Tamasha-e-Muhabbat - Episode 15

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 15


- - -

(حال)


انائیتہ شاہ یونہی بیڈ پر لیٹی تیمور کے بارے میں سوچ رہی تھی__ تیمور کچھ دیر پہلے ہی کمرے سے باہر نکلا تھا ____


وہ ساتھ والے کمرے میں جاتے ہی اپنی سانسوں کو نارمل کرنے لگا___


واٹ دا بلڈی شٹ اِٹ تیمور ولی خان___ یو ڈیم اٹ____یہ کیا کررہے تھے تُم___ بنا کسی تعلق کے بنا کسی رشتے کے تُم اُس لڑکی کے ساتھ__ اُفففف لعنت ہوتم پر تیمور____


وہ خود کو کوستا اپنے کمرے کی ہر چیز درہم برہم کرنے لگا____ 


تیمور ولی خان تم عزتوں کے امین ولی خان کے بیٹے ہو اور اتنی گندی حرکت___ اُس نے زور سے اپنا پاؤں الماری کو مارا تو الماری کا پٹ لوز ہونے کی وجہ سے کُھلا___


جونہی تیمور اُس پٹ کو بند کرنے کے لئے آگے بڑھا اُس کی نظر ایک فائل پر پڑی اُس نے چونکتے ہوئے وہ فائل اُٹھائی اور سامنے ہی کچھ پیپرز پر نظر پڑتے اور ایک تصویر پر نظر پڑتے ہی اُس کے لبوں پر مسکراہٹ چھائی___


تیمور ولی خان تم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا___ شی از لیگلی یور ویڈڈ وائف مسز انائیتہ تیمور خان❤❤❤❤


تیمور ولی خان نے اُس تصویر کو پیار سے دیکھا اور یکدم اُس کا چہرہ سپاٹ ہوگیا____


بٹ اُسے تو یہ بات پتا ہی نہیں____ ایسے کیسے___،


نو وے____ ازلان شاہ___ مسز شاہ تُف ہے آپ دونوں کی تربیت پر___ اب اپنی بےبی ڈول کو محرم نا محرم کا فرق بھی مجھے ہی سمجھانا ہوگا____


تیمور ولی خان نے سپاٹ لہجے میں کہا___ اُسے ازلان اور اُس کی بیوی کی تربیت پر غصہ آیا___


اور تیمور کا غصہ کرنا بےجا نہیں تھا____ یہ زمہداری ماں باپ کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو محرم نا محرم صحیح غلط، جائز ناجائز کا فرق سمجھائیں__


تیمور بہت کچھ سوچتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا___ 

❤❤❤❤❤


کچھ دیر بعد ملازمہ دستک دیتی کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی ہوئی__،


کون؟؟؟ انا نے سوال کیا__


بی بی جی نیچے ڈرائیور آپ کا انتظار کر رہا ہے___باہر سے ہی اُسے ڈرائیور کے آنے کا بتا کر چلی گئی_


اوکے___ انا نے یک لفظی جواب دیا___


انائیتہ خود کو نارمل کرتی کمرے سے نکلی__ اور ڈرائیووے کی طرف چل نکلی__


ابھی وہ گاڑی کے پاس ہی پہنچی تھی کہ اُسے اپنی کمر پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا__


وہ اس لمس کو پہچاننے میں غلطی نہ کرسکتی تھی وہ اس کے خان کا لمس تھا__اُس نے نظریں اٹھا کر جب دیکھا تو خان اسے ہی دیکھ رہا تھا__


تیمور ولی خان انائیتہ کے چہرے پر نِظریں ٹکائے ڈرائیور سے ّمخاطب ہوا__


میں چھوڑ آؤں گا انہیں تم گاڑی لے کر میرے پیچھے آؤ__

تیمور کا حکم ملتے ہی ڈرائیور نے سر تسلیم خم کیا__


تیمور یونہی انائیتہ شاہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنی گاڑی تک لے کر گیا__ گاڑی کے پاس پہنچتے ہی اس نے ایک ہاتھ سے ڈور اوپن کیا اور انائیتہ کی کمر سے ہاتھ نکالے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا__ انائیتہ گاڑی میں بیٹھی اور تیمور دروازہ بند کرتا گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا__


تیمور زن سے گاڑی شاہ ولا کی طرف لے جانے لگا وہ ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کررہا تھا دوسرے ہاتھ سے انائیتہ شاہ کے ہاتھ کو تھامے ہوا تھا__ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی انائیتہ شاہ سیٹ سے ٹیک لگائے تیمور کے چہرے کا طواف کرنے لگی__


وہ ہمیشہ اُسے دیکھتے ہی فریز ہوجاتی تھی اسے یاد نہ پڑتا تھا کہ وہ اسے دیکھتے کتنی بار فریز ہوئی__


 

انا ایک بات بولوں____ تیمور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا__


انا کون؟؟؟ انائیتہ نے ناسمجھی سے دیکھا___


تم انائیتہ شاہ___ تیمور ولی خان سرد لہجے میں بولا___ جیسے ہی اُس نے انائیتہ کا خراب موڈ نوٹ کیا وہ فورا اپنا لہجہ بدلتا بولا___


دیکھو بے بی ڈول میری بات غور سے سنو__

بےبی ڈول ابھی کچھ دیر پہلے جو ہوا اُس کے لئے آئی ایم سوری___

بٹ پلیز نیکسٹ ٹائم کبھی کسی کو اپنے اتنے قریب مت آنے دینا___


میں جانتا ہوں یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ ہم صحیح غلط میں فرق نہیں کرپاتے___ اس عمر میں جوان لڑکیاں جوان لڑکے خود کو آزاد تصور کرتے ہیں__، ہر حد سے بالاتر__ مگر میری جان یہ وہ عمر ہوتی ہے جب ہمیں اپنے کردار کو داغدار ہونے سے بچانا ہوتا ہے____


اس عمر میں جب ہم پیار محبت کے چکروں میں پڑتے ہیں تو ہم سب صحیح غلط کو بھلا کر صرف اپنے نفس کی سنتے ہیں ہمیں جنس مخالف کی یہ کشش ہمیں ہر حد پھلانگنے پر مجبور کردیتی ہے ہم کسی کو اپنا محرم تسلیم کرلیتے ہیں ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا دل جس سے لگ چُکا ہے وہی ہمارا محرم ہے جبکہ اللہ نے محرم نامحرم کے بیچ ایک فرق رکھا ہے اور وہ نکاح ہے___


جب تک آپ کسی کے نکاح میں نہیں آتے تب تک وہ شخص آپ کے لئے نامحرم ہے اور اُس کی قربت حاصل کرنا حرام ہے___ 

میں نے آپ کے ساتھ جو بھی کیا اُس کے لئے سوری___ اور پلیز بےبی ڈول نیکسٹ ٹائم خود کو اتنا ارزاں مت ہونے دینا___ خود کو کسی کے حوالے مت کرنا____ 


تیمور ولی خان نے آگے بڑھتے اُس کی پیشانی پر بوسہ لیا___

انائیتہ شاہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے___ کیا نہیں تھا اس لمس میں___ محبت__ احترام___ عزت___


انائیتہ شاہ وہیں تیمور کے کندھے پر سر رکھے رونے لگی___


میں کیا کروں خان___ میں بہک گئی تھی___ مجھے لگا آج آپ کی قربت نہ ملی تو مر جاؤں گی____ مجھے محرم نا محرم کا یہ فرق کبھی میرے ماں باپ نے نہیں سکھایا___


تیمور وہ دونوں اپنی ہی زندگی کے مسئلوں میں مگن ہیں اُن دونوں کو مجھ سے میرے وجود سے کچھ فرق نہیں پڑتا___ وہ دونوں کبھی اُس تیسرے شخص کو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکے کبھی ولی خان اور اُس کی فیملی میرے ماں باپ کے بیچ سے نہیں نکل سکی جو وہ مجھ پر دھیان دیتے ___


مگر تیمور میں بری لڑکی نہیں ہوں میں نے کبھی آج سے پہلے اتنی بولڈنیس نہیں دکھائی___


چپ بےبی ڈول___ میں جانتا ہوں میری بےبی ڈول اوس کے قطروں سے زیادہ پاکیزہ ہے___ نیکسٹ ٹائم کبھی مجھے اپنے کردار کی صفائی پیش مت کرنا___

انائیتہ نے سر ہلایا اور یونہی اُس کے کندھوں سے سر ٹکائے بیٹھی رہی___


 سفر یونہی خاموشی سے کاٹا گیا__ تیمور ولی خان نے انائیتہ شاہ کو شاہ ولا کے گیٹ کے پاس اتارنے لگا انائیتہ شاہ اُسے دیکھتی گاڑی سے نکلی اس نے اسے اندر آنے کو نہ کہا کیونکہ وہ جانتی تھی خان پھر سے انکار کردے گا__


ڈول ایک بات پوچھوں___ تیمور نے سوال کیا___


جی خان___ انائیتہ نے یک لفظی جواب دیا___


یہ ولی خان کون ہے___ تیمور ولی خان نے متجسس لہجے میں پوچھا___


میری ماں کا عاشق____ انائیتہ شاہ نے زہرخند لہجے میں جواب دیا___ 


تیمور ولی خان نے زور سے اپنی مٹھیوں کو بھینچا____


مگر پھر صورت حال سمجھتے اپنے آپ پر قابو پایا___ انائیتہ گاڑی سے نکلی___


تیمور ولی خان گاڑی میں ہی بیٹھے مسکراتی نظروں سے انائیتہ شاہ کو دور جاتے دیکھتا رہا__ اس کا ڈمپل واضح نظر آرہا تھا تبھی اس کی نظر شاہ پیلس کے گیٹ سے اندر جاتی گاڑی میں بیٹھے شخص پر پڑی اور اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سمٹی__ چہرے پر درشتی اور سرخی چھا گئی_اس کی آنکھوں میں غصہ کی شدید لہر جاگی_ وہ لہو ٹپکاتی نظروں سے ازلان شاہ اور آزر شاہ کو دیکھنے لگا__ جو ایک دوسرے کی کسی بات پر ہنس رہے تھے_،


بہت جلد تمہارے ہونٹوں سے یہ ہنسی چھین لوں گا__ شاہ پیلس کے ایک ایک مکین کو خون کے آنسو رلاؤں گا__


وہ دل ہی دل میں خود سے عہد کرتا گاڑی کو واپسی کی طرف موڑ گیا__

😍😍😍😍😍


کس کے ساتھ آئی ہو؟؟ انائیتہ شاہ جونہی گھر داخل ہوئی تو مسز شاہ نے اس سے استفسار کیا__


خان کے ساتھ__ انائیتہ ان کو جواب دیتی کمرے کی طرف چلی گئی__ مسز شاہ بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آئیں__


انا کیا بات ہے؟ اس نے ڈانٹا ہے کیا ؟؟ تم اس قدر پریشان کیوں لگ رہی ہو؟؟ تمہاری آنکھیں سرخ ہورہی___ تم روئی ہوکیا___


مسز شاہ نے اس کے چہرے پر پریشانی نوٹ کی__

انائیتہ شاہ نے ایک گہرا سانس لیا__ اور بولی


وہ ڈانٹتا ہی تو نہیں ہے مجھے ماما__سب کی طرح مجھ پر بھی سختی کرتا تو میں آج حد سے نہ گزرتی__ وہ میرے ساتھ اتنا نرم ہوجاتا ہے

کہ میرا دل اس کی اس مہربانی پر پگھلنے لگتا ہے__ وہ جو ساری دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اس نے مجھے سر کا تاج بنا کر رکھا ہے__ وہ جو اتنا وحشی ہے کہ کسی کی جان لینے سے گریز نہیں کرتا میری آنکھوں کا ایک آنسو دیکھ کر ہی مجھے سینے میں بھینچ لیتا ہے__ میرے آنسو صاف کرتا ہے__ کاش اس نے مجھے بھی باقی سب کی طرح رکھا ہوتا اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کی اس قدر نرمی میرے دل کو کتنا درد دیتی ہے زخمی کرتی ہے___


میں بہت مشکل میں ہوں ماما___ میں تیمور خان کے علاوہ کسی کی نہیں رہی__ میں صرف اس تک محدود ہوچکی ہوں__میں خود کو روک نہیں پاتی__ اپنے دل کو قابو نہیں کر پاتی__

اُس نے مجھے محرم نا محرم کا فرق سمجھایا___ ماما میں خود سے نظریں نہیں ملا پارہی___


کیا وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے؟؟ مسز شاہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ استفسار کیا__ وہ جانتی تھی انا جس راستے کی مسافر بن چکی ہے وہاں خیر نہیں یے___ صرف خار ہے 

 

مگر وہ ماں تھیں_، وہ اپنی بیٹی کے لئے دعاؤں میں بھی خان کو مانگتی تھیں یہ جانے بغیر کہ تیمور ولی خان کا بیٹا ہے___


نہیں ماما وہ کسی اور سے محبت کرتا ہوتا تو میں شاید خود کو روک لیتی سمجھا لیتی__ مگر وہ تو کسی سے بھی محبت نہیں کرتا__


وہ کسی لڑکی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا__

انائیتہ نے تیمور کا دفاع کیا___


تو پھر ایسی کیا وجہ ہے جو تم اس قدر پریشان ہو؟؟ 

مسز شاہ نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا__ 

انائیتہ نے اپنی ماما کی طرف دیکھا اور پھر بولی


ماما خان مجھ سے بہت محبت کرتا ہے__ محبت سے بڑھ کر عزت کرتا ہے__ اس نے کبھی میری قربت کا فائدہ نہیں اٹھایا__ میں نے اس کی آنکھوں میں محبت عقیدت دیکھی ہے مگر__


مگر کیا__ ؟ مسز شاہ نے انائیتہ کے رکنے پر اس سے بے چینی سے استفسار کیا___


ماما خان کے ماضی نے ان کےبچپن میں ہوئے کسی واقعہ نے ان کو ساری دنیا سے متنفر کر رکھا ہے__ میں صرف ایک بار ان کا ماضی جاننا چاہتی ہوں تاکہ ان کو ان اندھیروں سے نکال سکوں__ان کا ماضی ان کو مجھ سے دور کر رہا ہے__


مسز شاہ بہت کچھ سمجھ چکی تھیں لفظ "ماضی" نے تو ان کی تلخ یادوں کو پھر سے تازہ کردیا تھا اور وہ انائیتہ کو اس کے حال پر چھوڑتی خود کو سنبھالتی کمرے میں داخل ہوئیں اور دروازہ لاک کرتے ہی کمرے کے ساتھ ملحقہ ڈریسنگ روم میں داخل ہوئیں اور مختلف دراز کھولتی کچھ ڈھونڈنے لگیں کافی دیر بعد انہیں ان کی مطلوبہ چیز ملی جسے ہاتھوں میں دبائے کمرے میں داخل ہوئیں اور بیڈ پر بیٹھتے ہی وہ چیز ناک سے لگاتی دنیا جہاں سے بےخبر 

سوگئی___


ازلان شاہ جو کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی اس کی محبت دنیا جہاں سے بےخبر سورہی تھی___ وہ مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھا جب اس کی نظر مسز شاہ کے ہاتھوں میں دبی چیز پر پڑی__ 1 سیکنڈ لگا تھا،ازلان شاہ کو سمجھنے میں کہ اس دشمن جان نے پھر سے نشہ کی ڈوز لی___


وہ کتنی ہی دیر نم آنکھوں سے اُسے دیکھتا رہا___


😍😍😍😍😍


صبح کی روشنی چاروں طرف پھیل چُکی تھی__ لوگ اپنے اپنے کاموں کے لئے نکل چکے تھے___مگر شاہ پیلس کے اس ماسٹر بیڈروم میں داخل ہوں تو تاریکی کا سامنا ہوگا__ کمرے کے درمیان میں رکھے جہازی سائز بیڈ پر وہ عورت دنیا جہاں سے بےخبر سو رہی تھی___


سامنے ہی صوفہ کم بیڈ پر نیم دراز یہ خوبرو شخص ہاتھوں میں سگریٹ دبائے اس کے چہرے کو دیکھنے میں مصروف تھا___


اُسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ وہ اس عورت کی محبت میں کب کب پاگل نہیں ہوا___اُس کی محبت نے اُسے کیا سے کیا بنا دیا تھا__ مگر وہ بےحس کسی اور سے محبت کو سینے سے لگائی بیٹھی تھی__کسی اور کی یادوں نے اُسے اس رشتے سے غافل کردیا تھا___


وہ ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ مسز شاہ کی آنکھ کھلی اور اپنے سامنے ازلان شاہ کو دیکھ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آیا وہ غصیلی نظروں سے اسے دیکھتی بیڈ سے اُتری جب ازلان کے پاس سے گزرتی اس کی نظر سامنےٹیبل پر پڑے اس پیکٹ پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں حیرت درآئی___ اُس نے ترچھی نظروں سے ازلان شاہ کو دیکھا جو اُسے ہی گھور رہا تھا___


اس حرکت کی وضاحت دینا چاہیں گی آپ ؟؟ ازلان شاہ نے سوال کیا جس پر مسز شاہ نے اُسے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا اور بنا کچھ بولے واشروم میں چلی گئیں___


واشروم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے شاور آن کیا اور اس کے نیچے کھڑی ہوگئیں__یخ سردی میں بھی وہ ٹھنڈے پانی کا شاور آن کیے اس کے نیچے کھڑی ماضی میں کھو گئیں___


تھوڑی دیر بعد ازلان شاہ ڈوپلیکٹ چابی لیے واشروم میں داخل ہوا جہاں وہ حسینہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت اُس کے قدم ڈگمگانے لگی___ وہ جو اس نیت سے آیا تھا کہ اس سے ڈرگز کی بابت پوچھے گا اُسے یوں دیکھتے ہی سب بھولتا ہوا اس کے قریب آیا اور اسے سوچے سمجھنے کا موقع دیئے بنا ہی اس کو اپنے کندھوں پر اٹھائے کمرے میں لایا اور صوفہ پر بٹھاتے ہی اس کے ہونٹوں پر جھکا__ جب مسز شاہ نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے دور دھکیلا___ ازلان شاہ جو مکمل طور پر مدہوش ہوچکا تھا اس حملہ پر سنبھلا__ جب مسز شاہ نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولیں___


بےحس،ظالم، سفاک، قاتل 

یہ چار لفظ ازلان شاہ کو کوڑے کی طرح لگے وہ وہاں سے غصہ سے نکلتا سٹڈی روم میں داخل ہوا___ چیئر کی پشت سے سر ٹکائے اس کا زہن دور کہیں ماضی میں گم ہوچکا تھا__


❤❤❤❤❤


(ماضی)


"انشراح بیٹا تمہارے لئے رشتہ آیا ہے ازلان شاہ کا"

میر حاکم جو کھانا کھانے کے بعد حسب معمول اسٹڈی روم میں بیٹھے تھے انشراح میر کو اپنے پاس بیٹھے دیکھ مخاطب کرتے ہیں ان کی بات نے اس کے سر پر گویا دھماکہ کیا __


یہ آپ کیا بول رہے ہیں دادا سائیں؟؟ انشراح یکدم گڑبڑائی__


میں نے کوئی مشکل بات نہیں کی کہ آپ کو سمجھ نہ آئے___ آپ کے لئے ازلان شاہ کا رشتہ آیا ہے اور ہمیں اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں__ ویسے بھی آج نہیں تو کل آپ کی شادی کرنی ہی ہے___


دادا سائیں میں ولی خان سے شادی کرنا چاہتی ہوں___ انشراح میر نے اپنی تئیں میر حاکم کو 

آگاہ کیا__


ولی خان اور تمہارا کوئی جوڑ نہیں ہے انشراح میر__ میر حاکم یکدم غصے سے صوفہ سے اُٹھے اور پر تیش لہجہ میں بولے__


مگر دادا سائیں__ انشراح نے بولنے کی کوشش کی مگر میر حاکم نے اسے ٹوک دیا__


بس آپ کی شادی ازلان سے ہی ہوگی یہ میرا آخری فیصلہ ہے__ میر حاکم اپنی بات کہتے رخ موڑ چکے تھے__ گویا اس بات کا اعلان کیا ہو کہ اب وہ مزید بحث نہیں کرنا چاہتے__


میں بھی ولی خان کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی دادا سائیں__ دیٹس اٹ__ انشراح میر ان کی پشت کو دیکھتی ٹھوس لہجہ میں مخاطب ہوئی___


میر حاکم کتنی ہی دیر پرسوچ انداز میں کھڑے رہے کچھ خیال آتے ہی انہوں نے ولی خان کو کال ملائی جو کہ پہلی بیل پر ہی اٹھا لی گئی__


حکم میرسائیں___ ولی خان مؤدب لہجہ میں مخاطب ہوا__ میر حاکم اس کے لہجے اس کی وفاداری پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتے تھے__ مگر انہیں اپنی بیٹی کے لئے ازلان شاہ ولی خان سے بہتر لگا تھا__ وقت بہت جلد ان کو آئینہ دکھانے والا تھا__


ولی خان تم انشراح میر کو ازلان سے شادی کے لئے راضی کرو گے__ اور یہ ہمارا حکم ہے__ میر حاکم نے ولی خان کے اعصاب پر دھماکہ کیا__ ولی خان کے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام انشراح کو کسی اور کے حوالے کرنا تھا__ مگر اسے یہ جان سوز فیصلہ کرنا تھا__

 آج رات پھر اس کی کانٹوں پر کٹنے والی تھی____یہی حال انشراح میر کا بھی تھا__


😭😭😭😭😭😭


نوٹ:مجھے اس ایپی پر آپکی کُھل کر سپورٹ چاہیئے__ ویٹنگ فار یور لائک اینڈ ریویوز

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)