Tamasha-e-Muhabbat - Episode 18

0

Novel - Tamasha-e-Muhabbat

Writer - Ezmaira Rajpoot

Episode - 18


- - -

آپ کے رسپانس کو دیکھتے ہوئے میں نے ناول سٹاپ کرنے کا فیصلہ کیا ہے__ یہ ایپی میرے ایکٹو ممبرز کے لئے ہے__آج کے بعد ایپی نہیں آئے گی___


❤❤❤❤❤❤❤


ازلان شاہ نے اپنے اور انشراح کے لئے سویٹ بُک کروایا تھا___ وہ دونوں مری میں انجوائے کررہے تھے___ دن ان کا گھومتے گزرتا اور رات انشراح ازلان کی بانہوں میں گزارتی___ وہ ازلان کی قربت میں مکمل طور پر مدہوش تھی یہاں تک کہ وہ ولی خان کو بھی بھول چُکی تھی شاید نکاح کے بندھن میں طاقت ہی اتنی ہوتی ہے کہ دو لوگ ایک دوسرے کے نکاح میں بندھنے کے بعد ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے___


یہی حال انشراح میر کا تھا وہ ازلان شاہ سے نکاح کے بعد ولی خان کو یاد نہیں کرتی تھی___


شاید ولی خان نے جس طرح اُسے اور اس کی محبت کو رد کیا تھا وہ چاہ کربھی یہ تذلیل نہیں بھولی تھی____


ولی خان کو اُس نے آخری وقت تک موقع دیا ،مگر وہ چلا گیا انشراح میر کو تنہا چھوڑ کر____


اس نے اپنے جذبات ارمان سب ولی کے ساتھ ہی ختم کر دیئے تھے___


اب وہ ازلان شاہ کے ساتھ اس رشتہ کو نبھانا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ ولی کے جانے کے بعد اُس کے دادا سائیں کا مان بھی ٹوٹے___


وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ازلان کے رنگ میں رنگ چکی تھی کیونکہ اب وہ اپنے بوڑھے دادا کی عزت کو مقدم رکھنا چاہتی تھی___ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ولی خان جو اس کے دادا کی عزت کی خاطر چلا گیا وہ اس عزت کو اپنے کسی بھی عمل سے نیلام کرے____


اًف یہ محبت___ کیا عجب تماشہ کر چکی تھی انشراح میر کے ساتھ___


وہ معصوم لڑکی اپنے ہاتھوں محبت کو قربان کر چکی تھی ایک طرف غصہ تھا ناراضگی تھی کہ ولی نے اپنایا نہیں____ دوسری جانب اس کا سر کٹنے سے بچانے کو خود کو دان کر دیا____ ایک طرف دادا کی عزت کی پرواہ نہ کرتی انشراح میر اب فقط اس لئے لبوں پر قفل لگا چکی تھی کہ اس کے دادا کی عزت حقیقت میں اس کے ولی خان کا فرض تھی___ وہ اس فرض کو نبھا رہی تھی جو ولی اس پر لازم کر گیا تھا__


کیا سوچ رہی ہو مسز شاہ؟؟. ازلان شاہ نے اُسے بانہوں کے حصار میں لیا____


کچھ بھی نہیں__ انشراح میر نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہا___


کُچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے___ ازلان شاہ نے کچھ کھوجنے کے انداز میں کہا___


ازلان__ ایسا کچھ نہیں ہے___ میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی؟؟ 


انشراح میر نے ازلان سے سوال کیا___ 


تمہاری آنکھیں__

ازلان نے جواب دیا___


ایسا کیا ہے میری آنکھوں میں___؟؟ انشراح میر نے استفسار کیا___


وہ خود بھی تو ولی خان کی آنکھوں کی دیوانی تھی___ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی نیلی آنکھیں بھی کسی کو مدہوش کرسکتی ہیں___


تمہاری آنکھیں دلنشین میخانہ ہیں___ تمہارا جسم مسرور کر دیتا ہے___تمہاری قربت مدہوش کن ہے__ تم سراپہ عشق ہو انشراح میر___


ازلان شاہ یہ کہتے ہی اُسے بازوؤں میں بھرتے بیڈ پر لے آیا__ اور اب اس پر جھکا اس کے پور پور پر اپنا لمس چھوڑنے لگا____


رات یونہی ایک دوسرے میں گم گزر گئی__ صبح انشراح کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو چادر سے ڈھانپتے واش روم کا رخ کیا__


وہ جیسے ہی نہا کر باہر آئی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال بنانے لگی___ جب ازلان شاہ بیدار ہوتا اس کے قریب آیا اور اسے بانہوں کے حصار میں لیے کان کے قریب سرگوشی کرتے مخاطب ہوا__


جام پر جام پینے کا کیا فائدہ 

رات گزرے گی ساری اتر جائے گی

تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم 

عمر ساری نشے میں اتر جائے گی___


ازلان شاہ انشراح کے کان میں شعر کہتا اُسے سُن کرگیا___ انشراح میر یکدم اس سے الگ ہوئی اور اسے پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی___


آپ_____؟؟؟

 ازلان اس رات آپ آئے تھے میرے روم میں__؟؟ انشراح ابھی بھی یقین بےیقینی کے بیچ پھنسی ہوئی تھی___ 


ہاں میری جان وہ میں ہی تھا___ ازلان شاہ اُسے کمر سے پکڑتے اپنے قریب کرتا اس کے کانوں کی طرف جھکا___


کیوں ؟انشراح میر نے ڈبڈباتی نظروں سے اسے دیکھا___


اس کیوں کا جواب جلد دوں گا مسز شاہ___ ازلان شاہ یہ کہتے ہی اُس سے الگ ہوا____


انشراح میر اس کی پشت کو دیکھتی رہی جو بھی تھا جیسا بھی تھا مگر اُسے ازلان شاہ کا یہ انداز پسند نہیں تھا اس شخص نے اس پر پہلا تاثر بالکل بھی اچھا نہیں چھوڑا تھا___


اُسے بےاختیار ولی خان یاد آیا تھا___ وہ شخص اس کی عزت کا محافظ تھا___وہ بے تحاشہ محبت اور چاہت کے قابل تھا_


انشراح میر وہیں اسٹول پر بیٹھی گم سم سی اس رات کے بارے میں سوچنے لگی____


اُسے اب ازلان شاہ سے گھن آنے لگی___ وہ اس لمس کو محسوس کیوں نہ کرسکی____


اف وہ شخص تو مجھے نوچنے آیا تھا مگر ازلان کا لمس_____ ازلان کے لمس میں احترام تھا شاید____جو بھی ہے ازلان کو یہ نہیں کرنا چاہیئے تھا__، ولی یہ کیا کردیا آپ نے،__؟؟ کس کے حوالے کیا اپنی نشاء کو_____


وہ کتنی ہی دیر ولی اور ازلان کا موازنہ کرتی رہی___


😍😍😍😍😍


یہ منظر ہے اسلام آباد کی سڑکوں کا___ جہاں ایک تیز رفتار لینڈ کروزر تمام گاڑیوں کو کراس کرتی جا رہی تھی____ گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ازلان شاہ تھری پیس سوٹ پہنے خوبصورتی سے بالوں کو بغیر کسی جیل کے سیٹ کیے، بائیں ہاتھ میں امپورٹڈ رسٹ واچ پہنے ہاتھوں کی انگلیوں میں عقیق اور پکھراج جیسے قیمتی پتھر کی بنی انگوٹھیاں پہنے بڑے مصروف انداز میں گاڑی چلا رہا تھا____


ساتھ ہی ایک نظر اپنے پہلو میں بیٹھی سجی سنوری انشراح میر پر ڈال لیتا___ انشراح میر پیچ کلر کا خوبصورت برائڈل ڈریس پہنے ہوئے تھی___ جس کا گلہ بہت گہرا تھا___ گلے میں ایک قیمتی ہیروں سے جڑا خوبصورت ہار ڈالے میچنگ آویزے کانوں میں ڈالے بالوں کو کرل کیے سوفٹ میک اپ میں بھی دلکش لگ رہی تھی__ ایک شرمگیں مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی___ 


وہ ان 5 دنوں میں ازلان شاہ کی قربت میں مکمل طور پر مدہوش ہو چکی تھی____

آج اُن کا ولیمہ تھا جس کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا گیا تھا____


ازلان شاہ لب بھینچے گاڑی چلانے میں مصروف تھا___ جب انشراح کی آواز اُس کے کانوں میں گونجی__،،


شاہ آپ کی زندگی میں مجھ سے پہلے کبھی کوئی لڑکی آئی؟؟ انشراح کے سوال پر ازلان شاہ کے سامنے نور کا سراپہ جگمگایا____ اس کی جلترنگ ہنسی___ اس کے گالوں کا ڈمپل اور وہ بے اختیار بول اُٹھا___


ہاں___ ازلان کی بات سُن کر انشراح ہلکی پھلکی ہوگئی___ اس کے نزدیک محبت جرم نہیں تھا___ وہ بھی تو ولی خان سے محبت کرتی تھی____


"ابھی بھی اس کو پسند کرتے ہو تو بتاسکتے ہو آپ مجھے ۔۔" اسکے پوچھنے پر وہ چند پل اسے خاموشی سے دیکھتا رہا تھا۔ اندر کہیں اسکا دل ڈول سا گیا تھا۔


 نچلا لب دانتوں تلے دباۓ وہ اسے دیکھنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔۔؟


 پھر آہستہ سے بولا۔۔ 

"نہیں۔۔ کسی کو پسند نہیں کرتا میں۔۔" 


"جھوٹ مت بولیں ازلان ابھی تو آپ نے اعتراف کیا___ " وہ اپنی بات پر مصر تھی۔ اسکے لبوں پر ہلکی سی اُداس مُسکراہٹ اُبھری تھی

۔ 

"جس لڑکی کو پسند کرتا ہوں میں۔۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتی___اس نے کہا تو وہ آنکھیں یکلخت ہی پھیلا کر سیدھی ہوئی پھر اَبرو ناسمجھی سے اکھٹے کر کے اسے دیکھا۔ 


"کیوں؟ کیوں پسند نہیں کرتی وہ آپ کو" اسے جیسے بہت بُرا لگا تھا۔ 


"وہ کہتی ہے مجھ جیسے جنگلی طبیعت رکھنے والے انسان سے شادی نہیں کرسکتی۔۔" کان کی لو کُھجا کر مزے سے کہا تو انشراح کا مُنہ ہی کُھل گیا۔___


آنکھوں میں غصہ اُترا___ازلان کو سانس لینے میں دُشواری سی ہونے لگی تھی____ کتنی خوبصورت آنکھیں تھیں اس لڑکی کی۔۔ بالکل کانچ سی شفاف___ان آنکھوں کے سامنے دنیا کی ہر شے ہیچ لگنے لگتی تھی۔ 


"کون کم عقل لڑکی ہے یہ؟؟ 

انشراح نے پھر سے سوال کیا___


"وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے___ اور وہ جو لب کھولے اسے کچھ کہنے ہی لگی تھی ٹھہر سی گئ۔ کُھلے لب بند کرلیے۔۔ آنکھوں میں دُکھ سا ابھر آیا___


"آئ ایم سوری۔۔ آئ تھاٹ __" 


 "کوئ بات نہیں__ ازلان نے بات بدلی


"کیا بہت اچھی لگتی ہے وہ لڑکی۔۔؟" کچھ لمحے بعد اس نے نرمی سے پوچھا تھا۔ وہ نچلا لب دبائے گاڑی چلانے میں مصروف تھا___پھر آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ 

"بہت زیادہ۔۔" 

دو لفظ کہے تھے بس اس نے___لیکن وہ دو لفظ بہت بھاری تھے___بوجھل سے____

😭😭😦😦😦😦


وہ ہال میں پہنچ چکے تھے___ ازلان شاہ ایک سٹائل سے گاڑی سے نکلا اور پھر گھومتا ہوا فرنٹ ڈور کھول کر انشراح کی طرف ہاتھ بڑھایا___

جسے اُس نے بلاجھجک تھام لیا___ وہ ازلان کا سہارا لیتے گاڑی سے نکلی__ اب سب کی نظریں ان دونوں کی طرف تھیں جیسے ہی وہ اینٹر ہوئے کیمرہ مین سپاٹ لائٹ میں ان دونوں کو فوکس کیے ہوئے تھا___ 


ہال میں ڈھول کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا__ کیونکہ واصف شاہ کا تعلق ایک دیہی علاقے سے تھا اس لئے انہوں نے بڑی دھوم دھام اور روایات کے مطابق ازلان کا ویلکم کیا___


ازلان انشراح میر کو تھامے اسٹیج تک پہنچا جہاں سب لوگ ان سے ملنے لگے اور قیمتی تحائف پیش کیے گئے___


میر حاکم بھی پہنچ چکے تھے___ انشراح اُن کو دیکھتے ہی گلے ملی____ اور نور خان جو دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی سٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی ازلان شاہ اُسے دیکھتے ہی نظریں پھیر گیا___


انشراح آگے بڑھ کر اُس سے گلے ملی اور اب دونوں سٹیج پر بیٹھی باتیں کرنے لگیں نور خان بوجھل دل کے ساتھ بیٹھی تھی____


ازلان شاہ سٹیج سے اُتر کر ایک کارنر میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا___ اُس نے تھکنے والے انداز میں سر صوفے کی پشت پر گرایا اور آنکھیں بند کر لیں___


نہیں میں ایسا نہیں کروں گا____

 اوہ کم آن ازلان شاہ تمہیں یہ سب کرنا ہوگا____ ازلان شاہ کے دل و دماغ میں جنگ چھڑ چکی تھی جب اُس نے آنکھیں کھول کر ویٹر کو بلایا___


اور ٹرے سے شراب کا گلاس اُٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں وہ زہریلہ مشروب اپنے حلق میں اتارا____


اور پھر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا سٹیج پر چڑھا____


لیڈیز اینڈ جیٹلمین مے آئی ہیو یور اٹینشن پلیز_____ازلان شاہ مائک ہاتھ میں پکڑے مخاطب ہوا___


تمام لوگوں کی نظریں اُس پر تھیں انشراح میر نے بھی ایک مسکراتی نگاہ اس کی طرف اچھالی 


ازلان شاہ اس کی طرف دیکھے بغیر مزید گویا ہوا___


جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آپ لوگ یہاں اس شہر کے مشہور بزنس ٹائیکون ازلان واصف شاہ کے دعوتِ ولیمہ میں شریک ہوئے ہیں ___ سامنے دلہن کے لباس میں ملبوس سجی سنوری یہ لڑکی میری بیوی ہے___ اس ملک کے سب سے مایہ ناز سیاستدان میر حاکم کی اکلوتی پوتی انشراح میر حاکم___


ازلان شاہ نے ایک نظر میر حاکم کی طرف دیکھا اور پھر پورے مجمع کو دیکھا اور بولا___


مجھے افسوس کےساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسٹیج پر بیٹھی اس لڑکی کا کردار کسی طوائف سے بھی زیادہ بُرا ہے___ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ کردار طوائف کا بھی ہوتا ہے مگر اس لڑکی کا تو کوئی کردار ہی نہیں یے____


ازلان شاہ کے الفاظ تھے کہ نشتر جس نے انشراح میر کو چھلنی کردیا وہ یکدم اٹھی اور اُس کی طرف بڑھی___


یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ازلان__؟؟ انشراح میر نے اُس کی طرف قدم بڑھائے جب ازلان شاہ نے اپنے قدم پیچھے کر لیے___


جی بالکل ٹھیک سُنا آپ نے مجھ پر تو شادی کی پہلی رات یہ انکشاف ہوا کہ میری یہ سو کالڈ بیوی ایک بدکردار عورت ہے__ مگر پھر بھی میں نے اُسے ایکسپٹ کیا ___ عزت دی___ اور اسے لے کر مری ٹرپ پر چلا گیا__ مگر وہاں پہنچتے ہی اس نے اپنے عاشق کو وہاں بلوا لیا اور اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے لگی__ مجھے نشے کی ڈوز دے کر خود اپنے یار کے ساتھ عیاشیاں کرتی رہی__ اب آپ لوگ بتائیں کیا ایسی عورت کے ساتھ رہنا چاہیے کہ نہیں_؟؟؟


ازلان شاہ بول رہا تھا اور انشراح میر کی حالت ایسی تھی گویا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے___


ہال میں لوگوں کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں___ کچھ کے لئے یہ سب نارمل گوسپ تھا کچھ کے لئے چٹ پٹی خبر___ صرف ہال نہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے لوگ بھی سن رہے تھے ازلان شاہ نے میڈیا کو بلا رکھا تھا جو کہ اس کے ریسپشن کی لائیو کوریج دینے والا تھا___،


ازلان شاہ وہیں سب کی طرف دیکھتے انشراح کی طرف بڑھا اور اُسے کندھوں سے تھامے بولا__


میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس کو مزید برداشت نہیں کرسکتا___ان پانچ دنوں میں زہنی مریض بن گیا،ہوں____

وہ لوگوں کی طرف دیکھنے کے بعد انشراح سے مخاطب ہوا____


میں ازلان واصف شاہ بقائے ہوش و حواس تمہیں طلاق دیتا ہوں انشراح میر___میں تمہیں طلاق دیتا ہوں____ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ___


ازلان شاہ یہ کہتے ہی اسکو دھکہ دیتے انداز میں پیچھے کرتا ہے__ انشراح میر بُت بنی کھڑی رہی___


اس کی آنکھوں میں بےیقینی تھی__ اُس کی زات تماشہ بن چکی تھی___


کیوں___؟؟؟ اُس کے لبوں نے حرکت کی___ وہ فقط اتنا ہی بول سکی___


تمہیں یاد ہے اس مال کا منظر؟؟؟


انشراح کے سامنے وہ مال کا منظر گھوما____ 


اُس مال میں تم نے مجھے بےعزت کیا___میری کردارکشی کی____ آج میں نے تمہیں بھری دنیا میں بےعزت کرکے اپنا بدلہ لے لیا_____


میں نے معافی مانگی تھی____ انشراح میر نے تڑپتے ہوئے کہا____


تمہاری معافی سے میری عزت واپس نہیں آنی تھی___

میں نے بدلہ لے لیا____ یہ تھا میرا بدلہ____

 ازلان شاہ مسکرایا اور اُس کے کانوں کی طرف جُھکا____


By the way thank you for those nights____ you 


are so tasty but less than my Wife____


ازلان شاہ آنکھ دباتے بولا___ اُس کی بات نے انشراح میر کو بہت شرمندہ کیا___ اُس کی حالت ایسی تھی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے___


انشراح میر کو اپنا آپ اب واقعی کسی کال گرل کی طرح لگا____


ازلان شاہ نے ایک نظر نور خان کی طرف دیکھا اور پھر لوگوں کو دیکھ دوبارہ مائک تھام لیا___


جیسا کہ آپ سب یہاں میرے ولیمہ کی خوشی میں آئے ہیں تو میں آپ کا تعارف اپنی خاندانی بیوی سے کروانا چاہوں گا____


وہ آگے بڑھتا نور خان کا ہاتھ تھامے ساتھ لگائے لوگوں کی طرف دیکھنے لگا____


 Meet my Wife___ My Shah-E-Man___ light of my Life___ Mrs Noor Azlan Shah___ welcome to the family my Dear wife____ you are my whole world___ my Real wife___ my Honour____


میں نے اپنی فیملی کی موجودگی اور رضامندی سے نور خان سے شادی کی____ وہ کچھ دن پہلے اُس سے شادی کو حذف کرگیا___


جبکہ اُس کی بات سُنتے ہی نور خان خاموشی سے سر جھکائے کھڑی رہی___ اور انشراح میر نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا تو بےیقینی سی اس کے رگ و ہے میں تھی___


میر حاکم جن کی برداشت سے سب باہر ہوچکا تھا وہ آگے بڑھے اور ایک تھپڑ نور خان کو مارنے لگے جسے ازلان شاہ نے بیچ راستے میں ہی روک دیا___


میر صاحب میری بیوی کی طرف اُٹھنے والے ہر ہاتھ کو جڑ سے کاٹ پھینکنا جانتا ہوں میں___ آئندہ یہ غلطی کبھی مت کرنا آپ____


وہ ان کو دھکہ دیتا ہر لحاظ و ادب بھول چکا تھا___ انشراح میر آگے بڑھتے میر حاکم کو گرنے سے بچانے کے لئے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ایک نفرت بھری نظر نور اور ازلان پر ڈالے آگے بڑھی___


ازلان شاہ اُسے جاتے دیکھ نور کو کمر سے پکڑے سٹیج پر بیٹھنے لگا____ جب انشراح میر کی آواز سنائی دی___


ازلان شاہ تم نے آج بھری محفل میں مجھے زلیل و رسوا کیا میرا الله ایک دن تمہیں بھی زلیل کرے گا___تم نے مجھے برباد کیا ایک روز تم بھی برباد ہوگے___


تم نے میاں بیوی کے رشتے کو پامال کیا__، تم پوری زندگی اس رشتے کی خوبصورتی و سکون کے لئے ترسو گے____ تم نے میرے بوڑھے دادا کی توہین کی__ تم کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گے___


اور تم نور خان___ تم تو آستین میں چُھپا سانپ نکلی__ مگر کوئی بات نہیں___ اللہ خوب انصاف کرنے والا ہے___ تم دونوں کبھی آباد نہیں ہوگے___ آباد ہوکر بھی برباد رہو گے____


تم دونوں موت کی بھیک مانگو گے مگر تم دونوں کو موت نہیں آئے گی___ تم دونوں موت کے لئے ترسو گے یہ زندگی تم دونوں کے لئے سزا اور عبرت کا نشان بنے گی___


وہ یہ کہتے ہی وہاں سے چلی گئی___ جبکہ نور خان وہیں ساکت کھڑی اُسے جاتا دیکھنے لگی___

ازلان شاہ اُس کے جاتے ہی نور کی طرف بڑھا اور فوٹوسیشن کرانے لگا___


خوشی اُس کے انگ انگ سے چھلک رہی تھی___ وہ نور خان کو حاصل کر چکا تھا__ انشراح میر سے تھپڑ کا بدلہ لے چکا تھا___اب اور کیا چاہیئے تھا اُسے___


یہ سب کیا تھا؟؟؟ نور نے اُس کی طرف دیکھ کر سوال کیا____


بدلہ____ ایک مرد کا بدلہ___ ازلان شاہ سرد لہجے میں بولا____


وہ نور کے ساتھ بیٹھا باتیں کرنے لگا__


واصف شاہ اب ہال میں موجود لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے لگے__ اُنہوں نے ایک نظر ازلان شاہ کو دیکھا____ انہیں ازلان کی یہ حرکت ایک آنکھ نہ بھائی مگر وہ بےبس تھے 

😍😍😍😍


Mr Wali khan you are under arrest___


ولی خان جو کہ ابھی ابھی ایئر پورٹ پہنچا تھا چیکنگ کے دوران ہی اس کے بیگ سے ڈرگز درآمد ہونے پر پولیس نے اُسے پکڑ لیا____


وہ حیران پریشان سا کھڑا دیکھتا رہا___ اس وقت اس کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا وہ صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا____


اُس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے___


دیکھیں میں نہیں جانتا یہ میرے بیگ میں کیسے آئے___ پلیز مجھے ایک بار میرے ہوٹل کے مالک سے بات کرنے دیں___ میں ان کے کہنے پر ہی لندن جا رہا ہوں____


ولی خان نے اپنی تئیں اُسے سمجھانے کی کوشش کی___


ہر مجرم پکڑے جانے کے بعد یہی بولتا ہے___ شکل سے تو شریف لگتے ہو مگر____ حرکت دیکھو اپنی___ کتنے معصوم ان ڈرگز کی وجہ سے برباد ہوں گے___ ڈونٹ یو ہیو اینی آئیڈیا___


لے جاؤ اس کو پولیس اسٹیشن___ انسپکٹر نے اُسے لے جانے کا حکم دیا___


ولی خان کو آج دس دن ہو چکے تھے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا مگر اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا___


وہ چاہ کر بھی نور سے رابطہ نہیں کر پا رہا تھا کیوںکہ وہ نور کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا____


ریشما___ اچانک سے اسے ریشما کا خیال آیا__


اس نے حوالدار سے فون کال کرنے کی درخواست کی___ اور اب تمام معاملہ اس کے گوش گزار کیا___


ریشما کیا تم مجھے نشاء بی بی کی کوئی خیر خبر دے سکتی ہو؟؟ اور نور کی بھی___


ریشما خان جو کہ تمام حالات کے بارے میں سب جانتی تھی اُس نے کچھ سوچتے ہوئے ولی کی طرف دیکھا اور پھر بولی___


خان___ نشاء بی بی تو باہر چلی گئی اپنے شوہر کے ساتھ اور نور خان نے بھی شادی کر لی ہے___ میر سائیں بھی ملک سے باہر چلے گئے___


کیا___ یہ کیا بکواس ہے؟؟ ایسا نہیں ہوسکتا___ میر سائیں کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا تم جھوٹ بول رہی ہو ___


مجھے کیا ضرورت تھی جھوٹ بولنے کی یہی سچ ہے___ ریشما خان نے ٹھوس لہجے میں کہا___


اچھا احمد سے کہہ کر مجھے یہاں سے نکلواؤ___ میں تمہارا یہ احسان نہیں بھول سکتا__ تم بدلے میں جو مانگو گی دوں گا___


ولی خان کی بات پر ریشما خان کا دماغ تیزی سے چلا___ اور اس نے ولی کو انتظار کا کہا 


اب وہ اپنی ایک دوست کے پاس بیٹھی اُسے سب کچھ بتا رہی تھی__ دیکھو ثانیہ تم اپنے پاپا سے کہہ کر کسی طرح ولی کو نکلواؤ___


اس کی دوست کے پاپا ایک کامیاب لائر تھے انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے ولی کو اس کیس سے بری کروایا__،


ولی خان سب سے پہلے میر ولا آیا مگر وہاں تالہ دیکھ کر اس کے تمام شکوک کی تصدیق ہوگئی___


❤❤❤


آج وہ کافی دنوں کے بعد اپنے اپارٹمنٹ آیا تھا جب اُسے ایک لیٹر موصول ہوا___


اس نے جیسے ہی وہ لیٹر پڑھا تو دھاڑیں مار مار کر رویا___


لالہ جب تک آپ کو یہ خط ملے گا تب تک میں دور جا چکی ہوں گی__ لالہ میں ازلان سے محبت کرتی ہوں اور میں نے ان سے شادی کرلی ہے__ پلیز مجھے مت ڈھونڈنا___

ولی خان کو اس اپارٹمنٹ کی چھت خود پر گرتی محسوس ہوئی___


نور یہ تم نے کیا کیا؟؟؟ تم نے نشاء بی بی کی سوتن بن کر ان پر بہت بڑا ظلم کیا ہے___ میں اب میر سائیں کا سامنا کیسے کروں گا؟؟ نور___ تمہاری خودغرضی نے تمہارے لالہ کو تباہ کردیا نور___


ولی خان خیالوں میں نور سے مخاطب ہوا___ 

جب ریشما خان اس کے اپارٹمنٹ پہنچی 


تم یہاں کیا کررہی ہو؟؟ ولی خان نے سرد لہجے میں دریافت کیا___


آپ نے کہا تھا ناں کہ میں آپ کو جیل سے نکلواؤں تو بدلے میں جو مانگوں گی آپ دیں گے___


اس نے امید بھری نظروں سے ولی کو دیکھا__


ہاں کیونکہ ولی خان زبان کا پکا ہے___ تمہیں جو چاہیئے مانگو___


ہم سے شادی کرلیں__ ہمیں اپنے نکاح میں لے لیں__ ورنہ ہم ابھی کے ابھی اس بلڈنگ سے کود کر اپنی جان دے دیں گے___ ریشما خان نے خودسری سے کہا___


کیا؟؟؟تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟؟ میں تم سے شادی کیسے؟؟ میں تو نشاء بی بی سے محبت کرتا ہوں__


ولی نے جلدی میں ایک انکشاف کیا___


ہاں تو نشاء بی بی تو خوش ہے ازلان کے ساتھ اور نور بھی___ ایسے میں اب آپ کو مجھے اپنانا ہوگا___ ویسے بھی اب آپ زبان دے چکے ہیں___ 


ولی خان نے کچھ سوچتے ہوئے فیصلہ لیا__ 


ٹھیک ہے آپ کو مجھ سے نکاح کرنا ہے میں نکاح کے لئے تیار ہوں__ مگر اس کے بعد تم مجھ سے اور کچھ نہیں مانگو گی___ ولی خان کے سرد لہجے نے ریشما کو ساکت کردیا___


ٹھیک یے مجھے منظور ہے___ آپ نکاح خواں کو بلائیں___


اور یہاں ریشما خان نے گھاٹے کا سودا کر لیا___ اس نے احمد کو بلوایا__ احمد یہ سب معاملہ سن کر حیران ہریشان ہوا__ اور اپنی بہن کی خودغرضی پر پیچ و تاب کھانے کے سوا کچھ نہ کرسکا__


 احمد کی رضامندی سے چند گھنٹوں بعد وہ ریشما خان سے مسز ریشما ولی خان بن چکی تھی___


ولی خان نکاح کے فورا بعد اپنے باس سے ملنے چلا گیا__انہوں نے اس کے لئے آسٹریلیا کا ٹکٹ کنفرم کروایا___ اور کچھ ضروری معاملات طے کرنے کے بعد ولی خان دو دن بعد آسٹریلیا کے لئے روانہ ہونے والا تھا___


نوٹ:مجھے اس ایپی پر آپکی کُھل کر سپورٹ چاہیئے__ ویٹنگ فار یور لائک اینڈ ریویوز

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)