Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert
Episode - 18
Season - 1
Writer - Daoud Ibrahim
Offical Writer at KoH Novels Urdu
-=-
کاظم نے جب وہ انسانی آواز سنی کو حیران ہو گیا لیکن اندرون کی بات کا نہ پتہ ہونے کی وجہ سے کاظم نے جلدی سے ان تینوں کو بھی الڑٹ کر دیا کہ خاموشی اور احتیاط برتنی پڑے گی۔ مجھے کسی انسان کی آواز آر رہی ہے۔سب چوکنے ہو گئے اور ایک تباہ شدہ کار کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ کاظم چونکہ سب سے آگے تھا تو کار کی اوٹ میں چھپتے ہوئے ایک سائیڈ سے دیکھا تو سامنے آدمخور گروہ آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ بس اتنا ہی دیکھ کر کاظم یوں سکتے میں آ کر رہ گیا کہ پیچھے مڑنا بھول گیا۔
تبھی اسے گروہ میں کھڑے ایک بوڑھے آدمخور نے دیکھ اسے لیا اور وہ دیکھتے ہی اندھا دھن ان کی طرف دوڑا اوپر سے کاظم یہ دیکھ کر مزید سکتے میں چلا گیا کہ وہ آدمخور بوڑھا ہونے کے باوجود کسی جوان انسان سے تین گنا زیادہ رفتار سے ان کی طرف آ رہا تھا۔ ایک کو بھگتاپور دیکھ کر دوسرے بھی بس بنا دیکھے چھاپے انھی کی طرف بھاگے۔ ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کوئی بے روح جسم ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ کسی طرف بھاگنے کا ارادہ کرتے آدمخوروں نے کچھ ہی پلوں میں کار سمیت ان کے گرد دائرہ بنے گھیر لیا۔ان آدمخوروں میں سے کوئی کوئی آدمخور جیسے کہ بے قابو سا ہو کر ان پر حملے کی غرض سے آگے بڑھتا لیکن کچھ بھی کیے بنا ہی بس غرا کر گھورتے اور پھر واپس مڑ کر پیچھے کھڑا ہو جاتے ۔ یہ چاروں حیران تھے کہ اب تک تو ہمیں ان کے ہاتھوں قیمہ قیمہ ہو چکے ہونا تھا لیکن یہ تو کچھ عجیب ہی کہانی مچل ہی تھی۔
کاظم نے ان پر غور کیا تو گروہ کے سبھی آدمخور بوڑھے ہی تھے۔ تبھی ان میں سے ایک بولا ۔
" تم۔۔۔۔۔کا۔۔۔۔۔۔۔کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو۔۔۔۔۔۔۔ کون " جیسے وہ بڑی مشکل سے بول رہا ہوں۔ اس کے منہ سے الفاظ تک درست نہیں نکل رہے بلکہ انھی الفاظ کی جگہ خون نکل رہا تھا۔ اس پر سبھی حیران و پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔
ہوش سنبھالتے ہوئے کاظم نے ایک سانس کھینچی اور ڈر کا گھونٹ گلے سے اتار کر وہ بیگ سمیت اینٹیڈوڈ تھوڑا سا بلند کیا اور بولا۔
" آپ سب کی مشکل کا حل لائے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں آپ سب کے لیے وہ دوائی ہے جو آپ سبھی کو ٹھیک کر دے گی۔۔۔۔۔۔ واپس انسانی زندگی دے گے " کاظم کے الفاظ کو وہ ایسے سن رہے تھے جیسے الفاظ کی بجائے ایک ایک لفظ کر کے ان کے کان میں بمشقت گھس رہا ہو۔
اس سے پہلے کہ کاظم مزید کچھ بول پاتا ایک شور آنے لگا تھا جو کہ اب بلند سے بلند ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ ہی پلوں میں شیطانی آوازوں کے ساتھ ایک اور آدمخور گروہ سامنے والی سڑک سے ان کو کسی طرح کی آواز سن کر آگیا تھا اس گروہ میں بوڑھے آدمخوروں سے کچھ زیادہ اور جوان آدمخور تھے لیکن ان بوڑھے آدمخوروں نے کچھ ہی لمحوں میں ان کو ٹکڑوں مار مار کر زمین بوس کیا ہوا تھا اور پھر وہی کام کرنے لگے ہو ہر آدمخور کرتا ہے۔ انھوں نے ان جوان آدمخوروں کے چیتھڑے چیریاز کرنے شروع کردیے۔
یہ چاروں یہ مناظر دیکھ کے مزید سے مزید سکتے میں آ رہے تھے اور ان کو مصروف دیکھ کر کاظم نے بھی چھپکے چھپکے بھاگ جانے کا پلان بنایا لیکن پھر پتہ نہیں کیوں لیکن بوڑھے آدمخور ان ہلاک شدہ آدمخوروں کو کھائے بغیر ہی ان سے پرے ہٹنے لگے۔ جیسے وہ انھیں غلیظ جان کر کھانا نہیں چاہتے۔پھر جھپٹا مار کر دوبارہ ان پر حملہ آور ہو جاتے اور پھر پیچھے ہٹ جاتے۔
" میرے خیال میں سب کنفیوزن میں ہیں کی کون زیادہ ٹیسٹی ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ ہے نا کیا خیال ہے ؟ " جلال نے بغور کڑے مشاہدات کے بعد ٹھوڈی پر انگوٹھا رکھے آبروؤں کو اوپر نیچے کیے کہا۔
کاظم جلال کی بات کو باغور سننے کے بعد بھی جواب دیے کار کی دوسری جانب بڑھنے لگا لیکن جلدی ہی ایک آدمخور کے غصے سے غرارے کی وجہ سے واپس اپنی جگہ بر براجمان ہو گیا اور معصومیت بھر مسکراہٹ ایک پل کے لیے چہرے پر مزین کے کے غائب کر دی۔
ان میں سے ایک آدمخور جو دوسرے آدمخوروں کے مقابلے میں زیادہ معبر لگ رہا تھا۔ وہ ایک ان یہ کہتا ہوا اسی راستے پر چلنے لگا جس راستے پر سے وہ جوان آدمخور آئے تھے۔
" تم۔۔۔۔۔۔۔ پپپییششششے ( پیچھے )۔۔۔۔۔۔۔۔ آآآؤ " اور ساتھ ہی اشارے سے کو فالو کرنے کا کہنے لگا۔
ان چاروں کو اس کے الفاظ تو سمجھ نہیں آئے البتہ اشارہ سمجھ کر اس کے پیچھے پیچھے ڈرتے ہوئے چلنے لگے اور باقی کے آدمخور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ سارے آدمخور جیسے بڑی مشکل سے ہوش میں ہوں ایسے معلوم ہوتے تھے ان سبھی کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ کاظم کی گھڑی کو شیلٹر ہاؤس میں سے ایمرجنسی طور پر موجودہ ایک فسیلٹی جس کے ذریعے اس گھڑی کو بنانے والے اس گھڑی کو کہیں سے بھی بغیر گھڑی کے مالک کی اجازت کے کنٹرول کر سکتے تھے۔
شیلٹر ہاؤس میں ہائی الرٹ جاری تھا کیونکہ کاظم کی وجہ سے ساری محنت اور کئی جانیں ختم ہو سکتی تھیں۔ انھوں نے کوئی اور راستہ نہ ہوتے ہوئے گھڑے کا وہ فیچر استعمال کرتے ہوئے گھڑی کو اپنے کنٹرول میں کر لیا اور خفیہ طریقے سے موقع تلاش کرنے لگے کہ کب کاظم اپنے ساتھیوں سے الگ ہو یا وہ کسی طرح اس جگہ کا پتہ لگا لیں جہاں پر وہ اس وقت موجود ہو۔
" ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر میرا خیال ہے کہ آپکو یہ دیکھنا چاہیے " ایک انفارمر ہڑبڑی میں ڈاکٹر صوفیہ کے پاس ایک ٹیب لایا اور کچھ دکھانے لگا۔
" او مائے گاڈ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟..۔۔ جو بھی ہے ہمیں اب اس کا کی بھی چھان بین کرنی ہوگی۔۔۔۔۔۔ پتہ کرو اور جلد مجھے اس کی ضروری روپرٹس لاؤ اور کاظم بھی نئی رپورٹس تیار کرو " یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر صوفیہ کے چہرے پر گھبراہٹ نمایاں تھی اور جنرل کو بھی انفارم کرنے اور تجویز لینے نکل پڑیں۔
اس وقت شیلٹر ہاؤس کے مین کنٹرول روم میں جنرل ، ڈاکٹر صوفیہ ، ڈاکٹر ریحان اور کنٹرول روم کے سارے انفارمرز اور دیگر ساتھی موجود تھے۔ روپرٹس تیار کی جا چکی تھیں۔
دوسری طرف وہ آدمخور ابھی تک ان چاروں کو اپنے گھیرے میں لیے لڑکھڑتے ہوئے ، ہڑبڑاتے ہوئے راولپنڈی جیسے ایک بڑے شہر میں کسی مخصوص راستوں پر لے جا رہے تھے۔ ڈر نے ان چاروں کی تھکن کو بھی کوسوں دور رکھا۔ البتہ حنیف تھوڑا تھک چکا تھا اور واضع بھی کونے لگا تھا تو جلال نے اسے اپنے سے آگے کے لیا اور خود کو تھوڑا اور خطرے میں ڈال لیا۔
" چلو۔۔۔۔۔ ابھی ایکٹو کرو " جنرل نے کمپیوٹر کنٹرول کر رہے ایک انفارمر سے کہا اور اس پر ہی اس نے کچھ ٹائپ کیا ۔ جس کے عمل میں کاظم کی گھڑی زوروں سے روائبریٹ کرنے لگی۔ کاظم نے غور کیا تو گھڑی کی سکرین پر جنرل اور دائیں جانب ڈاکٹر صوفیہ اور بائیں جانب ڈاکٹر ریحان کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔
کاظم بھی چونکا پہلے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور پھر اپنے اردگرد ماحول اور آدمخوروں کے اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس نے اپنی خوشی کو دبا لیا اور پھر تھوڑا سرگوشی ہو کر گھبراہٹ میں گھڑی کو منہ کے قریب لایا اور بہت کچھ یکا یک کہہ گیا جسے سننے کی امید تو ان میں سے کسی نے بھی نہیں کی تھی۔
" لڑکے تم گھڑی کو اپنے چہرے سے تھوڑا دور کر کے بھی بات کر سکتے ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ " جس پر کاظم شرمندہ تو نہیں ہوا کیونکہ ماحول ہی کچھ یوں تھا۔ کاظم کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ڈاکٹر صوفیہ کمپیوٹر سکرین پر کاظم کے ساتھ وہ آدمخور دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی اور کسی کے بھی کچھ کہنے سے پہلے جلدی سے کمپیوٹر مانیٹر سے قریب آگئیں اور بغور دیکھنے لگیں۔
" یہ تمھارے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟ او مائے گاڈ۔۔۔۔۔۔ " اتنا کہنے کے بعد ڈاکٹر صوفیہ کے حلق سے بھی الفاظ نہ نکل رہے تھے۔ انھیں نے انفارمرز سے روپورٹس لونے کو کہیں جن کا یہ کہہ کر گئیں تھیں۔ یعنی کاظم کی گھڑی کی مدد سے اس کے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کرو اور اس کے اردگرد موجود لوگوں( اس وقت ڈاکٹر صوفیہ کو کاظم کے ساتھیوں کا نہ پتہ ہونے کی وجہ سے اردگرد کے لوگوں کا لفظ استعمال کیا تھا ) کی بھی روپرٹس تیار کرو ۔
لیکن اب اتفاق سے ان بوڑھے آدمخوروں کے بھی ساتھ ہی ہونے کی وجہ سے کمپیوٹر نے ان کی بھی روپرٹس تیار کر لیں تھیں۔ رپورٹس لائیں گئیں اور ڈاکٹر صوفیہ کے ہاتھوں میں تھما دی گئیں۔ ڈاکٹر ریحان بھی آگے بڑھے اور روپرٹس کو چیک کرنے لگے۔
" یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹس امپاسبل۔۔۔۔۔۔۔۔ " ڈاکٹر ریحان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔ جس سے بات کے غضب ہونے کے تاثر نمایاں ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ریحان بھی جلدی سے کمپیوٹر سکرین کی طرف بڑھے اور ڈاکٹر صوفیہ کے انداز کو دیکھ کر حیرت میں ڈوبے کاظم سے مخاطب ہوئے۔
" کاظم۔۔۔۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔۔۔۔۔یہ سب ابھی پوری طرح سے آدمخور نہیں بنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وائرس بوڑھے لوگوں پر پوری طرح سے اپنا قبضہ جما پاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ وائرس کسی جوان کے پوری طرح سے تیار شدہ جسم پر تو پوری طرح سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔۔ ۔۔۔۔ لیکن کسی بوڑھے جسم کی کمزور رگوں کی وجہ سے پوری پکڑ نہیں جما پاتا۔۔۔۔۔۔۔ " کاظم مزید حیرت میں چلا جا رہا تھا اور ساتھ ہی پیچھے آ رہے بریعہ ، جلال اور حنیف کو بھی حیران کیے جا رہا تھا۔
" کیا سر۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپکی بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔۔ کیا آپکا یہ مطلب ہے کہ اب ہمیں کسی بوڑھے آدمخور سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ کیا ہم اب ان سے محفوظ ہیں۔۔۔۔۔ " کاظم نے اپنی حیرت کو کم کرنے کے لیے ڈاکٹر سے ہی سوال شروع کر دیے۔ جس پر ڈاکٹر ریحان نے بھی کچھ کمزور سے مثبت تاثر دیے۔اس جواب پر کاظم اور ساتھیوں کے چہرے پر تھوڑی مسرت پھیل گئی۔
" لیکن کاظم۔۔۔۔۔۔۔۔ کاظم میں جو بات اب تمھیں بتانے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اسے غور سے سننا۔۔۔۔۔۔۔۔ کاظم تمھارے اندر بھی وائرس-ٹی پنپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم کیا تمھارے تاثر کیا ہونگے لیکن ہمیں اس بات پر بہت دکھ ہے کہ اب ہم تمھاری مدد نہیں سکے۔۔۔۔۔۔ ایم سوری کاظم " ڈاکٹر ریحان نے آنکھیں بند کر کے جو کہنا چاہا کہہ دیا لیکن جب آنکھیں کھولیں تو سامنے کمپیوٹر سکرین پر ایک مینیو شور ہو رہا جس پر کنکشن لوسٹ کا میسج شو ہو رہا تھا۔ اب یہ نہیں پتہ تھا کہ کاظم اور اس کے ساتھیوں تک ڈاکٹر ریحان کا وہ میسج پہنچا یا نہیں۔
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z