Tamasha-e-Muhabbat - Episode 17

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 17


- - -

دل ودماغ کی ایک جنگ ولی خان کے گرد چھڑ چکی تھی__ وہ آج فیصلہ لینا چاہتا تھا___ اس کا دل اسے روک رہا تھا___ 

نشاء کسی اور کی ہونے جارہی تھی___


وہ روکنا چاہتا تھا یہ ظلم تھا___ وہ اس ظلم کو روکنا چاہتا تھا____


مگر نہیں___


وہ کچھ نہیں کرے گا__ آج اس کی شادی ہے وہ اسے بدنام نہیں کرے گا___ رسواء نہیں ہونے دے گا___ وہ اُس کی خوشی ازلان شاہ میں دیکھ رہا تھا___


اُس نے قدم بڑھائے__ انشراح میر جو یہ سوچے بیٹھی تھی کہ وہ آگے آئے گا__ اُس کا ہاتھ تھام لے گا___وہ آگیا ناں اب کس بات کا غم؟؟ وہ لے جائے گا___ اُسے اپنی دنیا میں لے جائے گا___


اس کے دل میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے مگر پل بھر کی بات تھی یہ خوش فہمی ختم ہوگئی___ وہ ساکت ہوگئی__


ولی کی گردن میں ندامت سے ایک گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی__ وہ رخ پھیرے کمرے سے نکلنے لگا__


وہ انشراح کو چھوڑ کر جا رہا تھا___ 

نہیں ولی رک جائیں__ انشراح نے اسے روکا__


مگر وہ سن نہیں رہا تھا___ وہ چلا گیا___ ولی کو اپنی پشت پر انشراح کی نظریں محسوس ہوئیں مگر وہ پیچھے نہ مُڑا___

وہ جانتا تھا وہ رکا تو کسی کے حق میں بہتر نہیں ہوگا___ وہ جا چکا تھا__


اور انشراح میر وہیں بیٹھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی رہی____


😭😭😭😭😭😭


انشراح میر بنت میر زرار حاکم آپ کا نکاح حق مہر 50 لاکھ سکہ رائج الوقت کے مطابق ازلان شاہ بن واصف شاہ سے کیا جاتا ہے__ کیا آپ کو نکاح قبول ہے؟؟؟


نکاح خواں نے انشراح سے سوال کیا جو کہ اس کے اعصاب پر بہت بھاری گزرا تھا__ 


وہ انکار کرنے والی تھی جب اس نے اپنے سر پر دادا سائیں کا ہاتھ محسوس کیا___


انشراح نے زور سے آنکھیں میچ لیں اور فیصلہ ہوچکا تھا___


جو سر اٹھاتے ہیں اُن کو سر کٹوانے پڑتے ہیں___

نور کی آواز اُس کے کان میں گونجی___


میں انشراح میر ہوں میں اپنے حق کے لئے لڑنا جانتی ہوں___ اُسے اپنی کہی بات یاد آئی__، بڑا غرور تھا اُس کے لہجے میں___ وہ بڑا بول بول چکی تھی___


کیا گارنٹی ہے کہ سر تمہارا ہی کاٹا جائے گا___ سر میرے بھائی کا کاٹا جائے گا___ 

نور کی آواز صاف شفاف آئینہ بن کر اُسے اُس کا چہرہ دکھانے لگی اور پھر فیصلہ ہوگیا___


انشراح میر نے ولی خان کا سر کٹنے سے بچانے کے لئے ازلان شاہ کا انتخاب کر لیا____


قبول ہے__ قبول ہے__ قبول ہے___


انشراح میر نے نکاح نامے پر دستخط کرتے ہی خود سے عہد کیا کہ وہ ہر صورت ازلان شاہ کے ساتھ نبھائے گی___ 


وہ ولی خان کو اپنے دل و دماغ سے نکال باہر پھینکے گی____ وہ ازلان شاہ کے ساتھ اپنی الگ دُنیا بسائے گی____


انشراح میر نے دل میں یہ عہد کیا___ وہ نکاح کے بندھن میں بندھ چکی تھی اور اب اس نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر کا سوچنا بھی حرام سمجھا____


❤❤❤❤❤❤


ہال میں خوشیوِں کا سماں تھا__ سامنے ہی سٹیج پر ازلان شاہ اپنی بھرپور وجاہت سمیت مشہور ڈیزائنر کی آف وائٹ شیروانی زیب تن کیے ریڈ قلعہ پہنے کتنے دلوں کی دھڑکن بنا بیٹھا تھا___


ازلان شاہ اپنے والد کی کسی بات پر مسکرایا جب سامنے سے آتی نور خان پر نظر پڑتے ہی اس کی مسکراہٹ سمٹی___ اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہوگئے___


نور خان اپنے سوگوار حسن سے ازلان کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ازلان شاہ آگے بڑھ کر اُسے خود میں سمیٹ لینا چاہتا تھا مگر جلد ہی ازلان شاہ نے خود کو ڈپٹا اور اپنا رخ بدل لیا___


کچھ دیر پہلے ہی نکاح خواں انشراح سے اجازت لینے کے بعد ازلان کی طرف آئے اور نکاح پڑھایا___


ازلان شاہ نے خوشی سے سائن کیے اس کے انگ انگ سے خوشی جھلک رہی تھی___

دعائے خیر کے بعد وہ سب عزیزو اقارب سے گلے ملا__ اور اب سٹیج پر بیٹھا انشراح میر کا انتظار کرنے لگا___


تھوڑی دیر بعد انشراح میر کو لایا گیا__ازلان شاہ کتنی ہی دیر اس کے حسن میں گم اُسے دیکھتا رہا___اسٹیج کے قریب پہنچتے ہی انشراح کا دل دھڑکا__ جب ازلان شاہ نے اس کے سامنے ہاتھ بڑھایا اور اُسے اوپر چڑھنے میں مدد کی__ 


انشراح میر نے اس تمام عرصہ میں پہلی بار نظر اٹھا کر دیکھا___ ازلان شاہ کو دیکھتے ہی اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اس نے ازلان کا ہاتھ تھام لیا__


اسٹیج پر چڑھتے ہی ازلان نے نشاء کی کمر کے گرد بازو ڈالے اُس کی پیشانی پر پہلا بوسہ دیا___ ان خوبصورت لمحات کو کیمرہ مین نے اپنے کیمرہ میں کیپچر کیا___


اب ازلان اور نشاء فوٹوسیشن کروا رہے تھے تھوڑی دیر بعد رخصتی کا شور اٹھا__


انشراح میر اپنے دادا کے سینے سے لگی خوب روئی__ رخصتی کا یہ وقت ہر لڑکی کے لئے اس کے والدین کے لئے کٹھن ہوتا ہے___


میر حاکم بھی اسے سینے سے لگائے بہت روئے جب ازلان آگے بڑھا اور نشاء کو کندھوں سے پکڑ کر اُن سے الگ کیا اور اسے ساتھ لیے گاڑی کی طرف بڑھا____


😍😍😍😍😍😍


گاڑی سڑک پر دوڑ رہی تھی اور انشراح میر پیچھے بیٹھی رو رہی تھی__ ڈرائیونگ سیٹ پر ازلان کا کزن بیٹھا تھا ساتھ والی سیٹ پر رجاء بیٹھی تھی__ 


وہ رسم کے مطابق انشراح کے ساتھ آئی تھی__ میر حاکم نور کو بھیجنا چاہتے تھے مگر اس نے معذرت کر لی___


جب کافی دیر تک انشراح نے رونا بند نہ کیا تو ازلان نے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کی__


"آج جتنا رونا ہے رو لو مسز شاہ__ آج کے بعد تمہاری آنکھوں میں ازلان شاہ ایک آنسو بھی نہیں آنے دے گا" 

یہ کہتے ہی ازلان نے نشاء کے کان کو ہونٹوں میں دبایا جس سے انشراح کانپ اٹھی___


شاہ پیلس پہنچتے ہی انشراح کا ویلکم اس کی شان کے مطابق کیا گیا__ پوری راہداری کو پھولوں سے سجایا گیا تھا__


کچھ ضروری رسموِں کے بعد ازلان شاہ جو کہ کزنز کے نرغہ میں بیٹھا تھا انشراح کو بازوؤں میں اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھا__


پیچھے سے کزنز کی ہوٹنگ سے انشراح میر شرم سے لال ہوگئی___اس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لئے ازلان کے گلے میں بازو ڈال لیے__


ازلان شاہ اُسے اٹھائے کمرے میں لایا اور دروازے کو ایک ٹانگ کی مدد سے بند کیا__ وہ نشاء کو یونہی اٹھائے بیڈ پر لایا__ نشاء کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی ___ ازلان شاہ کتنی ہی دیر اس کے دلکش سراپے کو دیکھتا رہا اور پھر اُسے پکڑ کر ڈریسنگ کے پاس لایا__

ڈریسنگ کے پاس اسے کھڑا کرکے اُسے ڈوپٹہ سے آزاد کیا اب اُس کا رخ اس کے زیور کی طرف تھا___ جوں جوں ازلان زیور اتار رہا تھا وہاں وہاں اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتا رہا___ انشراح میر اس کی انگلیوں اور پھر ہونٹوں کے لمس سے تڑپ اٹھی___


ازلان اب بغور اس کے دلکش سراپے کو آئینہ میں دیکھ رہا تھا____

پھر اس کی گردن پر اپنے ہونٹوں سے لمس چھوڑنے لگا__ انشراح نے اپنے ہاتھوں سے ڈریسنگ کا سہارا لیا___

ازلان شاہ نے اُسے بانہوں میں بھرتے بیڈ پر لاکر بٹھایا___ اب اس کے سامنے بیٹھے خود کو شرٹ سے آزاد کیا__

ازلان شاہ نے انشراح کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں قید کرلیا__ اور اب اس پر اپنی شدتیں نچھاور کرنے لگا___


انشراح اس کی شدتوں پر کبھی سمٹتی کبھی شرماتی خود کو ازلان کے حوالے کردیا___


😍😍😍😍😍


صبح اٹھتے ہی انشراح نے اپنی بائیں سمت دیکھا وہ جگہ خالی دیکھ وہ حیران ہوئی___ اتنے میں ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا ازلان شاہ نشاء کو دیکھ کر ایک مسکراہٹ اچھالتا اس کی طرف بڑھا___


گڈ مارننگ ہنی___ ازلان نے یہ کہتے ہی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرلیا___ ایک شدت بھرا لمس چھوڑ کر واشروم کی طرف بڑھا___ 


ناشتہ کرنے کے بعد ازلان شاہ انشراح میر کو لے کر مری کے لئے روانہ ہوا___ وہ پانچ دن مری قیام کا پروگرام بنا چکے تھے___ ہفتے بعد ان کا ولیمہ تھا اور یہ کچھ دن ازلان شاہ انشراح میر کے ساتھ بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے لگا تھا___

🔥🔥🔥🔥🔥🔥


بند کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں___ کمرا مکمل تاریک تھا___ کمرے کے بالکل وسط میں بیڈ پر لیٹی وہ اپنی قسمت کا سوگ منا رہی تھی___


کچھ دن پہلے تک اس کی زندگی کیا تھی؟؟ آج اس کی زندگی کیا ہوگئی تھی___


آج وہ تنہا ہوچکی تھی اُس کا کوئی بھی اپنا اُس کے پاس نہیں تھا___


اسے اچھی طرح یاد تھا وہ نشاء کی شادی کے لئے شاپنگ کرنے کے لئے نکلی تھی جب اس کی ہائر کی گئی ٹیکسی کے سامنے ایک سفید رنگ کی پراڈو آکر رکی___


اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولے ایک نقاب پوش آدمی نے اس کے ناک پر رومال رکھے اسے بےہوش کردیا__


1 گھنٹے کے بعد اس کو ہوش آیا اُس نے خود کو ایک کمرے میں پایا___ اس نے سامنے دیکھا تو وہ شخص صوفے پر بیٹھا بغور اُسے ہی دیکھ رہا تھا___


تم مممممم___ وہ حیرانگی سے اُس شخص کو دیکھ رہی تھی اُس کے لئے اس شخص کی موجودگی بہت حیرت انگیز تھی___


ہاں میں___ کیسا لگا میرا سرپرائز ؟؟؟؟ ہاہاہاہا ہاہاہاہا اس کے بھرپور قہقہے نے نور خان کو کانپنے پر مجبور کردیا___


وہ خود کو سنبھالتی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی مگر اس شخص نے اس کی یہ کوشش ناکام بناتے ہوئے اسے پیچھے سے پکڑ لیا____


نو___ نو___ ایسے نہیں___ بڑی مشکل سے ہاتھ لگی ہو ایسے تو نہیں جانےدوں گا__ وہ شخص کمینگی سے بولا___


نہیں پلیز مجھے جانے دو___ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں____ نور خان منتوں پر اتر آئی__


ٹھیک ہے جانے دوں گا مگر ون نائٹ سٹینڈ کے بعد____ 

وہ شخص بہت بےرحمی سے بولا___


نور خان حیرانگی سے اُسے دیکھنے لگی___ یکدم اس کے دل میں اس شخص کے لئے نفرت جاگی___


نور خان نے آگے بڑھ کر اُسے تھپڑ مارا____ جس پر وہ شخص طیش میں آیا_____


اور اُسے گھسیٹتے ہوئے دوسرے کمرے میں لے جانے لگا___ کمرے میں لاتے ہی اُس نے نور خان کو بیڈ پر پٹخا___ اور اپنی شرٹ اتار کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا__،


نور خان پیچھے ہورہی تھی کہ اس کی پشت بیڈ کراؤن سے لگی___ تب تک وہ شخص اُس کے دونوں طرف بازو رکھے اس کی فرار کی راہیں مسدود کر چکا تھا___


وہ اس پر جھکا جب نور نے اُس سے منت بھرے لہجے میں کہا___


مجھ سے نکاح کر لو____ اس کے بعد جو مرضی کرتے رہنا___ پلیز مجھے یوں پامال مت کرو____


وہ شخص بھی پرسوچ انداز میں اس سے دور ہٹا اور کسی کو کال ملائی___


نکاح خواں کو لے کر آؤ بنگلو پر___ 15 منٹ کے اندر ___ اور کچھ گواہ بھی لانا___


15 منٹ کے بعد نور خان اس شخص کے نکاح میں آچُکی تھی_____


نکاح کے بعد وہ شخص دوبارہ نور خان کے پاس آیا اور بغیر اسے کچھ سوچنے کا موقع دیئے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرلیا___ نور خان کی سانس اکھڑنے لگی تو اس شخص کو بھی رحم آیا ___ 


اس نے اس کے لبوں کو آزاد کیا اور اب نور خان کے جسم کو بےلباس کیا___

اُس نے خود کو بھی شرٹ لیس کیا اور نور پر حاوی ہوگیا___


نور خان نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اس کے حوالے کر چکی تھی____


وہ شخص اُسے تین دن تک اپنے پاس رکھے ہوئے تھا اور اُسے اتنا مجبور کر رکھا تھا کہ اُس نے گھر کال کر کے ہاسٹل رہنے کا بہانہ کیا___


وہ جانتی تھی کہ اُس کے اپنے اُس سے محبت کرتے تھے اس پر اعتبار کرتے تھے اس لئے کسی نے اس سے ہاسٹل کی بابت دریافت نہیں کیا____


اور دوسری جانب اس شخص نے اس سے اپنا حق وصول کیا___ وہ چاہ کر بھی اُسے انکار نہیں کرسکی کیونکہ وہ شخص چاہے جتنا بھی قابل نفرت تھا مگر تھا تو اس کا شوہر__


نہ ہی نور خان اتنا مضبوط بیک گراؤنڈ رکھتی تھی کہ اس شخص سے آزادی لیتی___


وہ ہار چکی تھی__ اپنی انا بھی اپنا وقار بھی اور اپنی محبت بھی___


نور خان نہیں جانتی تھی کہ ابھی تو اس کی آزمائشوں کا آغاز ہوا تھا ابھی انجام باقی تھا___


وہ اب کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی انشراح کی رخصتی کے بعد وہ ہر چیز سے غافل ہوچکی تھی ولی خان جا چکا تھا___ نور خان نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی اس سے التجا کی تھی کہ وہ انشراح کو ازلان کی بیوی مت بننے دے مگر ولی خان اس کے دل کی حالت کو سمجھ نہ سکا___


اُسے یکدم ولی پر غصہ آیا مگر پھر وہ اپنے بھائی کی حالت کو سمجھتی اس کے لئے دعائیں کرنے لگی___


😍😍😍😍😍😍

نور بیبی___ نور خان یونہی صوفے پر بیٹھی ازلان ولی اور نشاء کو سوچ رہی تھی جب احمد نے اُسے پکارا___


ارے احمد لالہ آپ___ احمد نے کھانے کی ٹرے اُس کے سامنے رکھی___


نور خان مسکراتی نظروں سے اُسے دیکھنے لگی وہ شخص واقعی ہی اس کے لالہ کی طرح تھا___

محبت کرنے والا___ خیال رکھنے والا____ 


10 منٹ تک ناشتہ ختم ہونا چاہیئے میں کوئی بہانہ نہیں سنوِں گا____ احمد اُسے حکم دیتا کمرے سے باہر نکل گیا___


نور خان بےدلی سے ناشتہ کرنے لگی آدھے گھنٹے بعد احمد ریشما کو لے کر کمرے میں داخل ہوا____


نور جلدی سے اٹھتے ریشما کے گلے لگی اور جی بھر کر روئی___ وہ جانتی تھی کہ ریشما خان اُس کے لالہ پر دل و جان سے فریفتہ تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اس کے لالہ کی ویران زندگی کو روشنی سے بھر دے 


مگر ایسا ممکن نہ تھا ولی خان ریشما کی ہر امید توڑ کر جا چکا تھا اور خود تک آتے تمام راہ مسدود کر چکا تھا___


مگر پھر بھی ایک امید ابھی بھی قائم تھی ریشما خان کی نہیں نور خان کی___ وہ اپنے لالہ کو کسی طرح منا لے گی اور اب وہ فیصلہ لے چکی تھی____


❤❤❤❤❤❤


رجاء میر اپنی دوست کے ساتھ ایک بار کلب میں بیٹھی تھی جب آزر شاہ اُس کے پاس آیا___


ہے مس میر___ ہاؤ آر یو___ آزر شاہ نے خوشدلی سے اُس سے پوچھا


فائن___ رجاء میر یک لفظی جواب دیتی اُٹھی جب آزر شاہ نے اُسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا___


کم آن مس میر____ اب تو ہماری رشتہ داری ہے ایک دوسرے کے ساتھ___ ہم سے ایسے نظریں تو مت چرائیں___


چلیں ڈانس کرتے ہیں__ ہم بھی اکیلے ہیں__ آپ بھی اکیلی ہیں___ 

آزر شاہ کے لہجے سے خباثت صاف جھلک رہی تھی___


وہ رجاء کو کمر سے پکڑنے لگا جب ایک آواز پر چونکا__


اہاں آزر شاہ___ آپ سے کس نے کہا کہ رجاء میر اکیلی ہیں،،، ہم ہیں ان کے پارٹنر احمد خان____


رجاء میر نے حیرت سے مُر کر دیکھا احمد خان سفید پینٹ اور بلیک ڈریس پینٹ پہنے بلیک بالوں کو ایک سٹائل سے سیٹ کیے سرخ و سفید رنگت کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا___


وہ ایک مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتا رجاء میر کو کمر سے پکڑے تقریبا گھسیٹتے ہوئے سٹیج تک لایا__ اور اب اُس کے ساتھ ڈانس کے سٹیپ کرنے لگا وہ دونوں ڈانس کرتے کرتے بہت قریب ہورہے تھے اُن کی قربت کو دیکھتے ہوئے آزر شاہ نے اپنی مٹھیوں کو بھینچ لیا____


جب احمد خان نے ایک تنبیہی نظر اُس پر ڈالی اور اُسے بہت کچھ باور کرایا____


آزر شاہ اُس کی نظروں کا مطلب سمجھتا ہوا وہاں سے غصے سے نکل گیا____


جب احمد خان نے رجاء میر کی کمر سے ہاتھ ہٹایا اور اُسے سرد لہجے میں بولا___


عزت دار گھرانے کی لڑکیاں یوں راتوں کو کلبوں میں بیٹھ کر اپنی عزت کا تماشہ نہیں بناتی رجاء میر__،_


احمد خان کے سرد لہجے پر رجاء میر کانپ اُٹھی اور وہیں سر جھکائے آنسو بہانے لگی جب اُس کی غصیلی آواز گونجی___


اب گھر چلیں محترمہ___ میر حاکم آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوں گے___


میں جس کے انتظار میں ہوں اُس کے لوٹ آنے کی اُمید ہے تمہیں___ رجاء میر نے بے چینی سے پوچھا____


اُن کی زات بکھر چکی ہے__ جب اُن کو لگا کہ وہ خود کو سمیٹ سکتے ہیں وہ واپس ضرور آئیں گے___


احمد خان نے رجاء میر کے ڈوبتے دل کو ایک اور امید کی روشنی تھمائی__،


نوٹ: ایپی پڑھ کر لائک کمنٹ کردیا کریں پلیز🙏🏻

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)