Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 16
- - -
ولی خان میر حاکم کا فون سنتے ہی اپنے اپارٹمنٹ سے نکلا___
اُس نے بائک باہر نکالی اور اُسے سٹارٹ کرتا ہوا ایریا سے نکلا___ پھر وہیں بائک روک کر ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا__ جب ایک ٹیکسی اُس کے پاس رکی اُس نے ڈرائیور کو ایڈریس سمجھایا اور بیٹھ گیا___
اُس کے دل و دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے وہ آج نمک حلالی اور محبت کے بیچ کی گرداب میں پھنسا تھا،___
کاش میں بھی ایک اونچے گھرانے کا چشم و چراغ ہوتا تو میر سائیں میرا انتخاب کرتے___ کیا کمی ہے مجھ میں__ ازلان شاہ سے اچھی شکل و صورت تعلیمی ریکارڈ__ اخلاق کردار سب کچھ تو ہے میرے پاس___
پھر وہ مسکراتے ہوئے بولا___
ارے نہیں ولی خان____ آج کے دور میں اخلاق کردار کون دیکھتا ہے___ لوگ تو پیسہ دولت شہرت مقام دیکھتے ہیں___ اور بدقسمتی سے تمہارے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے__
یہ زندگی تمہاری خواب دیکھتے گزر جائے گی مگر تم ازلان شاہ جتنے امیر نہیں ہو پاؤ گے___ یا پھر تم میر سائیں کی اکلوتی پوتی کے قابل نہیں بن سکتے____
میر سائیں کہتے ہیں انشراح کو راضی کروں___ ہاہاہاہاہاہا___ سیریسلی ولی خان___ تم اب خود اپنے خوابوں کی ملکہ کو مناؤ گے کہ وہ اپنے لیے بادشاہ کا انتخاب کرے تم تو ایک غریب رعایا ہو____
اُس کی سوچوں کا رخ انشراح کی طرف تھا جب ٹیکسی اُس کی منزل پر رُکی___ وہ ایک گہرا سانس لیتا باہر نکلا__ اور برٹش ایمبسی گیا اُس کی کمپنی اُسے باہر بھیجنے والی تھی مگر وہ ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا اب اُس کا ارادہ بدل گیا___ وہ راہِ فرار چاہتا تھا__اُس کے نزدیک فرار اس مسئلے کا حل تھا___
ڈاکومنٹس جمع کرواتے کافی ٹائم لگا___
وہ اپنا کام کرواتے کافی دیر وہاں رُکا __ کچھ دیر بعد ٹیکسی ایک محلے کے پاس رُکی___
ولی خان جو سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھا___ یکدم سنبھلا___ اور گاڑی سے نکلتے ہوئے مختلف گلیوں سے نکلتا ایک گھر کے دروازے کے قریب پہنچا___ دروازہ پہلی دستک پر ہی کُھل گیا اور سامنے ایک بیس سالہ خوبصورت نین نقش والی لڑکی کو دیکھ ولی خان مسکرایا___
اُس لڑکی کی آنکھوں میں ایک جوت سی چمک اُٹھی___
اُسے چھ ماہ پہلے کے کچھ مناظر یاد آئے__
❤❤❤❤❤
6 ماہ پہلے
وہ ایک پٹھان فیملی سے بلانگ کرتی تھی اُس کے گھر میں صرف اُس کے بابا اور بھائی احمد رہتے تھے___
ماما کے انتقال کے بعد اُس کی دنیا اپنے لالہ اور والد کے گرد گھومتی تھی___ اُن کی فیملی میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہ تھا___ مگر اُس کے باوجود احمد نے اُس کا داخلہ کالج میں کروایا___
وہ بھی اُن کی عزت کو مقدم رکھتی تھی__ ایک دن جب وہ کالج فنکشن سے واپس آرہی تھی تو اُس کی وین خراب ہونے پر آٹو رکشہ سے آنا پڑا__ جب بیچ سڑک پر رکشہ ڈرائیور نے رکشہ روکا__وہ رکشہ رکنے پر چونک اُٹھی اُس نے ڈرائیور کی آنکھوں میں حوس نوٹ کرلی تھی_ وہ جیسے ہی اُس کی عزت تار تار کرنے کا گندا ارادہ لیے آگے بڑھا__ وہ لڑکی بھاگتے ہوئے رکشہ سے نکلی جب تین اور بدمعاش لڑکوں نے اُسے گھیر لیا___
ویران سڑک پر کوئی پرسان حال نہ تھا ایسے میں وہ چیختی چلاتی ہیلپ ہیلپ کرتی رہی مگر اُمید ٹوٹ چُکی تھی اُسے لگا کہ اب کبھی اُس کی عزت نہیں بچے گی جب وہ شخص اُس پر جھکا تو ایک شخص نے پیچھے سے آکر اُس کو دھکا دیا
ارے چکنے تم بھی آؤ اپنا حصہ لو__ اُس ڈرائیور نے جیسے ہی اُسے آفر کی لڑکی خوف و حیرت سے اُسے دیکھنے لگی___
ّ
اس سے پہلے کہ وہ آدمی مزید خباثت کا مظاہرہ کرتا اُس لڑکے نے اُسے ٹانگ ماری__ وہ تینوِں لڑکے آگے بڑھ کر اُس پر حملہ آور ہوئے مگر وہ لڑکا بڑی مہارت سے اُن لڑکوں کا مقابلہ کرتا رہا___ اُس لڑکے کی ان تینوں بدمعاشوں سے خوب لڑائی ہوئی___
جیسے ہی ایک شخص چاقو لیے آگے بڑھا تو اُس لڑکے نے وہ چاقو پکڑ لیا اور اُس کے بازو پر دے مارا___
جس وجہ سے وہ تینوں بھاگتے ہوئے اپنی جان بچانے کو نکلے___
جیسے ہی وہ غائب ہوئے لڑکے نے آگے بڑھ کر اُس لڑکی کے سر پر ڈوپٹہ اوڑھا جو کہ سڑک کے بیچوں بیچ گرا تھا___
کیا نام ہے تمہارا___ اس نے گھمبیر لہجے میں دریافت کیا___
ریشما خان___ لڑکی نے جواب دیا___
اس طرح سج سنور کر گھر سے باہر نکلو گی تو لٹیرے تو آئیں گے ہی ___
اُس نے ریشما کے حلیہ پر چوٹ کی___
بائے دا وے کہاں رہتی ہو آؤ تمہیں گھر چھوڑ دوں___
اُس نے جلدی سے اپنا ایڈریس بتایا___
تھوڑی دیر بعد وہ اُس کے گھر کے گیٹ کے باہر تک اُسے بحفاظت چھوڑنے پہنچا___
وہ جیسے ہی واپسی کے لئے مُرا__ ریشما نے پکارا___
سنو عزت کے محافظ__
نام جان سکتی تمہارا___
وہ پلٹا اور اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولا__
ولی خان___
یہ کہتے ہی وہ واپس گھر لوٹا___ اُس لڑکی نے گھر آکر من و عن سب بتایا___
اُس کا بھائی ابھی گھر لوٹا تھا___ وہ یہ سنتے ہی خدا کا شکر بجا لایا کہ اُن کی عزت بچ گئی___
کچھ دن بعد اُس کے والد جس ہوٹل میں ملازمت کرتے تھے وہاں سے طبیعت خرابی کی بنا پر ہاسپٹل لائے گئے__ جیسے ہی ریشما کو علم ہوا وہ بھاگتی ہوئی ہاسپٹل آئی__
جہاں اُس کے بابا کو ایک کولیگ نے خون کی بوتل دی__ جیسے ہی وہ اور اُس کا بھائی احمد اس کا شکریہ ادا کرنے گئے تو وہ ولی خان کو دیکھ کر مسکرائی
__ایک شناسائی تھی اُس کی آنکھوں میں___
اُس نے احمد کو بتایا کہ یہ ولی خان ہے___ احمد یہ سنتے ہی آگے بڑھا اور ولی کے پاؤں میں گرگیا___
سائیں تمہارا ایک احسان کیا کم تھا جو اب مزید اپنا قرضدار کردیا___
اگر کبھی مجھے اپنی خدمت کے لائق سمجھا تو ضرور حکم کرنا___
ولی خان اُس کی بات پر مسکرایا___
تب سے ولی اور احمد کی خوب دوستی تھی___
_❤❤❤❤❤
ارے خان اندر آئیں ناں___ ریشما دروازے سے ہٹی اور ولی کو اندر آنے کی دعوت دی___
ولی خان مسکراتا ہوا آگے بڑھا__
کیسی ہو ریشما__ ولی نے سوال کیا__
میں ٹھیک ہوں خان___ بابا تو ہوٹل گئے ہیں اور احمد لالہ نہا رہے ہیں___
جانتا ہوں میں انکل سے مل چکا ہوں اور اُن کی اجازت لے کر ہی آیا ہوں___
میں احمد کا انتظار کرلیتا ہوں___
ولی خان وہیں کرسی پر بیٹھ کر گھر دیکھنے لگا___ یہ گھر چھوٹے سے صحن اور تین کمروں ایک واشروم پر مشتمل تھا جو کہ بہت اچھا بھی نہ تھا اور خستہ حال بھی نہ تھا___
صحن میں ہی پردہ لگا کر کچن بنایا گیا تھا__
ریشما اُسے چپکے سے دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی چائے بنارہی تھی___
احمد جیسے ہی باہر آیا تو ولی کو دیکھ اس کے گلے لگا__
خان آپ حکم کرتے میں خود آجاتا___ وہ خوشی سے بولا__
ارے نہیں یار کام میرا تھا اور مجھے خود ہی آنا تھا__ ولی خان نے عاجزی سے جواب دیا___
خان حکم کریں___ احمد نے ادب سے کہا__
ہممم سنو___ تم آج کے بعد میر سائیں کے ہاں جاب کرو گے__ اُن سے پوچھ چُکا ہوں میں___
مگر خان آپ؟ احمد نے سوال کیا___
آہستہ آہستہ ولی نے احمد کے گوش گزار سارا واقعہ کیا___
احمد میں یہ ملک چھوڑ کر جارہا ہوں مگر میرے بعد تم نشاء بی بی اور نور کا سایہ بن کر رہو گے___ اُن کی حفاظت تمہاری زمہداری ہے___
ولی خان ایک اُمید سے بولا___
ٹھیک ہے تو پھر آج سے احمد خان کا وعدہ ہے کہ وہ ولی خان کی ہر بات ہر رشتے کو اپنی زات سے مقدم رکھے گا___ ولی خان کے اپنوں پر آنے والی ہر تکلیف پہلے احمد خان سے ہوکر گزرے گی___
احمد خان مرتے دم تک ولی خان سے کیا وعدہ نبھائے گا___ اور قسمت احمد خان کے اس بول پر مسکرائی کون جانتا تھا احمد خان کا یہ قول اُس کے لئے کتنی تباہی لائے گا____
❤❤❤❤❤
انشراح میر صبح اُٹھتے ہی ڈرائیور کے ساتھ ولی خان کے اپارٹمنٹ پہنچی__ اب وہ ولی خان کے انتظار میں بیٹھی تھی جو کہ جاگنگ کے بعد نہانے گیا تھا__
انشراح نور سے اِدھر ادھر کی باتیں کرنے لگی مگر اُس کا سارا دھیان کل رات میر حاکم سے ہونے والی بحث کی طرف تھا__ وہ آج ولی کے پاس اس نیت سے آئی تھی تاکہ اس سے اظہارِ محبت کرسکے اُسے شادی کے لئے رضامند کرے__
تھوڑی دیر بعد ولی خان نک سک سے تیار ہوکر نیچے آیا__ انشراح میر اُسے دیکھتے ہی فریز ہوگئی__ وہ اس کے سحر میں ہربار جکڑی جاتی تھی__ ولی خان جو کہ سفید شلوار قمیض پر بلیو ویسٹ کوٹ پہنے آنکھوں کو گلاسز سے کور کرتے بازو فولڈ کیے اپنی تمام تر مردانہ وجاہت کے ساتھ دل میں اترتا جا رہا تھا__
وہ انشراح میر کو اتنی صبح یہاں دیکھ حیران ہوا تبھی اس کی طرف بڑھا__
نشاء بی بی آپ اس وقت یہاں؟؟ خیریت تھی__؟؟ ولی خان پریشانی سے مخاطب ہوا___
مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ولی__ انشراح اُس سے مخاطب ہوئی__
جی جی ضرور__ ولی آہستہ سے قدم اُٹھاتا اس کی طرف بڑھا____
انشراح میر اُس دلکش مرد کو دیکھنے لگی جب اس کے کھنگارنے پر وہ ہوش میں آتی مخاطب ہوئی___
ولی آپ دادا سائیں سے میرا رشتہ مانگیں ورنہ وہ میری شادی کسی اور سے کر دیں گے__ انشراح میر نے امید بھری نظروں سے ولی کی طرف دیکھا__
ولی خان پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹا__ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انشراح یوں اس سے بات کرے گی__ ولی ابھی سوچوں میں گم تھا جب انشراح میر اس کے قدموں میں گری اس سے شادی کے لئے التجا کرنے لگی___.
پانچ سیکنڈ لگے تھے ولی خان کو فیصلہ لینے میں__ وہ آگے بڑھا اور انشراح میر کے سامنے بیٹھا اُسے کندھوں سے پکڑ کر اُٹھایا___
اُٹھیں نشاء بی بی__ عورت مرد کے قدموں میں گری اچھی نہیں لگتی_ عورت مرد کے دل پر حکمرانی کے لئے بنی ہے__ یوں خود کو کسی مرد کے سامنے ارزاں مت کریں___ کسی مرد کے پاؤں میں گر کر محبت کی بھیک مت مانگیں اپنا وقار مت کھوئیں____ اُس نے انشراح میر کو جتاتے ہوئے کہا__
ولی آپ دادا سائیں کے پاس رشتہ لے کر آئیں گے ناں___ انشراح میر نے اُمید بھری نظروں سے اُسے دیکھا___
میں آپ سے شادی کیوں کروں گا بھلا؟؟ ولی خان نے انشراح سے سوال کیا__
انشراح نے اس کے استفسار پر اسے نظر اُٹھا کر دیکھا__
آپ بھی تو مجھ سے محبت کرتے ہیں__ انشراح میر نے ولی خان سے کہا___
کیا محبت_____غلط فہمی ہے آپ کی__ میں معافی چاہتا ہوں اگر میرے کسی عمل سے کسی بات سے آپ کو لگا ہوکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں___
لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے ایسا کچھ کہا ہو___
ولی خان کے نرم لہجے میں کہے گئے الفاظ بھی انشراح میر کو کسی چابک کی طرح لگے__ اُسے اس اپارٹمنٹ کی چھت گھومتی ہوئی محسوس ہوئی__
کیا واقعی ولی خان اس سے محبت نہیں کرتا تھا اُسے غلط فہمی ہوئی تھی__ وہ بےآواز رونے لگی___
آپ اپنے رونے کا شغل یہاں سے باہر جاکر پورا کرسکتی ہیں انشراح میر حاکم___میں بہت تھک چکا ہوں مجھے مزید پریشان مت کریں___
اب کے ولی خان کے لہجہ میں نرمائٹ نہیں بیزاریت تھی جس نے انشراح میر کو توڑ دیا___
اس نے سختی سے اپنی ڈبڈباتی آنکھوں کو رگڑا اور لب بھینچ لیے__
ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو میں بھی آج کے بعد آپ سے محبت نہیں مانگوں گی__ آپ بہت بےحس اور ظالم ہیں ولی خان___ میں ازلان شاہ کے ساتھ شادی کرکے گھر بساؤں گی آپ رہو اپنی زندگی میں تنہا___
وہ یکدم طیش میں آکر بولی اور وہاں سے روتی ہوئی باہر نکلی____
اُس کے باہر نکلتے ہی ولی خان بھاگتا ہوا کھڑکی کی طرف بڑھا___
وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے گاڑی کو دیکھتا رہا جب تک وہ اس گاڑی میں بیٹھ کر چلی نہ گئی ولی خان وہیں کھڑا اُسے دیکھتا رہا___
اُس کے جانے کے بعد ولی خان کتنی ہی دیر اپنے ہاتھوں کو سامنے پھیلائے وہیں زمین پر بیٹھا دیکھتا رہا__
اُس کے خالی ہاتھ دیکھ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا___
وہ جو آج اس کے گھر سے گئی تھی کاش اسکے دل سے بھی نکل سکتی__ کاش وہ اس کے خواب نہ دیکھتا___ کاش وہ اس سے محبت نہ کرتا___تو آج اُس کی آنکھیں ،اُس کا دل ، اُس کا وجود زخمی نہ ہوتا____
ابھی کل ہی تو میر سائیں نے حکم دیا تھا اُسے اپنے ہاتھوں سے انشراح کو کسی اور کے ساتھ رخصت کرنا تھا___
لالہ روک لیں اُسے___ آپ جی نہیں پاؤ گے اُس کے بغیر___ وہ برباد ہوجائے گی لالہ___نور خان ولی کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھی اس کےکندھے سے سر ٹکائے بولی___
وہ اپنے بھائی کی محبت سے واقف تھی مگر وہ غریب تھے__ انشراح میر کے ملازم تھے وہ اس حقیقت کو کبھی بدل نہ سکتے تھے___
بھلا مالک بھی کبھی ملازم کی زندگی آباد کرسکتا ہے نور؟؟ کبھی شہزادی کسی غریب رعایا کے دل کو اس کے گھر کو آباد کرسکتی ہے؟؟انشراح میر کو خوش رہنا ہے اور وہ ولی خان جیسے غریب کے ساتھ نہیں رہ سکتی___ اگر وہ رہ بھی لے تو یہ معاشرہ اسے کبھی ایک ملازم کے ساتھ قبول نہیں کرے گا نور___
ولی خان ہکلاتے ہوئے اپنی بہن کو اپنا درد بتانے لگا__
تو وہ سوال جو وہ آپ سے کر کے گئی ہے اس کا کیا لالہ؟؟ کیا آپ کبھی اُس کو دل سے نکال پائیں گے؟؟ کیا آپ نے اس سے محبت نہیں کی تھی؟؟
نور خان نے اپنے لالہ سے سوال کیا جسے ولی خان نظرانداز کرتا اپنی ویسٹ کوٹ ٹھیک کرتا کمرے میں چلا گیا___
اب وہ کمرے میں دھاڑیں مار مار کر رویا___ ہاں وہ مضبوط مرد ایک عورت کے لئے رو رہا تھا___
😭😭😭😭😭😭😭😭
انشراح میر گھر پہنچتے ہی سیدھا میر حاکم کے کمرے میں گئی اور ان کو رشتے کے لئے ہاں کردی___
جسے سنتے ہی میر حاکم خوشی سے آگے بڑھے اور انشراح کے سر پر ہاتھ پھیرا___
تم دیکھنا ___ تم بہت خوش رہو گی نشاء___ ازلان شاہ تمہیں شہزادیوں کی طرح رکھے گا___ تم ولی خان کو بھول جاؤ گی___
انشراح میر نے ایک پرشکوہ نگاہ اپنے دادا کی طرف ڈالی جسے سمجھتے ہی میر حاکم نظریں چُرا گئے___
انشراح میر اپنے کمرے میں آکر لاک کرتے پھوٹ پھوٹ کر روئی__ اس کا دل ویران ہوچکا تھا___ وہ اب ہر احساس سے عاری ہوچکی تھی____
دوسری جانب واصف شاہ فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے جب میر حاکم نے اُن کو فون کرکے رشتے کے لئے ہاں کی__ جسے سُنتے ہی واصف شاہ خوشی سے اپنی سربراہی کرسی سے اُٹھے اور فون بند ہوتے ہی ازلان شاہ کو گلے لگایا___
مبارک ہو بیٹا__ بہت جلد آپ کی خواہش انشراح میر دلہن بن کر اس گھر میں آنے والی ہے___ انہوں نے گویا سب کو خوشخبری سنائی___
ازلان شاہ یہ سُنتے ہی انہیں خود سے دور کرتا وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا___
کمرے میں آتے ہی اُس نے سگریٹ سلگائی اور بےچینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا___
اُس کے چہرے کے تاثرات بہت سخت تھے___ وہ کچھ سوچتے ہی کسی کو کال ملانے لگا
😔😔😔😔😔
یہ منظر ہے میریٹ ہاٹل اسلام آباد کا___ جہاں کے ہال کو شہر کے سب سے بڑے ایونٹ آرگنائزر نے ڈیکوریٹ کیا تھا___ ہال میں روشنیوں کا سماں تھا__ پورے شہر کی کریم اس ہوٹل میں شریک تھی آخر ہوتی بھی کیوں نہ__ میر حاکم کی لاڈلی پوتی انشراح میر کا آج مشہور بزنس مین ازلان شاہ کے ساتھ نکاح تھا____ داخلی دروازے پر میر حاکم اور ان کے دائیں جانب ولی خان کھڑا تھا__ میر حاکم کے چہرے سے خوشی صاف جھلک رہی تھی___
ولی خان نے حسب عادت اپنی آنکھوں کو گلاسز کے نیچے چھپا رکھا تھا___ سیاہ شلوار قمیض پہنے بازو فولڈ کیے،اوپر سےادائے بےنیازی سے ولی خان اپنی سحرانگیز شخصیت سے سب کو متاثر کررہا تھا___
وہ ابھی مہمانوں کا استقبال کررہے تھے جب میرحاکم نےاُسے انشراح کو پارلر سے لانے کا آرڈر جاری کیا___
ولی خان سر ہلاتے باہر گاڑی کی جانب لپکا___ اور کچھ ہی دیر میں ولی خان کی گاڑی شہر کے بڑے سیلون کے باہر کھڑی تھی__
اُس نے نور کو فون کرکے اپنے آنے کی اطلاع دی__ وہ ابھی گھڑی پر وقت دیکھنے میں مصروف تھا جب اس کی نظر گاڑی سے باہر پڑی__ انشراح میر پاؤں کو چھوتی ڈل گولڈن برائڈل میکسی زیب تن کیے بالوں کا جوڑا بنائے، ہلکی پھلکی جیولری پہنے خوبصورت میک اپ کیے نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی____
ولی خان کتنی ہی دیر اس اپسرا کو دیکھتا رہا وہ ترستا تھا اُس دلکش روپ کو دیکھنے کے لئے__ نور خان اس کی میکسی کو ایک ہاتھ سے پکڑے اُسے گاڑی میں بٹھانے لگی___
ولی خان بےبسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا نظریں چُرا گیا__انشراح میر نے ایک بار بھی اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا___
سفر خاموشی سے کٹنے لگا__ہر کوئی اپنی جگہ اداس تھا__ ولی ُخان آج اپنی محبت کسی کے حوالے کرنے جارہا تھا___ انشراح میر دل میں ولی خان کی چاہ کیے ازلان شاہ کا گھر بسانے جارہی تھی___
نور خان___ اور نور خان تو مکمل طور پر ساری دنیا سے غافل اور بے پرواہ ہوچکی تھی___ وہ ٹوٹ چکی تھی مگر اس نے خود کو مضبوطی اور لاپرواہی کے لبادہ میں اوڑھ رکھا تھا___
وہ چاہ کر بھی انشراح میر کے لیے خوش نہ ہوسکی کیونکہ انشراح میر اس کے شاہ کی دلہن بننے جارہی تھی جو خواب اس نے دیکھے ان کی نشراح تعبیر پانے لگی تھی____
وہ بددل ہوچکی تھی انشراح سے__ انشراح اس کے بھائی کی محبت تھی اور آج اس محبت کی خوشی کی خاطر اس کا بھائی اس ملک سے جا رہا تھا___
ہاں ولی خان بیرون ملک آج رات کی فلائٹ سے جا رہا تھا وہ نور خان کو تنہا چھوڑے محبت کا روگ دل سے لگائے محبت کو بھلانے کے لئے یہاں سے جا رہا تھا___
نور خان کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو وہ انشراح میر کو کبھی معاف نہ کرتی جس نے بیک وقت اس کے بھائی اور اس کے عاشق کو نور خان سے غافل کردیا تھا___
نور خان بھی دل میں شکوے لیے منافقانہ طرز عمل اختیار کررہی تھی___
😐😐😐😐😐😐
ہال کے ایک کمرے میں انشراح کو بٹھایا گیا اس کے ساتھ ہی نور اور رجا بھی بیٹھی تھیں__
جب کسی ضروری کام سے ولی خان روم میں آیا تو نور خان بہانے سے رجا کو ساتھ لیے کمرے سے چلی گئی___
اب کمرے میں مکمل خاموشی کا راج تھا__ انشراح میر نظریں جھکائے بیٹھی تھی__، ولی خان قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا__اس کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا من بھر ہورہا تھا___ وہ انشراح کے قدموں میں بیٹھا اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے بولا___
مجھے معاف کردیجیئے گا انشراح بی بی__ میں آپ کے قابل نہیں__ آپ اپنی زندگی میں خوش رہنا___ کل کو آپ کو یہ سوچ کر ہنسی آئے گی کہ آپ کسی ولی خان کی خاطر اپنی لائف سپائل کرنے لگی تھی___
ولی ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ انشراح کے آنسو اس کےہاتھ پر گرے__
ولی نے اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھے___ اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کی پیالی میں لیا__اور پہلی بار ولی خان نے اپنی آنکھوں سے انشراح کی نیلی آنکھوں میں جھانکا اور بولا___
میں جا رہا ہوں نشاء بی بی__ بہت دور___ کبھی نہ واپس آنے کے لئے___ میرا سایہ بھی آپ کی نئی زندگی میں نہیں پڑے گا___
انشراح کو اس کے باہر جانے کی خبر مل چکی تھی مگر وہ مذاق سمجھی___ اور اب ولی خان کیسا جان لیوا انکشاف کر رہا تھا___
ایسے مت کریں ولی___
یوں مجھے کسی کے حوالے مت کریں___
آپ نے میری حفاظت کا عہد کیا تھا__آپ مجھے کسی اور کو مت سونپیں___
یہ آپ کیا کر رہے ہیں ولی____؟؟
میں تو کانچ سے بنی ہوں ولی___ مجھے کرچی کرچی ہونے سے بچا لیں___ولی میں مر رہی ہوں___
ولی میں مر جاؤں گی__ آپ سے بچھڑی تو مرجاؤں گی___ مجھے بچا لیں ولی خان__،،
ولی خان کے دل میں درد اُٹھا__ وہ اس کے ہاتھ سے پھسل رہی تھی___ وہ کسی اور کی ہونے جارہی تھی___وہ اُسے روک لینا چاہتا تھا___ ہاں وہ اُسے روکنا چاہتا تھا وہ اُسے روک لے گا____
نوٹ#جلدی سے اپنے ریویو دیں اور لائک کریں___