Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 14
- - -
(حال)
مجھے چھوڑ دو پلیز__ مجھے جانے دو___ مجھے میرے بابا کے پاس جانا ہے__ پلیز مجھے معاف کردو__ میں تمہاری زندگی سے بہت دور چلا جاؤں گا___
وہ 9 سالہ بچہ اُس شخص سے التجا کر رہا تھا__ سامنے ہی اس خوفناک کُتے کی للچائی نظریں اُس بچے کو مزید وحشت زدہ کر رہی تھیں___
ہاہاہاہا____فکر مت کرو بچے___ میں تمہیں تمہارے بابا کے پاس ہی بھیجوں گا___ ہاہاہاہا____ اُس شخص کی مکروہ ہنسی نے اُس بچے کو مزید خوفزدہ کردیا تھا____
اُس نے اپنے پالتو کو اشارہ کیا__ جس نے اُس کتے کی رسی کھولی__ وہ کتا بھاگتا ہوا اس 9 سالہ بچے پر لپٹا___ اس بچے کی چیخیں اور اس شخص کے قہقہے نے ماحول کو خوفزدہ کر دیا تھا___
تیمور ولی خان نے جھٹ سے آنکھیِں کھولیِں اُس کی سانسیں پھول چکی تھیں__ اس واقعے کو 20 سال ہوچکے تھے مگر آج بھی وہ واقعہ اس کے زہن پر نقش تھا__ وہ آج بھی وہ سب یاد کرتے خوفزدہ ہوجایا کرتا تھا___
وہ کتنی ہی دیر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتا رہا جب حمزہ احمد اس کے کمرے میں ناک کرتا داخل ہوا___
تیمور ولی خان جو کہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہا تھا___ حمزہ کو ایک نظر دیکھتے ہی پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس،بھرتے منہ سے لگایا____ پانی پینے کے بعد وہ حمزہ کی طرف متوجہ ہوا___
بےبی ڈول میرا ماضی جاننا چاہتی ہے؟؟
اُس نے سوال کیا__ اس کا لہجہ نارمل تھا__نہ غصہ نہ ہی نفرت___ کچھ بھی نہیں تھا اس کے لہجے میں___
جی سر__ وہ تجسس کے ہاتھوِں مجبور ہوکر میرے پاس آئی تھیں__ اتفاقاً وہ مجھ سے پوچھنے لگیں___
حمزہ نے بات بدلی___
کچھ بھی اتفاقاً نہیں ہوتا حمزہ__ اتفاق نام کی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں پائی جاتی__ سب کچھ پری پلینڈ ہوتا ہے___سب کچھ پہلے سے طے کیا جاتا ہے___ جسے بعد میں اتفاق کا نام دے کر مقابل کو مس گائیڈ کیا جاتا ہے___
تیمور نے حمزہ کی طرف کھوجتی نظروں سے دیکھا__ اس کے انداز پر ہی حمزہ تھوک نگلتا بولا__
سر آپ بےفکر رییں__ میں اُن کو روکنے کی کوشش کروں گا___
اس نے یقین دہانی دلانے کی کوشش کی__،
جب تک تم اسے سمجھاؤ گے تب تک بہتر یہی ہے کہ اس کو اس معاملے سے دور رکھو___
تیمور نے وارن کرتے حمزہ کو کہا__
سر کیا بہتر نہیں کہ آپ سب کچھ بھول جائیں__ حمزہ نے آج پھر کئی بار کی کہی ہوئی بات دہرائی__
نہیں حمزہ___ میرے اپنے قبر میں آج بھی انصاف کے لئے سسک ریے ہیں__ میری ماما آج بھی میرے بابا کے انتظار میں بیٹھی ہیں__تم جانتے ہو مجھے اس حادثے میں اگر بچایا گیا تو فقط ایک مقصد کے لئے___اور میرا مقصد صرف انتقام لینا ہے___ ازلان شاہ سے انتقام___ جس نے میری فیملی کو خاص طور پر میری ماما کو برباد کردیا___ جس نے میرے بابا کو ہم سے الگ کردیا___ جانتے ہو میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ماما کو بابا سے ناراض دیکھا___ بابا نے بھی کبھی ماما کو منانے کی کوشش نہیں کی___ پھر ایک دن بابا ہم سب سے ناراض ہوکر چلے گئے___ اُن کی زندگی کا محور تو شاید اُن کی نور تھی جس کے جانے کے بعد بابا نے بھی دنیاوی رشتوں سے منہ موڑ لیا____
مجھے آج بھی یاد ہے میرا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں تھا____ میرا بچپن تو ازلان شاہ نے چھین لیا____
میری پھپھو ماما_____ میری ماما____ میری آنی___ میرے چاچا___ میرے بابا ہم سب کا مجرم ہے ازلان شاہ اور اُس کا پالتو کُتا آزر شاہ____
آزر شاہ کا نام سنتے ہی حمزہ احمد کی پیشانی پر بل پڑے___
آزر شاہ میرا شکار ہے تیمور ولی خان____ اور اُس کا شکاری صرف میں بنوں گا حمزہ احمد خان_____
وہ مرے گا میرے ہاتھوں سسک سسک کے____ حمزہ نے نفرت سے کہا___
نہیں حمزہ____ تم اپنے ہاتھ اُس کے گندے خون سے نہیں رنگو گے____ میں نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ ساتھ تمہیں بھی جیل ہو____ میرے بعد میرا سب کچھ تم نے سنبھالنا ہے___ میری بےبی ڈول کو بھی____
تیمور ولی خان نے ایک ایک لفظ مضبوط لہجے میں کہا تو حمزہ احمد چونک اُٹھا____
کیا؟؟؟ ہرگز نہیں____ میں اور تمہاری بےبی ڈول کو سنبھالوں گا___ امپوسیبل مین____ مجھے تو وہ لڑکی تمہارے ساتھ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی ___
کیوں؟؟؟ تیمور نے یکدم اُس کی بات کاٹی__
کیونکہ وہ ازلان شاہ کی بیٹی ہے___ حمزہ احمد نے متنفر لہجے میں کہا___
ازلان شاہ کی بیٹی____ وہ فقط ازلان شاہ کی بیٹی نہیں ہے مسز شاہ کی بیٹی بھی ہے___ اور یہی اُس کا پلس پوائنٹ ہے___ تیمور ولی خان کے لہجے میں محبت عقیدت تھی مسز شاہ کے لئے
واٹ ایور___ حمزہ احمد سر جھٹکتا کمرے سے چلا گیا____
اور تیمور ولی خان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سامنے لگی اپنے بابا کی تصویر کو نہارنے لگا____
❤❤❤❤❤
(ماضی)
آؤ ولی میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا__
ولی خان ڈارک بلیو شلوار قمیض میں ملبوس آنکھوں پر براؤن گلاسز لگائے پاؤں میں پشاوری چپل پہنے، سیاہ چادر کو کندھوں پر ڈالے سٹڈی روم میں داخل ہوا جہاں میر حاکم کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے__
وہ ولی کو دیکھتے ہی کتاب بند کرتے اس سے مخاطب ہوئے__ ولی خان آگے بڑھا اور ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا___
جی میر سائیں حکم فرمائیں___ ولی تابعداری سے بولا
بوسہ لینے کے بعد وہ ان کے اشارہ کرنے پر سامنے ہی صوفے پر براجمان ہوا___ نگاہیں جھکائے اس کا سارا دھیان میر حاکم کی طرف تھا____
آج انشراح کے لئے واصف شاہ اپنے بیٹے ازلان شاہ کا رشتہ لے کر آئے ہیں__
وہ جو نظریں جھکائے بیٹھا تھا چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگا__اس کی رگوں میں چلتے خون کی گردش تیز ہوگئی__ اُسے محسوس ہوا گویا کسی نے اس کے کانوں میں جلتے انگارے ڈالے ہوں___
بس نور اور نشاء کے فرض سے آزاد ہوجاؤں تو سکون سے مر سکوں گا___
میر حاکم ولی کی حالت سے انجان مستقبل کی پلاننگ کر رہے تھے جبکہ پاس بیٹھا ولی خان ضبط کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا___
انہوں نے ولی کی طرف دیکھا اور اُمید بھری نظروں سے اُسے دیکھ مخاطب ہوئے___
ولی تم انشراح کو مناؤ گے اس شادی کے لئے__
میں؟؟؟ ولی خان نے یک لفظی سوال کیا___ اُس میں مزید بولنے کی ہمت نہ تھی___
ہاں تم___ فقط تم___ کیونکہ انشراح صرف تمہاری بات سُنے گی ولی___ اور تم ہی اُسے شادی کے لئے مناؤ گے____ میر حاکم نے گویا حکم دیا___
کمال کا ضبط تھا ولی خان کا___اُسے خود پر ہنسی آئی__ وہ کیسے بھول گیا اس کی قسمت تو اسے دغا دیتی آئی ہے__ مگر کیا اتنی ظالم بھی ہوسکتی ولی خان کی قسمت ؟؟ یہ تو اس نے سوچا نہ تھا____
اس کی قسمت اتنی ظالم اور سفاک تھی کہ اسے اپنی ہی محبت کو کسی اور کے حوالے کرنا تھا__ستم تو یہ تھا کہ اسے اپنے محبوب کو خوشی سے اپنی رضا سے کسی اور کے حوالے کرنا تھا__ اُسے اپنے محبوب کو مجبور کرنا تھا کہ وہ کسی اور کی سیج سجائے___
ولی خان اپنی قسمت کی اس ستم ظریفی پر مسکرایا___ بھلا قسمت سے بھی کوئی جیتا ہے آج تک____
آپ بےفکر رہیں میر سائیں میں سب کچھ سنبھال لوں گا__ وہ ان سے کہتا صوفے سے اٹھا اور بنا پیچھے دیکھے سٹڈی روم سے باہر نکلا اور سیڑھیوں سے اترتا ہوا باہر کی طرف جانے لگا جب وہ اُسے سیڑھیوں پر چڑھتی اوپر کی جانب آتی نظر آئی___
ایک پل کو ولی کے قدم رُکے تھے__ بس ایک پل لگا تھا ولی خان کو____ وہ رکا اور پھر اسے نظرانداز کرتا وہاں سے غصے سے نکلا_
انشراح میر کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی__
ان کو کیا ہوا؟ یہ اتنے غصے میں کیوں تھے؟؟؟ انشراح سوچتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی___
ولی خان باہر پورچ میں آیا اور گاڑی میں بیٹھا اتنی تیزی سے گاڑی ریورس کی کہ کسی کو بھی اسکے غصے کا اندازہ ہوجاتا___
ولی خان سٹیئرنگ ہر ہاتھ جمائے سپاٹ چہرہ لیے کتنی ہی دیر خاموش بیٹھا رہا__ وہ نارمل نہیں لگ رہا تھا__
ہاں ولی خان اب نارمل نہیں رہا تھا___
💕💕💕💕
(حال)
انائیتہ آج پھر اپنے مشن پر نکل آئی تھی__ آج اُس کا مقصد تیمور کے آفس کے سب سے پرانے ممبر سے تفتیش کرنے کا تھا__مگر وہاں سے ناکامی کے بعد وہ "خان ولا" پہنچی__ اور مسز خان کے کمرے کو غوروفکر سے دیکھنے لگی__
آج بھی اس کا مرکزِ نگاہ تصویر میں موجود وہ خوبرو مرد تھا__ اس کے لئے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کون زیادہ خوبصورت تھا__ تیمور ولی خان یا تصویر میں موجود وہ شخص__
آخرکار وہ ایک نتیجے پر پہنچی__
اس کا خان اور تصویر میں موجود شخص ایک دوسرے کا عکس تھے__ فرق صرف یہ تھا کہ ولی خان اپنی آنکھوں کو گلاسز کے نیچے چھپا کر رکھتا تھا جبکہ تیمور ولی خان اس تکلف سے آزاد تھا__ وہ اپنی آنکھوں کے تیر چلانے سے بالکل بھی دریغ نہ کرتا تھا__ ولی خان بیشتر اوقات شلوار قمیض اور کندھے پر چادر ڈالنے کا عادی تھا جبکہ تیمور ولی خان شلوار قمیض پر گلے کے گرد مفرل لپیٹتا تھا___ یا پھر جینز اور ٹی شرٹ اُس کا فیورٹ ڈریس تھی___
اب اس کی نظر بیڈ پر لیٹی دنیا جہاں سے بےخبر مسز خان پر پڑی تو اُس کا دل ان کے دکھ پر کٹنے لگا__
کتنی خوبصورت عورت تھی یہ___ اُس کی ماما سے بھی زیادہ حسین___ مگر اس حسین عورت کی زندگی کے دُکھ____
وہ دکھی دل کے ساتھ اٹھتی تیمور کے کمرے کے ساتھ موجود اس پراسرار کمرے کی طرف بڑھی__
آج تو اس کمرے میں جاکر دیکھوں گی اندر کیا ہے___ ایک شرارتی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر بکھری___
اس نے جیسے ہی ڈور اوپن کرنے کی کوشش کی اُسے لاک دیکھ کر خوب بدمزا ہوئی___اور منہ چڑاتی پیچھے کو مُڑی جب عین اس کے پیچھے تیمور ولی خان کو دیکھ کر اس کا سانس اوپر نیچے ہونے لگا__
انائیتہ شاہ کو لگا گویا کسی نے اس کی سانسیں کھینچ لی ہوں__ وہ خود کو تیمور ولی خان کے عتاب کا نشانہ بننے کا سوچتے ہی پریشان ہوئی__ اور بے اختیار رونے لگی__
تیمور ولی خان نے جیسے ہی انائیتہ کو اپنے سامنے نظریں جھکائے آنسو بہاتے دیکھا وہ بے اختیار آگے بڑھا____
Hey my Baby Doll
اُس نے آگے بڑھتے انائیتہ شاہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا___ انائیتہ نے نظر اٹھا کر دیکھا__ نیلی آنکھیں گہری سیاہ آنکھوں سے ٹکرائیں___
What happened??
تیمور نے سوال کیا__
Why are you crying baby??
اُس کی انتہا درجہ کیئر پر انائیتہ شاہ اور زیادہ رونے لگی__ وہ اس کے سینے سے لگی آنسو بہانے لگی__
Hey Stop crying__ who made you cry??
تیمور ولی خان نے سوال کیا__ انائیتہ شاہ نے اپنا سر اس کے سینے سے اٹھایا اور لال چہرہ لیے اس سے اپنا آپ چھڑوانے لگی__ تیمور کسی صورت اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا__ جس پر انائیتہ شاہ نے اسے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا__ اور بولی
You___ you made me Cry_
"Everybody saying that if I tried to enter in your past you will treat me badly"
انائیتہ شاہ کے اس انداز پر تیمور ولی خان مسکرایا__ ہاں یہ سچ تھا انائیتہ شاہ اسے دیکھ کر ڈر گئی تھی__
No baby Doll, I can't hurt you__ you are very special to me__
تیمور نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگایا___ کتنی ہی دیر وہ دونوں ایک دوسرے میں گم دنیا جہاں سے بےخبر سٹل پوزیشن میں تھے جب تیمور نے دھیرے سے انا کے کان میں سرگوشی کی
"Baby Doll"__ تیمور نے سرگوشی کے انداز میں کہا
ہمممم___انائیتہ شاہ جو ان خوبصورت لمحوں کی قید میں تھی اس سے اتنا ہی بول سکی__
"ایک بات یاد رکھنا کچھ بھی ہوجائے تیمور ولی خان اپنی بےبی ڈول کو اذیت نہیں دے سکتا"
تم جانتی ہو میرے بابا نے مجھے عورت زات کی عزت کرنا سکھایا ہے__ اور میں میرے بابا کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا اور تم___ بےبی ڈول تم تو بہت خاص ہو میری ماما کے لئے__
جانے کیا تھا تیمور کے لہجے میں جس نے انائیتہ شاہ کو اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا__
انائیتہ شاہ کی نیلی آنکھیں تیمور کے چہرے کا طواف کرنے لگیِں__
اور وہ بےاختیار تیمور کے لبوں پر اپنے لب رکھے ان کو سیراب کرنے لگی__ تیمور ولی خان نے اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی جس پر انائیتہ شاہ نے اپنی ہمت مجتمع کرتے اُسے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا__ اور اس کے چہرے کا بوسہ لیا__
اب انائیتہ شاہ کے ہاتھوں کی انگلیاں تیمور کی شرٹ کے بٹن کے ساتھ چھیڑ خانی میں مصروف تھے جب تیمور نے اُسے کمر سے پکڑ کر اپنی بانہوں میں اُٹھا لیا_
انائیتہ شاہ نے اپنی ٹانگوں کو تیمور کی کمر کے گرد باندھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتی اس کے چہرے پر جھکی جب تیمور نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرلیا__ اور وہ اسے اٹھائے یونہی اپنے کمرے کی طرف بڑھا__
آج انائیتہ شاہ پر جنون سوار تھا وہ کسی نہ کسی طرح تیمور کے قریب آنا چاہتی تھی__ اس نے خود کو تیمور کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا__
🔥🔥🔥🔥
تیمور ولی خان نے انائیتہ کو کمرے میں لاتے ہی بیڈ پر لٹایا__ اور اب وہ اس کے دلکش سراپے کو غوروفکر سے دیکھنے لگا__ انائیتہ کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی_، اس کے تنگ لباس میں اس کے جسم کے نشیب و فراز عیاں تھے__
تیمور ولی خان اپنے ایک ہاتھ سے اس کا جسم سہلا رہا تھا دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنی شرٹ اوپن کی__
انائیتہ شاہ سرخ آنکھیں لیے اسے دیکھنے لگی آنے والے وقت کا سوچتے ہی ایک شرمگیں مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو کر گزری__
تیمور ولی خان نے خود کو شرٹ سے آزاد کیا__ اور اب اس کے اوپر آکر اس کے چہرے پر جھکا__
انائیتہ شاہ آنکھیں سختی سے میچے ہوئے تھی جب اس نے تیمور ولی خان کے ہونٹوِں کا لمس اپنی پیشانی پر محسوس کیا___
تیمور ولی خان اسے بوسہ دیتے اس کے کانوں کے پاس سرگوشی کرتا اُٹھا__
بےبی ڈول تمہاری بانہوں کے حصار میں اتنا سکون ہے کہ میں اپنی 29 سالہ زندگی کے ہر دکھ ہر تکلیف کو بھول گیا___ مگر میں اپنے اس سکون کے لئے تمہاری عزت پامال نہیں کرسکتا__
انائیتہ شاہ اس کی سحرانگیز آواز سُنتے ہی اُسے دیوانوں کی طرح دیکھتی رہی__
اُسے آج اپنی محبت پر رشک آیا تھا اُسے اپنے انتخاب پر فخر ہوا تھا_،
❤❤❤❤❤❤❤
نوٹ: ایپی پڑھ کر لائک کمنٹ کردیا کریں پلیز🙏🏻