ZombieWar - Episode 15

0

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 15

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu

  " کککیا۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ہے تمھارا۔۔۔۔۔ کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ تم رہا بالکل نہیں جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں تمھاری غلطی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ تمھاری غلطی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ تم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔۔۔۔( بریعہ بھی کاظم کو روکنے لے لیے پاگلوں کی طرح اس کے دائیں بازو سے لپٹ گئی)۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں کہیں نہیں جانے دونگی،۔۔۔۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔۔ ایم سوری " بریعہ بغیر سانس لیے جو منہ میں آیا بولے جا رہی تھی۔

کاظم نے اس کے سر کو دونوں سے پکڑا اور اپنے چہرے کے قریب لے آیا۔بریعہ کی آنکھوں سیکنڈوں میں بھر کر بہہ بھی چکی تھیں۔


کاظم نے اس کی حالت کو سمجھا اور جلال کے بیڈ پر بڑھایا۔

  " دیکھو بریعہ۔۔۔۔۔۔جانا تو پڑے گا مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور میرے علاوہ کوئی جانتا بھی تو نہیں ہے نا۔۔۔۔۔کہ کیسے یہ اینٹیڈوڈ وہاں تک پہچانا ہے۔۔۔۔ہے نا " کاظم بریعہ کے سامنے ہی زمین پر ایک پاؤن پر بیٹھا اس کے ہاتھ پکڑ کر چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔بریعہ تو ابھی وہ روئے جا رہی تھی۔


  " بریعہ خدا نے مجھے یہ موقع دیا ہے تو میں اسے گنوانا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہو گا " یہ کہہ کر کاظم کھڑا ہو گیا اور اتنے میں ہی ایک فوجی آ کر دروازے میں کھڑا ہو گیا۔ 


  " کاظم کو بلایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ایمیڈیٹلی چیک اپ کرنا ہے " فوجی نے کڑکتی آواز سے کمرے کے دروازے میں رک کر کہا۔ کاظم بھی اس فوجی کے ساتھ ہی ہو لیا اور بریعہ وہیں بیٹھی خود کو قصوروار سمجھنے لگی۔ جلال کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرف جائے کیونکہ بریعہ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر گزرے۔


کاظم کو فوجی ویپنز سیکشن میں لے گیا۔ جہاں اسے ہر طرح کا ایموپمنٹ اور ہدایات دی جانی تھی بہت سارے ماہر وہاں پہلے سے ہی موجود تھے جن میں سے کچھ سائنٹسٹز اور کچھ انجینئر اور جنرلز تھے۔ کاظم کو آگے بڑھتے ہی ایک گرین لیزر گیٹ سے سکین کر لیا گیا۔ جس مطابق اس کا ہیلپنگ سیوٹ تیار کیا جانا تھا۔جو اس نے پہن کر جانا تھا۔ آگے بڑھتے ہی جنرل نے ان کا تعارف کروایا۔ 


  " یہ ہیں اس شیلٹر ہاؤس کے سب سے اہم ممبرز۔۔۔۔یہ تمھیں وہ تمام کچھ بتائیں گے جو تمھاری مدد کرے گا ہیڈکوارٹرز پہنچنے میں " اتنا کہہ کر جنرل خاموش ہو گئے اور کاظم ان سائنٹسٹز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کاظم اگے بڑھا اور ایک بڑے ٹیبل جس پر بہت سارا سامان پڑا تھا اس کے سامنے جا کر رک گیا۔ تو ان سائنٹسٹز میں سے ایک آگے بڑھا اور ایک ریک میں پڑی گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ 


  " اٹھا لو اسے اب یہ تمھاری ہی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ملٹی فیلڈ واچ جو تمھیں اور ہمیں رابطے میں رکھے گی اور تمھاری صحت کے متعلق ہمیں آگا ہ رکھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سامنے پڑا بیگ تمھارے لیے ضروری سامان سے بھرا ہوا ہے۔۔۔۔۔ یہ بیگ تمھارے لیے سنبھالنا آسان بھی ہوگا اور تمھاری مدد بھی کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں تمھارے زخمہ ہونے پر سے لے کر تمھارے کھانے تک کا سارا سامان ایک ترتیب سے موجود ہے۔۔۔۔۔ یہ بیگ تمھیں پہننے میں بھی آسانی ہوگی۔۔۔۔۔ اور ہاں میڈ کٹ کے حوالے سے ایک اہم بات۔۔۔۔۔ تمھیں کسی قسم کے کسی بھی زخم کو کھلا نہیں چھوڑنا ہے ایک منٹ بھی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ وائرس زخم والی جگہ سے دی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ اس لیے میڈ کٹ سے سے پہلے رکھی گئی ہے " یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا اور ایک اور انجینئر آگے بڑھا۔ 


  " اور یہ ہے تمھارے ہتھیار۔۔۔۔۔ جو تمھاری مدد کریں۔۔۔۔۔ یہ ہے ایم ون فورٹی ( M140 ) یہ تمھاری پرائمری گن ہو گی . ...........اور یہ ہے سپاس بارہ( SPAS 12 ) یہ تمھاری شاٹ گن ہوگی اس ہتھیاروں میں کچھ جدید چینلز بھی لائے گئے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن وہ سب ان کے بہتر استعمال کے لیے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ہاں یہ رہا تمھارا چاقو جسے تمھیں کسی بھی صورت اپنے آپ سے جلد نہیں کرنا ہر۔۔۔۔۔۔۔ اور تو اور اس میں بھی ایک جی پی ایس ڈیوائس فکس کی گئی ہے " اور یوں ہی باتوں ہی باتوں میں باری باری اتے گئے اور کاظم کو اس کا کام سمجھاتے گئے۔ کاظم بہت جلد سمجھ رہا تھا۔


اب کاظم کے لیے یہ وقت اپنے دوست اور بریعہ سے الوداع کہنے کا تھا۔ ایک فوجی جوان جلال اور بریعہ کو بلانے چلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بریعہ دوڑتی ہوئی آ پہنچی اور اس کے بعد ہی جلال بھی آ پہنچا۔ 


   " کاظم تم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا نا میں تمھیں نہیں جانے دونگی۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو اتنے سارے لوگ ہیں نا یہاں یہ سب ٹھیک کر لیں گے۔۔۔۔۔تمھیں کوئی ضرورت نہیں ہے فکر کرنے کی " بریعہ پاگلوں کی طرح جو منی میں آ رہا تھا بولے جا رہی تھی لیکن کاظم نے اسے روکا اور سمجھانے لگا۔کاظم کافی دیر تک بریعہ کو یہی سمجھاتا رہا کہ اب کوئی اور راستہ نہیں مجھے معلوم ہے تمھیں اچھا نہیں لگے گا لیکن مجھے جانا ہی ہوگا۔


جلال نے ابھی تک کوئی ری ایکشن نہیں دیا تھا۔ کاظم اچانک رکا اور جلال کی طرف بڑھ کر اس سے مخاطب ہوا۔ 


   " تم مجھے نہیں روکو گے؟؟؟ " کاظم کے چہرے پر امید سوال بنتی ہوئی نمودار ہوئی۔ 


   " روکا اسے جاتا ہے جو آپ سے دور ہو رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ جا رہے ہیں تو اس میں روکنے والی بات کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی مجھے اکیلے ایڈونچر پر جانا اچھا نہیں لگتا اب " یہ کہہ کر جلال مسکرایا اور پھر کاظم جھٹکے سے اس گلے لگ گیا جس پر جلال نے ایک قہقہہ لگایا۔ 


جلال اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کاظم کتنا بڑا ضدی ہے۔اگر جلال اسے روکے گا بھی تو وہ نہیں رکے گا کیونکہ یہ عادت جلال سے ہی کاظم کو بھی لگی تھی۔ اسی لیے جلال نے بھی اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ 


بریعہ کے سامنے اب دو راستے تھے یا تو چپ چاپ اسے کمرے میں جا کر بیٹھ جائے اور انھیں ڈسٹرب نہ کرے اور دوسرا تھا کہ وہ بھی انہی کے ساتھ چلی جائے۔ کاظم ابھی جلال کے گلے سے پلٹ کر ہٹا ہے تھا بریعہ ان کی بڑھی اور کاظم بھی واپس اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔

  " تمھیں جانا ہی ہے نا میں بھی جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ تمھارے ساتھ( کاظم روکنے ہی والا تھا اسے کہ وہ دوبارہ بول پڑی ) ۔۔۔۔۔اور تم مجھے نہیں روکو گے۔ اگر تم اپنی ضد پر ٹک سکتے ہو تو میں بھی کر سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں بھی تمھارے ساتھ جارہی ہوں اور جلال بھائی بھی اور یہ فائنل ہے " فائنلی جلال کو اب جا کر سکوں ملا کہ اب جلال کو بریعہ سے کوئی خطرہ نہیں اور اب وہ سدھر چکی ہے۔


 نہیں تو جلال کے لیے تو کمرے میں بریعہ کے ساتھ گزرا ہر پل جلال کے لیے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر معلوم ہوتا تھا کیونکہ جلال کو اس وقت یہ معلوم نہیں ہونا تھا کہ کس وقت یہ بھوکی شیرنی کی طرح دوبارہ حملہ کر دے۔ اگر بریعہ شروع ہو جاتی تو پھر جلال اور کاظم کے چاروں خانے چت ہونے پھر پر لکیر بن جانے۔ 


کاظم نے بھی جنرل کی طرف دیکھا تو اوہ ایک بار پھر سے کڑکتی ہوئی آواز میں بولے۔ 


  " نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تم اس دونوں کو نہیں ساتھ لے جا سکتے بلکہ اگر تمھیں ضرورت ہو تو بس ایک ہی تمھارے ساتھ جائے وہ بھی اگر ضرورت زیادہ ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اتنے لوگوں کا رسک نہیں لے سکتے۔۔۔ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی تمھارے لیے رسک یو بوجھ بن جائے" حالانکہ جنرل کی آواز میں اب بھی اس بھوکی شیرنی کر دھاک محسوس ہوتی تھی۔ 


  " کوئی بات نہیں کاظم تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بریعہ کو ساتھ لے جاؤ " جلال نے یہ کہ کر کاظم کو آنکھ بھی مار دی " کاظم بھی سمجھ گیا کہ اب یہ دوبارہ کوئی الٹ پلٹ کام کرے گا ۔ یہ کہہ کر جلال کاظم سے جنرل اور دوسرے کے لیے دکھاوے کے طور پر کاظم سے ہلکا سا گلے ملا اور بریعہ کو والسلام کہہ کر فوجی ویپنز سیکشن سے نکل کر ایک طرف چلا گیا۔


اس کے بعد کچھ ہتھیار بریعہ کو بھی دکھائے گئے اور یوں ہی ڈیڑھ گھنٹہ بھی گزر گیا اور پت بھی نہیں چلا۔ اب ان کے جانے کا وقت تھا۔ دو فوجی جوان ان کے ساتھ بھی جانے تھے جو کہ آبدوز کو چلا کر انھیں کراچی بندرگاہ تک پہچانے والے تھے۔


جنرل کو جلال پر شک ہوا تھا کہ وہ ان سے اتنی آسانی سے کیسے جدا ہو گیا؟ جنرل کو یہی بات کھٹک رہی تھی اور تو اور وہ اب ان کے جاتے وقت ملنے بھی نہیں آیا اسی لیے جنرل نے جلال کو اس کی کمرے میں موجود دیکھنے کے لیے ایک فوجی کو بھیجا تھا۔ کاظم بھی کچھ پریشان تھا کہ جلال ایسا کیا کر رہا ہے کہ اسے ہمارا یاد ہی نہیں۔۔۔۔۔ کہا گیا وہ؟


 خیر کاظم اور بریعہ دو فوجیوں کے ساتھ آبدوز میں داخل ہو چکا تھا اور بہت جلد ہی آبدوز کو بھیجنے کا پراسس شروع کیا گیا بلکہ اسی طرح ایک بٹن دبانے پر آبدوز والے کمرے میں ایک دروازے سائڈوں سے نکل کر بند ہونا شروع ہو گیا اور آبدوز والا کمرے ان سے جدا ہو گیا۔ تبھی وہ فوجی جوان بھا گیا ہوا جنرل کے پاس آیا جو کہ مین کنٹرول روم میں آبدوز کے صحیح طریقے سے نکلنے پر اپنی نظرثانی جمائے ہوئے کھڑی تھے اور پھر آبدوز پر سے نظریں بغیر ہلائے۔فوجی سے جواب طلب کیا جو وہ کہنے آیا تھا۔ 


  " سر۔۔۔۔۔۔ وہاں اس کمرے میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس جلال کو کوئی اتا پتا نہیں ہے " جنرل سمجھ گیا کہ جلال کہاں گیا ہے۔ اس نے جلدی سے اپنے اردگرد کمپیوٹرز پر کام کر رہے فوجیوں سے اس آبدوز کو روکنے کے لیے کہا۔ 


  " سر آبدوز کا کٹنگ پراسس اس وقت شروع ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب یہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے جب تک دوبارہ اب آبدوز کو شیلٹر ہاؤس میں داخل نہیں کروایا جاتا " کمپیوٹر پر سے سارے سائٹ کو کنٹرول کر رہے ایک فوجی نے جواب دیا۔ 


تبھی اچانک جنرل نے کچھ سوچ کر اُسی سے کہا۔ 

  " میری بات کرواؤ ان سے ۔۔۔۔۔۔ ابھی " جنرل کی حکم کی فوری تکمیل کی گئی اور آبدوز میں موجود فوجی ڈرائیورز کو فوراً کام ملائی گئی۔ 


کاظم اور بریعہ آمنے سامنے کی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ یہ آبدوز انتہائی چھوٹی تھی۔ اس میں زیادہ سے زیادہ بھی دس لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ کال سے اس آبدوز میں لگا آٹوکیڈ واکی ٹاکی فوراً ایک مخصوص رنگوں میں بجنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ فوجی کال رسیو کرتا کسی ان اس فوجی کی گردن پر گن تان دی۔ کاظم اور بریعہ بھی اسی طرف متوجہ ہوئے تو انھیں فوجی جوان کی کن پٹی پر گن تانے جلال دکھائی دیا۔ 


   " کیسا ہے جانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہے کہ تم کال رسیو مت کرو۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے جنرل صاحب کے پیسے بھی بچ جائیں گے " جلال نے اس فوجی سے یہ کہتے ہوئے کال نی رسیو کرنے دی۔


  " اوئے تو یہاں کیا کر رہا ہے۔۔" کاظم یک دم زور سے بولا جسے جلال نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا۔ 


   " آہستہ بول۔۔۔۔۔۔ ابھی ہم نکلے نہیں ہیں " جلال نے کاظم کو یہ کہتے ہوئے چپ کرا دیا اور ان دونوں فوجیوں سے مخاطب ہوا گیا۔ 


  " دیکھو بھائیوں۔۔۔۔۔۔ میں تم سب کی بہت بہت بہت بہت زیادہ عزت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اور قسم سے میرا گولی چلانے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔۔۔ میں تو بس ان کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ایک فوجی اسے مڑ کر گھوڑنے لگا ) یار تو ایسے تو مت گھور مجھے ڈر لگتا ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔کہا تھا میں۔۔۔۔۔ہاں یہ اکیلا کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔۔۔۔ میرا اس کے ساتھ جانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ پلیز بات کو سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر تم ابھی بھی نہیں سمجھے تو مجھے نکال دو باہر " جلال نے موقعے کی مناسبت سے فائدہ اٹھایا کہ اب تو آبدوز نکل چکی ہے جس کی وجہ سے یہ مجھے باہر نکال بھی نہ پائیں گے۔


واکی ٹاکی کی ابھی نج رہا تھا اور ان جوانوں کے بےبس دیکھ کر خود ہی کال رسیو کر لی۔ 

    " ارے سے آپ ان کی فکر کیوں کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں ہوں نا سب سنبھال لونگ۔۔۔۔۔ آپ پانی لیے اور جسٹ چل برو " اتنا کہہ کر جنرل کی بات نہ سنے ہی واکی ٹاکی واپس ریک کر دیا۔ 


  " سر۔۔۔۔۔ انھوں نے کل کاٹ دی ہے۔۔۔۔ میں دوبارہ کال کروں؟؟؟ " اسی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے شخص نے جنرل سے پوچھا۔ جنرل سمجھ گیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ جنرل کو جلال پر غصہ تو بہت تھا لیکن اس وقت گھنی سانس لیتے ہوئے غصہ کم کیا اور دوبارہ کال کرنے اسے منع کر دیا۔ 


دوبارہ کال نہ آنے پر جلال کو بھی سکون ہوا اور گن چھوڑ کر کاظم کے ساتھ جا بیٹھا اور سامنے کھلے منہ سے جلال کو گھورتی ہوئی بریعہ سے ہاتھ ہلا کر بولا

  " ہلو سسٹر ۔۔۔۔۔اس آبدوز میں مکھی تو نہیں ہے۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی رسک مت لو اور منہ بند کر لو " اب بریعہ نے ہوش سنبھالے اور منہ بند کر لیا۔ آبدوز میں اس وقت پانچ لوگوں کے ہونے کے باوجود مکمل سناٹا تھا۔ 


وہاں آبدوز میں دو فوجی کاظم ، بریعہ اور اب جلال بھی تھا ۔ آبدوز کے ریڈار سے نکلنے پر شیلٹر ہاؤس میں سے بھی سب ان کی کامیابی کی دعا کرنے لگے۔اور یہاں سے شروع ہونی تھی ان کی اصل مشکل۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)