسے چھوڑنے دوں نہیں تو یہ نشہ چھوڑ دوں۔ برّہ نے مجھے دوبارہ زندگی دی۔۔۔۔ مجھے مقصد دیا۔۔۔۔ مجھے واپس انسان بنایا اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو نا خود چلی گئی۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑ کے " جلال کی آنکھوں سے آنسو نکل کر وینٹیلیٹر شیٹ پر گرنے لگے۔ تو کاظم نے اسے زور سے گلے لگا لیا اور خود بھی رونے لگا۔ پھر ضائع نے خود کو سنبھالا اور جلال کے آنسو پونچھ کر کاندھے پر تھپکی دی اور اپنے آنسو بھی پوچھنے لگا۔ 

   " زندگی بھی عجیب کہانی ہے۔۔۔۔ ایک انجانی غلطی نے مجھے بھی تو ناجانے کتنی جانوں کا قاتل بنا دیا " اب کی بار جلال نے کاظم کو حوصلہ دیا اور پھر کاظم جنونی انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔ 

  " یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ میں ہی ٹھیک کروں نگا ۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی ٹھیک کرونگا اسے " کاظم کی انکھوں ایک جنوں نمایاں کرنے لگیں۔


دوسری طرف بریعہ بھی غصے میں بند کمرے میں بیٹھی تھی۔ اس کے دماغ میں کبھی تو کاظم کے وہ الفاظ گھومتے تو کبھی اپنے باپ کے ساتھ گزرے لمحات تصویریں بننے لگتے۔ بریعہ ہاتھوں میں منہ دیے ینڈ پر بیٹھی تھی۔ چونکہ وہ کمرہ اس کا تو نہیں تھا۔ تو کنٹرول روم میں سے کسی نے دروازے کے لاک ہونے کا آپشن دیکھ کر ناگواری میں وہیں سے کمپیوٹر پر ایک بٹن دبا کر دروازہ واپس کھول دیا۔ اتقاق سے تبھی کاظم بھی جلال کے پاس سے اٹھ کر اسی کمرے کی طرف بریعہ کو اپنے ارادوں سے باخبر کرنے آرہا تھا۔ دروازہ کھولا اور اندر بریعہ جو کہ دروازے کو بند سمجھ کر چونک گئی۔ 

  " تم۔۔۔۔ تم اندر کیسے آۓ۔۔۔۔۔۔ تم بابا کے قاتل ہو۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنی میں نے۔۔۔۔۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔قاتل ہو تم۔۔۔۔۔۔قاتل ہو میرے بابا کے " اتنا کہہ کر بریعہ دوبارہ گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی۔ 

  " مجھے معلوم ہے تم مجھے معاف نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔۔ لیکن آخری بار دیکھنے آیا ہوں تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے بابا کو تو نہیں لا سکوں گا۔۔۔۔۔۔ لیکن اپنی کی ہوئی غلطی کو سدھارنے کو شش ضرور کرونگا۔۔۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔۔ ہو سکے تو معاف کرنے کی کوشش س

ضرور کرنا " کاظم نے دروازے کے ہینڈل کو ایک ہاتھ سے پکڑے ہوۓ کہا اور واپس دروازہ بند کر کے کنٹرول روم کی طرف چلا گیا۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim

#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)