ZombieWar - Episode 16

0

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 16

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu

-=-


اب آبدوز کراچی بندرگاہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ دونوں فوجی بھی کوئی خاص حرکات نہیں کر رہے تھے جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ ہم سے دغابازی کر رہے ہیں۔ جلال ابھی گن پھینک کر کاظم کے ساتھ مل کر بیچاری بریعہ کو گھور رہا تھا۔ جلال نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ کیسے وہ ان کو خدا حافظ کہنے کے بعد فوراً ہی چیکنگ کرنے کے بہانے آبدوز میں آکر چھپ گیا تھا۔ 


دو گھنٹے کا یہ سفر باتوں اور پلانگ میں ہی گزر گیا کہ آگے چل کر انھیں کیا کرنا ہے۔ کبھی یہ ان فوجیوں سے صلاح مانگتے کبھی بریعہ ان کو زبردستی اپنی پلاننگ سمجھانے لگتی۔ خیر اب یہ سب کراچی بندرگاہ تک پہنچ گئے تھے۔ معاملات بہت ہی نازک اور کسی معمولی سی گربڑ کی وجہ سے خطرناک موڑ اختیار کر سکتے تھے۔ 


فوجی جوان آبدوز کو انتہاتی حساس اداروں سے یارڈ میں لا کر ان کے لیے محفوظ نقاط طے کرنے لگا ۔ آردگرد کوئی آدمخور دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تہ تو انسان تھے خود کو خطرے کے قریب جان کر دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہیں تھی۔ 


ایک فوجی نے جھٹ سے واکی ٹاکی اٹھایا اور وہ خودبخود ہی شیلٹر ہاؤس سے کنیکٹ ہونے کی وجہ سے فوری جواب مل گیا۔


   " ہم اس وقت کراچی بندرگاہ پر ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کوئی سن رہا ہے؟؟..... ہم بندرگاہ پر پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔۔ اگر اجازت ہو تو آگے بڑھیں؟؟ " وہ فوجی جوان جو آبدوز چلا رہا تھا وہی ایک منٹ کے لیے آبدوز کو روک کر بولا۔ 


اس وقت یہ سب آبدوز کو کراچی بندرگاہ پر پہنچا کر بس جنرل کے حکم کا انتظار کر رہے تھے کہ کب انھیں یہ آبدوز پانی سے باہر نکال کر نمایاں کرنی ہے۔آبدوز اس وقت بندرگاہ کی زیرِآب دری دیوار کے ساتھ کچھ فاصلے پر گہرائی میں رکی ہوئی تھی۔ان کو اس وقت تجسس بھی ہو رہا تھا کہ اب زمین کیسی ہوگی۔ کیا ہو رہا ہوگا رہا پر؟


دوسری طرف سے جواب ہاں میں ملا تو دھڑکنیں عروج پکڑنے لگیں۔ایک فوجی جوان نے کانپتے درود کے ساتھ آبدوز کا کنٹرولر پکڑا اور پھر اپنے کاندھے پر لگے پاکستانی جھنڈے کی طرف دیکھ کر اپنے آپ کو سہلایا اور بے خوف ہو کر آبدوز کو آہستہ آہستہ بلندی کی طرف بڑھایا۔ 


دوسرے فوجی نے اپنے ہتھیار ہاتھوں میں کیے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے ایک ایک ماسک ان تینوں کی طرف بڑھایا جو کہ کپڑے کا نہیں بلکہ پلاسٹک کے تھے اور ان کے اندر ہی آکسیجن کنورٹر بھی لگے ہوئے۔ جن کا مقصد ہابر موجود زہریلی وائرس گیس کو انسانی جسم کے اندر داخل ہونے سے روکنا تھا۔


آبدوز اب پانی باہر آ چکی تھی اور دوسرا فوجی جو ہتھیار سنبھالے ہوئے تھا۔ آگے آگے بڑھ رہا تھا اور دروازہ کھولنے والا بٹن دباتے ہی چوکنا ہو گیا کیونکہ سامنے کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں تھا۔


سب کی انکھیں دنگ رہ گئیں یہ دیکھ کر کہ جیسا وہ سوچ رہے تھے ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ماحول نہایت صاف معلوم ہوتا تھا بالکل جیسے بہار آنے والی ہو۔ لیکن یہ کڑوا سچ یہ بھی تھا کہ ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مابو، وہ کسی بند کمرے میں آ گئے ہوں۔ کسی بھی طرح پیدا ہونے والی زرا سی بھی آواز دور پڑے بڑے بڑے کناروں سے ٹکر کر واپس آرہی تھی۔


بریعہ یہ دیکھ کر اور کسی قسم کے خطرے کو نہ پا کر اپنے منہ پر سے ناسک اترنے ہی والی تھی کاظم نے اسے روک لیا۔اس فوجی نے سب سے پہلے زمین پر اپنے قدم بڑھائے اور آبدوز کے دروازے سے باہر نکل کر بڑی پھرتی سے اردگرد کا جائزہ لینے لگا اور جلد ہی ہاتھ کے اشارے سے چوکنے انداز میں ان کو بھی باہر آنے کا کہا۔ 


کاظم نے ان دونوں کو روکا اور ان سے آگے آگے خود باہر نکلا۔اس فوجی نے ڈرمز کی اوٹ لیتے ہوئے جلدی سے دور کھڑی کار کی طرف اشارہ کیا۔ کاظم احتیاط برتنے لگا اور کار کی طرف بڑھنے لگا۔ کار کی قریب کا کر پہلے اردگرد دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ ایک نیلی ہل کیٹ( HellCat) تھی ۔یہ گاڑی تو لگ بھگ نئی ہی تھی۔ 


کاظم نے گاڑی کے دروازے کھول کے چیک کیا اندر بھی کوئی نہیں تھاتھا اور پھر ان دونوں کو بھی آنے کا اشارہ کیا۔ وہ فوجی ابھی بھی چوکنی نظروں سے اردگرد دیکھ رہا تھا۔ پھر آبدوز والا فوجی باہر نکلا اور دروازے میں کھڑا ہو کر اس ڈرم کی اوٹ میں چھپے ہوئے فوجی کو کور( نگرانی ) کرنے لگا۔ 


وہ فوجی آگے بڑھا اوران کے پاس جا کر بولا

  " دھیان رہے کہ کار جنرل صاحب کی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس پر اگر ایک بھی خروچ آئی تو کسی کے لیے اچھا تو بالکل بھی نہیں ہوگا "


  " آہن۔۔۔۔۔۔ہن۔ ہن۔۔۔۔۔جنرل کے تو ششکے ہی نہیں ختم ہوتے۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔ایسا ای ہے نا میاں جی " جلال نے ٹھوڈی پر انگلیاں مارتے ہوئے کار کو گھورا۔ کاظم اور فوجی دونوں کو یہ باتیں ناگوار گزیں لیکن پھر بھی جلال کو ایک سیکنڈ کے لیے گھورنے لگے اور جب جلال نے انھیں اپنی طرف گھورتے دیکھا تو جھٹ سے بولا


   " کیا یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایک جنرل بچ ہی گیا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مزاق بھی نہ کریں کیا " جلال کے لہجے میں جنرل کے لیے رتی برابر بھی ڈر یا احترام کر زرات سوچنے کو بھی نہ ملنے تھے۔ 


    " دیکھ بھائی۔۔۔ تو کونسی مخلوق سے تعلق رکھتا ہے یہ تو مجھے نہیں نہیں پتہ۔۔۔۔۔ لیکن میں یہ بات یقینی بتا دیتا ہوں کہ اگر تو نے ایک لفظ بھی مزید بولا تو اس گن کی ہک کے ایک وار سے ہی تجھے بےہوش کر کے یہی چھوڑ جاؤں گا۔۔۔۔۔۔اور ہاں " فوجی اب چوڑے سینے سے بولا کیونکہ اب وہ کسی گاڈ فادر کے رول میں جھڑ رہا تھا۔ 


اس فوجی نے ابھی اتنا کہا ہی تھا کہ اچانک کچھ کنٹینرز کے پیچھے ست ایک آدمخور گروہ آیا جس میں کوئی چار یا پانچ آدمخور تھے۔ آبدوز کے باہر کھڑے فوجی نے فوراً فائر کر کے ان کو وہیں گرا دیا۔ 


اب معاملہ پھر سے نازک ہونے لگا تھا۔ اس فوجی سے اس کو گڈ لک کہ کہا اور واپس آبدوز کی طرف بھاگا چونکہ کار سے زیادہ وہ کنٹینرز آبدوز کے قریب تھے اس لیے فوجی کے آدھا راستی طے کرنے سے پہلے ہی کنٹینرز کے پیچھے ست گولیوں کی آواز سن کر اور بہت سارے آدمخور آنے لگے۔ اس فوجی نے جو آبدوز کے باہر کھڑا تھا اس نے کوئی اور راستہ نہ پا کر آبدوز میں واپس داخل ہو کر یہ سوچ کر دروازہ بند کرنے والا بٹن دبائے دیا کہ دوسرے فوجی واپس مڑ جائے گا اور دوسرے فوجی نے ویسا ہی کیا لیکن وہ کافی آگے پہنچ چکا تھا تو اس کے مشکل بن سکتی تھی۔


اس فوجی پر حملہ کرنے کے لیے آدمخوروں کا ایک گروہ اندھا دھند آگے بڑھا۔جلال بندوق بازی بھی جانتا تھا اس نے فوری طور پر فائر کر کے جو آدمخور اس فوجی کے قریب تھے انھیں مار گرایا اور بریعہ کو کار کے اندر داخل ہونے کا کہا جلال کار کے 


    " انھیں میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تم گاڑی کو چلاؤ " کام نے فوراً اپنی گن ہاتھوں میں کی اور اس فوجی کے پیچھے آ رہے ان آدمخوروں پر انسانی کسنے لگا۔ 


   " او بھائی بس دیکھانا ہی نہیں ایک آدھ کو ٹپکانا بھی ہے " جلال نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ تبھی کاظم نے بھی اپنی سیٹ اور اس فوجی کے بیٹھنے کیے ایک پیچھلی سیٹ کا دروازے کھول کر ان کے درمیان خود کھڑا ہو کے فائر کرنے لگا۔ پتی نہیں کیسے لیکن اس عظیم آدمی( کاظم ) سے وہ فوجی بچ گیا اور پچھلے آدمخوروں میں سے دو چار لڑک گئے۔ 


جلال نے بھی کار سٹارٹ کر لی اور دوبارہ باہر نکل کر فائرنگ شروع کر دی۔ کیا کمال کا بندہ تھا بئی ایک بھی نشانہ چوکے بغیر ہر گولی پر ایک آدمخور گرتا نظر انے لگا۔ کاظم ایک پل کے لیے حیران تو ہوا لیکن پھر جلدی سے جلال کے کہنے پر کار میں بیٹھ گیا اور وہ فوجی بھی بچتا بچاتا کار کی پچھلی سیٹ پر بریعہ کے ساتھ آ بیٹھا۔


جلال بھی جلدی سے کار میں بیٹھا اور کار چکانی شروع کی۔تیز رفتار سے اس نے کار کو واپس آدمخوروں کی طرف گھمایا اور انھیں نیچے کچلتے ہوئے آبدوز کے سامنے نکل کر بندرگاہ کے باہری راستے کی طرف گاڑی بڑھا دی۔ 


دوسری طرف آبدوز کے مضبوط دروازے کے بند ہو جانے کی وجہ سے آدمخور آتے گئے اور دروازے سے ٹکراتے گئے۔ پانی کھڑی آبدوز کے لیے کوئی سہارا تو تھا نہیں ایک طرف سے زوردار دھکا لگنے کی وجہ سے آبدوز بندگاہ کے کنارے سے تھوڑی دور ہوگئی اور آبدوز کے اندر گئے ہوئے نے فوجی نے جلدی سے اوٹر کیم آن کیا اور آبدوز کے باہر اپنے ساتھی فوجی کو کمپیوٹر سکرین پر دیکھنے لگا اور اسے محفوظ کار میں جاتا دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے جلدی سے آبدوز کو شیلٹر ہاؤس کی طرف واپس گھمایا اور اکیلا ہی اس آبدوز کو لیے نکل پڑا۔ 


دوسری طرف کار والوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا تھا ان کی تیز دھڑکنیں اس بات کا ثبوت تھیں۔جیسے جیسے وہ شہر کی طرف بڑھتے گئے تباہی کے آثار نمودار ہونے لگے تھے۔راستے کا سفر بہت دل دہلا دینے والا تھا۔ جگہ جگہ لاشیں پڑی ہوئی ملتیں ۔ کاریں، بسیں اور ہر قسم کا وہیکل ان آدمخوروں کے حملوں کی زیرِ زد آچکا تھا۔ 


وہ آبدوز والا فوجی بھی پوری رفتار سے واپس شیلٹر ہاؤس کی طرف بڑھ رھا تھا۔ ابھی وہ کافی دور ہی تھا کہ آبدوز میں لگا واکی ٹاکی بجنے لگا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے واکی ٹاکی اٹھایا۔ اس فوجی کی ہمت کی دعد بنتی تھی کہ سمندر میں ہزاروں فٹ گہرائیوں میں اکیلا اندھیرے سمندر میں بغیر روشنی کی رسائی کے محض ایک کمپیوٹر کے ذریعے وہ شیلٹر ہاؤس کی طرف باہمت ہو کر جا رہا تھا۔ لیکن آسانی راستہ میں ایک آفت آگئی۔ وہ فوجی جوان اطمینان سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر پھل کھا رہا تھا اور واکی ٹاکی پر جنرل کے چند سوالوں کے جواب دینے کے بعد اپنی لوکیشن کی انفارمیشن شیلٹر ہاؤس کے کنٹرول روم میں بیٹھے انفارمر کو دے رہا تھا۔ 


تبھی وہ آبدوز کسی وجہ سے اپنے راستے سے لڑکھڑائی۔وہ بے چین ہو گیا۔ اس نے جلدی سے کمپیوٹر میں ری ویو چیک کیا وہ کیا تھا لیکن اندھیرے کے وجہ سے کیم میں کچھ دیکھائی نہ دیا۔ اسے لگا کہ شاید کو مچھلی تھی اور اب وہ جا چکی ہے۔ 


آبدوز کو لگنے والے اس جھٹکے کی خبر شیلٹر ہاؤس کنٹرول روم میں بیٹھے انفارمر کو لگی تو اس نے بھی سبھی ہائی الرٹ کر دیا۔ سبھی کی دلوں میں ہمت چھائی ہوئی تھی کہ وہ آخر کیا تھا؟فوجی جوان نے کلمہ پڑھ کر اللہ کو یاد کیا اور پھر شیلٹر ہاؤس میں سے ملنے والی انفارمیشن پر عمل کرتے ہوئے دھیان سے رفتار آہستہ کیے چلنے لگا اور تھوڑی روشنی کی طلب میں بلندی کی طرف آبدوز کا رخ کر لیا۔ 


بلندی کے ساتھ ساتھ روشنی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ آبدوز ابھی پوری طرح سے سمندر کی سطح تک نہیں پہنچی تھی کہ یک دم دی ایک طرف سے کسی زوردار اور بڑی جسامت کے آنے کی وائبریشن پا کر آبدوز میں بھی لال رنگ کا ہائی الرٹ بجنے لگا لیکن افسوس چند لمحوں میں ہی وہ آبدوز سے آنے والے سگنل لوسٹ ہو گئے۔ اب یہ یقین ہو چکا تھا کہ یہ کسی بڑی مچھلی کا ہی کام تھا۔ آبدوز اب فوجی سمیت مچھلی کے پیٹ میں جا چکی تھی۔ اس واقعے کے بعد شیلٹر ہاؤس کنٹرول روم میں ہائی الرٹ لگا دیا گیا۔ 


کیونکہ اب یہ بات سب سمجھ چکے تھے کہ سمندر میں اب وہ اکیلے نہیں ہیں۔کوئی اور بھی ہے جو ان سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور وہ جلد انھی کی طرف آرہا ہے۔ یہ آبدوز تو بس اس کی ایک دھمکی تھی اصل رنگ تو اب چھانے والا ہے۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)