ZombieWar - Episode 17

0

 

 Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

Episode - 17

Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim

 Offical Writer at KoH Novels Urdu

-=-

اس آبدوز کے لاپتہ ہو جنے کے بعد شیلٹر ہاؤس میں ہائی الرٹ جاری ہو چکا تھا۔ کنٹرول روم میں موجود سبھی ایکپرٹس ، ہیکرز اور پروگرامرز اس آبدوز کی تلاش میں جُٹ گئے۔تبھی ایک انفارمر آگے بڑھ کے دی سے جنرل کے پاس آیا اور ایک ٹیب میں موجود ایک ویڈیو دیکھانے لگا۔ 


  " سر یہ دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔اس آبدوز کے کیمز سے لی گئی آخری ویڈیوز ہیں۔۔۔۔۔۔ جن میں صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ ایک بڑی وہیل مچھلی کا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن سر بات جو عجیب ہے وہ یہ ہے کہ اس مچھلی کا رنگ کسی وہیل مچھلی کے جیسا بالکل بھی نہیں ہے اور اس کے جسم میں سے لگاتار خون بھی نکل رہا ہے " اس انفارمر نے ابھی اتنا کہا کہی تھا کہ اچانک ایک اور انفارمر اٹھا اور جنرل کے پاس آکر بولا۔ 


     " سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بڑی مشکل ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ شیلٹر ہاؤس کے اردگرد تین سو کلومیٹر کے دائرے میں اچانک بہت ساری وہیل مچھلیاں داخل ہونے لگی ہیں حالانکہ اس ماحول میں جہاں یہ شیلٹر ہاؤس تعمیر شدہ ہے اس علاقے میں کوئی بھی مچھلی کی قسم زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔۔۔ جس کی وجہ اس علاقے میں کلورین کی وافر مقدار ہے لیکن اب اچانک سے بہت ساری مچھلیوں کا آنا کسی مصیبت کا پیغام ہو سکتا ہے " یہ کہنے والے انفارمر کے چہرے پر سے سارے رنگ غائب تھے اور ساتھ ہی جنرل کے چہرے پر سر رنگ غائب کر گیا۔ 


جنرل نے جلدی سے ڈاکٹر ریحان کو بلا کر لانے کا کہا۔ 

  " اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے جنرل۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ہمیں خود ہی بات کرنی ہے آپ سے " ڈاکٹر ریحان اور ڈاکٹر صوفیہ کہ کیتے ہوئے آگے جنرل کی طرف بڑھے۔ 


    " یہ دیکھیں جنرل وائرس-ٹی کا ایک خطرناک چہرہ ہے یہ۔۔۔۔۔ یہ وائرس بس ہوا میں ہی نہیں بلکہ پانی میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہاں جو آبدوز اب تباہ ہوئی اس کے پیچھے بھی ایک انفکٹڈ وہیل تھی۔...... اور اب اسی کی طرح کی بہت ساری وہیلز اردگرد ٹکڑیں مارتی ہوئیں کلورین کی تلاش میں سمندر کے اس حصے میں حملہ آور ہو رہیں ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ جب کوئی اس وائرس کا شکار ہوتا ہے تو اسے کلورین کی شدت سے حاجت ہونے لگتی ہے۔۔!۔۔۔۔۔وہیلز کلورین کو میلوں دور سے بھی باآسانی پہچان سکتی جس کا ایک بڑا حصہ بدقسمتی سے اس شیلٹر ہاؤس کے نیچے ہے " شیلٹر ہاؤس پر اب تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ انفکٹڈ وہیلز حملہ آور ہونے کے لیے تیزی سے بڑھ چکی تھیں۔


دوسری طرف وہ چاروں یعنی کاظم بریعہ جلال اور وہ فوجی اس کار میں ایک تکلیف دہ سفر پر گامزن تھے۔ راستے میں انھیں ہر طرف لاشیں اور تباہ شدہ کاریں یا دوسری گاڑیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔ راستے میں کئی بار جب کہیں آدمخوروں کا کوئی گروہ دکھتا جلال گاڑی کی رفتار بڑھا دیتا یا گروہ کے زیادہ بڑے ہونے پر دور سے راستہ تبدیل کر لیتا اور جب کہیں کوئی ایک دو آدمخور نظر آتے تو مشکل بھی ہو تو بھی گاڑی کے نیچے دے کر ہی گزرتا۔ پتہ نہیں اسے اس سے کیسا سکون ملتا تھا اور ہر بار کسی آدمخور کو نیچے دینے کے بعد گاڑی روک کر ایک شیطانی مسکراہٹ سے کاظم کی طرف دیکھتا۔


کار میں وہ سب محفوظ تھے اور ان کے پاس جدید ہتھیار بھی موجود تھے لیکن پھر بھی ایک ڈر ان کے دل پر طاری تھا جیسے وہ کسی دوزخ نما دشمن علاقے میں آگئے ہوں اور دشمن کی ان پر ہر وقت نظر ہو۔ جلال نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی گاڑی نہ روکی سوائے کسی آدمخور کو نیچے دینے کے بعد کے اور باہری دل دہشت مزین کر دینے والے مناظر کو دیکھتے ہوئے گاڑی میں موجود چاروں میں سے کسی کی آواز بھی نہ نکل رہی تھی۔


جیسے تیسے کرتے وہ کراچی میں سے محفوظ لیکن دہشت زدہ دل لے کر نکل ہی آئے لیکن اب وہ گاڑی اسی سنسان سڑک پر تھی جس پر کچھ دن پہلے کاظم اور بریعہ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ اسی طرح کی ایک گاڑی میں گزر رواں ہوئے تھے۔ وہ گاڑی اسی گھر کے سامنے والی سڑک سے بھی گزری جس میں سے ان کے ساتھ ان دونوں نے دغابازی کی تھی۔


راستے میں انھیں اسی سنسان سڑک کی ایک طرف چھوٹا سا پیٹرول پمپ بلکہ پیٹرول پمپ بھی کہاں بس ایک دکان کے ساتھ دو فیول فلر ہی کھڑے کیے ہوئے تھے۔ جسے دیکھ کر جلال کا دھیان فیول انڈیکیٹر کی طرف ہوا۔ گاڑی میں فیول کافی کم ہو چکا تھا۔ تو جلال نے گاڑی وہاں جا کر روک لی۔ جلال باہر نکلنے لگا تو کاظم نے روک دیا اور گن اٹھا کر خود اس دوکان کی طرف بڑھا اور احتیاطاً دوکان کے کھلے ہوئے دروازے سے دور ہی رہا گن کو ایک پل کے لیے بھی نہ ہلاتے ہوئے اب وہ احتیاط برتتے ہوئے دوکان کے اندر گھس گیا۔ 


وقت حساس تر ہوتا جا رہا تھا۔ کاظم دوکان کے مزید اندر چلا گیا لیکن صرف وہاں تک جہاں تک دوکان کے کھلے شٹر سے روشنی پہنچ رہی تھی۔تبھی اچانک کاظم نے شیشے میں کسی کا سایہ دیکھا جو کہ کاظم کے پیچھے معلوم ہوتا تھا۔ کاظم یک دم سے پیچھے مڑا اور گولی فائر کرنے ہی ولا تھا کہ رک گیا۔ وہ کوئی آدمخور نہیں بلکہ وہ فوجی تھا جو اس کے پیچھے پیچھے حفاظتاً آیا تھا۔ 

 

 کاظم کا دل اس فوجی کو یوں اچانک دیکھ کر زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ تو اس نے سانسیں بھرتے ہوئے گن کو کاندھے سے لٹکایا اور بولا۔ 


   " کوئی نہیں ہے یہاں۔۔۔۔۔۔۔ چلو جو کچھ بھی کھانے کو ملتا ہے اٹھا لو۔۔۔۔۔۔۔ راستے کا کوئی علم نہیں ہے " ۔کھانے کو زیادہ کچھ تو نہیں لیکن گزارے کے لیے کچھ مل چکا تھا۔ جو کچھ ملا اٹھا کر کاظم اور وہ فوجی باہر نکلے اور بائیں جانب کھڑی کار کی طرف بڑھے جلال کار میں فیول بھرنے میں مصروف تھا اور بریعہ بھی یوں ہی باہر نکل کر ٹہل رہی تھی۔ 


    " کیا کیا ملا " کہتے ہوئے بریعہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور ایک بسکٹ کا پیک اٹھا لیا اور بھی اٹھانے لگی تھی لیکن کاظم نے گھورنے پر رک گئی۔


   " کیا ہوا بئی۔۔۔۔۔۔ کھانے کے لیے ہی ہیں نا۔۔۔۔۔۔ تو لیا لیا تو کیا ہو گیا " بریعہ نے بوسیدہ انداز میں کہا لیکن پھر بھی دوسرا پیک اٹھا لیا۔ دونوں ہاتھ مصروف ہونے کی وجہ سے کاظم اسے روک بھی نہیں سکا اور اگنور کرتے ہوئے کار کی پچھلی سیٹ پر رکھ دیے اور واپس پلٹ کر بریعہ کے قریب آیا۔ بریعہ بھی اپنا ماسک اتار کر ایک پیک کھلونے چکی تھی۔ کاظم نے اپنا ماسک اتارا اور بولا۔ 


    " اب ٹھوس لو " کہہ کر کاظم بھی جلال کی طرف بھی بڑھ گیا جو کاظم کی یہ حرکت دیکھ کر خاموشی سے ہنس رہا تھا لیکن بریعہ کے گھورنے پر منہ پر ہاتھ کر ہسی چھپانے لگا۔استانی صاحبہ کی تعریف تو ہو ہی چکی تھی لیکن پھر آگے بڑھی اور کار میں سے ایک اور پیک دونوں کو بخوب دیکھاتے غرور بھری نظروں سے گھور کر اٹھا لیا۔


کاظم نے ایک بسکٹ کا پیک اٹھایا اور کھول کر جلال کے پاس لے گیا اور پھر اسے اس تنہا فوجی کے بارے میں تجسس ہوا کہ اس کے متعلق بھی کچھ جانا جائے۔ وہ فوجی ان تینوں سے الگ کار کی دوسری جانب اس سے پیٹھ لگائے خاموش کھڑا دوپہر کی دھوپ میں کچھ سوچوں میں گم تھا شاید۔


    " اسلام علیکم دوست " کاظم نے بھی اسی کی طرح کار سے پیٹھ لگا لی۔ تو اس نے بھی سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنا نمکو کا کھولا ہوا پیک کاظم کی طرف بڑھایا ۔ کاظم کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دوست جلدی بنا لیتا تھا جس کی وجہ اس کا عاجز لہجہ تھا۔ کاظم نے بھی فوجی سے اچھی خاصی جان پہچان بنا لی۔ جس سے وہ بھی ان کے ساتھ اپنا پن سا محسوس کرنے لگا۔ 


اب فیول مکمل کر کے یہ سب دوبارہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگئے۔آخر کار ایک انتہائی لمبے سفر کے بعد سب اب راولپنڈی میں داخل ہونے کو تھے۔ حنیف( کاظم نے اس فوجی سے اس کا نام بھی پوچھ لیا تھا ) کی آنکھوں سے نیند ابھی بھی کوسوں دور تھی اور وہ راستے بھر میں کہیں بھی سویا نہیں تھا حالانکہ اس نے اواسی بھی نہیں لی۔ 


گاڑی اب جلال نہیں کاظم چلا رہا تھا اور جلال کاظم کی جگہ اپنے بوریا بستر بیچ کر سو رہا تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی گھوڑا نہیں تھا اس لیے گھوڑوں کا نام لے کر جلال کو بلا وجہ صدمہ نہ دیں پلیز۔ اور پچھلی سیٹ پر بریعہ بھی تقریباً سو ہی رہی تھی۔ جس کا پکا پتہ کاظم کے یک دم بریک لگانے کے بعد بریعہ کے پلٹ کے گرنے سے چل گیا تھا۔ 


     " کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گاڑی دیکھ کے نہیں چلا سکتے کیا؟؟؟ " بریعہ نے خود کو کار کی اگلی سیٹ کو تھام کر سنبھالتے ہوئے کہا۔ 


      " میں تو دیکھ لیتا لیکن شاید یہ نہیں دیکھتا " کاظم نے کار کے عین سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔ جلال اور بریعہ اٹھے اور سامنے دیکھا تو وہاں کاروں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے راستہ بند تھا اور ایک موٹا تازہ آدمخور بھی کھڑا اس دوڑ بلاکرز کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک پیچھے انھیں دیکھ کر ان پر حملہ آور ہوا۔جلدی سے حنیف گاڑی سے اترا اور دو ہیڈ شاٹز سے وہ آدمخور ڈھیر کر دیا۔


   " ارے یہ کیا کر دیا تو نے ہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار اسے قریب تو آنے دیتا۔۔۔۔ میں خود ہی اس کا کلہاڑے سے کام تمام کر دیتا۔۔۔۔۔ ابھی ہم شہر میں داخل ہونے والے ہیں اور ابھی سے ان کو اپنی موجودگی کا بتا رہے ہو " کاظم نے سمجھداری کا اظہار کرتے ہوئے اور پھر جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور وہ راستہ اور وہ کار وہیں چھوڑ کر ایک طرف چل دیے۔کھانے پینے کا بھی سارا سامان ختم ہو چکا تھا۔ 


اب وہ شہر میں چھپتے چھپاتے داخل ہو چکے تھے۔ حنیف انھیں ہر موقع پر چوکنا کر رہا تھا جبکہ جلال اور بریعہ بھی جیسا تیسا کرتے گنز اٹھائے کبھی اس طرف نشانہ کستے تو کبھی اس طرف۔ کاظم ان سب سے آگے آگے تھا اور اس ملٹی فنکشن واچ کے ذریعے ان سب کو نیویگیٹ کر رہا تھا۔


شیلٹر ہاؤس میں اب ایک اور ہلچل مچنے لگی تھی۔ ڈاکٹر صوفیہ اچانک جنرل کے پاس آئیں اور انھیں کچھ دیکھایا۔ وہ کاظم کی بلڈ رپورٹس تھیں جوکہ کاظم کو دی گئی اور ملٹی فنکشن واچ کے ذریعے لی گئی تھی۔ 


    " سر ۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ بہت بڑی پرابلم بن گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم کسی طرف بھی نہیں جا سکتے کاظم کے جسم میں وائرس-ٹی انتہائی کم مقدار میں لیکن اب ایک خطرناک سطح کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ اپنے ساتھیوں اور اس اینٹیڈوڈ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے کسی بھی وقت۔۔۔۔۔۔ سر ہمیں کچھ کرنا ہوگا " ڈاکٹر صوفیہ نے جنرل کو وارن کر دیا اور جنرل بھی ایک گہری سوچوں میں کسی منصوبے کے لیے ٹہلنے لگے۔ ان کی رنگت فکر کی وجہ سے بالکل سفید ہو رہی تھی ۔ 


کاظم ان سب کو نیویگیٹ کر رہا تھا لیکن وہ اس بات پر حیران ہو کر رہ گیا جب اس نے وہاں کسی اور انسان کی آواز بھی سنی جو کسی سے کچھ کہہ رہا تھا۔ کاظم حیران تھا کہ اب یہاں کوئی انسان کیسے ہو سکتا ہے۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)