Tamasha-e-Muhabbat - Episode 12

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 12


- - -

(ماضی)


فجر کی ازان گونجی تو وہ نماز کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا___ اس نے جلدی سے غسل کیا___ سیاہ لباس زیب تن کیے بازو فولڈ کیے حسبِ معمول اسکن کلر کی شال کندھوں پر ڈالے وہ نماز کے لئے کمرے سے نکلا____


یہ اس کا معمول کا حلیہ ہوا کرتا تھا___ شلوار قمیض اور کندھوں پر شال ڈالے وہ کسی بھی لڑکی کا ایمان خراب کرسکتا تھا___


اُس کا ورزشی جسم، سرخ و سفید رنگت اور گہری سیاہ سحرانگیز آنکھیں____ ولی خان تباہی تھا____ ایک خوبصورت اور دلفریب تباہی____


یہ اُس کا روزانہ کا معمول ہوا کرتا تھا وہ رات کو بمشکل 4 گھنٹے سوتا تھا___ اس کی سوچ اپنا مستقبل سنوارنے تک محدود تھی__ یا پھر اُس نیلی آنکھوں والی انشراح میر کو سوچنا___ اور برتھ ڈے والے واقعے کے بعد سے اس کی سوچوں کا رُخ صرف انشراح میر کی طرف تھا___


ولی____ میر حاکم نے اُسے پُکارا____


میر حاکم کی آواز پر وہ ادب سے پلٹا__ اور اُن کے قریب جا کر اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیا__ میر حاکم جب بھی اُسے دیکھتے جی اُٹھتے تھے__وہ اُس کی اس قدر فرمانبرداری پر نثار ہوتے تھے____


نماز کے لئے جا رہے ہو__ اُنہوں نے ولی سے سوال کیا__


جی میر سائیں___ اُس نے ادب سے جواب دیا__


تمہاری آنکھیں سُرخ کیوں ہو رہی ہیں__؟؟

انہوں نے پریشانی سے پوچھا___


کچھ نہیں میر سائیں__ نہانے کے بعد پانی جانے کی وجہ سے آنکھیں سُرخ ہوجاتی ہیں____

ولی نے بات بدلی___


آنکھوں میں پانی جانے اور آنکھوں سے پانی نکلنے کی سُرخی میں بہت فرق ہوتا ہے ولی خان___


میر حاکم اُسے جانچتی نظروں سے دیکھنے لگے__ وہ لب بھینچے انہیں دیکھنے لگا__ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میر سائیں اُس کی آنکھوں کو پڑھ لیں گے__ وہ بے بسی سے انہیں دیکھتا رہا جب میر سائیں نے اُسے جانے کا حکم دیا___


💓💓💓

وہ جونہی نماز پڑھ کر لوٹا تو میر سائیں کو اپنا منتظر پایا___


میر سائیں اُسے دیکھتے ہی واک کرنے کے لئے اُٹھے وہ حسب معمول اُن کے پیچھے چلنے لگا___


آج انشراح کے کزن کی منگنی کا فنکشن ہے اور میں مصروف ہوں،__ ولی خان تم انشراح کو لے جا کر اس فنکشن کو اٹینڈ کرو گے__ ہماری طرف سے معذرت کردینا__


میر سائیں اُسے حکم دیتے اندر کی طرف بڑھے___


شام کے وقت انشراح میر کو دادا سائیں نے ولی کے ساتھ شادی پر جانے کا آگاہ کیا__ وہ اُٹھ کر تیار ہونے چلی گئی___


جب وہ تیار ہوکر باہر آئی تو پہلے سے نک سک تیار رجاء کو دیکھ حیران ہوئی___


تم کہاں جا رہی ہو_؟؟ نشاء نے استفسار کیا___


میں گھر بیٹھی بور ہورہی تھی سوچا شادی پر جاکر کچھ انجوائے کروں موڈ سیٹ ہوجائے گا___ انشراح میر کو اس کی چالاکی سمجھ آچکی تھی__


رجاء کا شادی پر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا___ مگر جیسے ہی اُس نے ولی کے ساتھ جانے کا ذکر سُنا فوراً تیار ہونے چلی گئی_ اُس کی خوشی دیدنی تھی___

۔


انشراح میر بوجھل دل کے ساتھ ولی کا انتظار کرنے لگی جب ملازم نے ولی کے آنے کی اطلاع دی___


جیسے ہی وہ دونوں باہر نکلیں تو ولی کو کار کے ساتھ ٹیک لگائے کسی سے فون پر بات کرتے دیکھ اُس کی طرف بڑھیں___ سفید شلوار قمیض پہنے اور گردن پر سیاہ شال لپیٹے آنکھوں پر گلاسز لگائے وہ کسی کو فون پر ڈانٹ رہا تھا__ اس کا دراز قد اور ورزشی جسامت پر وجیہہ شخصیت اُسے باقی مردوں سے ممتاز کرتی تھی وہ بخوبی اس بات سے واقف تھا___ اُسکی سحر انگیز آنکھیں مقابل کو چاروں شانے چت کرنا جانتی تھیں__ مگر ولی خان اپنی ان آنکھوں کو ہمیشہ بلیک یا ڈارک

 براؤن گلاسز کے نیچے چھپائے رکھتا تھا____


وہ گولڈن لونگ فراک جس کا چوری دار پاجامہ فراک کے نیچے ہی چھپ گیا تھا__ بالوں کا جوڑا بنائے ہلکے میک اپ میں بہت دلکش لگ رہی تھی مگر اس کے چہرے پر اداسی صاف دکھائی دے رہی تھی__


ولی خان اسے ایک نظر دیکھ اپنی نگاہیں پھیر چکا تھا___

وہ بالوں میں بے بسی سے ہاتھ پھیرتا کار کا فرنٹ ڈور کھولتا اس میں بیٹھا___


رجاء جو کہ اس خواہش میں تھی کہ ولی ان کے لیے دروازہ کھولے گا__ ولی کو کار میں بیٹھے دیکھ منہ بناتی بیٹھی___ 


افف کتنا ایٹیٹیوڈ ہے اس آدمی میں___ رجاء میر بس سوچ کر رہ گئی___


جیسے ہی وہ دونوں گاڑی میں بیٹھی اس نے زناٹے سے گاڑی چلائی___


ولی تم کہاں مصروف رہتے ہو؟؟ کبھی ہمارے لئے وقت نہیں نکالا__ رجاء میر ولی خان سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرنے لگی__


انشراح میر اس کی ہمت پر حیران ہوگئی__وہ ولی خان کو جانتی تھی وہ تو کبھی کسی مرد سے بے تکلف نہیں ہوتا تھا اور یہاں تو رجاء میر تھی__


میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا__ سو مائنڈ یور اون بزنس___


وہ سپاٹ لہجے میں مخاطب ہوا__اُس کا یہ انداز دیکھ رجاء کی بولتی بند ہوگئی___ 

رجاء میر اُس کی۔ہمت پر حیران تھی____ تھا تو وہ ملازم مگر اُس کا ایٹیٹیوڈ کسی ریاست کے شہزادے سے کم نہ تھا____


نشاء بی بی کب تک فنکشن ختم ہوگا؟؟ اب کے اُسکے لہجے میں مٹھاس اور نرمی دیکھ رجاء میر کا حلق تک کڑوا ہوگیا___


انشراح میر جان گئی تھی کہ وہ ولی خان کے لئے خاص ہے وہ مطمئن سی اُسے وقت بتانے لگی__


جیسے ہی وہ فنکشن میں پہنچے__ کتنی ہی نظریں ولی خان کے چہرے کا طواف کرنے لگیں__ ولی خان اس پورے وقت میں انشراح میر کا سایہ بن کر رہا__


دو نظریں مسلسل ولی خان اور انشراح میر کی کیمسٹری سمجھتے اگلا لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف تھیں__

💕💕💕


(حال)


وقت یونہی تیزرفتاری سے گُزر رہا تھا_تیمور اور انائیتہ کی دوستی بڑھتی جارہی تھی__ تیمور ولی خان اس کے علاوہ کبھی کسی سے نرمی سے مخاطب نہ ہوتا تھا___


ہاں وہ چاہ کر بھی اُس پر غصہ نہیں کرپاتا تھا__ تیمور ولی خان انائیتہ شاہ کے سامنے وہ تیمور تھا ہی نہیں جسے دنیا جانتی تھی بےحس ظالم اور سفاک___


جو اپنے دشمنوں کو نہیں چھوڑتا تھا___ جس نے ہر طرح کے سرکل کے لوگوں سے دوستی کر رکھی تھی___ ہاں تیمور ولی خان لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتا تھا____


اُس نے خود کے گرد ایک خول بنا رکھا تھا جسے کوئی پاٹنے کو تیار نہ تھا___تیمور ولی خان کا ماضی کیا تھا__؟؟ وہ کون تھا؟؟ اس کی فیملی میں کون کون تھا ؟؟ یہ بات اس کے جاننے والوں کے لئے ایک سوالیہ نشان تھی___ تیمور ولی خان کبھی بھی اپنی پرسنل لائف کو پبلک نہیں کرتا تھا اس لئے بہت کم لوگ مسز خان کو جانتے تھے__ مسز خان نے خود کو گھر کی چار دیواری میں قید کر رکھا تھا__ وہ کبھی کبھار تیمور کے اصرار پر اس کے ساتھ باہر جاتی تھیں___


انائیتہ شاہ کے لئے مسز خان اور تیمور ولی خان بھی ایک مسٹری تھے وہ ان دونوں کے بارے میں جاننے کو متجسس تھی__ 


وہ ابھی بھی تیمور کے بارے میں سوچ رہی تھی___ 

ماما کہتی ہیں کہ شادی سے پہلے آنے والا مرد تباہی ہوتا ہے لڑکی کے لئے مگر وہ مرد جو بنا کسی اجازت کے آپ کی زندگی آپ کے دل پر قبضہ کرلے وہ عورت کی تباہی کیوں ہے ؟؟ عورت کا کیا قصور ہوتا یے؟؟ عورت تو بے بس ہوجاتی ہے__،

جیسے میں بے بس ہوچکی ہوں تیمور خان کے سامنے__ افف مگر تیمور نے تو آج تک کبھی مجھے امید نہیں تھمائی__


ہاں یہ سچ تھا انائیتہ شاہ تیمور کی وجاہت پر مر بیٹھی تھی مگر جب وہ تیمور کے نزدیک ہوئی تو اس کی نظروّں سے پگھلنے لگی__ اس کی زندگی کی اداسی کو محسوس کرنے لگی___


وہ اس کے بارے میں سب جاننا چاہتی تھی__ایسی کیا وجہ تھی جس نے اسے سفاک بنادیا تھا__ وہ اس کی زندگی کے ہر دکھ ہر تکلیف کو کم کرنا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے وہ تیمور ولی خان کی زندگی کے رازوں سے پردہ ہٹوانا چاہتی تھی__ وہ اس کے ماضی کو کریدنا چاہتی تھی____


💓💓💓💓


وہ بلیک شرٹ پر بلیک ہی اپر پہنے بلیک جینز اور بلیک ہی گاگلز لگائے بہت کلاسی لگ رہی تھی__ بلیک اس کا فیورٹ کلر بن چکا تھا کیونکہ یہ تیمور کا فیورٹ کلر تھا__


وہ جیسے ہی ہوٹل پہنچی تو سامنے ہی وہ شخص اسے ٹیبل پر بیٹھا نظر آیا__


وہ اس ٹیبل کے قریب گئی اور کرسی گھسیٹتے بوسی انداز میں بیٹھی اور سٹائل سے اپنی آنکھوں سے گاگلز ہٹائے___


میں خان کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی ہوں حمزہ اور یقیناً آپ میری مدد کریں گے___


اُس نے حمزہ احمد کا انتخاب کیا جو اسے خان کے ماضی کے متعلق بتا سکتا تھا___

جونہی اُس نے حمزہ احمد سے سوال کیا حمزہ احمد نے اُسے ایک نظر دیکھا اور فقط اتنا ہی بولا____


کچھ راز راز ہی رہنے دیں انائیتہ شاہ__ اگر ایک بار ان رازوں سے پردہ ہٹ گیا تو آپ کبھی تیمور ولی خان کے سامنے سر نہیں اُٹھا سکیں گی___


حمزہ احمد اتنا کہہ کر وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا__ پیچھے انائیتہ شاہ اپنی بات کی ناقدری پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی___


❤❤❤❤❤❤

ازلان شاہ نے مسز شاہ کو کمرے میں بلایا اور اب اپنی اور انائیتہ کی گفتگو ان کے گوش گزار کی____


مسز شاہ اور ازلان کے درمیان موضوع گفتگو ہمیشہ انائیتہ ہی رہی تھی____

وہ دونوں ابھی ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے جب مسز،شاہ نے ازلان کو تیمور کے بارے میں بتانے کا ارادہ کیا____

ابھی وہ تمہید باندھنے ہی لگی تھی کہ واصف شاہ ہانپتے کانپتے اُن کے کمرے میں داخل ہوئے____


ازی____

واصف شاہ کے چہرے کا رنگ فق ہوچُکا تھا___


کیا ہوا بابا___ ازلان شاہ بھاگتے ہوئے ان تک پہنچا___


ازی ابھی فون آیا آزر کا___ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے____ واصف شاہ بول رہے تھے اور ازلان شاہ کی حالت گویا کاٹو تو لہو ہی نہیں والی تھی___


ایسے کیسے آگ لگ سکتی ہے___ ازلان کے تو حواس ہی کام نہیں کر رہے تھے وہ بھاگتا ہوا وہاں سے چلا گیا____


وہ پوری رات گھر نہ آیا___ فجر کے قریب جیسے ہی وہ گھر آیا اُس نے سامنے ہی واصف شاہ انائیتہ اور گھر کے باقی افراد کو دیکھا اُس کی نظریں اپنی بیوی کو ڈھونڈ رہی تھیں___ مگر وہ وہاں نہیں تھی___


کچھ پتا چلا آگ کیسے لگی؟؟؟


واصف شاہ نے ازلان سے آگ لگنے کی وجہ پوچھی___

بابا میں نہیں جانتا آگ کیسے لگی____


ازلان شاہ بےبسی سے کہتا وہیں صوفے پر بیٹھ گیا اُس نے انائیتہ کو اشارے سے پاس بلایا جو ازلان کے پاس جاکر اُس کے کندھے سے لگی رونے لگی___


ازلان شاہ اپنی بیٹی کے آنسو دیکھ پریشان ہوا____ 

بی بریو مائی گرل___ اینڈ ڈونٹ وری___ ایوری تھنگ ول بی اوکے اینڈ فائن____


ازلان خودپریشان تھا مگر وہ انائیتہ کو پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا ابھی وہ اُسے سینے سے لگائے تسلی دے رہا تھا کہ مسز شاہ کی آواز ہال میں گونجی____


سو سیڈ آف یو ازلان شاہ____ سو سیڈ ____ اسے بولتے ہیں مکافات عمل____

یاد ہے ایسے ہی ایک آگ ولی خان کے ہوٹل میں لگی تھی___ اُس کی دن رات کی کمائی وہ چھوٹا سا ہوٹل جسے تم نے آگ لگوائی___ تم نے میری آنکھوں کے سامنے ولی خان کے خواب کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا____


صرف اس لئے ناں کہ تمہیں میں مل جاؤں___ میں تو تمہیں مل گئی تمہاری ضد جیت گئی__ مگر محبت ہار گئی تھی____ 


تم نے صرف مجھے پانے کے لئے ولی خان کو برباد کیا___اس کے ہوٹل کو آگ لگوائی اُس کے گھر کو آگ لگائی اُس کے بچے کو اپنے پالتو کتے کے آگے ڈالا__ اُس کی بیٹی کو____ مسز شاہ کی نظر جیسے ہی انائیتہ پر پڑی وہ خاموش ہوگئیں مگر تب تک انائیتہ شاہ وہیں فرش پر ہوش و حواس سے بیگانہ گر گئی____


ازلان شاہ فورا سے اُس کی طرف لپکا اور اُسے ہاسپٹل لے کر گیا____


مسٹر شاہ آپ کی بیٹی کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے___ ڈاکٹر نے جیسے ہی انائیتہ کا چیک اپ کیا ازلان کو ایک نظر دیکھ کر بولا___


ازلان شاہ وہیں سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گیا___ ڈاکٹر نے فوری ٹریٹمنٹ دیا اور ایک دن اور ازلان نے ہاسپٹل کے کوریڈور میں گزاریں یہ جانے بغیر کہ کوئی اور بھی ہاسپٹل کے اس کمرے میں اپنی بےبی ڈول کے بیڈ کے سرہانے بیٹھا اُس کی صحتمند زندگی کی دعائیں کررہا تھا____


تیمور ولی خان اپنا سارا کام چھوڑ کر ہاسپٹل میں انائیتہ شاہ کے پاس بیٹھا اس کی تیمارداری میں مصروف تھا اور یہ بات سوائے ڈاکٹر کے کوئی نہیں جانتا تھا____


شام تک انا کی حالت سنبھلتے ہی اُسے ڈسچارج کردیا گیا___ ازلان نے گھر آتے ہی ایک شکوہ کناں نظر اپنی بیوی پر ڈالی مگر وہ اُسے اگنور کرتی کسی پارٹی کے لیے روانہ ہوگئی___

2 ہفتے بعد


ازلان شاہ آفس میں بیٹھا کام میں مصروف تھا جب اُس کا سیکرٹری کمرے میں آیا___

 بولو کیا خبر ہے۔۔۔۔ ازلان نے اپنے سیکریٹری سے استفسار کیا___

اُس کی نگاہیں اپنے لیپ ٹاپ پر ٹکی تھیں جس کی ڈیسک ٹاپ پر اُس کی فیملی پکچر لگی تھی____


کس قدر حسین تھی اُسکی بیوی___ وہ یہ سوچ کر ہی مُسکرا اُٹھا____


سر ہمیں اپوائنٹمنٹ مل گئی ہے___ خان گروپ آف انڈسٹریز کے مالک تیمور خان آج اپنے ایف_7 والے آفس میں شام 5 بجے آئیں گے____


گُڈ____ ازلان شاہ نے یک لفظی جواب دیا__ اور پھر کلائی میں بندھی گھڑی پر نظر ڈالی___


We don't have enough Time___ I think we should go to visit his place____


ازلان شاہ یہ کہتا ہی اپنی چیئر سے اُٹھا___ اور سٹینڈ پر لگے اپنے کوٹ کو اُٹھاتا کیبن سے باہر نکلا___


وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو ایف_7 کی طرف گاڑی لے جانے کا حکم دیتا خود بیک سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھ گیا____


ازلان شاہ تیمور کے آفس پہنچتے ہی لائن میں کھڑا ہوا اُس کا انتظار کرنے لگا___ اُسے کسی قسم کی پروٹوکول نہیں دی گئی تھی___


وہ ایک سائیڈ پر بیٹھا تیمور کے آنے کا انتظار کرنے لگا___ تیمور ولی خان اپنے کیبن کے گلاس ڈور سے یہ منظر دیکھ مسکرا رہا تھا____


یہ وہ ازلان شاہ تو تھا ہی نہیں ظالم سفاک، درندہ، گھمنڈی مغرور ____ دُنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے والا___


یہ ازلان شاہ تو ہارا ہوا انسان لگ رہا تھا_____


پہلی شکست پر یہ حال____ افسوس ازلان شاہ ابھی تو تمہاری بربادی کے دن شروع ہوئے ہیں____


تیمور ولی خان کتنی ہی دیر ازلان کو بےبسی کی تصویر بنے دیکھتا رہا اور پھر اُس کی حالت سے حظ اٹھاتا اُسے اپنے کیبن میں بلایا____


ازلان شاہ جیسے ہی اُس کے کیبن میں گیا سامنے ہی اُس خوبرو جوان کو دیکھ ایک پل کے لئے اُسے لگا کہ ولی خان اُس کے سامنے ہے 

____ وہ ولی خان کے حُسن سے متاثر تھا پھر تیمور ولی خان کے حُسن کو دیکھ وہ ٹھٹھک گیا تھا___


وہی چہرہ___ وہی نقوش___ وہی دلکش سراپا___ وہی مردانہ وجاہت کا شاہکار اور وہی سحر انگیز آنکھیں____


ازلان شاہ بنا کچھ بولے ہی اُس کے کیبن سے خود کو سنبھالتا باہر نکلا___ وہ ابھی اپنی گاڑی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اُسے وہ نظر آئی___

وہ بھاگتا ہوا اُس کے قریب گیا____


رجاء میر____ 

ازلان کی آواز میں درد تھا اور رجاء میر نے یہ آواز سنتے ہی ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالی اور اپنی وہیل چیئر گھسیٹتے گاڑی کی طرف بڑھی___


مسز خان___ حمزہ احمد کی آواز پر اُس نے ایک نظر پیچھے دیکھا مگر ازلان کو دیکھتے ہی وہ گارڈ کو گاڑی چلانے کا اشارہ کرتی چلی گئی___


نوٹ:آپ لوگوں کا رسپانس دیکھ کر دل ہی نہیں چاہتا ایپی دینے کا____

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)