Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert
Episode - 19
Season - 1
Writer - Daoud Ibrahim
Offical Writer at KoH Novels Urdu
- = -
کنیکٹشن لوسٹ ہونے کے بعد انھوں نے کچھ کوشش کی لیکن واپس رابطہ نہ کے سکا۔ الله مالک کہہ کر اپنے راستہ پر گامزن رہے۔ لیکن کاظم کو یہ بات ستا رہی تھی کہ ڈاکٹر ریحان کیا کہنے کی کوشش کر ہے تھے۔ انھوں نے میرا نام لیا تھا۔۔۔۔۔ مجھے احتیاط کرنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ کہیں۔۔۔۔ " کاظم کی پیٹھ پر تھوڑی سی درد اٹھی۔جس کے بعد وہ ہکا سا کراہا لیکن بریعہ کے پوچھنے پر کچھ نہیں بس کہہ کر خاموش ہو گیا۔
تب کاظم کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ کہیں میں خطرہ تو نہیں ۔ انہی خیالوں میں کاظم آگے بڑھ رہا تھا اچانک سب رک گئے لیکن کاظم تو سوچ میں گم تھا تو سامنے جا کر رکے ہوئے آدمخور سے ٹکریا۔ کاظم نے جھٹکے سے سنبھل گیا لیکن آدمخور کو جیسے بھنک بھی نہ لگی۔اس آدمخور نے ایک طرف اشارہ کیا تو کاظم نے بھی اسی طرف دیکھا۔ سامنے آئی۔ ایس۔ آئی ہیڈکوارٹرز کا مین گیٹ تھا۔ گیٹ کے باہر دونوں اطراف ایک ایک فوجی کھڑا تھا اور ایک فوجی مین گیٹ کے اندر لگے ایک چھوٹے گیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔
کچھ فوجی جوان دروازے کے اوپر اوٹ میں بنائے گئے سیکورٹی سربز پر بھی کھڑے تھے۔یہ چاروں یک دم سے زمین پر لیٹ گئے جیسا کہ انھیں کسی بھی گو کی چلنے والے حالات میں کرنے کا شیلٹر ہاؤس میں کہا گیا تھا۔ کچھ پل بعد انھیں نے باری باری کانوں سے ہاتھ اٹھائے آنکھیں کھولیں اور حیرت میں ڈوب گئے کہ وہاں پر کھڑے کسی فوجی نے کوئی گولی نہیں چلائی۔
یہ جلال نے جب اپنے بائیں جانب دیکھا تو کاظم ویسے ہی کھڑا ان فوجیوں کو تک رہا تھا۔ وہ اس بات پر بھی تعجباً حیران ہوا کہ جس شخص کو مینلی ایسی احتیاط کرنے کا کہا گیا تھا جیسے اب بس یہی کر رہے ہیں۔ وہ آرام سے کھڑا بس ان فوجیوں کو گھور رہا ہے۔ حد ہے یار۔
جلال بھی اٹھا اور ان کو ایک مسکراہٹ سے دیکھ رہے فوجیوں کو کاظم کے برابر کھڑا ہو کر دیکھنے لگا اور یہ دیکھنے لگا کہ اسے وہاں کیا دیکھ رہا ہے جو مجھے نہیں دیکھائی دے رہا۔
وہ چھوٹا دروازہ کھلا اندر سے دو اور فوجی نکلے ان کے ہاتھوں میں گنز اور کچھ آلات تھے۔ پیچھے دروازے پر کھڑے فوجیوں نے بھی اپنے ہتھیاروں کو مزید مضبوطی پکڑا اور اردگرد سے کسی اور خطرہ کی تاک میں اپنی شاہین نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
ان دونوں فوجیوں نے کچھ فاصلے پر بڑھے اطمینان سے رک ہر ایک زور دار پمپک ہتھیار سے جس کے پیچھے ایک کین بھی لگی تھی اس سے ان پر گیس نچھاور کی اور دوسرے فوجی نے ایک سکینر سے ان کے چہروں کی پہچان کی ۔ اس کی چہرے پر بھی اطمینان تھا۔ وہ ان آدمخوروں سے بالکل بر خوف اپنا کام کر ہے تھے۔ حالانکہ وہ بھی پس چند پلوں کے فاصلے پر کھڑے تھے۔
ان فوجیوں نے انھیں اپنے ساتھ اندر آنے کا کہا۔ جس کے بعد فوراً ہی وہ فوجی بریعہ اور جلال ان کو فالو کرتے ہوئے اندرونی دروازے کی طرف بڑھے لیکن کاظم کسی سوچ میں گم وہیں کھڑا تھا۔
آپ سب یہ سوچ رہے ہونگے یہ ان فوجیوں کو بوڑھے آدمخوروں نے کیوں کچھ نہیں کہا اور وہ فوجی بھی بے خوف ان کے پاس آک کر کیسے واپس محفوظ چلے گئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آدمخور کسی عام انسان سے کئی گنا طاقتور تھے اور ان کا خود پر مکمل کنٹرول بھی نہیں تھا۔ بوڑھے آدمخوروں کو ان فوجیوں نے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ وہ ان آدمخوروں کو ابھی بھی بچا سکتے ہیں۔ اک بار اندر آئیں تو سہی۔ لیکن ان بوڑھے آدمخوروں کو شاید یہ معلوم تھا کہ وہ کہیں اپنا کنٹرول کھو کہ کہیں اس ملک و دنیا کی آخری امید کی آخری لکیر( آئی۔ ایس۔ آئی ) کو بھی نقصان نہ پہنچا دیں۔
اس لیے ان بوڑھے آدمخوروں نے بھی آئی۔ ایس۔ آئی ہیڈکوارٹرز میں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا اور خود باہر وہ کر جہاں تک کو سکتا باہری باشندوں کی مدد کرتے اور خطرناک آدمخوروں یعنی ان جوان آدمخوروں سے جو مکمل طور پر خطرہ تھے۔ ان سے بھی محفوظ رکھنے کر کوشش کرتے۔
دوسری بات رہی کاظم کی تو کاظم ابھی تک یہ سمجھ چکا تھا کہ وہ شاید خطرہ ہی ہے ان کے لیے کیونکہ اسے ڈاکٹر صوفیہ کے وہ الفاظ بھی یاد آ چکے تھے کہ یہ وائرس جسم میں کسی چھوٹے سے زخم سے بھی پھیل سکتا ہے۔اسے یہ بھی یاد آچکا تھا کہ یہ پہلے ہی دو بار اپنی پیٹھ( کاندھے ) پر آدمخوروں کے دو وار کھا چکا ہے۔
وہ تینوں فوجیوں کے ساتھ ہی دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ کاظم وہیں ان آدمخوروں کے درمیان اپنی جگہ پر کھڑا انھیں تکتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جلال نے دروازے میں داخل ہوتے ہی وہ بیگ ایک فوجی کے حوالے کے دیا جو انھیں لینے باہر آئے تھے اور جلدی سے اسے بتا دیا کہ یہ اینٹیڈوڈ ہے۔ تبھی جلال نے ان آدمخوروں کے درمیان کھڑے کاظم کو اپنے تکتے دیکھا تو اسے جلدی سے آنے کا اشارہ کیا۔
کاظم جانتا تھا کہ جلال اس کی بات نہیں سنے گا وہ اسے کسی بھی قیمت پر دور جانے نہیں دے گا اور تو اور بریعہ بھی نہیں مانے گے اور تو پاگلوں کی طرح اسے چاہنے لگی تھی اور یہ بھی اسے بہت پسند کرنے لگا تھا۔ کاظم کو نہیں پتا تھا کہ وہ کب آدمخور بن جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمخور بنے وہ ان سب سے بہت دور جانا چاتا تھا۔
یہی سوچ کو وہاں سے ایک طرف بھاگ نکلا۔ جلال نے یہ دیکھا تو وہ وہ بہت حیرت میں ڈوب گیا کیونکہ وہ اس کے بھاگنے کی وجہ نہیں جانتا تھا۔ بریعہ بھی عجب کشمکش میں ڈوب گئی کہ کاظم کر کیا رہا ہے۔ زیادہ سوچنے سے گریز کرتے ہوئے جلال اور بریعہ دونوں دروازے سے واپس باہر نکلے اور کاظم کے پیچھے دوڑنے لگے۔ چونکہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کے سامنے بہت ساری کھلی جگی تھی اور کاظم اور وہ آدمخور بھی کافی دور تھے تو کاظم جب بھاگا تو وہ پہلے سے ہی دور ہونے کی وجہ سے ان سے زیادہ دوری پر تھا۔
ادھر ایک اور بات ہوئی۔ کاظم بس کسی طرح دور سے دور تک جانا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ غلطی سے بھی اس طرف نہ آجائے۔ اسی وجہ سے وہ بہت تیز دوڑ رہا تھا۔ تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے جسم میں خون کی گردش بھی تیز ہوگئی اور اس طرح اس کے خون میں وائرس زیادہ رفتار سے بڑھے اور پھیلنے لگا۔ کاظم کے لیے اب بھاگنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس کی تو جیسے سانسیں تھا رہی ہوں۔
آہستہ آہستہ کاظم کی آنکھوں اور رنگت سرخ ہو رہی تھی لیکن کاظم اتنی رفتار سے بھاگتا رہا جتنا اس کے پاس دم تھا۔ پھر اس کا دم بھی کمزور پڑنے لگا اور وہ اس سڑک کے اردگرد کھڑی گاڑیوں سے ٹکراتا جاتا لیکن کاظم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ گاڑیاں ہی وہاں سے ٹوٹ( ٹیڑھی ) ہو جائیں۔ گاڑیوں سے ٹکرانے پر گاڑیوں میں لگے سینسرز کی وجہ سے ان گاڑیوں سے الرٹ بجنے لگے ۔ جسے سن کر جلال بریعہ اور اس کے پیچھے آنے والے چند فوجیوں جن میں حنیف بھی شامل تھا اور وہ سارے بوڑھے آدمخور تھے وہ بھی اسے آسانی سے ڈھونڈ پا رہے تھے۔
آخر کر ہمت ختم ہوئی اور کاظم یک دم سکے بیچو بیچ زمین پر گر پڑا۔ وہ سب بھی اسے ڈھونڈتے آ پہنچے اور کاظم کو زمین پر ساکن پڑا دیکھ کر اس کی طرف بھاگے۔ جلال اور بریعہ کاظم کے اردگرد آ کر بیٹھے اور اسے ہوش میں لانے کے لیے اٹھانے اور ہلانے لگے۔
فوجی اپنے کام سے اور ماحول سے واقف تھے تو وہ اردگرد لیکن پاس پاس ہی پھیل گئے اور ایک دوسرے کو کور کرنے لگے۔ ایک فوجی آگے بڑھا اور بریعہ کو پانی کی بوتل پکڑائی جسے کھول کر وہ کاظم کے منہ پر چھڑکنے لگی۔
کاظم کی آنکھیں بند تھی۔ اس کا رنگ واپس ٹھیک کو گیا تھا۔ چہرے پر پانی ڈالنے سے پہلے ہی کاظم نے یک دم سے پوری آنکھیں کھول لیں اور سیدھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک سے اس کی آنکھیں جیسے کانپنے لگیں تھیں اور دونوں آنکھوں میں ایک قرنیہ( آنکھوں میں موجود کالی گول جگہ ) کی بجائے ایک سے دو ہونے لگے یقیناً یہ عمل کاظم کے لیے کافی تکلیف دہ ہو رہا تھا۔ اس کی ایک آنکھ میں دو قرنیے تھے یعنی دونوں آنکھوں میں چار قرنیے تھے۔ بریعہ اور جلال یہ دیکھ گھبراہٹ اور حیرت میں ایک ڈوب کر ایک باہر آ نکلے جب کاظم نے دونوں کو یک دم سے پھیلایا اور یہ دونوں دور دور جا گرے۔
جلال کاظم کی دائیں طرف دور پڑا تھا اور بریعہ کاظم کی بائیں جانب دور پڑی تھی لیکن وہ بھی جلد ہی اٹھی اور اس سے پہلے کہ وہ فوجی کچھ کرتے یعنی گولیوں سے کاظم کو بھون دیتے جلال نے چیختے ہوئے انھیں روک دیا اور خود ان کے ہتھیاروں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ جس کی وجہ سے فوجیوں نے کوئی گولی نہیں چلائی۔
اب کاظم زمین پر لیٹا یک دم سے ٹیڑھا میڑھا ہونے لگا ۔ وہ ایک درد ناک اذیت سے گزر رہا تھا۔ کاظم جلد کسی ایکسیڈنٹ کے بعد تڑپنے والے کی طرح کبھی زمین پر لیٹا اس طرف پلٹتا کبھی اس طرف ۔
آخر کار تیس پینتیس سیکنڈ کے اس عمل کے بعد اس کا جسم رک دم رک گیا۔ اب وہ پھر سے زمین پر ساکن پڑا تھا۔ اس کر اردگرد کھڑے سبھی فوجیوں کی انکھوں سے آنسو نکل آئے۔ بریعہ اسے یونہی ایک کار کو پیٹھ لگائے دیکھتی رہی۔ بریعہ کے اندر کاظم سے زیادہ طوفان پھوٹ رہے تھے لیکن جب انسان کے جسم سے تکلیف کا تقاضا پورا نہ ہو رہا ہو تو روح رونے لگتی۔ بریعہ کا بھی یہی حال تھا۔ اس انکھیں تو بس نم تھی لیکن لیکن اس کے اندر کیا چل رہا تھا۔ وہ تو بس بریعہ ہی جانتی تھی۔
جلال کا بھی اپنے دوست کو یوں تڑپتے دیکھ کر حال بہت برا تھا لیکن وہ بیچارہ اپنے ہاتھ پھیلائے فوجیوں کے ہتھیاروں کے سامنے کھڑا اسے دیکھتا رہا کہ کہیں وہ گولی ہی نہ چلا دیں۔ فوجی بھی یہی چاہتے تھے کہ گولی چلا دی جائے تاکہ اس کی تکلیف ختم ہو جائے اور بعد میں آدمخور بننے سے پہلے ہی ختم ہو جائے لیکن وہ بھی بس جلال کی وجہ سے ہتھیار نیچے کیے کھڑے رہے۔
اچانک کسی کے قہقے لگانے کی آواز آئی ۔غور کیا وہ کاظم ہی تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی بس ہولناک قہقہے تھے ۔ کاظم نے تبھی دوبارہ ویسے ہی یک دم سے آنکھیں کھولیں اور بغیر کسی ہاتھ کو زمین سے لگائے بس پاؤں کے ذریعے ہی آہستہ آہستہ کھڑا ہونے لگا جوکہ کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔ کاظم کے جسم کا رنگ پھر سے تبدیل ہو رہا تھا لیکن اس بات اس کی رنگت سبز رنگ میں ہونے لگی تھی اور جسم میں موجود رگیں صاف کالی ہو جانے کی وجہ سے اس کی سبز رنگت پر صاف جھلک رہیں تھی۔
جلال کی باہیں اب سکڑنے لگیں۔ جیسے اس کے بازو اب بے دم ہو چکے ہو۔ فوجیوں نے اپنے ہتھیار کاظم پر دوبارہ تان لیے ۔ تبھی کاظم نے ایک آسمان کی طرف منہ کر کے ایک ہولناک دھاڑ ماری۔ جو کہ اتنی خوفناک تھی کہ اس وحشت سے ایک فوجی سے گولی بھی چل گئی۔ گولی کاظم کے سینے میں پیوست ہوگئی اور وہاں خون نکلنے لگا۔ کاظم کو جیسے کوئی دور محسوس ہی نہ ہوا ہو۔ وہ ویسے ہی دھاڑتا رہا۔
جاری ہے۔۔۔
Writer - Daoud Ibrahim
#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z